4۔ اَدائیگی عمدہ طریقے سے کی جائے
ادھار میں بیع مکمل ہوتے ہی قیمت مشتری کے ذمے دَیْن(Debt) ہو جاتی ہے لہٰذا مشتری کا فرض ہے کہ وہ طے شدہ مدت کے اندر ادائیگی یقینی بنائے، لیت ولعل یا پس و پیش نہ کرے۔نبی اکرم 1نے قرض کی ادائیگی پر قادر مقروض کی طرف سے ٹال مٹول کو ظلم سے تعبیر فرمایاہے۔ فروخت کنندہ کو بھی چاہیے کہ وہ طے شدہ مدت سے قبل ادائیگی کا مطالبہ نہ کرے۔ اگر خریدار تنگ دست ہو تو قرآنی حکم کے مطابق اس کو فراخ دستی تک مہلت دی جائے، اور اگر کسی وجہ سے بر وقت ادائیگی نہ کرسکے تو جرمانہ وصول نہ کیا جائے، کیونکہ یہ سود کے زمرے میں آتاہے۔
5۔ مارکیٹ ریٹ خراب نہ کریں اور قیمت کا تقرر
بلاشبہ انسان اپنی چیز جس قیمت پر چاہے، فروخت کر سکتا ہے شریعت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جس طرح استحصال اور ظالمانہ منافع خوری منع ہے، اسی طرح نامناسب حد تک قیمتیں کم کر کے مارکیٹ کا توازن خراب کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ چنانچہ امام مالکؒنے اپنی شہرہ آفاق تالیف مؤطا میں حضرت عمر ؓ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے :
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مَرَّ بِحَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَۃَ وَہُوَ یَبِیعُ زَبِیبًا لَہُ بِالسُّوقِ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِمَّا أَنْ تَزِیدَ فِي السِّعْرِ وَإِمَّا أَنْ تُرْفَعَ مِنْ سُوقِنَا [موطأ:کتاب البیوع،باب الحکرۃ والتربص]
’’عمر بن خطاب ؓ حاطب بن ابی بلتعہؓ کے پاس سے گزرے اور وہ بازار میں اپنا منقیٰ بیچ رہے تھے، تو حضرت عمر ؓنے ان سے کہا: یا تو قیمت میں اضافہ کرو یا ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔‘‘
مارکیٹ ریٹ سے بہت کم قیمت رکھنا بھی در اصل اجارہ داری قائم کرنے اور دوسرے تاجروں کا راستہ روکنے کا ایک حربہ ہے، بالخصوص چھوٹے تاجر اس سے بہت زیادہ متأثر ہوتے ہیں اسی وجہ سے حضرت عمر ؓحاطب بن ابی بلتعہ کو انتہائی کم نرخ پر بیچنے سے منع فرمادیا۔
جو حضرات قیمتوںمیں عدم مداخلت کے قائل ہیں، وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ سیدناعمر ؓنے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھاجیساکہ سنن بیہقی میں ہے کہ جب حضرت عمرؓ بازار سے واپس آئے تو اپنا محاسبہ کیااور حاطب بن ابی بلتعہؓ کے گھر تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: یہ میرا فیصلہ نہیں ہے۔ میرا مقصد تو شہر والوں کی بھلائی تھا، ورنہ آپ جہاں چاہیں اور جیسے چاہیں بیچیں۔ [موطا:ج۶؍ص۲۹]
لیکن یہ روایت ثابت نہیںکیونکہ اس کو حضرت عمرؓسے قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں جن کی حضرت عمر سے ملاقات ثابت نہیں۔ [السنن الکبریٰ :ج۷؍ ص۳۸۳، فتح الباری :ج۹؍ص۴۷۸]
باقی جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے کہ ایک مرتبہ نبی 1سے سرکاری طورپر اشیا کے ریٹ مقرر کرنے کی درخواست کی گئی تو آپ نے اتفاق نہ کیااور فرمایا :
إِنَّ اللَّہَ ہُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ [سنن ابو داؤد:باب فی التسعیر،سنن الترمذی :باب ما جاء فی التسعیر]
’’اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا، تنگی، کشادگی کرنے والا اور رازق ہے۔ ‘‘
تو یہ اس تناظر میں فرمایا جب قیمتوںمیں اضافہ فطری اُصول کے تحت ہو رہا ہو، اس میں ناجائز منافع خوری کا عمل دخل نہ ہو۔لیکن اگر تاجرصارفین کے ساتھ صریح زیادتی کر رہے ہوں تو پھر حکومتی مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے،ایسی صورت میں عوام کو تاجروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا مناسب نہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں: ’’تاجروں کی ظالمانہ منافع اندوزی کو کنٹرول کرنا جائز ہے کیونکہ یہ فساد فی الارض ہے۔‘‘ [حجۃ اللہ البالغہ:ج۲؍ ص۱۹۹]