• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خطبہ مسجد نبوی 16/11/1432ھ..14/10/2011ء

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خطبہ مسجد نبوی 16/11/1432ھ..14/10/2011ء

خطیب...صلاح بن محمد البدیر
مترجم...فاروق رفیع (رکن محدث ٹیم)
نوٹ
تمام احباب کےلیے خوشی کی بات ہے کہ الحمدللہ محدث ٹیم نے حرمین شریفین میں ہونےوالوں خطبوں کے جمعوں کاترجمہ کرنا شروع کردیا ہے ۔ان شاءاللہ اللہ کی توفیق اور آپ بھائیوں کی دعاؤں سے محدث ٹیم ہر جمعہ کو اردو میں آپ کےلیے پیش کیا کریں گے۔اور یہ اس کاوش کی پہلی گھڑی ہے۔
خطبہ
سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام مخلوق کوپیدا کرنے والا ہے، خطا کاروں کوبخشنے والا ہے، مخفی گوشوں کو جاننے والا ہے۔ جو دلوں کے پوشیدہ بھید جاننے والا ہے۔ میں اپنے تقصیر کے اعتراف کے باوجود اس کی تعریف کرتا ہوں اور میں اس سے ایسی بخشش کا طلب گار ہوں جو مجھے جہنم سے محفوظ کردے اور میں اسی کی واحدانیت کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ یکتا ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور آپ حکمت و دانائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔
حمد و ثناء کے بعد :
اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تقویٰ بہترین کمائی ہے اور اعلیٰ قربت ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ-(آل عمران102)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسے اس سےڈرنے کا حق ہے اور تمہیں ہرگز موت نہ آئے مگر اس حالت پر کہ تم مسلمان ہو۔‘‘
اےمسلمان بھائیو!
سلف سابقین کے قصے یقیناً عبرت اور نصیحت آموز ہیں جو رشد و ہدایت کا باعث ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے قصص ہمارےلیےمینارہ نور اور دلیل ہیں۔ انبیاء کے قصص کے فوائد میں اللہ تبارک و تعالیٰ کاارشاد ہے، لہٰذا امت کو ان قصص میں غوروخوض کرنے کی بہت ضرورت ہے۔
وَكُلًّا نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ الرُّ‌سُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ ۚ وَجَاءَكَ فِي هَـٰذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَذِكْرَ‌ىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ-(هود102)
ابوالانبیاء او رامام الحنفاء ابراہیم جن کا مقام و مرتبہ نبی کریمﷺ کے بعد سب سے بلندہے ان کا قصہ بے شمار معجزات اور عبرتوں پر مشتمل ہے۔
ابراہیم علیہ السلام وہ جلیل القدر نبی ہیں کہ توحید کی امامت ان سے نتھی ہے۔ یہ سلسلہ ان کے نسب میں باقی ہے او ران کے ذریت تک محدود ہے او ریہ وصف اس اولاد میں سے یعنی ظالم اور سرکشوں کو نصیب نہیں ہوگا ان کے مزید خصائص یہ ہیں کہ ان کو ایسی مقدس خلعت سےنوازا گیا ہے جوکبھی زائل نہیں ہوگی او رآپ کو بلند مرتبہ دیا گیا ہے جس سے کبھی محرومی نہیں ہوئی
اور ان کے بعد نازل ہونے والی ہر آسمانی کتاب ان کی اولاد میں یعنی نبیوں پر نازل ہوئی ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّ‌يَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ-(العنكبوت27)
’’اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب کا سلسلہ جاری کیا۔‘‘
پھر جب ابراہیم علیہ السلام بوڑھے ہوگئے اور سارہ ؑ بانجھ ہوگئیں اور انہیں اس تنہائی سے وحشت محسوس ہوئی تو ابراہیم علیہ السلام نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی کہ اسے صالح جانشین عطا فرما، پھر ہاجرہؑ ان کی زوجیت میں داخل ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اسماعیل علیہ السلام سے نوازا جس کی نسل سے سید ولد آدم او رانتہائی فضائل و مراتب کے حامل ہمارے نبی کریم ﷺ پیدا ہوئے۔ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے صرف آپؐ کو شرف نبوت سے نوازا گیا۔
اسماعیل علیہ السلام کی ولادت پرسارہ ؑ نے کافی تنگی اور گھٹن محسو س کی۔ حتٰی کہ انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو مجبور کیا کہ وہ ہاجرہ کو ان کی نطروں سے اوجھل کردیں۔ یوں ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل علیہ السلام کولےکر اللہ کے حکم سے مختلف منازل طے کرتے ہوئے حرم مکی پہنچے، جو بے آب و گیاہ زمین تھی جہاں ہر طرف وحشت ہی وحشت تھی۔ انسانی وجود کا دور دور تک تصور نہ تھا او ریہاں نہ پانی تھا اور نہ کسی قسم کی نباتات تھیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی اور طفل شیر خوار کوبے سروسامان کے عالم میں چھوڑا کہ ان کے پاس کھجور کے تھیلے او رپانی کی مشک کے سوا کوئی سامان خوردونوش نہ تھا۔ جب ابراہیم علیہ السلام ماں بیٹے کو اس بے آباد جگہ میں چھوڑ کر واپس پلٹے تو اُم اسماعیل نےعرض کیا:
اے ابراہیم علیہ السلام ہمیں اس ویرانے میں کس کے سپرد چھوڑ کر جارہے تو ابراہیم علیہ السلام نےکہا: میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے حوالے کرکے جارہاہوں۔ اُم اسمعیل نے کہا ہم اللہ کے فیصلے پر راضی ہیں کوئی فکر نہیں۔ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ ام اسماعیل علیہا السلام کے اس ایمان و یقین پر آفرین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو انہوں نے بخوشی تسلیم اور انہوں نے اپنی امید اللہ تعالیٰ سے وابستہ کرلی۔ ہماری عورتوں پرلازم ہے کہ ام اسماعیل کو ماڈل بنائیں او ران کی اطاعت و اتباع کے جذبہ سے سرشار ہوں اور مصائب پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
پھر ابراہیم علیہ السلام وہاں سے کبیدہ خاطر پلٹے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی تھے پھر خلوص دل سے اپنے اہل کے لیے ان کلمات سے دعا کی۔
رَّ‌بَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّ‌يَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ‌ ذِي زَرْ‌عٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّ‌مِ رَ‌بَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْ‌زُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَ‌اتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُ‌ونَ -(ابراهيم37)
پھر کچھ دنوں کے بعد ہاجرہ ؑ کے خوردونوش کا سامان ختم ہوگیا۔ بچہ شدید بھوک سے بے حال ہوگیا تو ام اسماعیل کے پاس نہ تو کسی قسم کی خوراک تھی نہ بچے کے ہونٹ تر کرنے کے لی دودھ او رنہ بھوک مٹانے کے لیے پانی و خوراک۔
چنانچہ خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسماعیل علیہ السلام شدیدنڈھال ہوگئے اور سخت بھوک کی وجہ سے زمین پرایڑیاں رگڑنے لگے جیسے جان کنی کا عالم ہو۔ اس بدحالی اور شدید اضطراب کی صورت میں پانی کی تلاش کے لیے اُم اسماعیل ؑ صفا پر چڑھیں کہ ممکن اس طرف کوئی انسان آئے پھر وہ وادی میں دوڑ کر مروہ پرچڑھیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اُم اسماعیل ؑ کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ حجاج کے لیے صفا و مروہ کی سعی مشروع کردی۔
صفا مروہ میں کوئی انسانی آثار او رمددگار نہ پانے کی صورت میں انہوں نے انتہائی آہ و زاری سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس بے بسی کے عالم میں وہ اس کی فریاد سنے او راس کی مدد فرمائے۔ پھر وہ دوڑتی ہوئی اسماعیل علیہ السلام کے پاس پہنچی تو وہاں جبرائیل علیہ السلام موجود تھے اور بچے کی ایڑھیوں کے قریب سے پانی نکل رہا تھا۔ اُم اسماعیل نے جلدی سے اس کے گرد منڈھیر بنا دی ۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ اُم اسماعیل پر رحم کرے اگر آب زم زم کے گرد منڈیر نہ بناتیں تو یہ ایک جاری چشمہ ہوتا۔
وہ مبارک پانی ہے جو زمین کے تمام پانیوں سے بہتر ہے جس کے متعلق
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’یہ بابرکت پانی ہے: یہ بھوکے کی خوراک او رپیاسے کی شفا ہے۔‘‘
پھر بنو جرہم کے لوگ یہاں سے گزرے تو انہوں نے اُم اسماعیل ؑ سے وہ سکونت اختیا رکرنے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے انہیں بخوشی رہنے کی اجازت دی ۔ اسماعیل علیہ السلام نے انہیں سے عربی سیکھی اسی ماحول میں پروان چڑھے حتیٰ کہ جوان ہوگئے پھر اسماعیل علیہ السلام بنو جرہم کو پسند آگئے اورانہوں نے اپنی لڑکی ان سے بیاہ دی۔ اس کے بعد اسماعیل علیہ السلام کو شدید صدمے سے گزرنا پڑا کہ ان کی والدہ ماجدہ وفات پاگئیں جو بہت ہی اوصاف کی حامل تھیں اور ان کی بہترین تربیت فرماتی تھیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام مختلف اوقات میں اپنے بیٹے کی خبرگیری کے لیے مکہ مکرمہ کا رخ کیا کرتے تھے وہ اپنے دل کی تسکین کے لیے ان کے احوال کا پتا لگایا کرتے تھے۔
چنانچہ ایک مرتبہ وہ اپنے بیٹے کی ملاقات کے لیے آئے تو اسماعیل علیہ السلام تیر بنا رہے تھے پھر والد محترم کو دیکھ کر انہوں نے وہی کیا جو نیک اولاد اپنے والدین سے سلوک کرتی اور اُٹھ کر ان سے ملاقات کی۔پھر ابراہیم علیہ السلام نے انہیں توحید کا مرکز قائم کرنے کاکہا جو شرک کی اساس منہدم کردے۔ چنانچہ باپ بیٹا راضی ہوگئے اور ابراہیم بیت اللہ کی بنیادیں اٹھانےلگے ۔اسماعیل علیہ السلام ان کے معاون تھے اورانہیں پتھر ڈھو کر دیتے تھے۔ پھر عمارت کچھ بلند ہوئی تو انہوں نے ایک بڑے پتھر کا انتطام کیا جس پر ننگے قدم ابراہیم دیواریں اٹھانے لگے
اور زبان حال سے یہ دعا کرنے لگے :
رَ‌بَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔(البقرۃ 127)
خلوص دل اور اخلاص سے کی گئی یہ دعا قبول ہوئی کیونکہ کام میں کسی مزدوری وغیرہ کا لالچ نہ تھا۔
پھر جب بیت اللہ کی تعمیر مکمل ہوئی تو انہوں نے حج کی منادی کی۔جس چہار جانب عالم سے لشکروں کے لشکر حج کی سعادت کے لیے مکہ مکرمہ کا رخ کرنے لگے حتیٰ کہ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ دنیابھر کے مسلمان اس مقدس فريضہ کی ادائیگی کے لیے اس ارض مقدسہ کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں رنگ و نسل اور علاقائی فرق کے باوجود تمام لوگ ایک ہی لباس پہنے یہ فريضہ ادا کررہے ہوتے ہیں۔یہ تمام لوگ فطرت اسلام او رکلمہ اخلاص کی خاطر جمع ہوتے ہیں۔ تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں او رایک ہی دین کے تابع ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من صلی صلاتنا و استقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذالک المسلم لہ ذمۃ اللہ و ذمۃ رسولہ۔(بخاری)
’’جس نے ہمارے طریقے کے مطابق نماز پڑھی ۔ ہمارے قبلہ کی طرف رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو یہ شخص مسلمان ہے اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا پیمان حفاظت ہے۔‘‘
یہ بیت مسلمانوں کا قبلہ قرا رپایا جس کی طرف عبادت میں رخ کرنا لازم ہے کسی مسلمان کے لیے زیبا نہیں کہ وہ کسی اور سمت کا انتخاب کرے۔ کیونکہ قبلہ کے لیے وحی نازل ہوئی اور امت کے لیےنبی ﷺ کی اتباع لازم ہے۔جن کے انوار و برکات کیوجہ سے انہیں خیرالأمم ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ہے سو اےاہل اسلام کے ۔تم پرآپؐ کی اتباع لازم ہے اور بیت اللہ کو قبلہ بنانا ، کیونکہ تمہارا قبلہ ہی درست ہے۔تمہارا دین ہی صحیح دین ہے اور تمہارا عقیدہ ہی فطرت کے عین موافق ہے۔لہٰذا اسے لازم پکڑو اور دین سے پھسلنے سے اجتناب کرو۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسرا خطبہ:

سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو بہت بڑا نہایت بلند ہے۔
جس کے انعامات بہت زیادہ ہیں جس کی ذات صفات انتہائی مقدس ہے او روہ کمزوریوں سے پاک اور درود وسلام محمدﷺ پر ہوجو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو عالی صفات سے متصف ہیں۔
اےمسلمانو! اللہ سے ڈرو، کیونکہ تقویٰ سے برکت حاصل ہوتی ہے او رہلاکتوں سے حفاظت ملتی ہے او راچھے انجام تو ایمان والوں ہی کا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب دکھایا گیا او رانبیاء کرام علیہم السلام کے خواب وحی ہوتے ہیں۔
یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی جو پتھروں کو ریزہ ریزہ کردیتی اور مضبوط مردوں کے حوصلے توڑ دیتی ہے کہ ایک عمر رسیدہ بوڑھے شخص کو اپنے جگر گوشے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔اس ہولناک آزمائش پر کون پورا اتر سکتا ہے اور کون سےدل ایسا زخم سہنے کی جرات کرسکتا ہے۔
پھر حضر ت اسماعیل علیہ السلام اپنے والد کے پاس آئے تاکہ ان کاخواب سنیں او راس کڑی آزمائش کی خبر سنیں کہ: اے بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں ، اب تم اپنی رائے دو۔ یہ سن کر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے انتہائی صبر سے اطاعت ربانی کامظاہرہ کرتے ہوئےکہا: ابا جان! جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا ہے اسے کر گزریے، آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں سے پائیں گے، پھر جب باپ بیٹا دونوں راضی ہوگئے اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کی ایک جانب لٹایا او ربیٹے نے باپ سے حکم ربانی کی تعمیل کرنے کا کہا ۔
پھر جب باپ بیٹے کی گردن پر چھری چلانے لگا تو ارحم الرحمٰن نے صدا دی ۔
اے ابراہیم تونے خواب سچ کر دکھایا ہے۔ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح اچھا بدلہ دیتے ہیں۔ یہ بہت بڑی آزمائش تھی ، جسے ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام نے پورا کر دکھایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے عوض میں انہی ایک بڑا ذبیحہ عطا کیا ۔
اس آزمائش سے مقصود ابراہیم علیہ السلام کی تمحیص و تحذیرتھی کیونکہ جب ابراہیم کے دل کی محبت کی چنگاری پیدا ہوئی اور ابراہیم علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا تھا۔ تو اس معیار محبت کو آزمانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بیٹے کےذبح کا حکم دیا، پھر جب وہ انہیں ذبح کرنے لگے تو ثابت ہوگیا کہ ابراہیم علیہ السلام کے دل میں اللہ کی محبت ان کے بیٹے کی محبت سے زیادہ ہے یہ تو ابراہیم علیہ السلام کے دل میں اللہ کی محبت کامعیار تھا
لیکن آج ہمارے دل معشوق کی محبت میں الجھے ہوتے ہیں او ربوسی مزے کے اسیر ہیں جس کی وجہ سے ناختم ہونے والی ذلتیں ہمارا مقدر ٹھہری ہیں حالانکہ اہل اسلام کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت راسخ ہونی چاہیے۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۔(البقرۃ 165)
’’مومنین تو اللہ سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں او رمومنوں کےعلاوہ دیگر دوست روز قیامت ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔‘‘
اس وعظ کوسن کرکس کے دل میں تڑپ پیدا ہوگی او رنادم و خاشع اس سے اصلاح کا سامان پکڑےگا۔ابراہیم علیہ السلام کو تو بیٹے کے ذبح کا حکم ملا تو وہ اس کام کو کرنے کے لیے تیار ہوگئے جبکہ تمہیں تو دین حنیف پرقائم رہنے کا حکم ملا ہے۔اپنی حالت تو دگرگوں ہے جبکہ دین سے اعراض و انحراف کرنے والے کے لیے تباہی ہے اور روز قیامت یہ لوگ ذلیل و حقیر اٹھائے جائیں گے۔ جس دن اللہ تعالیٰ ہر مخلوق کو اس کا پورا اجر دیں گے۔
اہل اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور اسلام میں طریقہ قربانی ، قربانی و جاں نثاری کا سبق دیتا ہے اور آزمائش کے وقت صبر، استقامت کا درس دیتا ہے اور خوشی و غمی میں اللہ تعالیٰ کا دامن تھامنے کی تلقین کرتا ہے۔
اس قصہ میں یہ سبق پنہاں ہے کہ اسلام کی طرف نسبت ہی کافی نہیں بلکہ یہ پختہ ایمان اور یقین کامل کا نام ہے او راللہ تعالیٰ کے سامنے ایسی خود سپردگی ہےکہ احکام دین پرعمل سے کوئی رکاوٹ یا آزمائش نہ روک سکے۔

۔۔۔۔:::::::۔۔۔۔۔​
 
Top