• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خطرے میں اسلام نہیں،خطرہ ہے امریکہ کے یاروں کو

ابوحتف

مبتدی
شمولیت
اپریل 04، 2012
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
318
پوائنٹ
0
اندھیرا جتنا بڑھتا ہے روشنی کی طلب بھی اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے! بہرحال حسن اور اس پہ حسن ظن، ان دونوں کا قیام پاکستانیوں کے ذہن و قلب اور سرزمین وطن پر موجود ہے۔ یہ آنکھیں باطل سے ”لڑیں“ بھی کئی دفعہ، یہود و نصاریٰ کو دکھائیں بھی کئی دفعہ سی آئی اے، را اور موساد بھی اس بات سے آشنا ہیں کہ ”کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ“اور مومن تو پھر مومن ہے بے تیغ بھی لڑتا ہے، اور خوب لڑتا ہے! کسی تمہیدمیں جائے بغیر، پہلے تو حافظ محمد سعید کو مبارکباد دینی ہے کہ، سرحد پار کی زبان کے مطابق تو ”حافظ سعید امر ہو گیا“ پروفیسر سے مجاہد تک کے سفر میں اس پروفیسرنے کئی اعزازات سمیٹے، اسکی گھن گرج کے سامنے کئی بازگشتیں پیوندِ خاک ہو گئیں۔ اپنوں سے لےکر غیروں تک کو اس مجاہد پروفیسر کو چاہنے اور نہ چاہنے کے باوجود بہرحال ماننا پڑا۔ حافظ سعید کو یہ شرف حاصل ہے کہ ، اس نے ایک حافظ، ایک پروفیسر، ایک مومن، ایک مجاہد، اور ایک محب وطن کے تاریخی کرداروں کو نبھایا ہی نہیں انہیں جِلا بھی بخشی ہے۔ اسکے کردار نے عصر حاضر کے علماءکا سر بھی فخر سے بلند کیا ہے، اس نے وہابی دیوبندی، بریلوی اور مسلمانوں کے دیگر مکاتب فکر حتیٰ کہ پورے پاکستان اور عالم اسلام کےلئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ راقم الحروف اس شخصیت کا قائل اس وقت ہوا جب اسکی سرپرستی میں اسکے کارکنان نے 2005ءکے زلزلہ میں بالاکوٹ، ایبٹ آباد، گڑھی حبیب اللہ، مظفر آباد اور کشمیر کے دیگر علاقوں میں جس جس طرح زخموں پر مرہم رکھا اور جیسے جیسے اپنے بھائیوں کو خدمت اور محبت سے نوازا میں نے ایسی مثال اور ایسا جذبہ پہلے کبھی کہیں نہیں دیکھا تھا۔ راقم الحروف کا بچپن، لڑکپن، جوانی اور شعور کا دور مختلف تحریکوں کے اڑوس پڑوس ہی میں گذرا۔ خورد بینی اور دور بینی سے جائزہ شاید راقم الحروف کی فطرت کا حصہ ہے۔ گویا ایک قدم اگر ”مسٹر“ لوگوں میں رہا، تو دوسرا علماءکرام کے سنگ سنگ، وطن عزیز میں جب تک مسٹر اور ملا، محمود اور ایاز، سیاستدان اور عوام ایک صف میں کھڑے نہیں ہوتے تب تک یہودو نصاریٰ، امریکہ شمریکہ، برطانیہ شیطانیہ و شرتانیہ اور بنیا شنیا ہمارے اندر سے میر جعفر اور میر صادق دریافت کرتا رہے گا۔
آج امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے ٹرائیکا کی یہ جرا¿ت ہو گئی ہے کہ وہ حافظ محمد سعید کے سر کی قیمت لگانے بیٹھ گئے ہیں۔ حافظ سعید کا سر اگر انکے سامنے سرتسلیم خم کرتا تو یہی لوگ حافظ صاحب کو اقوام متحدہ یا دیگر بین الاقوامی اداروں میں امن کا سفیر اور مشیر بناتے کیونکہ سعید کا سر ر ب کعبہ کے سامنے سر تسلیم خم ہے، اس کا دل ملت اسلامیہ کےلئے دھڑکتا ہے، اسکی دماغ کی پرتوں میں کشمیریوں کی آزادی کا جذبہ نفوذ ہے لہذا یہ سب چیزیں کفر کی چھاتی پر مونگ دلتی ہیں۔ باطل کے ایوانوں میں جس طرح سعید کے نام سے زلزلہ بپا ہے ہم اسلامی اور جہادی تہلکہ مچا دینے وا لے سعید کو کہتے ہیں کہ ہمارے لئے یہ عید سعید ہے، فتح کی نوید ہے کہ تم سے یہ امریکہ کانپتا ہے اور بھارت تمہارے خلاف امریکہ سے مدد لینے پر مجبور ہوا۔ حافظ سعید کا ”جرم“ یہ ہے کہ وہ کہتا ہے مظلوم اور نہتے کشمیریوں کو قواعد و ضوابط اور وعدوں معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے آزادی سے نوازو مگر باطل کا یہ پاگل پن، کم عقلی اور تعصب ہے کہ وہ ایک نکتے کی غلطی سے ”محرم کو مجرم“ بنا رہے ہیں، اسکی ”دعا کو دغا“ سمجھ رہے ہیں۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ امریکہ اور امریکہ نواز اپنے دماغ کا علاج کروائیں۔ اگر حافظ سعید کو انصاف مانگنے اور امن کی پیامبری کے عوض بین ا لاقوامی مجرم گردانا جاتا ہے تو پھر یہ ایک اعزاز ہے.... اعزاز
سب جورو ستم لطف و کرم پیشِ نظر ہیں
یہ وہم تمہارا ہے کہ بیدار نہیں ہم
سچ تو یہ ہے کہ، تم نے چاہا ہی نہیں چاہنے والوں کی طرح....اسرائیل اور بھارت کو لگام دینے کی ضرورت تھی لیکن اس بین الاقوامی چودھری امریکہ نے چودھراہٹ کی وضح داریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ ”روایتی“ حربہ اپنایا کہ ”کُتی چوروں کےساتھ مل گئی“ کیا امریکہ کو نظر نہیں آتا کہ، حافظ سعید سے قاضی حسین احمد تک، مولانا سمیع الحق سے سید منور حسن تک اور پروفیسر ساجد میر سے صاحبزادہ ابوالخیر تک ، پھر مولانا لدھیانوی سے ڈاکٹر طاہر القادری تک اور مولانا طارق جمیل سے مولانا قادری تک، عہد حاضر کے یہ سب علماءتو دہشت گردی کےخلاف ہیں۔ یہ سبھی امن کے علمبردار اور بین الاقوامی سطح پر بناﺅ کے متلاشی ہیں۔ حکومت پاکستان، سربراہ مملکت، سربراہ حکومت، وزرائے اعلیٰ، وزیر خارجہ، میاں نواز شریف، عمران خان، اسفند یار ولی، پرویز مشرف، الطاف حسین آفتاب شیر پاﺅ، ممتاز بھٹو، بگٹی سرداروں، بلوچ رہنماﺅں اور پختون سیاستدانوں کو فی الفور قلم کاغذ پکڑ کر امریکی صدر، امریکی سیکرٹری خارجہ اور امریکی سفیر کے علاوہ اقوام متحدہ کو خط لکھ کر احتجاج کرنا چاہئے اور ان سے آن ریکارڈ پوچھنا چاہئے کہ آخر ان کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ حافظ سعید پر اس طرح تہمتیں دھریں یا الزامات کی بوچھاڑ کریں۔ خواص و عوام کے جھرمٹ میں رہنے والے حافظ سعید تو سب کے سامنے ہیں، ایک ذمہ دار شہری ہیں، انکے سر کی قیمت اس طرح لگانا جہاں اپنی جگہ ایک قابل مذمت ہے وہاں ایک لطیفہ بھی ہے اور امریکی و بھارتی و اسرائیلی گٹھ جوڑ اور عاقبت نااندیشی پر ہنسی بھی آتی ہے مگر
لاکھ کہتے رہیں وہ چاک گریباں نہ کروں
کبھی دیوانہ بھی پابند ہوا کرتا ہے
تاریخ اٹھا لیں، محمدمصطفی پیغمبر امن نظر آئینگے۔ اسلام پڑھ لیں تو مظلوموں، نہتوں اور معصوموں کےلئے مدد ہے۔ مسلمان تو جنگ و جدل میں بھی ہوش سے غافل نہیں ہوتا، اسلام تو حالت جنگ میں فصلوں اور پھلدار پودوں کو نقصان نہیں پہنچاتا، خواتین بچے اور نہتے تو پھر انسان ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ امر یکہ و برطانیہ کی امت مسلمہ کے حوالے کونسلنگ کی ضرورت ہے۔ کونسلنگ کی ضرورت تو شاید اپنے حکمرانوں کےلئے بھی ہے۔ بہر حال یہ درست ہے کہ ڈرون حملے کرنےوالے، گوانتا ناموبے کو معصوموں اور بےگناہوں سے آباد کرنےوالے ہر معاملے اور مسئلے کو جانتے ہیں مگر تعصب کی عینک نہیں اتارتے پھر بھی کونسلنگ کی ضرورت ہے۔ کم از کم قرانی اور اسلامی باتیں تو ان تک پہنچانا ایک داعی اور مربی کا فرض ہے۔ آج پھر اس امر کی ضرورت ہے کہ اللہ کی رحمت اور فضل سے سب تدبیریں الٹ کر دی جائیں۔ مغرب کو بتا دیا جائے کہ حافظ سعید کے معاملہ کا پس منظر، پیش منظر اور تہہ منظر کیا ہے۔ جوش بھی ضروری ہے لیکن ہوش سے کام لیں کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر خود امریکہ نے ایک دفعہ اجاگر کر دیا۔ اہل علم، علمائے کرام، اشرافیہ، دانشور، صحافی اور حکمران نفاست فصاحت، بلاغت صداقت، شجاعت اور احسن وکالت کےساتھ اس معاملہ کو اسکی نزاکت کےساتھ منظر عام پر لائیں۔ اسلام، اہل اسلام، علمائے کرام اور مجاہدین کو کوئی خطرہ نہیں....
خطرہ ہے زرداروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
خطرہ ہے خوں خواروں کو
امریکہ کے پیاروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
امریکہ ایک سانپ کی مثل ہے جس سے دوستی و دشمنی دونوں ہی خطرناک ہیں۔۔۔۔ ایسے موقع پر مولا حسین علیہ السلام کا یہ فرمان ہمارے لیے چراغ رہنما ثابت ہوگا۔۔۔۔۔ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔۔۔۔


جزاک اللہ خیرا بھائی
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
امریکہ ایک سانپ کی مثل ہے جس سے دوستی و دشمنی دونوں ہی خطرناک ہیں۔۔۔۔
دوستی دنیا اور آخرت کے لیے خطرناک ہے جبکہ
دشمنی میں دنیا اور آخرت کے لیے بھلائی ہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
کفار سے دوستی کی دنیا میں سزا

کفارچونکہ اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں اس لیے ان سے دوستی کرنا دراصل اللہ کے دشمنوں سے دوستی کرنا ہے،کفار کے مطالبات تسلیم کرنا،دراصل اللہ کے دشمنوں کے مطالبات تسلیم کرنا ہے۔کفار کے مفادات کا تحفظ کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے،لہذا اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے جس کی دنیا میں بھی شدید ترین سزا ہے اور آخرت میں اس سے کہیں زیادہ شدید۔ہم قرآن کی آیات کے حوالہ سے ان دونوں سزاؤں کا یہاں الگ الگ تذکرہ کر رہے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے سعد فطرت لوگ اپنے آپ کو اس فتنہ عظیم سے محفوظ رکھنے کی ضرور کوشش کریں گے۔
کفار سے دوسی کی دنیا میں درج ذیل پانچ سزائیں ہیں:

اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے محرومی
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
۞ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ ٱلْيَهُودَ وَٱلنَّصَٰرَىٰٓ أَوْلِيَآءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۢ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿51﴾
ترجمہ: اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا (سورۃ المائدہ،آیت 51)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ جو لوگ اسلام دشمن کافروں سے دوستی کریں گے اللہ تعالیٰ ان ظالموں کی راہنمائی نہیں فرمائیں گے۔اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے محرومی کے بعد کون ہے جو کسی قوم کو خوشحالی یا کامیابی کا راستہ دکھا سکے؟عبرت کے لیے بنی اسرائیل کا واقعہ یاد کر لیجیے جب حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر نکلے تو بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینہ میں خیمہ زن ہوئے،اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب تم لوگ ارض مقدس یعنی فلسطین پر فوج کسی کرو تم لوگ فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل ہو گے،بنی اسرائیل نے جہاد کرنے سے انکار کر دیا،کہنے لگے
فَٱذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَٰتِلَآ إِنَّا هَٰهُنَا قَٰعِدُونَ ﴿24﴾
ترجمہ: پس تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو ہم یہیں بیٹھے رہیں گے (سورۃ المائدہ،آیت 24)
اللہ تعالیٰ نےانہیں اس نافرمانی کی سزا یہ دی کہ اپنی رہنمائی سے محروم فرما دیا ۔ارشاد فرمایا:
قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْبَعِينَ سَنَةًۭ ۛ يَتِيهُونَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ فَلَا تَأْسَ عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْفَٰسِقِينَ ﴿26﴾
ترجمہ: اللہ نے فرمایا کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لیے حرام کر دیا گیا (کہ وہاں جانے نہ پائیں گے اور جنگل کی) زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے تو ان نافرمان لوگوں کے حال پر افسوس نہ کرو (سورۃ المائدہ،آیت 26)
اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے محروم ہونے کے بعد چھ لاکھ افراد پر مشتمل یہ قوم صرف نوے (90)میل لمبے اور ستائیس (27) میل چوڑے علاقے سے مسلسل چالیس سال تک نکلنے کا راستہ تلاش کرتی رہی لیکن تلاش نہ کر سکی وہی جگہ جہاں سے بیسیوں مرتبہ گزر کر وہ اپنے ملک مصر جا چکے تھے ،واپس مصر جانے کے لیے راستہ تلاش کرتے تو مصر کا راستہ بھی نہ پا سکے۔ہوتا یہ کہ سارا دن سفر کرتے رہتے جب شام ہوتی تو معلوم ہوتا کہ پھر پھرا کر وہیں آ گئے ہیں جہاں صبح کے وقت تھے۔
ان چالیس سالوں کے دوران حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل کے وہ بزدل افراد ،جو جہاد سے جی چرانے والے تھے ،مرکھپ گئے،جذبہ جہاد سے سرشار نئی نوجوان نسل تیار ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا ان کی قیادت میں مجاہدین نے فوج کشی کی اور فاتح کی حیثیت سے ارض مقدس میں داخل ہوئے۔(معارف القرآن)
کسی قوم کو اللہ تعالیٰ کا اپنی رہنمائی سے محروم فرمادینا ،بڑی سخت سزا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے محروم ہونے کے بعد وہ قوم اسی طرح بے منزل،بے ٹھکانہ اور بے مقصد سرگرداں پھرتی رہے گی جس طرح بنی اسرائیل پھرتی رہی۔
مَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَلَا هَادِىَ لَهُۥ ۚ
ترجمہ: جسے الله گمراہ کر دے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں (سورۃ الاعراف،آیت 186)
اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محرومی
اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے دوستی اور اتحاد کرنے کی دوسری سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنی نصرت سے محروم کر دیتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَئِنِ ٱتَّبَعْتَ أَهْوَآءَهُم بَعْدَ ٱلَّذِى جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا نَصِيرٍ ﴿120﴾
ترجمہ: اور اگر تم نے ان کی خواہشوں کی پیروی کی اس کے بعد جو تمہارے پاس علم آ چکا تو تمہارے لیے الله کے ہاں کوئی دوست اور مددگار نہیں ہوگا (سورۃ البقرۃ،آیت 120)
اللہ تعالیٰ نے یہ بات رسول اکرم ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی ہے کہ اگر آپ ﷺ نے یہودونصاری کی باتیں مانیں اور ان کے مطالبات تسلیم کیے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو جاؤ گے اور کوئی دوسرا تمہاری مدد نہیں کر سکے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَّا يَتَّخِذِ ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلْكَٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ ٱللَّهِ فِى شَىْءٍ
ترجمہ: مؤمنوں کو چاہئے کہ مؤمنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے اللہ کا کچھ (عہد) نہیں (سورۃ آل عمران،آیت 28)
جس قوم سے اللہ تعالیٰ اپنی نصرت اٹھا لیں اور اپنا تعلق ختم کر لیں اور اپنی رہنمائی سے محروم کر دیں اس کی مثال اس شخص سے مختلف کیسے ہو سکتی ہے جو اندھا بھی ہو،بہرا بھی ہو،گونگا بھی ہو اور کوئی دوسرا اس کی مدد کرنے والا بھی نہ ہو کیا ایسا شخص کبھی اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کا تصور کر سکتا ہے؟

خسارہ ہی خسارہ
یہ کفار سے دوستی کرنے اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے کی تیسری سزا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن تُطِيعُوا۟ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَٰبِكُمْ فَتَنقَلِبُوا۟ خَٰسِرِينَ﴿149﴾
ترجمہ: مومنو! اگر تم کافروں کا کہا مان لو گے تو وہ تم کو الٹے پاؤں پھیر کر (مرتد کر) دیں گے پھر تم بڑے خسارے میں پڑ جاؤ گے (سورۃ آل عمران،آیت 149)
خسارے میں مبتلا ہونے سے مراد یہاں زندگی کے کسی ایک پہلو میں خسارہ نہیں بلکہ ہر طرح کا خسارہ ہے۔عقائد و نظریات میں خسارہ ،تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت میں خسارہ ،اخلاق و کردار میں خسارہ ،عزت و وقار میں خسارہ،امن و سلامتی میں خسارہ،معاشی اور اقتصادی خسارہ،غرض زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں رہے گا جس میں مسلمان خسارے سے دوچار نہ ہوں۔
خسارے کے بارے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ خسارے کا مطلب ہمیشہ اعداد و شمار کا خسارہ نہیں ہوتا عین ممکن ہے ہے کہ اعداد و شمار کے اعتبار سے ملک کا خزانہ بھرا ہوا ہو لیکن اس کے مقابل آفات سماوی،طوفان،زلزلے،بیماریاں،قحط سالی وغیرہ اس کثرت سے آئیں کہ بھرا ہوا خزانہ بھی ان سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہو۔ایسی صورت حال بھی درحقیقت خسارہ ہی ہے جو اعداد و شمار میں نظر آنے والے خسارے سے کہیں زیادہ خطرناک خسارہ ہے۔جس قوم کو اللہ تعالیٰ خسارے سے دوچار کر دے اسے ساری دنیا مل کر بھی نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی۔رسول اکرم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ نصیحت فرمائی تھی (حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے) "اللہ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت کر،اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا۔اللہ تعالیٰ کو یاد کر تو اسے اپنے پاس پائے گا۔سوال کرنا ہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے کر۔مدد مانگنی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے مانگ اور اچھی طرح جان لے اگر سارے لوگ تھے نفع پہنچانے کے لیے اکھٹے ہو جائیں تو کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جوالہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سارے لوگ تجھے نقصان پہنچانے کے لیے اکھٹے ہو جائیں تو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔"(ترمذی)

ذلت اور رسوائی
کفار سے دوستی کی چوتھی سزا دنیا میں ذلت اور رسوائی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ٱلَّذِينَ يَتَّخِذُونَ ٱلْكَٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ ٱلْعِزَّةَ فَإِنَّ ٱلْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًۭا﴿139﴾
ترجمہ: جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عزت تو سب اللہ ہی کی ہے (سورۃ النساء،آیت 139)
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کفار سے دوستی کر کے ہمیں عزت اور وقار حاصل ہو گا اللہ تعالیٰ انہیں خبردار فرما رہے ہیں ،سنو! عزت اور ذلت میرے ہاتھ میں ہے عزت اور وقار کا مالک میں ہوں ،لہذا جو لوگ میرے دشمنوں سے دوستی کر کے عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ذلیل اور رسوا ہوں گے اور وقار وہی پائے گا جو میری طرف رجوع کرے گا
وَمَن يُهِنِ ٱللَّهُ فَمَا لَهُۥ مِن مُّكْرِمٍ ۚ
ترجمہ:اور جسے الله ذلیل کرتا ہے پھر اسے کوئی عزت نہیں دےسکتا (سورۃ الحج،آیت 18)
یہ بات یاد ہے کہ کفار کی اس دنیا میں شان و شوکت اور عزت بالکل عارضی اور ناپائیدار ہے اس سے کسی مسلمان کو دھوکہ نہیں کھانا چاہیے اس دنیا کے بعد آخرت میں ان کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کی ذلت اور رسوائی ہو گی،لہذا ان سے حاصل کی ہوئی عزت اور وقار بھی عارضی اور ناپائیدار ہو گا۔پھر آخرت میں ان کفار کے ساتھ ان کے دوستوں کے لیے بھی ہمیشہ ہمیشہ کی ذلت اور رسوائی ہو گی جبکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عزت دنیا سے لے کر آخرت تک دائمی اور حقیقی عزت ہے جس کے بعد کسی کو ذلت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے :
انه لا يذل من واليت ولايعز من عاديت
"بے شک جسے اللہ دوست رکھے وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا اور جس سے اللہ تعالیٰ دشمنی رکھے وہ کبھی عزت حاصل نہیں کرتا۔"(نسائی)
ندامت اور پشیمانی
کفار سے دوستی کرنے والوں کے لیے پانچویں سزا یہ ہے کہ انہیں اس دنیا میں ہی کفار سے دوستی پر ندامت اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَتَرَى ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌۭ يُسَٰرِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰٓ أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَةٌۭ ۚ فَعَسَى ٱللَّهُ أَن يَأْتِىَ بِٱلْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍۢ مِّنْ عِندِهِۦ فَيُصْبِحُوا۟ عَلَىٰ مَآ أَسَرُّوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ نَٰدِمِينَ ﴿52﴾
ترجمہ: تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان میں دوڑ دوڑ کے ملے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے سو قریب ہے کہ اللہ فتح بھیجے یا اپنے ہاں سے کوئی اور امر (نازل فرمائے) پھر یہ اپنے دل کی باتوں پر جو چھپایا کرتے تھے پشیمان ہو کر رہ جائیں گے (سورۃ المائدہ،آیت 52)
آیت کریمہ میں ان مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے جو اپنے آپ کو کسی مصیبت سے بچانے کے لیے کافروں سے دوستی کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر ہم کسی نہ کسی مصیبت میں پھنس جائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (جس کا مفہوم ہے) کہ جب ہم اہل ایمان کی نصرت کریں گے اور انہیں فتح عطا فرمائیں گے۔اس وقت یہ لوگ ندامت اور پشیمانی سے دوچار ہوں گے۔اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق اور سچ ہے۔جس طرح رات کے بعد سحر کا طلوع ہونا لازمی امر ہے اسی طرح مجاہدین کی قربانیوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی نصرت کا آنا اور حالات کا بدلنا لازمی امر ہے۔اُس وقت رات کی تاریکی پر خوش ہونے والے اور طلوع سحر کا انکار کرنے والے یقینا نادم اور شرمندہ ہوں گے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ کفار سے دوستی کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ پانچ سزائیں دنیا میں رکھی ہیں:
(1) اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے محرومی
(2) اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محرومی
(3) ہر لحاظ سے خسارہ ہی خسارہ
(4) ذلت اور رسوائی
(5) ندامت اور پشیمانی
اللہ تعالیٰ کے ارشادات کسی تصدیق یا تائید کے محتاج نہیں
وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ ٱللَّهِ قِيلًۭا﴿122﴾
ترجمہ: اور اللہ سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے (سورہ النساء،آیت 122)
تاہم وطن عزیز نے 11گزشتہ 11 ستمبر کے بعد کفار کے ساتھ دوستی کا جو نیاسفر شروع کیا ہے اس کے نتائج دیکھ کر ہر صاحب بصیرت یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ زمینی حقائق کے مقابلہ میں آسمانی حقائق کس قدر ٹھوس اور سچے ہیں۔لمحہ بھر کے لیے پاکستان کی مشرق اور مغرب ،جنوب اور شمال کی سرحدوں پر ایک نظر ڈال کر دیکھ لیجیے اور اندرون ملک دینی،سیاسی،اقتصادی،معاشرتی اور اخلاقی اعتبار سے نیز امن و سلامتی کے حوالے سے حالات کا جائزہ لے کر غور فرمائیے مذکورہ بالا پانچ سزاؤں میں سے کون سی ایسی سزا ہے جس سے آج پاکستان بچا ہوا ہے؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور تاریخ کی شہادت سے کوئی سبق حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں یا ہمارے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلْقُرْءَانَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَآ ﴿24﴾
ترجمہ: پھر کیوں قرآن پر غور نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں (سورۃ محمد ،آیت 24)
کتاب "دوستی اور دشمنی کتاب وسنت کی روشنی میں" از محمد اقبال کیلانی سےاقتباس
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
کفار سے دوستی کی سزا

کفار سے دوستی کرنے والوں کے لیے عذاب الیم کی بشارت ہے

بَشِّرِ ٱلْمُنَٰفِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿138﴾ٱلَّذِينَ يَتَّخِذُونَ ٱلْكَٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ ٱلْعِزَّةَ فَإِنَّ ٱلْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًۭا﴿139﴾
ترجمہ: (اے پیغمبر) منافقوں (یعنی دو رخے لوگوں) کو بشارت سناد دو کہ ان کے لئے دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عزت تو سب اللہ ہی کی ہے (سورۃ النساء،آیت 138-139)
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ تَوَلَّوْا۟ قَوْمًا غَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيْهِم مَّا هُم مِّنكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى ٱلْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿14﴾أَعَدَّ ٱللَّهُ لَهُمْ عَذَابًۭا شَدِيدًا ۖ إِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿15﴾
ترجمہ: بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ایسوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر اللہ کا غضب ہوا۔ وہ نہ تم میں ہیں نہ ان میں۔ اور جان بوجھ کر جھوٹی باتوں پر قسمیں کھاتے ہیں اللہ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ یہ جو کچھ کرتے ہیں یقیناً برا ہے (سورۃ المجادلہ،آیت 14-15)
تَرَىٰ كَثِيرًۭا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِى ٱلْعَذَابِ هُمْ خَٰلِدُونَ ﴿80﴾
ترجمہ: تم ان میں سے بہتوں کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں انہوں نے جو کچھ اپنے واسطے آگے بھیجا ہے برا ہے (وہ یہ) کہ اللہ ان سے ناخوش ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں (مبتلا) رہیں گے (سورۃ المائدہ،آیت80)
کفار سے دوستی کسی بھی وقت اللہ کے عذاب کا باعث بن سکتی ہے

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ ٱلْكَٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا۟ لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَٰنًۭا مُّبِينًا ﴿144﴾
ترجمہ: اے اہل ایمان! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے خلاف (عذاب کے لیے) واضح ثبوت دے دو؟ (سورۃ النساء،آیت144)
کفار سے دوستی کرنے والوں کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں

لَّا يَتَّخِذِ ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلْكَٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ ٱللَّهِ فِى شَىْءٍ إِلَّآ أَن تَتَّقُوا۟ مِنْهُمْ تُقَىٰةًۭ ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ ٱللَّهُ نَفْسَهُۥ ۗ وَإِلَى ٱللَّهِ ٱلْمَصِيرُ ﴿28﴾
ترجمہ: مؤمنوں کو چاہئے کہ مؤمنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے اللہ کا کچھ (عہد) نہیں ہاں اگر اس طریق سے تم ان (کے شر) سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو (تو مضائقہ نہیں) اور اللہ تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف (تم کو) لوٹ کر جانا ہے (سورۃ آل عمران،آیت28)
کافروں سے دوستی کرنے والوں کا قیامت کے روز انجام بھی کافروں کے ساتھ ہو گا۔
کافروں سے دوستی کرنے والے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔


يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ ٱلْيَهُودَ وَٱلنَّصَٰرَىٰٓ أَوْلِيَآءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۢ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿51﴾
ترجمہ: اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا (سورۃ المائدہ،آیت51)
کافروں سے دوستی کرنے والے ایمان سے محروم ہو جائیں گے۔

وَلَوْ كَانُوا۟ يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلنَّبِىِّ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا ٱتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَآءَ وَلَٰكِنَّ كَثِيرًۭا مِّنْهُمْ فَٰسِقُونَ﴿81﴾
ترجمہ: اور اگر وہ اللہ پر اور پیغمبر پر اور جو کتاب ان پر نازل ہوئی تھی اس پر یقین رکھتے تو ان لوگوں کو دوست نہ بناتے لیکن ان میں اکثر بدکردار ہیں (سورۃ المائدہ،آیت81)
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن تُطِيعُوا۟ فَرِيقًۭا مِّنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ يَرُدُّوكُم بَعْدَ إِيمَٰنِكُمْ كَٰفِرِينَ﴿100﴾
ترجمہ: مومنو! اگر تم اہلِ کتاب کے کسی فریق کا کہا مان لو گے تو وہ تمھیں ایمان لانے کے بعد کافر بنا دیں گے (سورۃ آل عمران،آیت100)
کفار سے دوستی کا انجام ندامت اور پشیمانی ہے۔

فَتَرَى ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌۭ يُسَٰرِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰٓ أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَةٌۭ ۚ فَعَسَى ٱللَّهُ أَن يَأْتِىَ بِٱلْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍۢ مِّنْ عِندِهِۦ فَيُصْبِحُوا۟ عَلَىٰ مَآ أَسَرُّوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ نَٰدِمِينَ ﴿52﴾
ترجمہ: تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان میں دوڑ دوڑ کے ملے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے سو قریب ہے کہ اللہ فتح بھیجے یا اپنے ہاں سے کوئی اور امر (نازل فرمائے) پھر یہ اپنے دل کی باتوں پر جو چھپایا کرتے تھے پشیمان ہو کر رہ جائیں گے (سورۃ المائدہ،آیت52)
کفار کےکلچر اور تہذیب و تمدن کو پسندیدگی کی نگاہ دے دیکھنا بھی جہنم میں جانے کا باعث بن سکتا ہے۔

وَلَا تَرْكَنُوٓا۟ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنْ أَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴿113﴾
ترجمہ: اوران کی طرف مت جھکو جو ظالم ہیں پھر تمہیں بھی آگ چھوئے گی اور الله کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے پھر کہیں سے مدد نہ پاؤ گے (سورۃ ھود،آیت13)
کفار سے دوستی کرنے والے دنیا اور آخرت میں خسارے میں رہیں گے۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن تُطِيعُوا۟ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَٰبِكُمْ فَتَنقَلِبُوا۟ خَٰسِرِينَ﴿149﴾
ترجمہ: مومنو! اگر تم کافروں کا کہا مان لو گے تو وہ تم کو الٹے پاؤں پھیر کر (مرتد کر) دیں گے پھر تم بڑے خسارے میں پڑ جاؤ گے (سورۃ آل عمران،آیت149)
کفار سے براءت نہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ ٱلْيَهُودُ وَلَا ٱلنَّصَٰرَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى ٱللَّهِ هُوَ ٱلْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ ٱتَّبَعْتَ أَهْوَآءَهُم بَعْدَ ٱلَّذِى جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا نَصِيرٍ ﴿120﴾
ترجمہ: اورتم سے یہود اور نصاریٰ ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک کہ تم ان کے دین کی پیروی نہیں کرو گے کہہ دو بے شک ہدایت الله ہی کی ہدایت ہے اور اگر تم نے ان کی خواہشوں کی پیروی کی اس کے بعد جو تمہارے پاس علم آ چکا تو تمہارے لیے الله کے ہاں کوئی دوست اور مددگار نہیں ہوگا (سورۃ البقرۃ،آیت120)
کتاب "دوستی اور دشمنی کتاب وسنت کی روشنی میں" از محمد اقبال کیلانی سےاقتباس​
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
کفار سے دوستی کی سزا

کفار سے دوستی کرنے والوں کے لیے عذاب الیم کی بشارت ہے

بَشِّرِ ٱلْمُنَٰفِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿138﴾ٱلَّذِينَ يَتَّخِذُونَ ٱلْكَٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ ٱلْعِزَّةَ فَإِنَّ ٱلْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًۭا﴿139﴾

أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ تَوَلَّوْا۟ قَوْمًا غَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيْهِم مَّا هُم مِّنكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى ٱلْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿14﴾أَعَدَّ ٱللَّهُ لَهُمْ عَذَابًۭا شَدِيدًا ۖ إِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿15﴾

تَرَىٰ كَثِيرًۭا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِى ٱلْعَذَابِ هُمْ خَٰلِدُونَ ﴿80﴾

کفار سے دوستی کسی بھی وقت اللہ کے عذاب کا باعث بن سکتی ہے

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ ٱلْكَٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا۟ لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَٰنًۭا مُّبِينًا ﴿144﴾

کفار سے دوستی کرنے والوں کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں

لَّا يَتَّخِذِ ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلْكَٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ ٱللَّهِ فِى شَىْءٍ إِلَّآ أَن تَتَّقُوا۟ مِنْهُمْ تُقَىٰةًۭ ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ ٱللَّهُ نَفْسَهُۥ ۗ وَإِلَى ٱللَّهِ ٱلْمَصِيرُ ﴿28﴾

کافروں سے دوستی کرنے والوں کا قیامت کے روز انجام بھی کافروں کے ساتھ ہو گا۔
کافروں سے دوستی کرنے والے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔


يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ ٱلْيَهُودَ وَٱلنَّصَٰرَىٰٓ أَوْلِيَآءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۢ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿51﴾

کافروں سے دوستی کرنے والے ایمان سے محروم ہو جائیں گے۔

وَلَوْ كَانُوا۟ يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلنَّبِىِّ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا ٱتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَآءَ وَلَٰكِنَّ كَثِيرًۭا مِّنْهُمْ فَٰسِقُونَ﴿81﴾

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن تُطِيعُوا۟ فَرِيقًۭا مِّنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ يَرُدُّوكُم بَعْدَ إِيمَٰنِكُمْ كَٰفِرِينَ﴿100﴾

کفار سے دوستی کا انجام ندامت اور پشیمانی ہے۔

فَتَرَى ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌۭ يُسَٰرِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰٓ أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَةٌۭ ۚ فَعَسَى ٱللَّهُ أَن يَأْتِىَ بِٱلْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍۢ مِّنْ عِندِهِۦ فَيُصْبِحُوا۟ عَلَىٰ مَآ أَسَرُّوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ نَٰدِمِينَ ﴿52﴾

کفار کےکلچر اور تہذیب و تمدن کو پسندیدگی کی نگاہ دے دیکھنا بھی جہنم میں جانے کا باعث بن سکتا ہے۔

وَلَا تَرْكَنُوٓا۟ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنْ أَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴿113﴾

کفار سے دوستی کرنے والے دنیا اور آخرت میں خسارے میں رہیں گے۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن تُطِيعُوا۟ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَٰبِكُمْ فَتَنقَلِبُوا۟ خَٰسِرِينَ﴿149﴾

کفار سے براءت نہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ ٱلْيَهُودُ وَلَا ٱلنَّصَٰرَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى ٱللَّهِ هُوَ ٱلْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ ٱتَّبَعْتَ أَهْوَآءَهُم بَعْدَ ٱلَّذِى جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا نَصِيرٍ ﴿120﴾

کتاب "دوستی اور دشمنی کتاب وسنت کی روشنی میں" از محمد اقبال کیلانی سےاقتباس​
کاش یہ تمام آیات قرآنی سن ١٩٨٠ میں نازل ہوجاتی تو ہم سویت یونین کے خلاف ڈٍالر کے لالچ میں امریکہ سے دوستی نہیں کرتے
 
Top