• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حیض میں طلاق واقع ہونے کا بیان

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
حیض میں طلاق واقع ہونے کا بیان

فتاوى عبر الأثير (( 4 ))

السؤال:- هل يقع الطلاق أثناء الحيض؟ وإذا كان الطلاق يقع، فهل تحسب هذه الحيضه من ضمن الثلاث حيضات ؟

سوال: کیا حالتِ حیض میں طلاق واقع ہوتی ہے؟ اگر طلاق واقع ہوتی ہے تو کیا یہ رواں حیض تین حیضوں میں شمار ہوگا؟

الجواب:- وقوع الطلاق فى حال الحيض، أو النفاس، أولاً ، من المسائل التى اختلف فيها أهل العلم، وأصح الأقوال من جهة النظر ،وأقواها، أن الطلاق فى وقت الحيض يقع .

– فمن طلق امرأته وهى حائض حسبت عليه طلقه، مع ما يترتب عليه من إثم، لكونه بدعة منكره، إذ لا يجوز شرعا الطلاق فى مثل تلك الحاله.

– لقوله تعالى (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)، أى فى الوقت الذى يشرعن فيه فى العدة يعنى حال الطهر.

– وعد العلماء ذلك الطلاق من أقسام الطلاق البدعى، الذى يأثم به الزوج ، لما روى البخارى ومسلم من حديث بن عمر رضى الله عنهما قال:- (طلقت امرأتي على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وهى حائض، فذكر ذلك عمر لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال :- ( مره فليراجعها ،ثم ليدعها حتى تطهر، ثم تحيض حيضة أخرى، فإذا طهرت فليطلقها قبل أن يجامعها ،أو يمسكها، فإنها العدة التى أمر الله أن يطلق لها النساء)

– ودليل وقوع الطلاق هنا ،أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بن عمر بمراجعة زوجته، والمراجعة لا تكون إلا بعد وقوع الطلاق، وكذلك لأن راوى الحديث عن بن عمر قال، إنها وقعت طلقه كما عند مسلم .

– قال بن قدامة (فإن طلق للبدعة، وهو أن يطلقها حائض، أو فى طهر أصابها فيه، أثم، ووقع طلاقه فى قول عامة أهل العلم ) إنتهى كلامه.

– أما سؤال السائل هل تحسب هذه الحيضة من العدة ؟ .. فالجواب أن الحيضة التى وقع فيها الطلاق لا تحسب من العدة.

– قال بن قدامه (إن الحيضة التى تطلق فيها لا تحسب من عدتها بغير خلاف بين أهل العلم، لأن الله تعالى أمر بثلاثة قُرُوء ،فتناول ثلاثة كاملة، والتى طلق فيها لم يبقى منها ما تتم به مع اثنتين ثلاثة كاملة، فلا يعتد بها ،ولأن الطلاق إنما حرم فى الحيض لما فيه من تطويل العدة عليها، فلو أحتسب بتلك الحيضه قُرْء ،كان أقصر لعدتها وأنفع لها فلم يكن محرما) إنتهى كلامه رحمه الله، هذا والله تعالى أعلم .


جواب: سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ حالت حیض یا نفاس میں طلاق کا وقوع، اختلافی مسائل میں سے ایک ہے، دقیق فکر و نظر کے اعتبار سے سب سے درست اور مضبوط قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ حالت حیض میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔


پس جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو طلاق بھی واقع ہو گی اور اس کے ساتھ گناہ گار بھی ہوگا، کیونکہ حیض میں طلاق دینا ایک قابلِ مذمت بدعت ہے، اور ایسی حالت میں طلاق دینا شرعاً جائز نہیں۔

چونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ
ترجمہ: اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو۔ (یعنی ایسے وقت میں جس میں وہ عدت کا آغاز کرتی ہیں، یعنی پاکیزگی کی حالت میں)


علماء نے ایسی طلاق کو بدعتی طلاق کی اقسام میں شمار کیا ہے، جس سے شوہر گناہ گار ہوتا ہے، جیسا کہ بخاریؒ و مسلم ؒنے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث روایت کی ہے، آپ نے فرمایا: "میں نے رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ میں اپنی اہلیہ کو طلاق دی جبکہ وہ حالتِ حیض میں تھی، تو میرے والد عمر رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ رسول اللہﷺ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: "وہ اس سے رجوع کرے اور چھوڑے رکھے یہاں تک کہ وہ رواں حیض سے پاک ہو جائے، اس کے بعد پھر ایک ماہواری گزار کر جب پاک صاف ہو جائے تو پھر اگروہ اسے طلاق دینا چاہتا ہے تو طہارت کی حالت میں جماع سے پہلے طلاق دے دے یا پھر اپنے نکاح میں برقرار رکھے، یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ عزوجل نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔"

اور یہاں وقوعِ طلاق کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو اپنی بیوی سے رجوع کا حکم دیا، اور رجوع وقوع ِطلاق کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔ اور اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حدیث روایت کرنے والے راوی نے کہا: "ان کی یہ طلاق شمار کی گئی" جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔

ابن قدامہؒ فرماتے ہیں: اگر اس نے طلاقِ بدعی دی، وہ یوں کہ اسے حالتِ حیض میں طلاق دی یا ایسے طہر میں طلاق دی جس میں وہ اس سے جماع کر چکا ہے، تو وہ گناہ گار ہوا، اور اہل ِعلم کے عمومی قول کے مطابق اس کی طلاق واقع ہوگئی۔ (آپؒ کی بات ختم ہوئی)

جہاں تک سائل کے سوال کا تعلق ہے کہ کیا یہ رواں حیض عدت میں شمار ہو گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس حیض میں طلاق واقع ہوئی ہے وہ عدت میں شمار نہیں ہو گا۔


ابن قدامہؒ فرماتے ہیں: جس حیض میں عورت کو طلاق دی جائے وہ اس کی عدت میں شمار نہیں ہو گا۔ اس مسئلے کی بابت اہل علم کے بیچ کوئی اختلاف موجود نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تین "قُرُوء" کا حکم دیا ہے، اور اس میں تینوں کو مکمل طور پر گزارنا شامل ہے، لہذا جس حیض میں اس نے طلاق دی، اس کو دو کے ساتھ شامل کر کے تین شمار نہیں کیا جاسکتا، لہذا اسے عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا، اور اس لیے بھی کہ حالتِ حیض میں طلاق کو اس وجہ سے حرام کیا گیا ہے کہ اس سے عدت میں طوالت پیدا ہوتی ہے جس سے عورت کو ضرر پہنچتا ہے۔، پس اگر اس حیض کے ساتھ "قُرْء" شمار ہوتا، تو یہ اس کی عدت کے لیے کم اور اس کی ذات کے لیے زیادہ فائدہ مند تو ہوتا لیکن پھر یہ حرام قرار نہ پاتا۔ (آپؒ کی بات ختم ہوئی)

والله أعلم بالصواب و علمه أتم

مترجم: ندائے حق اردو
 
Top