• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم خانہ ٔ نبو ّت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۱۱۔ حضرت میمونہ بنت حارث ؓ :
یہ ام الفضل لبابہ بنت حارث ؓ کی بہن تھیں۔ ان سے رسول اللہﷺ نے ذی قعدہ ۷ ھ میں عمرہ ٔ قضاء سے فارغ ہونے ... اور صحیح قول کے مطابق احرام سے حلال ہونے ...کے بعد شادی کی، اور مکہ سے ۹ میل دور مقام سرف میں انھیں رخصت کرایا۔ ۶۱ھ اور کہا جاتا ہے کہ ۶۳ ھ میں وہیں ان کی وفات بھی ہوئی۔ اور وہیں دفن بھی کی گئیں۔ ان کی قبر کی جگہ آج بھی وہاں معروف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یہ گیارہ بیویاں ہوئیں جو رسول اللہﷺ کے عقد نکاح میں آئیں۔ اور آپﷺ کی صحبت ورفاقت میں رہیں۔ ان میں سے دوبیویاں ،یعنی حضرت خدیجہ اور حضرت زینب ام المساکینؓ کی وفات آپﷺ کی زندگی ہی میں ہوئی۔ اور نو بیویاں آپﷺ کی وفات کے بعد حیات رہیں۔ ا ن کے علاوہ دو اور خواتین جو آپﷺ کے پاس رخصت نہیں کی گئیں۔ ان میں سے ایک قبیلہ بنو کلاب سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور ایک قبیلہ کندہ سے، یہی قبیلہ کِنْدہ والی خاتون جونیہ کی نسبت سے معروف ہیں۔ ان کا آپﷺ سے عقد ہوا تھا یانہیں ، اور ان کا نام ونسب کیا تھا اس بارے میں اہل ِ سیر کے درمیان بڑے اختلافات ہیں جن کی تفصیل کی ہم کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
جہاںتک لونڈیوں کا معاملہ ہے تو مشہور یہ ہے کہ آپﷺ نے دولونڈیوں کو اپنے پاس رکھا۔ ایک ماریہ قبطیہ کو جنہیں مقوقس فرمانروائے مصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ ان کے بطن سے آپﷺ کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے۔ جو بچپن ہی میں ۲۸ یا ۲۹ شوال ۱۰ ھ مطابق ۲۷ جنوری ۶۳۲ء کو مدینہ کے اندر انتقال کر گئے۔
دوسری لونڈی ریحانہ بنت زید تھیں۔ جو یہود کے قبیلہ بنی نضیر یا بنی قریظہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بنو قریظہ کے قیدیو ں میں تھیں۔ رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمایا تھا، اور وہ آپﷺ کے زیر دست تھیں۔ ان کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ انہیں نبیﷺ نے بحیثیت لونڈی نہیں رکھا تھا بلکہ آزاد کر کے شادی کرلی تھی لیکن ابن قیم کی نظر میں پہلا قول راجح ہے۔ ابو عبیدہ نے ان دولونڈیوں کے علاوہ مزید دو لونڈیوںکا ذکر کیا ہے۔ جس میں سے ایک کا نام جمیلہ بتایا جاتا ہے ، جوکسی جنگ میں گرفتار ہوکر آئی تھیں۔ اور دوسری کوئی اور لونڈی تھیں جنہیں حضرت زینب بنت جحش نے آپ کو ہبہ کیا تھا۔1
یہاں ٹھہر کر رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کے ایک پہلو پر ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی جوانی کے نہایت پر قوت اور عمدہ ایام، یعنی تقریباً تیس برس صرف ایک بیوی پر اکتفا کرتے ہوئے گذار دیے۔ اور وہ بھی ایسی بیوی پر جو تقریباً بڑھیا تھی، یعنی پہلے حضرت خدیجہ اور پھر حضرت سودہؓ پر۔ تو کیا یہ تصور کسی بھی درجے میں معقول ہوسکتا ہے کہ اس طرح اتنا عرصہ گذار دینے کے بعد جب آپﷺ بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ گئے تو
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: زاد المعاد ۱/۲۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آپ کے اندر یکایک جنسی قوت اس قدر بڑھ گئی کہ آپ کو پے در پے نو شادیاں کرنی پڑیں۔ جی نہیں ! آپﷺ کی زندگی کے ان دونو ں حصوں پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی بھی ہوش مند آدمی اس تصور کو معقو ل تسلیم نہیں کر سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپﷺ نے اپنی بہت ساری شادیاں کچھ دوسرے ہی اغراض ومقاصد کے تحت کی تھیں۔ جو عام شادیوں کے مقررہ مقصد سے بہت ہی زیادہ عظیم القدر اور جلیل المرتبہ تھے۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ آپﷺ نے حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما سے شادی کرکے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ رشتہ ٔ مصاہرت قائم کیا ، اسی طرح حضرت عثمانؓ سے پے در پے دوصاحبزادیوں حضرت رقیہ پھر حضرت امِ کلثوم کی شادی کر کے اور حضرت علیؓ سے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کی شادی کر کے جو رشتہائے مُصَاہرت قائم کیے ان کا مقصود یہ تھا کہ آپ ان چاروں بزرگوں سے اپنے تعلقات نہایت پختہ کرلیں، کیونکہ یہ چاروں بزرگ پیچیدہ ترین مراحل میں اسلام کے لیے فداکاری وجاں سپاری کا جو امتیازی وصف رکھتے تھے وہ معروف ہے۔
عرب کا دستور تھا کہ وہ رشتہ ٔ مصاہرت کا بڑا احترام کرتے تھے۔ ان کے نزدیک دامادی کا رشتہ مختلف قبائل کے درمیان قربت کا ایک اہم باب تھا۔ اور داماد سے جنگ لڑنا اور محاذ آرائی کرنا بڑے شرم اور عار کی بات تھی۔ اس دستور کو سامنے رکھ کر رسول اللہﷺ نے چند شادیاں اس مقصدسے کیں کہ مختلف افراد اور قبائل کی اسلام دشمنی کا زور توڑدیں۔ اور ان کے بغض ونفرت کی چنگاری بجھادیں۔ چنانچہ حضرت اُم سلمہ ؓ قبیلہ ٔ بنی مخزوم سے تعلق رکھتی تھیں جو ابو جہل اور خالد بن ولیدؓ کا قبیلہ تھا۔ جب نبیﷺ نے ان سے شادی کرلی تو خالد بن ولیدؓ میں وہ سختی نہ رہی جس کا مظاہرہ وہ احد میں کرچکے تھے۔ بلکہ تھوڑے ہی عرصہ بعد انہوں نے اپنی مرضی خوشی اور خواہش سے اسلام قبول کرلیا۔ اسی طرح جب ابو سفیان کی صاحبزادی حضرت ام حبیبہ سے شادی کرلی تو پھر ابو سفیان آپ کے مد ِمقابل نہ آیا۔ اور جب حضرت جویریہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما آپﷺ کی زوجیت میں آگئیں۔ تو قبیلہ بنی المصطلق اور قبیلہ بنی نضیر نے محاذ آرائی چھوڑ دی۔ حضور کے عقد میں ان دونوں بیویوں کے آنے کے بعد تاریخ میں ان کے قبیلوں کی کسی شورش اور جنگی تگ ودَو کا سراغ نہیں ملتا۔ بلکہ حضرت جویریہؓ تو اپنی قوم کے لیے ساری عورتوں سے زیادہ بابرکت ثابت ہوئیں۔ کیونکہ جب رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کرلی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے ایک سو گھرانوں کو جو قید میں تھے آزاد کردیا۔ اور کہا کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے سسرالی ہیں۔ ان کے دلوں پر اس احسان کا جو زبردست اثر ہو ا ہوگا وہ ظاہر ہے۔
ان سب سے بڑی اور عظیم بات یہ ہے کہ رسول اللہﷺ ایک اَن گھڑ قوم کو تربیت دینے ، اس کا تزکیۂ نفس کرنے اور تہذیب وتمدن سکھا نے پر مامور تھے۔ جو تہذیب وثقافت سے ، تمدن کے لوا زمات کی پابندی سے اور معاشرے کی تشکیل وتعمیر میں حصہ لینے کی ذمہ داریوں سے بالکل نا آشنا تھی۔ اور اسلامی معاشرے کی تشکیل جن اصولوں کی بنیاد پر کرنی تھی ان میں مردوں اور عورتوں کے اختلاط کی گنجائش نہ تھی۔ لہٰذا عام اختلاط کے اس اصول کی پابندی کرتے ہوئے عورتوں کی براہ راست تربیت نہیں کی جاسکتی تھی۔ حالانکہ ان کی تعلیم وتربیت کی ضرورت مردوں سے کچھ کم اہم اور ضروری نہ تھی بلکہ کچھ زیادہ ہی ضروری تھی۔
اس لیے نبیﷺ کے پاس صرف یہی ایک سبیل رہ گئی تھی کہ آپﷺ مختلف عمر اور لیاقت کی اتنی عورتوں کو منتخب فرمالیں جو اس مقصد کے لیے کافی ہوں۔ پھر آپﷺ انہیں تعلیم وتربیت دیدیں ، ان کا تزکیہ نفس فرمادیں۔ انہیں احکام شریعت سکھلادیں۔ اور اسلامی تہذیب وثقافت سے اس طرح آراستہ کردیں کہ وہ دیہاتی اور شہری ، بوڑھی اور جوان ہر طرح کی عورتوں کی تربیت کرسکیں اور انہیں مسائل ِ شریعت سکھا سکیں۔ اور اس طرح عورتوں میں تبلیغ کی مہم کے لیے کافی ہوسکیں۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبیﷺ کے خانگی حالات کو امت تک پہنچانے کا سہرا زیادہ تران امہات المومنین ہی کے سر ہے ان میں بھی بالخصوص وہ امہات المومنین جنہوں نے طویل عمر پائی۔ مثال کے طور پر حضرت عائشہؓ۔ کہ انہوں نے نبیﷺ کے افعال واقوال خوب خوب روایت کیے ہیں۔
نبیﷺ کا ایک نکاح ایک ایسی جاہلی رسم توڑنے کے لیے بھی عمل میں آیا تھا جو عرب معاشرہ میں پُشتہا پُشت سے چلی آرہی تھی ، اور بڑی پختہ ہوچکی تھی۔ یہ رسم تھی کسی کو متبنیٰ بنانے کی۔ متبنیٰ کو جاہلی دور میں وہی حقوق اور حرمتیں حاصل تھیں جو حقیقی بیٹے کو ہوا کرتی ہیں۔ پھر یہ دستور اور اصول عرب معاشرے میں اس قدر جڑ پکڑ چکا تھا کہ اس کا مٹانا آسان نہ تھا لیکن یہ اصول ان بنیاد وں اور اصولوں سے نہایت سختی کے ساتھ ٹکراتا تھا جنہیں اسلام نے نکاح ، طلاق ، میراث اور دوسرے معاملات میں مقرر فرمایا تھا۔ اس کے علاوہ جاہلیت کا یہ اصول اپنے دامن میں بہت سے ایسے مفاسد اور فواحش بھی لیے ہوئے تھا جن سے معاشرے کو پاک کرنا اسلام کے اولین مقاصد میں سے تھا۔ لہٰذا اس جاہلی اصول کو توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی شادی حضرت زینب بنت جحشؓ سے فرمادی۔ حضرت زینبؓ پہلے حضرت زیدؓ کے عقد میں تھیں۔ جو رسول اللہﷺ کے مُتبنیٰ (منہ بولے بیٹے) تھے۔ اور زید بن محمد کہے جاتے تھے، مگر دونو ں میں نباہ مشکل ہوگیا اور حضرت زیدؓ نے طلاق دینے کا ارادہ کر لیا۔ اور رسول اللہﷺ سے اس بارے میں گفتگو بھی کی یہ وہ وقت تھا جب تمام کفار رسول اللہﷺ کے خلاف محاذ آرا تھے۔
ادھر رسول اللہﷺ حالات کے اشارے یا اللہ تعالیٰ کے خبر دینے سے یہ بات جان چکے تھے کہ اگر زیدؓ نے طلاق دی تو آپﷺ کو حضرت زینبؓ کی عدت گذرنے کے بعد ان سے شادی کا حکم دیا جائے گا۔ اور اس لیے رسول اللہﷺ کو بجا طور پر یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر انہی حالات میں یہ شادی کرنی پڑ گئی تو منافقین ، مشرکین ، اور یہود بات کا بتنگڑ بنا کر آپﷺ کے خلاف سخت پروپیگنڈہ کریں گے۔ اور سادہ لوح مسلمانوں کو طرح طرح کے وسوسوں میں مبتلا کر کے ان پر برے اثرات ڈالیںگے۔ اس لیے حضرت زیدؓ نے جب حضرت زینبؓ کو طلاق دینے کے اپنے ارادے کے بارے میں رسول اللہﷺ سے گفتگو کی تو آپﷺ نے انہیں حکم دیا کہ حضرت زینبؓ سے نباہ کریں۔ اور انھیں طلاق نہ دیں تاکہ ان مشکل حالات میں اس شادی کا مرحلہ پیش نہ آئے۔
لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی۔ اور اس نے آپﷺ کو عتاب فرمایا۔ ارشاد ہوا:
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّـهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّـهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ (۳۳: ۳۷)
''اور جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے انعام کیا ہے ، اور آپﷺ نے انعام کیا ہے (یعنی حضرت زیدؓ سے ) کہ تم اپنے اوپر اپنی بیوی کو روک رکھو۔ اور اللہ سے ڈرو۔ اور آپﷺ اپنے نفس میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔ اور آپ لوگوں سے ڈررہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ مستحق تھا کہ آپﷺ اس سے ڈرتے۔''
بالآخر حضرت زیدؓ نے حضرت زینبؓ کو طلاق دے ہی دی۔ پھر ان کی عدت گذر گئی تو ان سے رسول اللہﷺ کی شادی کا فیصلہ نازل ہوا، اللہ نے آپﷺ پر یہ نکاح لازم کردیا تھا۔ اور کوئی اختیار اور گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔ اس سلسلے میں نازل ہونے والی آیت کریمہ یہ ہے :
فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرً‌ا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَ‌جٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرً‌ا ۚ (۳۳:۳۷)
''جب زید نے اس سے اپنی ضرورت پوری کرلی تو ہم نے اس کی شادی آپﷺ سے کردی تاکہ مومنین پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں پر کوئی حرج نہ رہ جائے جبکہ وہ منہ بولے بیٹے ان سے اپنی حاجت پوری کرلیں۔''
اس کامقصد یہ تھا کہ منہ بولے بیٹوں سے متعلق جاہلی اصول عملاً بھی توڑ دیا جائے ، جس طرح اس سے پہلے اس ارشاد کے ذریعہ قولاً توڑا جاچکا تھا۔
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ (۳۳: ۵)
''انہیں ان کے باپ کی نسبت سے پکارو ، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے۔''
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّ‌جَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّ‌سُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (۳۳: ۴۰)
''محمد ، تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔''
اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جب معاشرے میں کوئی رواج اچھی طرح جڑ پکڑ لیتا ہے تو محض بات کے ذریعے اسے مٹانایا اس میں تبدیلی لانا بیشتر اوقات ممکن نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ جو شخص اس کے خاتمے یا تبدیلی کا داعی ہو اس کا عملی نمونہ موجود رہنا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے جس حرکت کا ظہور ہوا اس سے اس حقیقت کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے۔ اس موقع پر کہاں تو مسلمانوں کی فداکاری کا یہ عالم تھا کہ جب عروہ بن مسعود ثَقفی نے انہیں دیکھا تو دیکھا کہ رسول اللہﷺ کا تھوک اور کھنکار بھی ان میں سے کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ ہی میں پڑ رہا ہے۔ اور جب آپﷺ وضوفرماتے ہیں تو صحابہ کرام آپﷺ کے وضو سے گرنے والا پانی لینے کے لیے اس طرح ٹوٹے پڑ رہے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے آپس میں الجھ پڑیں گے۔ جی ہاں ! یہ وہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جو درخت کے نیچے موت یا عدم فرار پر بیعت کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جارہے تھے اور یہ وہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جن میں ابو بکر و عمر جیسے جاں نثاران رسول بھی تھے۔ لیکن انہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو -- جو آپ پر مر مٹنا اپنی انتہائی سعادت و کامیابی سمجھتے تھے -- جب آپﷺ نے صلح کا معاہدہ طے کرلینے کے بعد حکم دیا کہ اٹھ کر اپنی ہدی ( قربانی کے جانور ) ذبح کر دیں تو آپا کے حکم کی بجاآوری کے لیے کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ یہاں تک کہ آپﷺ قلق و اضطراب سے دوچار ہوگئے۔ لیکن جب حضرت ام سلمہ ؓ نے آپﷺ کو مشورہ دیا کہ آپﷺ اٹھ کر چپ چاپ اپنا جانور ذبح کردیں ، اور آپﷺ نے ایسا ہی کیا تو ہر شخص آپﷺ کے طرز عمل کی پیروی کے لیے دوڑ پڑا۔ اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے لپک لپک کر اپنے جانور ذبح کردیے۔ اس واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی پختہ رواج کو مٹانے کے لیے قول ا ور عمل کے اثرات میں کتنا زیادہ فرق ہے۔ اس لیے متبنی کا جاہلی اصول عملی طور پر توڑنے کے لیے آپﷺ کا نکاح آپ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید کی مطلقہ سے کرایا گیا۔
اس نکاح کا عمل میں آنا تھا کہ منافقین نے آپﷺ کے خلاف نہایت وسیع پیمانے پر جھوٹے پروپیگنڈے شروع کردیے۔ اور طرح طرح کے وسوسے اور افواہیں پھیلائیں جس کے کچھ نہ کچھ اثرات سادہ لوح مسلمانوں پر بھی پڑے۔ اس پروپیگنڈے کو تقویت پہنچانے کے لیے ایک '' شرعی'' پہلو بھی منافقین کے ہاتھ آگیا تھا کہ حضرت زینب آپ کی پانچویں بیوی تھیں۔ جبکہ مسلمان بیک وقت چار بیویوں سے زیادہ کی حلت جانتے ہی نہ تھے۔ ا ن سب کے علاوہ پروپیگنڈہ کی اصل جان یہ تھی کہ حضرت زید ، رسول اللہﷺ کے بیٹے سمجھے جاتے تھے۔ اور بیٹے کی بیوی سے شادی کرنا نہایت گندی فحش کاری تھی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔ احزاب میں ان دونوں موضوع سے متعلق کافی شافی آیا ت نازل کیں اورصحابہ کو معلوم ہوگیا کہ اسلام میں منہ بولے بیٹے کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ نہایت بلند پایہ اور مخصوص مقاصد کے تحت اپنے رسولﷺ کو خصوصیت کے ساتھ شادی کی تعداد کے سلسلے میں اتنی وسعت دی ہے جو کسی اور کو نہیں دی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
امہات المومنین کے ساتھ رسول اللہﷺ کی رہائش نہایت شریفانہ ، باعزت ، بلند پایہ اور عمدہ انداز کی تھی۔ ازواج مطہرات بھی شرف ، قناعت ، صبر ، تواضع ، خدمت اور ازدواجی حقوق کی نگہداشت کا مرقع تھیں۔ حالانکہ آپ بڑی روکھی پھیکی اور سخت زندگی گذار رہے تھے جسے برداشت کرلینا دوسروں کے بس کی بات نہیں۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ مجھے علم نہیں کہ رسول اللہﷺ نے کبھی میدے کی نرم روٹی کھائی ہو یہاں تک اللہ سے جاملے۔ اور نہ آپﷺ نے اپنی آنکھ سے کبھی بھُنی ہوئی بکری دیکھی۔ 1حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ دو دو ماہ گذر جاتے ، تیسرے مہینے کا چاند نظر آجاتا اور رسول اللہﷺ کے گھر میں آگ نہ جلتی۔ حضرت عروہؓ نے دریافت کیا کہ تب آپ لوگ کیا کھاتی تھیں؟ فرمایا کہ بس دو کالی چیزیں، یعنی کھجور اور پانی۔2اس مضمون کی احادیث بکثرت ہیں۔
اس تنگی و ترشی کے باوجود ازواج مطہرات سے کوئی لائق عتاب حرکت صادرنہ ہوئی -- صرف ایک دفعہ ایسا ہوا اور وہ بھی اس لیے کہ ایک تو انسانی فطرت کا تقاضا ہی کچھ ایسا ہے۔ دوسرے اسی بنیاد پر کچھ احکامات مشروع کرنے تھے --- چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسی موقع پر آیت تخییر نازل فرمائی۔ جو یہ تھی۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِ‌دْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّ‌حْكُنَّ سَرَ‌احًا جَمِيلًا ﴿٢٨﴾ وَإِن كُنتُنَّ تُرِ‌دْنَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ وَالدَّارَ‌ الْآخِرَ‌ةَ فَإِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿٢٩﴾
(۳۳: ۲۸،۲۹)
''اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دوکہ اگر تم دنیا کی زندگی اور زینت چاہتی ہوتوآؤ۔ میں تمہیں ساز وسامان دے کر بھلائی کے ساتھ رخصت کردوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اوردارِ آخرت کو چاہتی ہو تو بے شک! اللہ نے تم میں سے نیکوکاروں کے لیے زبردست اجر تیا ر کر رکھا ہے۔''
اب ان ازواج ِ مطہرات کے شرف اور عظمت کا اندازہ کیجیے کہ ان سب نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ترجیح دی۔ اور ان میں سے کوئی ایک بھی دنیا کی طرف مائل نہ ہوئیں۔
اسی طرح سو کنوں کے درمیان جو واقعات روز مرہ کا معمول ہوا کرتے ہیں ، ازواج ،مطہرات کے درمیان کثرت تعداد کے باوجود اس طرح کے واقعات شاذ ونادر ہی پیش آئے۔ اور وہ بھی بتقاضے بشریت۔ اور اس پر بھی جب اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا تودوبار ہ اس طرح کی کسی حرکت کا ظہورنہیں ہوا۔ سورۂ تحریم کی ابتدائی پانچ آیات میں اسی کا ذکر ہے۔
اخیر میں یہ عرض کردینا بھی بیجا نہ ہوگا کہ ہم اس موقع پر تعددِ ازواج کے موضوع پر بحث کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ کیونکہ جو لوگ اس موضوع پر سب سے زیادہ لے دے کرتے ہیں۔ یعنی باشندگان ِ یورپ وہ خود جس طرح کی زندگی گذار رہے ہیں ، جس تلخی وبدبختی کا جام نوش کررہے ہیں، جس طرح کی رسوائیوں اور جرائم میں لت پت ہیں ، اور تعددِ ازواج کے اصول سے منحرف ہوکر جس قسم کے رنج والم اور مصائب کا سامنا کررہے ہیں وہ ہر طرح کی بحث وجدل سے مستغنی کردینے کے لیے کافی ہے۔ اہل یورپ کی بد بختانہ زندگی تعدد ازواج کے اصول کے مبنی برحق ہونے کی سب سے سچی گواہ ہے اور اصحابِ نظر کے لیے اس میں بڑی عبرت ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۹۵۶ 2 ایضا ً ایضا ً
 
Top