• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خالد عزیز بھائی کی دعوت ولیمہ اوراحباب سے ملاقاتیں(ازقلم:ظفر اقبال ظفر)

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
خالد عزیز بھائی کی دعوت ولیمہ اوراحباب سے ملاقاتیں
تحریر: (از قلم :ظفر اقبال ظفر)

زندگی کے وہ کسی موڑ پہ گاہے گاہے
مل تو جاتے ہیں ملاقات کہاں ہوتی ہے
دن، جگہ، وقت بتانے کی بھی زحمت ہو جناب
آپ سے شرفِ ملاقات کہاں ممکن ہے؟​
انسانی معاشرہ دو صنفوں (یعنی مردو عورت) سے مل کر وجود میں آتا ہے، مرد کے ساتھ عورت کی تخلیق کا مقصد کیا ہے ؟بنیادی طور پر اس کا مقصد مرد و عورت کے باہمی تعلق اور ملاپ کے ذریعے انسانی نسل کو آگے بڑھانا اور پروان چڑھانا ہے، جیساکہ قرآن مجید کی بہت سی آیات اور نبی اکرمﷺ کے فرامین سے واضح ہوتا ہے، اسی مقصد کی تکمیل کیلئے دونوں صنفوں کے درمیان فطری طور پر جنسی کشش رکھی گئی ہے، اس فطری کشش کے نتیجے میں جنسی قوت اور شہوانی طاقت کے وجود اور آغاز کے ساتھ ہی یہ دونوں صنفیں ایک دوسرے کی ضرورت محسوس کرتی اور ایک دوسرے سے سکون ڈھونڈنے لگتی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا“( اعراف:۱۸۹)
وہی اللہ ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنادیا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔
مرد کے ساتھ عورت کی تخلیق کے مقصد کی تکمیل کا واقعی ذریعہ بس نکاح ہی ہے، نکاح نہ صرف یہ کہ نسل انسانی کی افزائش اور تربیت و نگہداشت کا بے خطر اور محفوظ وسیلہ ہے بلکہ اس کے ذریعہ مرد و عورت کے درمیان جو محبت و تعلق وجود میں آتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، یہ محبت و تعلق مردو عورت کو لطف ومسرت سے بھرپور جنسی زندگی گزارنے اور حقیقی شہوانی لذت وسکون سے ہمکنار ہونے کا ایسا موقع فراہم کرتا ہے کہ اس کی نظیر پیش کرنا ناممکن ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی طرح دیگر مخلوقات میں بھی یہ جنسی میلان اور ازدواجی و صنفی کشش کی یہ صورت موجود ہے،جس نکاح کے ساتھ انسان کی ایسی گوناگوں ضرورتیں وابستہ ہیں کیسے ممکن تھا کہ اسلام جو دین فطرت ہے اسے اہمیت نہ دیتا اور اپنی تعلیمات و ہدایات کے ساتھ اس کی طرف توجہ نہ کرتا؟اسلام نے نکاح یا بالفاظ دیگر ازدواجی زندگی کو غیر معمولی اہمیت دی ہے، اس اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف یہ کہ نکاح کے سلسلے میں ترغیب و تاکید سے کام لیا ہے بلکہ اسے آسان سے آسان تر بنانے کے ساتھ ان تمام باتوں کو بھی دور کرنے کا پورا اہتمام کیا ہے جن سے نکاح کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں ۔
ارشاد نبوی ہے :
(اِذَاتَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ)
جب بندہ نکاح کرتا ہے تو اس کا نصف دین مکمل ہو جاتا ہے۔
(بیہقی ، الصحیحہ :۶۲۵)
اور اسی حوالے سے آپﷺ کی یہ حدیث بھی قابلِ مطالعہ ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
(وَفِیْ بُضْعِ اَحَدِکُمْ صَدَقةُُ)
تم میں سے ایک کی شرمگاہ (کے ذریعہ ہم بستری) میں صدقہ ہے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپﷺ کی یہ بات سن کر عرض کیا:
( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَیَاْتِیْ اَحَدُنَا شَہْوَتَہ وَیَکُوْنُ لَہ فِیْھَا اَجْرٌ؟)
اے اللہ کے رسول! ہم اپنی شہوت پوری کریں اور اس پر ہمیں ثواب سے نوازا جائے ؟
تو آپﷺ نے فرمایا:
( اَرَأَیْتُمْ لَوْوَضَعَھَا فِیْ حَرَامٍ اَکَانَ عَلَیْہِ فِیْھَا وِزْرٌ؟ فَکَذَالِکَ اِذَا وَضَعَھَافِی الْحَلَالِ کَانَ لَہٗ اَجْرٌ )
بتلاؤ اگر آدمی اپنی شرمگاہ حرام جگہ پر استعمال کرے تو کیا وہ گناہ گار نہیں ہو گا ؟، اسی طرح جب وہ اسے حلال جگہ پر استعمال کر رہا ہے تووہ اجر کا مستحق ہے ‘‘ (بخاری :۵۳۵۴، مسلم:۱۶۲۸)
معزز حاضرین : اسی مناسبت سے کچھ دن قبل ہمارے بہت ہی قابل صد افتخار ‘ہر دل عزیز جناب خالد عزیز صاحب کی کال راقم الحروف کو موصول ہوئی ‘آواز اتنی پر کشش اور انداز ایسا پیارا تھا جیسے پہلی رات کی دلہن ٹھہر ٹھہر کر پھول کی پتیوں جیسے ہونٹ ہلا رہی ہو اور دانت جیسے چاندنی رات میں ستارے آسمان میں چمک رہے ہو ں ‘ الفاظ ایسے استعمال کر رہے تھے جیسے کوئی ماں اپنے گم شدہ بچے کے مل جانے پر محبت بھرے انداز میں پیار بھرے جملے ادا کر رہی ہو ۔سچی بات ہے خوبصورت الفاظ دل چاہا وہ کرتے جاتے اور میں سنتا جاتا ۔یہ سلسلہ رکتا اور نہ ہی اس میں کو ئی نا خوش گوار جملہ یا لفظ رکا وٹ ڈالتا۔ الفاظ کوئی نئے نہیں تھے بلکہ زندگی میں بےشمار دفعہ سنے اور گردشِ دوراں تھے ۔مگر ہر کسی کا انداز عام سے الفاظ کو موقع کی مناسبت سے اور حالات کے تغیر سے خاصی اہمیت دے دیتا ہے ۔پھر خاص کر موقع بھی کسی بڑے اہم موقعِ کی تلاش میں ہو ۔یہ موقع شادی کا بھی ہو سکتا ہے ‘ یہ موقع بچے کی پیدائش کا بھی ہو سکتا ہے ‘ یہ موقع نا امیدی کے لمحات میں منگنی کی امید لیے رونما ہو تو پھر جو خوشی ہوتی ہے الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی ۔دل کے ان جذبات کو جن کو عمر کے 25 سال بعد اور بالوں کی سفیدی کو گھات لگائے بیٹھے شاید اکتاہٹ سی محسوس ہونے لگے کہ پتا نہیں کب حکم ربی ہو اور ہم اس جوان کی جوانی کے حسن کو اور بالوں کی سیاہی کو بدل دیں اور وہ عمر کے اگلے حصے میں داخل ہو جائے جسے لوگ شاید پسند تو نہیں کرتے مگر یہ اللہ کہ فیصلے ہیں ہر چیز کو عروج کے بعد زوال ہوتا ہے وہ ہے اڈھیر عمری جسے لوگ بڑھاپا کہتے ہیں ۔نا امیدی کے بنور میں پھنسے انسان کو شادی کی امید ‘تمام تر ظاہری اسباب کی موافقت کے یقین محکم نہیں ہو رہا ہوتا کہ میری شادی بھی کبھی ہوگی ‘ ہاں جی ضرور ہو گی‘ نہیں یار میری شادی نہیں ہو سکتی‘ مجھے اب کس نے دینا ہے۔ ان حالات میں اگر بندے کو خبر مل جائے کہ اب ہم نے بہت جلد آپ کی شادی کا فیصلہ کیا ہے تو وہ سوچنے لگتا ہے کہ شاید ابھی تک گھر والے مجھے بچہ خیال کرتے رہے جو اب کہہ رہے ہیں 30 سال کی عمر میں کہ ہم آپ کی بہت جلد شادی کرنے جا رہے ہیں اگر یہ جلدی ہے تو تاخیر پتا نہیں بلا کا نام ہے ۔یہ جملے سنتےہی بے ساختہ اس کے منہ سے کلمہ شکر نکلتا ہے کہ شکر ہے سانوں وی کسی نے رشتہ دے دیتا اے ‘ساڈی وی سنی گئی اے ۔شکر ہے ہم بھی شادی کی اب امید لگا سکتے ہیں۔شکر ہے ہمیں بھی اب لوگ ہار ڈالیں گے اور میں بھی دلہا کہلاؤں گا۔شکر ہے ہمیں بھی سلامیاں ملیں گیں اور پھولوں والی گاڑی میں بیٹھوں گا اور مجھے پختہ یقین ہو جائے گا کہ اب میں بھی بیاہے لوگوں میں شمار کیا جاؤنگا۔
یاروں موت سی ہوئی شادی میری
زندگی کے آخری لمحات میں دلہا ہوا میں
خیر موصوف شرمیلے انداز میں یوں گویا ہوئے اور فرمانے لگے کہ ظفر بھائی 17 مئی 2022ء بہ روز منگل کے دن منعقد ہونے والے ولیمے کی آپ کو دعوت ہے اور انداز ایسا تھا جیسے دلہا جی کو شاید اس منعقد ہونے والے ولیمہ کے پروگرام کے متعلق خود کو یقین نا ہو کہ یہ میرا ولیمہ ہوگا اور خوشی سے جیسے سمجھ نہ آ رہی ہو کہ میں کس طرح اس خوشی کا اظہار کرو ں۔اور ساتھ میں تمام کلاس فیلوز کو دعوت دینے کے حوالے سے میری ذمہ داری بھی لگا ئی کہ احباب کو یاد دہانی کروا دینا اور اس پر مسرت موقع پر ضرور شریک ہونا۔ راقم الحروف کے لیے اس سے بڑی خوشی کی خبر کیا ہو سکتی تھی کہ کئی مہینوں سے کسی نے کھانے کی دعوت نہیں دی اور وہ بھی لنگوٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کےتو اور ہی مزے ہیں ۔یہ موقع کسی صاحب کی طرف سے میسر آنا بھی اس مہنگائی اور مصروف زندگی میں بڑی غنیمت ہوتا ہے کیونکہ اس طرح کے موقع سے اپنے بچھڑے ملنے کی امید واسق ہوتی ہے ‘ باہم مل بیٹھنے کا اور دکھ سکھ اور گلے شکوے ایک دوسرے سے شیئر کرنے کا موقع ملتا ہے ۔خیر موصوف نے مختلف انداز میں بعض احباب کو تو کال کر کے دعوت دی اور کچھ احباب جو حوادث زمانہ اور مہنگائی اور بے روز گاری کے طوفان بدتمیزی میں فکر معاش میں اس قدر گم ہوئے کہ ان سے کسی طر ح رابطہ نا ممکن تھا کیونکہ پرانے فون نمبرز میں سے اکثر بند تھے جسکی وجہ سے رابطہ دشتوار تھا موصوف نے مشورہ کیا کہ ان احباب سے تک یہ میسج کیسے پہنچایا جائے ؟ راقم الحروف نے مشورہ دیا کہ آپ کلاس کے واٹس ایپ گروپ میں دعوتی میسج چلا دیں تاکہ ہر خاص و عام کو اطلاع مل سکے۔ویسے ہی ہوا موصوف کی طرف سے دعوت ولیمہ کا میسج جیسے ہی گروپ میں شیئر ہوا تو سوالات کا طوفان کھڑا ہو گیا کہ یا ر واقعتاً خالد عزیز کی بھی شادی ہونے جا رہی ہے ۔ہاں یا رسچ میں‘ جی جی جناب یہ آواز خو د خالد بھائی کی اپنی ہے ۔ نہیں یار ہو سکتا ہے انہوں نے مذاق کیا ہو یا میسج غلطی سے ہو گیا ہو ۔بعض وضاحتیں دے رہے تھے اور طفل تسلیوں کا تانا بانا بُن گیا ۔بحث و تکرار کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا کہ اچانک میں ایک پیاری سے آواز میں ‘ بڑی احتیاط سے مخصوص الفاظ کا چناؤں کرتے ہوئے خالد بھائی بھی گویا ہوئے کہ ہاں جناب میری شادی 16 اور 17 مئی 2022ء کو طے پا گئی ہے اور تمام احباب کو ولیمہ کی دعوت ہے احباب ضرور تشریف لائیں ۔خیر دوستوں میں واٹس ایپ پر کلاس کے گروپ میں اس حوالے سے مشاورت شروع ہوئی اور ہر کسی نے شرکت کا یقین دلایا اور اللہ کے حضور ان خوبصورت لمحات کی تکمیل اور ان کے بابرکت ہونے کی دعاؤں کا سلسلہ تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔
راقم الحروف کے لیے یہ بات اس لیے بھی خاص اہمیت اختیار کر گئی جب موصوف نے خود کال کر کے مجھ جیسے غافل اور غیر ذمہ دار آدمی کو شرکت کے لیے دعوت دی اور ان پر مسرت لمحات میں خصوصاً یاد رکھا یہ موصوف کی محبت اور آپنائیت کا منہ بولتا ثبوت ہے ورنہ ہر خاص و عام کے لیے گروپ میں میسج کر دینا بھی کافی تھا ۔خیر 17 مئی کے دن کا انتظار اور احباب سے شرف ملاقات کی خواہش اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی کہ اللہ کرے وہ دن جلد آئے جب مجھے بھی نورانی چہروں پر گنہگار نگاہیں ڈالنے اور مجھ سے نیکی اور تقویٰ سے ہزاروں درجے بہتر اور باہم ایک دوسرے کا خیار رکھنے والے نیک سیرت دوستوں سے گلے ملنے کا موقع میسر آئے ۔خدشہ تھا کہ کہیں گونا گو مصروفیات اور مجبوریوں کے سبب ان پر لطف لمحات میں غیر حاضر نہ پایا جاؤں اور پھر سلمان ﷤ کے سامنے ہد ہد کی طرح صفائیاں دینی پڑھیں اور دلہاکی طرف سے غیر حاضری پر سلیمان ﷤ کی طرح ادنیٰ سے ہد ہد کو کوئی سخت وعید سننی پڑے ۔
قارئین اکرام :کوشش ہو تو انسان اپنے مقصد کو پا لیتا ہے ۔اللہ اللہ کر کے 17 مئی منگل کا دن آ پہنچا ‘انتظار کی کھڑیا ں ختم ہوئیں اور پہلے سے طے شدہ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آن پہنچا ۔راقم الحروف اپنے محسن و مربی فضیلۃ الشیخ محترم و مکرم فرمان مشتاق صاحب اور عزت مآب محترم جناب قاری شکیل احمد صاحب کی معیت میں عازم سفر ہونے کا موقع میسر آیا ۔6:00بجے کا پروگرام جس کے لیے روانگی 7:00 بجے یوکے سنٹر لاہور سے ہوئی اور رکشہ پر تینوں احباب ٹاؤن شپ کی طرف روانہ ہوئے ‘براستہ فیرو ز پور روڈ سےکوٹ لکھپت اور وہاں سے پنڈی اسٹاپ سے ہمدرد چوک پر پہنچے ۔ کچھ احباب پہلے ہی پہنچ چکے تھے اور کھانے کی خالی میز پر جیسے کوئی خشک نہر کے کنارے بیٹھا پانی کا انتظار کر رہا ہو‘ کھانا کھلنے کا انتظار کر رہے تھے ۔مختلف شہروں سے سفر کر کے آئے احباب ایک طرف بھوک کے ستائے تو دوسری طرف سفر کی تھکاوٹ ان کے ہنستے مسکراتے چہروں کی رونق کو گویا نظر لگ گئی ہو ۔ شیخ صاحب کے ساتھ جیسے ہی ہم شادی حال میں داخل ہوئے تو پہلے سے موجود کھانے کی ٹیبل سے آوازیں آنا شروع ہو گئیں جیسے کوئی بڑی شخصیت کسی پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کے لیے آئے اور حاضرین اور انتظامیہ کی جانب سے استقبال کا لمبا سلسلہ شروع ہو جائے۔ واہ جی‘ ماشاء اللہ مرحبا ‘ کیا بات ہے‘ جی دیکھیں فرمان مشتاق صاحب اپنے رفقاء کے ہمرا ہ تشریف لا چکے ہیں ۔شیخ کی شادی ہال میں انٹری گویا ٹی 20 میچ میں بھارت و پاکستان کی بیٹنگ کے دوران شاہد آفریدی کی کھیل کے میدان کی طرف انٹری ہو ۔حال میں انٹر ہوتے ہی دروازے پر ایک جانی پہچانی شخصیت پینٹ کوٹ میں ملبوس احباب کو گلے ملنے لگی اور ویلکم ‘مرحبا اور شکریہ جیسے الفاظ ادا کر رہی تھی ۔
منحصر وقت مقرر پہ ملاقات ہوئی
آج یہ آپ کی جانب سے نئی بات ہوئی
یقینناً خالد عزیز بھائی واقعتاً ہر دل عزیز نے شانداز استقبال کیا اور اس پر مسرت موقع پر شرکت کا شکریہ ادا کیا ۔شیخ فرمان مشتاق صاحب کی معیت میں ہم اس ٹیبل کی طرف بڑے جس پر باقی تمام احباب اور محسنین تشریف فرما تھے۔ میز کی طرف جاتے ہی راقم الحروف کی جس عظیم شخصیت اور چاند جیسے چمکتے چہرےپر پڑی وہ کسی تعارف کی مختاج نہیں شاعر کے انداز میں :
آندھی راہِ ملاقات میں دیوار بنی
طوفان بھی جیسے تیرا چاہنے والا نکلا
میری مراد عزت مآب خطیب ہر دل عزیز محترم جناب حافظ عرفان انور صاحب جو کنگن پور کے نواح سے آرائیاں والا سے تشریف لائے ہوئے تھے ۔ ان کے بعد جس شخصیت کی طرف نگاہ پڑی وہ تھی ہمار کلاس کے سرمایا افتخار جناب حافظ طیب صاحب جو اوکاڑہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ملنسار ساتھی ہیں ۔ان کے بعد نورانی چہروں کا ایک لمبا سلسلہ اور مبارک ناموں کی ایک لمبی فہرست میرے سامنے تھی ۔مثلاً محترم جناب حافظ آصف رشید صاحب المعروف فوجی صاحب جن کا تعلق سرائے مغل پتوکی قصور سے تھا ۔ ان کے علاوہ محترم جناب فریاد تبسم صاحب اپنی نشست پر براجمان تھے جن کا تعلق جاگووالاپتوکی قصور سے تھا ‘ ان کے ساتھ محترم جناب افضل نواز صاحب جن کا تعلق سریالی کلاں نزد قصور شہر سے تھا ۔ان کے ساتھ محترم جناب عبد القدوس صاحب جن کا تعلق لاہور سے تھا تشریف لائے ہوئے تھے ۔ان کے ساتھ ہی خطیب الخطباء محترم جناب عثمان عسکری صاحب جن کا تعلق قصور شہر کی مشرقی جانب غالباً نتھو کے گاؤں سے تھا وہ بھی اپنی نشست پر موجود پروگرام کو رونق بخشے ہوئے تھے ۔ان کے ساتھ ہی میں جس عظیم شخصیت کا تعارف کروانا چاہتا ہو وہ ہیں جناب عالی ‘ فضیلۃ الشیخ جناب قاری احسان اللہ قمر صاحب فاضل مدینہ یونیورسٹی جن کا تعلق کھڈیا ں خاص قصور سے تھا تشریف فرما تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ہماری کلاس کا فخر ‘استاد العلماء فضیلۃ الشیخ جناب قاری عبد المجید ثاقب صاحب جن کا تعلق گہلن ہٹھاڑ سے تھا وہ بھی تشریف فرما تھے ۔ان کے ساتھ ہی ہماری کلاس کے ادیب محترم جناب قاری سفیان صاحب جن کا تعلق خانیوال سے تھا وہ بھی تشریف فرما تھے ۔ان کے ساتھ ہی ڈولفن پولیس کا فخر اور ہماری کلاس کی پہچان محترم جناب عبد المالک صاحب بھی اپنے نشست پر موجود تھے ۔ان کے ساتھ ہی محترم جناب ایوب صابر صاحب جن کا تعلق مانگا منڈی لاہور سے تھا اپنی کرسی پر براجمان تھے ۔ان کے ساتھ ہی چلڈرن ہسپتال لاہور کے سینئر ڈاکٹر قاری محمد سلیم چوہدری صاحب بھی محفل کو رونق بخشے ہوئے تھے ۔ان کے ساتھ ہی محترم جناب قاری خالد محمود المعروف بھٹی صاحب‘ جن کا تعلق پاکپتن سے تھا وہ بھی اپنی نشست پر موجود تھے ۔ ان کے ساتھ ہی جناب حکیم عبد اللہ احسن صاحب جن کا تعلق چونگی امر سدھو سے تھا وہ بھی اپنی نشست پر جلوا افروز تھے ۔ان کے ساتھ ہی جو شخصیت موجود تھی وہ تھی شرم وحیا کی پابند اور سر پر سفید ٹوپی سجھائے اپنی نشست پر موجود میری مراد قاری محمد شکیل صاحب جن کا تعلق بوریے والا سے تھا تشریف فرما تھے۔اس پروگرام میں شرکت کے لیےسب سے آخر میں آنے والی ایک اور عظیم شخصیت طوالت کے ڈر سے شاید رہ نہ جائے اور یہ نا انصافی ہمیشہ راقم الحروف کو منہ چڑاتی رہے ‘ ویسے بھی میرے خیال میں اس شخصیت کا ذکر نہ کرنا تحریر کے حسن پر کار ی ضرب ہے اور ان کا ذکر خیر کیے بغیر شاید یہ میری روداد کسی ردی کے ٹکڑے سے کم نہ ہو اور ان کا ذکر خیر نہ کرنے سے جیسے یہ کوئی مبارک صحیفہ کی شکل اختیار نہ کر سکے اور تاریخ کے اوراق کا حصہ نہ بن سکے ‘میری مراد جناب قاری خبیب احمد میر محمدی صاحب مدیر( شعبہ حفظ )المھد العالی سگیا ں بائی پاس جامعہ بلال جن کا تعلق ستوکیں میر محمد سے تھا وہ بھی مجلس کے حسن کو رونق بخشے ہوئے تھے ۔
اتنی عجلت میں بچھڑنے کا ارادہ نہ کرو
پھر ملاقات میں مدت بھی تو پڑ سکتی ہے
کچھ احباب جو مجبوریوں کی وجہ سے نہیں پہنچ سکے ان میں کچھ کی ادارہ جاتی مجبوریاں تھی تو بعض احباب بیرون ملک ہونے کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے جن میں عبدالقدیر بھائی ‘ عبد الرحمن محمدی صاحب ‘ محمد خان صاحب ‘ زاہد جمیل صاحب‘ مصطفیٰ بھائی جن کا تعلق رینالہ خورد سے ہے ۔ اور کئی دیگر احباب ذاتی مجبوریوں کی بنا پر گرمی کے اس موسم میں سفر کی مشقت کہ پیش نظر شاید نہیں پہنچ سکے ۔ مگر کچھ ساتھیوں کا لاہور میں موجود ہو کر شرکت نہ کرنا سمجھ سے بالا تر ہے کہ چھ ماہ ‘ سال کے بعد چند گھنٹے بھی ملاقات کے لیے نہیں نکال سکے اگر احبا ب کی مجبوریاں ہو سکتی ہیں تو فارغ وہ احباب بھی نہیں جو خانیوال اور کنگن پور سے تشریف لائے ہوئے تھے ۔ اس سے بڑی بات کہ ان کا رات کو ہی واپس لوٹنا اور صبح اپنی تمام تر مصروفیات میں لگ جانا ‘ ایک طرف کرایہ کا بوچھ تو دوسری طرف نیند جیسی پر لطف نعمت کی قربانی اور پھر ادارے سے رخصت کئی خدشات و مشکلات کی پروا کیے بغیر وقت پر پہنچنا احساس ذمہ داری اور احباب سے الفت و محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔کچھ احباب کی نظر یہ دو شعر کرنا چاہتا ہو ں:
کسی شکوے کو ہی بنیاد بنا کر آتے
اس بہانے سے ملاقات بھی ہوسکتی تھی۔
شکوے کے طور پر اور احساس دلانے کی غرض سے ان احباب کا بھی ذکر کرنا مناسب سمجھوں گا جنہوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا اور اس پر وقار ملاقات میں غیر حاضر پائے گئے ۔ ان میں جناب بین الاقوامی شہرت یافتہ قاری دکتورقاری خرم شہزاد صاحب اور قلم و قرطاس کے شہسوار‘ علم و عرفان کے وارث‘ محدث العصر ‘ فقہی الامت ‘شہنشاہِ خطابت اور حکیم الامت ‘داعی قرآن و سنت ‘ مفکر اہلحدیث ‘عظیم دانشور جناب ڈاکٹر علامہ قاری ظہیر ادریس صاحب ۔
غیروں سے تو فرصت تمہیں دن رات نہیں ہے
ہاں میرے لیے وقت ملاقات نہیں ہے
اللہ سب بھائیوں کو سلامت رکھے ۔ اور خالد بھائی کو اور ان کے اہل کو شادی کی خوشیاں مبارک کرے اور گھر میں تشریف لانے والے نئے مہمان کو اس گھر میں تسکین اور راحت عطاء فرمائے اور احباب کو نیک سیرت اور خوبصورت اولاد عطاء فرمائے ۔آمین
آخر میں ملاقات کی مناسبت سے کچھ اشعار عرض کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہو ں۔
1۔ نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
2۔ مسافر ہیں ہم بھی مسافر ہو تم بھی
کسی موڑ پر پھر ملاقات ہوگی
3۔ گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے ظفر
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
4۔ نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم تمہارے نام آج کی شام ہے
5۔ ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے
زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا
6۔ یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا
7۔ چاند نکلا تھا مگر بات نہ تھی پہلی سی
یہ ملاقات ،ملاقات نہ تھی پہلی سی ۔
رنج کچھ کم تو ہوا آج تیرے ملنے سے
یہ الگ بات کہ وہ بات نہ تھی پہلی سی۔
8۔ کافی نہیں خطوط کسی بات کے لئے حضور والا
تشریف لائیے گا پھر کبھی ملاقات کے لئے
9۔ تو دل کا بوجھ لے کے ملا قات کو نہ آ
ملنا ہے اِس طرح تو بچھڑنا قبول ہے
 
Last edited:
Top