السلام علیکم،
سپاہ محمد بھائی،
اب ہماری بھی گزارشات سن لیں:
۱۔ اگرچہ ابو بکر، عمر و عثمان کے نام سے کئی ایک صحابہ کے نام تھے، لیکن کیا یہ بات درست نہیں کہ دیگر نام ممتاز نہ تھے اور معروف تو یہی خلفاء ہی تھے۔ اور آپ کا یہ فرمان کہ:
جب اتنے سارے اصحاب کا اسم گرامی ابو بکر ، عمر و عثمان تھا تو اہلسنت کے پاس یہ وحی کہاں سے آ گئی کہ مولا علی نے شیخین کی محبت میں اپنے بچوں کا یہ نام رکھا۔ اس کے لئے کوئی واضح صحیح تاریخی ثبوت درکار ہے۔
انتہائی بچکانہ ہے۔ ارے بھائی، آپ ہی ثابت کر دیں کہ انہوں نے شیخین کی محبت میں نہیں بلکہ دیگر دستیاب ابو بکر، عمر و عثمان میں سے فلاں کی شدید محبت میں اپنے بچوں کے یہ نام رکھے؟ اور یہ علی رضی اللہ عنہ کی یہ محبت اتنی شدید تھی کہ انہوں نے (معاذاللہ) اپنے دشمنوں کے ناموں سے یکسانیت کے باوجود بچوں کے نام وہی رکھے۔ اصول ہے کہ لوگ معروف شخصیات کے ناموں پر نام رکھتے ہیں۔ اگر اسی نام سے دیگر غیر معروف لوگ موجود بھی ہوں تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ نام سنتے ہی معروف شخصیت ہی ذہن میں آئے گی۔ مثلاً صحابہ میں علی نام کے دیگر اصحاب بھی موجود تھے۔ تو آپ حضرات جو اپنے بچوں کے نام کے ساتھ علی یا حسن یا حسین نام رکھتے ہیں تو ان سے آپ کی مراد بھی اس معروف شخصیت (رضی اللہ عنہ) ہی کی جانب نسبت ہوتی ہے اور دیگر سننے والے بھی اسی معروف شخصیت ہی کو مراد لیتے ہیں۔ لہٰذا یا تو آپ ثابت کیجئے کہ صحابہ میں خلفائے ثلاثہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ جتنی ہی معروف شخصیات انہی ناموں سے موجود تھیں۔ جن کے نام سے دیگر لوگ اور خصوصاً حضرت علی رضی اللہ عنہ نسبت کرنا قابل فخر سمجھتے تھے۔ اور یا اپنا طفلانہ اعتراض واپس لیجئے۔
۲۔ دوسری عجیب بات آپ نے یہ کی کہ:
یہ نام والی بحث و جنگ بنو امیہ نے شروع کی جب وہ ہر ایسے بندے کو قتل کر دیتے تھے جس کا نام علی ہو۔
اور جوابی کاروائی کے طور پر آپ نے بھی اپنے بچوں کے نام ابو بکر، عمر و عثمان رکھنے چھوڑ دئے۔ یہ ایک معقول ترین اعتراض کا نہایت ہی نامعقول جواب ہے۔ ذرا ہمیں یہ بھی سمجھا دیں کہ آپ میں تو اتنی دینی حمیت تھی کہ صدیوں پہلے کے کسی خاص علاقے کے حکمرانوں کی جانب سے کئے جانے والے مظالم کی بنا پر آپ اب تک احتجاجاً ورلڈ وائیڈ ان ناموں کا بائیکاٹ کرتے آ رہے ہیں۔ (جبکہ اہلسنت میں علی، حسن، حسین نام عام ہیں) اور حضرت علی رضی اللہ عنہ معاذاللہ ایسے گئے گزرے تھے کہ ان کے (معاذاللہ) دشمن ان کے سامنے مسند اقتدار پر براجمان ہو کر ان کے سینے پر (معاذاللہ) مونگ دلتے رہے اور ان میں آپ جیسی غیرت کا عشر عشیر نہ تھا کہ وہ اپنے بچوں کے نام ان (معاذاللہ) اسلام دشمنوں کے نام پر رکھتے رہے؟؟؟
ہماری دلیل دو دھاری تلوار ہے۔ جس کے جواب سے باطل تاویلات سے سبکدوش ہونا چاہیں گے تو دوسری دھار سے آپ خود ایک عظیم ہستی پر الزام لگانے کے مجرم ٹھہریں گے۔
۳۔ تیسرا بودا اعتراض آپ نے یہ کیا کہ اہلسنت بھی عبداللہ، فیروز، غلام احمد، وغیرہ نام رکھتے ہیں۔ بھائی، ہم بالکل یہ نام رکھتے ہیں، کیونکہ ہمارا معیار دوہرا ہے ہی نہیں۔ جب تک نام کے معانی میں کسی شرک کا گمان نہ ہو اسے رکھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔ آپ پر تو اس لئے اعتراض بنتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تو اپنے بچوں کے نام خلفائے ثلاثہ کے ناموں پر رکھتے تھے اور آپ نہیں رکھتے۔ ہم پر اس اعتراض کی بنیاد ہی نہیں بنتی۔ پھر الزاماً یہ بھی دیکھیں کہ آج کوئی ملعون شخص جس کا نام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام پر ہو، دعویٰ نبوت کر دیتا ہے، تو کیا آپ کی قوم علی نام رکھنا چھوڑ دے گی؟ کوئی محمد یا احمد نام رکھ کر دعویٰ نبوت کر ڈالے یا کسی گمراہی کا سبب بن جائے تو کیا ہم اس بنیاد پر ان مبارک اسماء کو ترک کر دیں؟؟
امید ہے کہ آئندہ دیگر فورم سے کاپی پیسٹنگ کرتے ہوئے کچھ اپنے عقل و شعور کی ڈور بھی ہلایا کریں گے۔