محمدبن ابوبکر
مبتدی
- شمولیت
- اگست 19، 2011
- پیغامات
- 18
- ری ایکشن اسکور
- 16
- پوائنٹ
- 0
خاک پر سجدہ
یہاں پر ایک سوال ہے جو اہل سنت ہمیشہ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ شیعہ اپنے ساتھ ہمیشہ پاک مٹی کیوں رکھتے ہیں اور اس پر سجدہ کیوںکرتے ہیں ؟ اس کے علاوہ کسی دوسری چیز پر سجدہ نہیں کرتے ؟ جبکہ ہم نے اس کے متعلق پہلے بھی کہا ہے کہ سادے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ اس کے لئے سجدہ کرتے ہیں ، اس پر سجدہ نہیں کرتے اور پتھر اور خاک کی عبادت نہیں کرتے !اس کی وجہ یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے خاک پر سجدہ اور خاک کے لئے سجدہ میں کسی فرق کے قائل نہیں ہیں۔
بہرحال اس سوال کا جواب واضح ہے کہ شیعوں کے نزدیک بہتر یہ ہے کہ وہ پاک مٹی جس کے متعلق پاک ہونے کا یقین ہے ا
س کو اپنے ساتھ رکھیں، چاہے وہ کسی زمین کی ہو یادنیا کے کسی بھی حصہ کی کیوں نہ ہو، اس مسئلہ میں سب برابر ہیں ، جس طرح نمازی اپنے لباس اور بدن کی پاکیزگی کا خیال رکھتا ہے اسی طرح وہ سجدہ کرنے کیلئے اپنے ساتھ پاک مٹی رکھتا ہے تاکہ پاکیزگی کا اطمنان رہے کیونکہ ہر جگہ کی زمین کو پاک تصور نہیں کیا جاسکتااور اس پر نماز اور سجدہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ زمین پر چلنے پھرنے والے مختلف طرح کے لوگ ہیں مسلمان غیر مسلمان بعض پاکیزگی کی رعایت کرتے ہیں اور بعض رعایت نہیں کرتے اسی وجہ سے ہر جگہ میںشک ہے جس کی وجہ سے مشکل ہوجاتی ہے ، لہذا مجبوراً پاک مٹی جس کی طہارت وپاکیزگی کا یقین ہوتا ہے اس کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور نماز کے وقت اس پر سجدہ کرتے ہیں ، وہ نہیں چاہتے کہ بھولے سے بھی نجس یاگندی چیز پر سجدہ کریں ، کیونکہ نجس اور گندی چیزوں پر سجدہ کرنے سے خدا کاتقرب حاصل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ان پر سجدہ جائز ہے ونیز عقل سلیم بھی اس کو قبول نہیں کرتی ہے ۔
جبکہ خاص طور سے تاکید کی گئی ہے کہ نماز گزار کا بدن اور اس کا لباس پاک ہو اور وہ ایسی جگہ پر نماز پڑھے جہاں پر کوئی گندگی یا کوڑاکرکٹ وغیرہ نہ ہو وہ قربانی کی جگہ نہ ہو یا پایخانہ اور حمام کی جگہ نہ ہواس جگہ پر اونٹ وغیرہ نہ بیٹھتے ہوں ان جیسی تمام جگہوں پر نماز پڑھنے کے لیے منع کیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ اپنی مساجد کو پاک وصاف اور خشبودار رکھو(۱) ۔
یہ قاعدہ و قانون گذشتہ متقی اورصالح افراد کے یہاں پایا جاتا تھا اگرچہ تاریخ نے اس کو نقل کرنے میں غفلت سے کام لیا ہے ۔
روایت میں ہے کہ ایک صحابی فقیہ مسروق بن اٴجدع تھے ، (جن کی وفات ۶۲ ھجری میں واقع ہوئی ) وہ جب سفر کرتے تھے تو اپنے ساتھ مدینہ سے کچھ مٹی ساتھ لے جاتے تھے اور اس پر سجدہ کرتے تھے ۔ اس روایت کو ابی شیبہ نے اپنی کتاب ”المصنف “ کے اُ س باب میںذکر کیا ہے کہ جب کوئی کشتی کا سفرکرے تو مدینہ سے اپنے ساتھ مٹی لے جائے اور اس پر سجدہ کرے ۔نیز اس روایت کو دو سند وںکے ساتھ نقل کیا ہے کہ جب بھی مسروق بن اجدع کشتی میں سفر کرتے تھے تو اپنے ساتھ مٹی یااس کے جیسی چیزیں سجدہ کرنے کے لیے اپنے ساتھ رکھ لیتے تھے (۲) ۔
یہاں تک واضح ہوگیاکہ شیعہ آسانی کی وجہ سے ہمیشہ سفر اور حضر میں مٹی اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں کیونکہ اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر سفر وحضر میں ان کو پاک زمین یا پاک چٹائی وغیرہ نہ ملے اور ان کے لیے مشکل ہوجائے تو اس پاک و پاکیزہ مٹی پر سجدہ کریں اور اس پر تیمم کریں ۔(۳) ۔
۱۔ سیرتنا وسنتنا : ص ۱۵۸، ۔ ۱۵۹۔
۲۔ المصنف : ج۲، ص ۱۷۲، دار الفکر ، چاپ ۱۴۰۹ھ۔
۳۔ سیمای عقاید شیعہ ، ص ۴۳۳۔
یہاں پر ایک سوال ہے جو اہل سنت ہمیشہ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ شیعہ اپنے ساتھ ہمیشہ پاک مٹی کیوں رکھتے ہیں اور اس پر سجدہ کیوںکرتے ہیں ؟ اس کے علاوہ کسی دوسری چیز پر سجدہ نہیں کرتے ؟ جبکہ ہم نے اس کے متعلق پہلے بھی کہا ہے کہ سادے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ اس کے لئے سجدہ کرتے ہیں ، اس پر سجدہ نہیں کرتے اور پتھر اور خاک کی عبادت نہیں کرتے !اس کی وجہ یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے خاک پر سجدہ اور خاک کے لئے سجدہ میں کسی فرق کے قائل نہیں ہیں۔
بہرحال اس سوال کا جواب واضح ہے کہ شیعوں کے نزدیک بہتر یہ ہے کہ وہ پاک مٹی جس کے متعلق پاک ہونے کا یقین ہے ا
س کو اپنے ساتھ رکھیں، چاہے وہ کسی زمین کی ہو یادنیا کے کسی بھی حصہ کی کیوں نہ ہو، اس مسئلہ میں سب برابر ہیں ، جس طرح نمازی اپنے لباس اور بدن کی پاکیزگی کا خیال رکھتا ہے اسی طرح وہ سجدہ کرنے کیلئے اپنے ساتھ پاک مٹی رکھتا ہے تاکہ پاکیزگی کا اطمنان رہے کیونکہ ہر جگہ کی زمین کو پاک تصور نہیں کیا جاسکتااور اس پر نماز اور سجدہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ زمین پر چلنے پھرنے والے مختلف طرح کے لوگ ہیں مسلمان غیر مسلمان بعض پاکیزگی کی رعایت کرتے ہیں اور بعض رعایت نہیں کرتے اسی وجہ سے ہر جگہ میںشک ہے جس کی وجہ سے مشکل ہوجاتی ہے ، لہذا مجبوراً پاک مٹی جس کی طہارت وپاکیزگی کا یقین ہوتا ہے اس کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور نماز کے وقت اس پر سجدہ کرتے ہیں ، وہ نہیں چاہتے کہ بھولے سے بھی نجس یاگندی چیز پر سجدہ کریں ، کیونکہ نجس اور گندی چیزوں پر سجدہ کرنے سے خدا کاتقرب حاصل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ان پر سجدہ جائز ہے ونیز عقل سلیم بھی اس کو قبول نہیں کرتی ہے ۔
جبکہ خاص طور سے تاکید کی گئی ہے کہ نماز گزار کا بدن اور اس کا لباس پاک ہو اور وہ ایسی جگہ پر نماز پڑھے جہاں پر کوئی گندگی یا کوڑاکرکٹ وغیرہ نہ ہو وہ قربانی کی جگہ نہ ہو یا پایخانہ اور حمام کی جگہ نہ ہواس جگہ پر اونٹ وغیرہ نہ بیٹھتے ہوں ان جیسی تمام جگہوں پر نماز پڑھنے کے لیے منع کیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ اپنی مساجد کو پاک وصاف اور خشبودار رکھو(۱) ۔
یہ قاعدہ و قانون گذشتہ متقی اورصالح افراد کے یہاں پایا جاتا تھا اگرچہ تاریخ نے اس کو نقل کرنے میں غفلت سے کام لیا ہے ۔
روایت میں ہے کہ ایک صحابی فقیہ مسروق بن اٴجدع تھے ، (جن کی وفات ۶۲ ھجری میں واقع ہوئی ) وہ جب سفر کرتے تھے تو اپنے ساتھ مدینہ سے کچھ مٹی ساتھ لے جاتے تھے اور اس پر سجدہ کرتے تھے ۔ اس روایت کو ابی شیبہ نے اپنی کتاب ”المصنف “ کے اُ س باب میںذکر کیا ہے کہ جب کوئی کشتی کا سفرکرے تو مدینہ سے اپنے ساتھ مٹی لے جائے اور اس پر سجدہ کرے ۔نیز اس روایت کو دو سند وںکے ساتھ نقل کیا ہے کہ جب بھی مسروق بن اجدع کشتی میں سفر کرتے تھے تو اپنے ساتھ مٹی یااس کے جیسی چیزیں سجدہ کرنے کے لیے اپنے ساتھ رکھ لیتے تھے (۲) ۔
یہاں تک واضح ہوگیاکہ شیعہ آسانی کی وجہ سے ہمیشہ سفر اور حضر میں مٹی اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں کیونکہ اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر سفر وحضر میں ان کو پاک زمین یا پاک چٹائی وغیرہ نہ ملے اور ان کے لیے مشکل ہوجائے تو اس پاک و پاکیزہ مٹی پر سجدہ کریں اور اس پر تیمم کریں ۔(۳) ۔
۱۔ سیرتنا وسنتنا : ص ۱۵۸، ۔ ۱۵۹۔
۲۔ المصنف : ج۲، ص ۱۷۲، دار الفکر ، چاپ ۱۴۰۹ھ۔
۳۔ سیمای عقاید شیعہ ، ص ۴۳۳۔