خلافت عثمانیہ مسلمانوں کی حکومت تھی ، جن عقائد کا ذکر کیا گیا ہے ، وہ انہیں کفر و شرک نہیں سمجھتے تھے ، اس لیے وہ اس میں ملوث رہے ، میرےخیال میں ان مسائل میں اختلاف کی بنیاد پر خلاف عثمانیہ کو دولۃ کافرہ کہنا مناسب نہیں ۔
اسی قسم کا رویہ کچھ لوگوں کا سعودیہ کے بارے میں ہے ، وہ اس کے حکام اور علماء کی تکفیر کرتے ہیں ، کہ انہوں نے مقدس ہستیوں کے مزارات کو تہس نہس کیا ، اور کچھ عرصے سے ان کی کافروں کے ساتھ دوستیاں یاریاں چل رہی ہیں ۔
مسائل میں اس انداز کی سوچ کا حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت ایک دوسرے کے ہاں کافر بن جاتی ہے ۔ اور آپس کی اس کھینچا تانی میں ’ اصلی کافروں ‘ سے یا تو نرم گوشہ پیدا ہوجاتا ہے ، یا پھر كم از كم ان كی چالبازیوں سے ہم غافل رہ جاتے ہیں ، بلکہ بعض دفعہ بدنصیبی اس انتہا کو پہنچتی کہ ہم ایک کلمہ گو ( جسے ہم کافر سمجھتے ہیں ) کے خلاف پکے ٹھکے کافر کے ساتھ شعوری یا لاشعوری طور پر مل جاتے ہیں ۔
باقی یہ بات درست ہے کہ خلافت عثمانیہ میں شرکیات ، بدعات و خرافات کی کثرت تھی ، جبکہ سعودی حکومت کا قیام توحید و سنت کے احیا کا بہت بڑا ذریعہ بنا ہے ۔
وسئل الشيخ عبد الله بن عبد اللطيف، عمن لم يكفر الدولة، ومن جرهم على المسلمين، واختار ولايتهم وأنه يلزمهم الجهاد معه; والآخر لا يرى ذلك كله، بل الدولة ومن جرهم بغاة، ولا يحل منهم إلا ما يحل من البغاة، وأن ما يغنم من الأعراب حرام؟
فأجاب: من لم يعرف كفر الدولة، ولم يفرق بينهم وبين البغاة من المسلمين، لم يعرف معنى لا إله إلا الله،؛ فإن اعتقد مع ذلك: أن الدولة مسلمون، فهو أشد وأعظم، وهذا هو الشك في كفر من كفر بالله، وأشرك به; ومن جرهم وأعانهم على المسلمين، بأي إعانة، فهي ردة صريحة.
شیخ عبداللطیف رحمہ ﷲ سے سوال کیا گیا کہ جو لوگ ترکی حکومت کو کافر نہیں سمجھتے اور ان کو بھی جنہوں نے ان کو مسلمانوں پر مسلط کیا ان کی دوستی کو ترجیح دی اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کو جائز سمجھتا ہے جب کہ دوسرا شخص ایسا نہیں سمجھتا بلکہ وہ حکومت اور ان کو بلانے والے ان کی مدد کرنے والوں کو باغی سمجھتا ہے ان کے لیے وہی کچھ جائز قرار دیتا ہے جو باغیوں کے ساتھ ہونا چاہیے شیخ رحمہ ﷲ نے جواب دیا جس نے اس حکومت کے کفر کو نہیں جانا ان کے اور مسلمان باغیوں کے درمیان فرق نہیں کیا تو اس نے لاالٰہ الاﷲ کا معنی ہی نہیں سمجھا اور اگر اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی عقیدہ رکھا کہ یہ حکومت مسلمان ہے انہیں مسلمانوں پر مسلط کرنے والے ان کی کسی قسم کی مدد کرنے والے واضح مرتد ہیں۔ (الدررالسنیۃ:629/10)
(ترجمہ منقول)
وقال الشيخ عبد الله ، والشيخ إبراهيم أبناء الشيخ عبد اللطيف ، والشيخ سليمان بن سحمان ، في الإجابة على سؤال ورد عليهم :
( لا تصح إمامة من لا يُكفِّر الجهمية والقبوريين ، أو يشك في تكفيرهم ، وهذه المسألة من أوضح الواضحات ، عند طلبة العلم…
ومع ذلك فأهل العلم متفقون على تكفيره ـ يعنون بِشر المريسي ـ وكذلك القبوريون لا يشك في كفرهم ، من شمَّ رائحة الإيمان ) الدرر السنية 10 / 436
شیخ عبد ﷲ اور شیخ ابراہیم ، شیخ سلیمان بن سحمان رحمہم ﷲ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں اس شخص کی امامت صحیح نہیں جو جہمیہ اور قبر پرستوں کو کافر نہیں سمجھتا یا ان کے کفر میں شک کرتا ہے۔ (آج ایسے بہت سے امام مسجد سنبھالیے بیٹھے ہیں) یہ سب سے واضح ترین مسئلہ ہے اہل علم ایسے شخص کے کفر پر متفق ہیں یعنی بشر بن مریسی کے کفر پراسی طرح قبر پرستوں کے کفر میں کوئی بھی ایسا شخص شک نہیں کرسکتا جس میں ذرا سا بھی ایمان ہو ۔ (الدررالسنیۃ:437-438/ 10)
(ترجمہ منقول)