السلام علیکم محمد علی جواد بھائی،
یقیناََ یہ بات ایک عام آدمی کو بھت شک میں مبتلا کرتی ھے کہ آخر مھدی کی روایات صحیحین میں کیوں نھی، اور اگر امام بخاری و مسلم رحمہ اللہ کو یہ روایات ملی تو انھوں نے انکو اپنی کتب میں درج کیوں نہیں کیا۔ مگر اگر تھوڑی سی بھی مثبت تحقیق کی جائے تو بات سمجھنا بھت آسان ھو جائیگا۔ در اصل امام بخاری و مسلم نے اپنی کتب میں کھیں بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ ھم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام کی تمام احادیث کو جمع کر لیا ھے، بلکہ انکا دعوی ھے کہ جن احادیث کو انھوں نے اپنی کتب میں درج کیا ھے وہ صرف اور صرف وہ صحیح احادیث ہیں جو ان کے زمانے میں ان تک پہنچ پایئں، اور جو محدثین کہ کڑے اصولوں پر پوری اترتی ہیں۔ ورنہ صرف ایک نماز کو ہی لے لیں، نماز کے کئی مسائل ایسے ہیں جو کہ صحیحین میں موجود نہی۔ اور یہ بات بھی درست نہی کہ باقی جو بھی احادیث انھوں نے اپنی کتب میں درج نہیں کیں وہ ضعیف ہیں یا ان تک پہنچی نہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ھے کہ ان تک بھت سی احادیث ایسی پھنچیں، جن کا متن تو مجروح شائد نا ہو، مگر سند قابل قبول نھیں تھی۔ یا ان کی سند شیخین کی شروط پر پورا نھیں اترتی تھیں، کیونکہ جو شروط امام بخاری نے سند کی جانچ میں عائد کی ہیں، جیسا کہ "راوی کا، جس سے روایت بیان کر رھا ھو،اسکا ہم عصر ھونے کہ ساتھ ساتھ اس سے ملاقات کا بھی ثبوت ھونا چاہئے"۔۔ یہ وہ کڑی شرط ھے جو کہ امام مسلم بھی اپنی صحیح کی روایات پر نا لگا سکے۔ اس لئے بالفرض اگر امام بخاری نے اس شرط پر کچھ احادیث اپنی صحیح میں درج نہیں کی تو اسکا مطلب یہ نھیں کہ وہ ان احادیث کے منکر تھے، یہ وہ انکو ضعیف مانتے تھے، بلکہ جس کتاب کو وہ لکھنا چاہ رھے تھے اس میں موتیوں میں سے چن چن کر وہ ہیرے اکٹھا کرنا چاھتے تھے جو سب سے زیادہ نایاب ھوں۔ یہی وجہ ھے کہ صحیح بخاری کو محدثین نے قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح تر کتاب کا درجہ دیا ھے۔ حدیث اپنی کتاب میں درج کرنا ایک محدث کا ذوق ھوتا ھے۔ جیسا آپ کسی کی بایوگرافی لکھ رھے ھوں تو اس شخص کی زندگی کہ ان اقوال و احوال کو ذکر کرتے ہیں جو آپ تک صحیح ذرائع سے پھنچ پائیں۔ اس کا یہ مطلب ھر گز نہیں کہ جو اقوال آپ نے اپنی کتاب میں درج کئے ہیں، اس کہ علاوہ اس آدمی نے کبھی کچھ بولا ہی نہیں۔ میں نے جو لکھا، بالکل سادہ الفاظ میں بیان کیا اور یقیناََ اپکو با آسانی سمجھ آ جایئگا۔ اور ہو سکتا ھے آپکو کسی بات کی وضاحت کی ضرورت پڑے، آپ کی ہر مطلوب وضاحت کا کھلے دل سے انتظار رھیگا۔
جزاک اللہ۔ والسلام۔
وعلیکم سلام عثمان بھائی -
آپ کی باتوں میں وزن ہے -یہ ضروری نہیں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے باہر جتنی بھی روایات ہیں ان کو ہم رد کر دیں - ظاہر ہے کہ اگر مہدی سے متعلق روایات اصول حدیث کے معیار پر پوری اترتی ہیں تو چاہے وہ ا حدیث کے کسی بھی نسخے میں پائی جائیں -ان کو بہرحال قبول کرنا ضروری ہے -
لیکن اس معاملے میں میں بہتر ہو گا کہ آپ ایک مرتبہ "تحقیق سید و سادات " مصنف محمود احمد عباسی بھی ضرور پڑھ لیں -کسی کے بارے میں اگر آپ شک میں مبتلاہ ہو جاتے ہیں تو بہتر کے اس کے بارے میں پہلے خود تحقیق کرلیں- میں یہ نہیں کہتا کہ مصنف محمود احمد عباسی بہت اعلی پاے کہ عالم فاضل انسان تھے - یہ ضرور ہے کہ اہل عجم کے معاملے میں وہ کچھ تعصّب کا شکار تھے -لیکن پھر بھی تاریخ سے گہری دلچسپی رکھنے کی وجہ سے ان کے اکثر نظریات حقیقت سے بہت قریب ترین نظر آ تے ہیں -
موصوف کے نزدیک مہدی کی روایت اگر چہ کثرت سے احدیث کی کتب میں پائی جاتی ہیں - لیکن ان روایات میں آپس میں بہت تضاد ہے -
ان روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ امام مہدی ایک ظالم مسلمان جو سفیانی ہو گا (حضرت یزید رحمللہ کی نسل سے ہو گا) جنگ کریں گے اور اس کو قتل کریں گے- یعنی بنو امیہ اور بنو ہاشم کی عداوت پھر سے ایک بار ابھر کر سامنے آ ے گی - اور امام مہدی اپنے جد امجد حضرت حسین رضی الله عنہ کی شہادت کا بدلہ اس سفیانی سے لیں گے -
پھر ایک روایت میں ہے کہ حضرت مہدی زمین پر الله کے خلیفہ ہونگے- جب کہ خلافت کا آج کے دور میں دور دور تک پتا نہیں-
پھر ایک روایت میں وہ بنو عبّاس کی نسل میں سے ہونگے -جب کے ایک روایت میں وہ حضرت فاطمہ رضی الله کی اولاد سے ہونگے -
پھر ایک روایت میں ہے کہ الله ان کو صرف ایک دن میں علم و حکمت سے سرفرز کرے گا (الله اپنے ایک بندے کو علم و حکمت سے سرفراز کرے گا چاہے قیامت کے قائم ہونے میں ایک دن رہ گیا ہو ) کیا قرآن کی آیات اوردوسری دیگر احادیث کے مطابق یہ ممکن ہے کہ الله نبی صل الله علیہ وسلم کے ایک امتی کو صرف ایک دن میں علم و حکمت سے نواز دے -جب کہ علم و حکمت کے حصول کے لئے تو سالہا سال محنت کرنی پڑتی ہے -
پھر یہ بھی ایک ،مسلمہ امر ہے کہ ان روایت کی بنیاد پر سبایوں (عبدللہ بن سبا کے پیروکار وں ) نے اور دوسرے بہت سے فاسقین نے پہلی صدی ہجری سے لے کر بیسویں صدی کے آخر تک بڑے بڑے فتنے برپا کیے اور اپنے مفادات کو اس نظریے کی بھینٹ چڑھایا -قریبا ١٥ سے ٢٠ ایسے فاسق پیدا ہوے جنھوں نے اس عقیدے کی بنیاد پر یا تو اپنے آپ کو مہدی ظاہر کیا یا ان کے پروکاروں نے خود ان کو مہدی بنا کر ان کے ہاتھ پر بیت کرلی -
غرض یہ کہ مہدی کی آمد سے متعلق نظریہ ہر دور میں متنزع رہا ہے - ان روایت سے تو یے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سبائی گروہ کی پیدا کردہ روایت ہیں جن کو شہرت حاصل ہونے پر اہل سنّت نے بھی من و عن قبول کر لیا -(واللہ عالم )
بہرحال اگر آپ نے یہ کتاب نہیں پڑھی تو ضرور پڑہیں اور پھر اپنے نظریات سے آ گاہ کریں -
نوٹ : ویسے میں مصنف کے تمام نظریات سے متفق نہیں ہوں -
واسلام