- شمولیت
- دسمبر 09، 2013
- پیغامات
- 68
- ری ایکشن اسکور
- 15
- پوائنٹ
- 37
تحریر: جناب عبدالمنان شورش
حضرت انسان کا وجود مستعار ہے ۔ بچپن، جوانی، بڑھاپا کے تمام مدارج ہر ایک دیکھے لازم نہیں ۔ بڑھاپے تک اگر پہنچ بھی جائے تو [وتسلمہ المنون الی انقطاع] موت سے مفر نہیں۔ انسان کو موت تو ہر حال میں آنی ہی ہے کمال یہ ہے کہ موت تو آجائے لیکن اس کا مشن زندہ رہے ،اس کا کام تابندہ رہے اور اس کے کارنامے پائندہ رہیں ۔ ہماری اماں جان ام سعدکا شمار بھی چند ایک ایسی عبقری شخصیات میں ہوتا ہے۔
بلا شبہ رضائے الٰہی کے مطابق زندگی بسرکرنے والوں کی کیفیات کی اپنی مخصوص شان ہوتی ہے۔ وہ فنا نہیں بلکہ مر کر بھی زندہ وجاوید بن جاتے ہیں ۔ بقول اقبال ؎
نشان مرد مومن با تو گو یم
چو مرگ آید تبسم بر لب ِ اوست
سر زمین ڈیرہ غازیخان ہو یا ادارہ کلیۃ البنات‘ ان کے اصلی نام سے چند ایک لوگ ہی واقف ہیں ۔ سب انہیں ’’باجی جان‘‘ کے نام سے ہی جانتے اور پہچانتے ہیں تھے۔ میں سوچتا رہتا تھا کہ آخر ماں کی مامتا جیسی محبت اور خلوص کی حامل اس شخصیت کو سب باجی ہی کیوں کہتے ہیں ۔ شاید اس لیے کہ انہوں نے ہمیشہ ماں جیسا خلوص تو برتا لیکن کبھی بحیثیت ماں اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کیا بلکہ ہمیشہ {ان اجری الا علیٰ اللہ} کو مقصد حیات بنائے رکھا۔
مکمل مضمون لنک پر
http://www.ahlehadith.org/khadima-deen-mateen-ummesad-rh