نصر اللہ خالد
رکن
- شمولیت
- اگست 23، 2012
- پیغامات
- 188
- ری ایکشن اسکور
- 143
- پوائنٹ
- 70
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پتہ نہیں حقیقت کیا ہے کہیں ایسے نہ ہو کہ ہم انجانے میں باطل کو حق اور حق کو باطل کہہ جائئیں۔۔۔
اسلئے ان حالات میں خاموشی سب سے بہتر ہے میں تو یہ ہی محسوس کر رہاہوں۔
واللہ اعلم۔
آپ اس بارہ میں کیا کہیں گے۔۔۔؟
کیا خاموش رہنابہترہے یا کسی کی حمائت کرنا۔۔؟
خاموشی میں نجات ہے۔!
ملکی حالات بڑے گھمبہیر ہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔کون سچا ہے کون جھوٹا ہے۔ایک طرف طالبان اور دوسری طرف فوج، اسی رسہ کشی میں بہت سے بے قصور بھی حیوانیت کی بھینٹ چڑھ گئے،بہت سے خاندانوں کے معصوم جوان غائب ہوئے جن کا کوئی اتا پتا نہیں،بہرحال میں یہ بات سوچ ہی رہا تھاکہ یہ ہو کیا رہاہے۔۔؟تو اسی کشمکش میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان یادآیاسنن ابن ماجہ حدیث نمبر 841
عمران بن موسیٰ لیثی، عبدالوارث بن سعید، محمد بن حجادہ، عبدالرحمن بن ثروان ہذیل بن شرحبیل، حضرت ابوموسی اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے قریب فتنے ہوں گے سیاہ تاریک شب کے حصوں کے مانند ان فتنوں میں مرد صبح ایمان کی حالت میں کرے گا تو شام کفر کی حالت میں اور کوئی شام ایمان کی حالت میں کرے گا تو صبح کفر کی حالت میں۔ ان فتنوں میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا (اسوقت) اپنی کمانیں توڑ دینا اور کمانوں کے چلے کاٹ دینا اپنی تلواریں پتھروں پر مار کر کند کر لینا اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی گھس آئے اور (مارنے لگے) تو وہ سیدنا آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) میں سے بہتر کی طرح ہو جائے ۔
اس حدیث کا یہ حصہ کہ بیٹھنے والا کھڑے سے بہتر ہو گا۔۔۔۔الخ
حدیث کے اس حصہ کی جو سمجھ مجھے آئی ہے وہ یہ ہی ہے کہ جو بندہ بہت حالات شناس بہت تیز اور بہت زیادہ باتیں کرنے والا ہے وہ سب سے زیادہ آزمائش میں ہے وہ نہیں جانتاکہ وہ کس کی حمائت کس وجہ سے کر رہا ہے وہ نہیں جانتا کہ وہ انجانے میں باطل کو حق کہہ رہا ہے یا حق کو باطل۔۔۔!ملکی حالات بڑے گھمبہیر ہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔کون سچا ہے کون جھوٹا ہے۔ایک طرف طالبان اور دوسری طرف فوج، اسی رسہ کشی میں بہت سے بے قصور بھی حیوانیت کی بھینٹ چڑھ گئے،بہت سے خاندانوں کے معصوم جوان غائب ہوئے جن کا کوئی اتا پتا نہیں،بہرحال میں یہ بات سوچ ہی رہا تھاکہ یہ ہو کیا رہاہے۔۔؟تو اسی کشمکش میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان یادآیاسنن ابن ماجہ حدیث نمبر 841
عمران بن موسیٰ لیثی، عبدالوارث بن سعید، محمد بن حجادہ، عبدالرحمن بن ثروان ہذیل بن شرحبیل، حضرت ابوموسی اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے قریب فتنے ہوں گے سیاہ تاریک شب کے حصوں کے مانند ان فتنوں میں مرد صبح ایمان کی حالت میں کرے گا تو شام کفر کی حالت میں اور کوئی شام ایمان کی حالت میں کرے گا تو صبح کفر کی حالت میں۔ ان فتنوں میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا (اسوقت) اپنی کمانیں توڑ دینا اور کمانوں کے چلے کاٹ دینا اپنی تلواریں پتھروں پر مار کر کند کر لینا اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی گھس آئے اور (مارنے لگے) تو وہ سیدنا آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) میں سے بہتر کی طرح ہو جائے ۔
اس حدیث کا یہ حصہ کہ بیٹھنے والا کھڑے سے بہتر ہو گا۔۔۔۔الخ
پتہ نہیں حقیقت کیا ہے کہیں ایسے نہ ہو کہ ہم انجانے میں باطل کو حق اور حق کو باطل کہہ جائئیں۔۔۔
اسلئے ان حالات میں خاموشی سب سے بہتر ہے میں تو یہ ہی محسوس کر رہاہوں۔
واللہ اعلم۔
آپ اس بارہ میں کیا کہیں گے۔۔۔؟
کیا خاموش رہنابہترہے یا کسی کی حمائت کرنا۔۔؟