• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خدا کو کس نے پیدا کیا؟ ایک بچگانہ سوال!

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
خدا کو کس نے پیدا کیا؟ ایک بچگانہ سوال!


خدا کو کس نے پیدا کیا؟ ایک بچگانہ سوال!

پہلی بات تو یہ ہے کہ سوال بذات خود اپنے اندر استحالہ عقلی لیئے ہوئے ہے اور اپنی تردید آپ Self Destruction کا ایک مظہر ہے۔ وہ یوں کہ اس طرح کا سوال تو خدا کے بارے میں کیا جارہا ہے۔ لیکن خدا کی اصل صفت کہ وہ خالق اول ہے اور اس کا کوئی خالق نہیں ہوسکتا۔ اس میں سے ہٹا دی گئی۔ اب ظاہر ہے کہ یہ سوال کہ خدا کو کس نے پیدا کیا۔ خدا کے بارے میں نہیں، خالق اول اور علت اولی کے بارے میں نہیں بلکہ غیر خدا، غیر خالق اول یا مخلوق کے بارے میں کیا جارہا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر استحالہ عقل ہے کہ خدا بھی ہو اور مخلوق بھی خالق بھی ہو اور اسے کسی نے پیدا بھی کیا ہو۔ یہ جملہ کہ " خدا کو کس نے پیدا کیا "، اپنے اندر خود اپنی تردید لییئے ہوئے ہے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ میں کسی سیف براق کپڑے کی طرف اشارہ کرکے یہ کہوں ۔" یہ سیاہ رنگ کا کپڑا کتنا خوبصورت ہے۔ یہ سیاہ رنگ کہاں سے کروایا؟
سننے والا یہی کہے گا کہ میاں اپنی نظر ٹھیک کراوؤ، یہ کپڑا سیاہ نہیں بلکہ سفید ہے سیاہی کی صفت اس سفید و براق کپڑے میں تم نے خواہ مخواہ شامل کردی ہے۔ اور اس کی اصل صفت کہ وہ سفید ہے، تم نے ہٹا دی ہے۔ غالباً تم اس کپڑے کی نہیں، کسی اور کپڑے کی بات کررہے ہو۔
یا اس کی مثال یُوں ہے کہ میں کتابوں کی دکان پر جاکر کتابوں کی طرف اشارہ کرکے یہ پوچھوں کہ " یہ کوئلے کیا بھاؤ ہیں۔"
اب ظاہر ہے میں نے کتاب پن کی صفت ہٹا کر " کوئلہ پن " کی صفت شامل کردی ہے اور میرا سوال اپنی جگہ پر بے محل ہے کیونکہ ایک ہی چیز بیک وقت کتاب اور کوئلہ نہیں ہوسکتی۔
بالکل اسی طرح ایک ہی ہستی بیک وقت خدا اور مخلوق نہیں ہوسکتی۔ خدا کے بارے میں یہ سوال کرنا کہ ' اسے کس نے پیدا کیا۔ خدا میں سے خالق اول کی صفت ہٹا کر۔ اسے مخلوق قرار دینے کے مترادف ہے۔ اب یہ سوال کہ " خدا کو کس نے پیدا کیا خدا کے بارے میں نہیں بلکہ فی الحقیقت مخلوق کے بارے میں کیا جارہا ہے۔
اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے ۔ کہ آپ اپنی میز پر ایک کتاب رکھتے ہیں اور اس کے بعد کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اس کمرے میں لوٹ کے آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کتاب میز پر موجود نہں ہے۔ بلکہ میز کی دراز میں رکھی ہوئی ہے۔ آپ کو لازماً یہ یقین آجائے گا کہ اس کمرے میں ضرور کوئی شخص آیا جس نے کتاب کو میز سے اُٹھا کر دراز میں رکھ دی اہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپ جانتے ہیں کہ کتاب کی صفت ہے کہ وہ اپنی جگہ سے خود حرکت نہیں کرسکتی۔ اب آئیے آگے بڑھتے ہیں۔ فرض کیجیئے آپ کے کمرے میں ایک صاحب کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کچھ دیر کے بعد آپ کمرے میں دوبارہ آئے تو وہ بستر پر بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی اس نقل مکانی پر آپ کو کوئی حیرت نہیں ہوگی۔ اور نہ یہ خیال آئے گا کہ ضرور کوئی اور شخص اس کمرے میں آیا ہے جس نے پہلے شخص کو کُرسی سے اٹھا کر بستر پر بٹھا دیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ اچھی طرح سے اس شخص کی اس صفت کو جانتے ہیں کہ وہ از خود کرسی سے بستر پر منتقل ہوسکتا ہے۔ اور اس عمل کے لیے اسے کسی اور کی حاجت نہیں ہے۔
اب دوسرے نقطے کو بھی ذہن میں رکھئے اور ہمارے ساتھ ذرا اور آگے بڑھئیے۔
ہم جانتے ہیں کہ مادی کائنات کی حقیقت اس کتاب سے ملتی جلتی ہے جو نہ خود حرکت کرسکتی ہے اورنہ اپنے آپ کو پیدا یا فنا کرسکتی ہے۔ اس کی تخلیق تنظیم، ترتیب اور بقا کیلئے خالق کا ہونا ضروری ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک کتاب یا کسی مادی شے یا پوری مادی کائنات کی یہ صفت ہے کہ وہ از خود نہ حرکت کرسکتی ہے نہ عملِ تخلیق تو طے ہوا کہ اس کائنات کا وجود خالق و باری تعالی کے بغیر تصور میں نہیں لایا جاسکتا۔
خدا کا وجود مان لینے کے بعد فوراً خدا کی صفات کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔ خدائے تعالی کی صفتِ کمال یہ ہے کہ وہ سب کا خالق ہے اور اسے کسی نے پیدا نہیں کیا۔ وہ از خود موجود ہے اور اپنے وجود کیلئے کسی کا محتاج نہیں ہے جب یہ اس کی بنیادی صفت ٹھری کہ کوئی اس کا خالق نہیں ہوسکتا تو یہ سوال اپنی جگہ پر انتہائی لغو ہے کہ " اسے کس نے پیدا کیا "
ہم نے دیکھا کہ ایک انسان میں۔۔ کرسی پر منتقل ہوکر۔۔۔ بستر پر جا بیٹھنے کی صفت موجود ہے تو ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا نہیں ہوا کہ اس شخص کو کرسی سے بستر پر کس نے منتقل کیا۔ پھر جب خدا کی صفت اصلی یہ ہے کہ کسی کا پیدا کردہ نہیں تو یہ سوال بھی ہمارے زہن میں نہیں پیدا ہونا چاہیئے کہ " خدا کو کس نے پیدا کیا ؟"
تحریر: ڈاکٹر ملک غلام مرتضیٰ
کاتب:ابو عبداللہ
 
Top