اصل مضمون نگار: شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
بحوالہ ویب سائٹ: [LINK=http://deenekhalis.net/play.php?catsmktba=703]دین خالص[/LINK]
تنبیہہ: ابو تراب بھائی سے گزارش ہے کہ دیگر سائٹس سے مضامین شیئر کرتے وقت اصل ویب سائٹ کا حوالہ ضرور دیں۔ انتظامیہ
خليفہ بلا فصل کون؟- حصہ اول
بعض لوگ قرآن وحديث اوراجماعِ امت کي مخالفت کرتے ہوئے سيدنا علي بن ابي طالب علیہ السلام کو پہلا خليفہ کہتے ہيں ۔ ان کے حديثي دلائل کاجائزہ پيشِ خدمت ہے:
دليل نمبر 1 : سيدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہيں :
بعث النبيّ صلي اللہ عليہ وسلم ببراء ۃ مع أبي بکر ، ثمّ دعاہ ، فقال : لا ينبغي أن تبلغ ھذا عنّي إلّا رجل من أھلي ، فدعا عليّا ، فأعطاہ إيّاہ ۔
“نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا ابوبکر علیہ السلام کو براٴت کے ساتھ بھيجا ، پھر ان کو بلايا اور فرمايا : اس براٴت کو ميرے گھروالوں ميں سے کوئي آدمي پہنچائے تو ہي مناسب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا علي علیہ السلام کو بلايا اور اسے عطا فرمايا۔”(مصنف ابن ابي شيبۃ : 12/84۔85، مسند الامام احمد : 3/212،283، سنن الترمذي : 3090، وقال : حسن غريب ، خصائص علي للنسائي : 75، مشکل الآثار للطحاوي : 3588، 3589، وسندہٗ حسنٌ)
حافظ ابنِ حجرنے اس کي سند کو “حسن” کہا ہے۔(فتح الباري لابن حجر : 8/320)
تبصرہ : نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پہل سيدنا ابوبکر علیہ السلام کو دو کام سونپے تھے۔ پہلا کام امارت ِ حج اوردوسرا سورۂ توبہ کي تبليغ ۔ آپ رضی اللہ عنہ امارت ِ حج پر بدستور قائم رہے، البتہ سورۂ توبہ کي آيات کي تبليغ خاص سيدناعلي t کے ذمہ لگا دي گئي۔ اس کا ہرگز يہ مطلب نہيں تھا کہ سيدنا ابوبکر علیہ السلام تبليغِ دين کي اہليت نہيں رکھتے تھے يا تبليغِ دين صرف سيدناعلي علیہ السلام کا حق تھا يا نبيِ اکرم e ، سيدناابوبکر علیہ السلام سے ناخوش تھے ۔ ايسے بالکل نہ تھا ۔نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کي وجہ صرف يہ بيان کي کہ ميرے گھر والوں ميں سے ہي کوئي يہ تبليغ کرے گا۔کيونکہ امارت ِ حج اس سے بھي بھاري ذمہ داري تھي جوسيدنا ابوبکر علیہ السلام کوسونپي گئي تھي اورآخر تک انہوں نے اسے نبھايا تھا۔
صحيح البخاري (2/671، ح : 4657) ميں ہے ۔ سيدنا ابوہريرہ رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہيں :
إنّ أبا بکر رضي اللّٰہ عنہ بعثہ في الحجّۃ التي أمّرہ رسول اللّٰہ صلي اللہ عليہ وسلم عليھا قبل حجّۃ الوداع في رھط يؤذّن في الناس أن لا يحجّن بعد العام مشرک ، ولا يطوف بالبيت عريان ۔
“سيدنا ابوبکر علیہ السلام کو حجۃ الوداع سے قبل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حج ميں بھيجا جس ميں انہيں لوگوں کے ايک بڑے گروہ ميں امير مقررکيا تھا کہ آپ يہ اعلان کرديں کہ اس سال کے بعد کوئي مشرک قطعاً حج نہ کرے اور نہ کوئي ننگا شخص بيت اللہ کا طواف کرے۔”
حافظ ابنِ حجر a ، امام طحاوي حنفي a کي کتاب شرح مشکل الآثار کے حوالے سے نقل کرتے ہيں :ہذا مشکل ، لأنّ الأخبار في ہذہ القصۃ تدلّ علي أنّ النبيّ صلي اللہ عليہ وسلم کان بعث أبا بکر بذلک ثم أتبعہ عليا فأمرہ أن يؤذّن فکيف يبعث أبو بکر أبا ہريرۃ ومن معہ بالتأذين مع صرف الأمر عنہ في ذلک إلي عليّ ، ثم أجاب بما حاصلہ أنّ أبا بکر کان الأمير علي الناس في تلک الحجّۃ بلا خلاف ، وکان عليّ ہو المأمور بالتأذين بذلک ، وکأنّ عليّا لم يطق التأذين بذلک وحدہ ، واحتاج إلي من يعينہ علي ذلک ، فأرسل معہ أبو بکر أبا ہريرۃ وغيرہ ليساعدوہ علي ذلک ۔۔۔
“اس ميں کچھ اشکال ہے ، کيونکہ اس قصہ کے بارے ميں احاديث يہ بتاتي ہيں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا ابوبکر علیہ السلام کو اس حکم کے ساتھ بھيجا تھا، پھر سيدنا علي علیہ السلام کو اس کے پيچھے بھيجا اورحکم فرمايا کہ وہ اعلان کريں ۔ پھر سيدنا ابوبکر علیہ السلام ، سيدنا ابوہريرہ اور دوسرے لوگوں کا اعلان کرنے کے ليے سيدناعلي علیہ السلام کي طرف کيسے بھيج سکتے تھے ، حالانکہ يہ معاملہ ان سے واپس لے ليا گياتھا؟ پھر امام طحاوي نے اس کا جواب ديا ہے جس کا حاصل يہ ہے کہ بلاشبہ سيدناابوبکر علیہ السلام لوگوں کے امير تھے۔ سيدنا علي علیہ السلام اس اعلان کا حکم ديئے گئے تھے۔شايد يہ اعلان اکيلے سيدناعلي علیہ السلام کے بس ميں نہ تھا اور آپ t معاونت کے ليے لوگوں کے محتاج تھے۔ لہٰذا سيدنا ابوبکر علیہ السلام نے سيدنا ابوہريرہ اورديگر لوگوں کو ان کے ساتھ بھيجا تاکہ وہ سيدناعلي علیہ السلام کي معاونت کريں۔”(فتح الباري لابن حجر : 8/318)
يہ حديث اس بات پر نص ہے کہ خلافت کے اولين حقدار سيدنا ابوبکر علیہ السلام ہي تھے ، کيونکہ امير حج آپ تھے ۔ رہا سورۂ توبہ کي تبليغ کا معاملہ تو حافظ ابنِ حجر
( a773۔852ھ) حديث کے الفاظ لا ينبغي أن تبلغ ھذا عنّي کے تحت لکھتے ہيں :
ويعرف منہ أنّ المراد خصوص القصّۃ المذکورۃ ، لا مطلق التبليغ ۔
“اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مخصوص مذکورہ واقعہ تھا ، نہ کہ مطلق تبليغ ۔”
(فتح الباري لابن حجر : 8/319)
احمد بن عبداللہ الطبري لکھتے ہيں : وہذا التبليغ والاداء يختصّ بہذہ الواقعۃ لسبب اقتضاہ ، وذلک أنّ عادۃ العرب في نقض العہود أن لا يتولّي ذلک إلّا من تولّي عقدہا ، أو رجل من قبيلتہ ، وکان النبي صلي اللہ عليہ وسلم ولّي أبا بکر ذلک جريا علي عادتہ في عدم مراعاۃ العوائد الجاہليۃ ، فأمرہ اللّٰہ تعالي أن لا يبعث في نقض عہودہم إلّا رجلا منہ قطعا لحججہم وإزاحۃ لعللہم ، لئلّا يحتجّوا بعوائدہم ، والدليل علي أنّہ لا يختصّ التبليغ عنہ بأہل بيتہ أنّہ قد علم بالضرورۃ أنّ رسلہ صلي اللہ عليہ وسلم لم تزل مختلفۃ إلي الآفاق في التبليغ عنہ وأداء رسالتہ وتعليم الأحکام والوقائع يؤدّون عنہ صلي اللہ عليہ وسلم ۔"يہ تبليغ واداء اس واقعے کے ساتھ خاص ہے جس کا ايک سبب متقاضي تھا۔ عرب کادستور عہد کوتوڑنے کا يہ تھا کہ اس کا اعلان وہي کرتا جس نے عہد کياتھا يا اس کے قبيلے کا کوئي آدمي ۔ نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے يہ کام پہلے جاہليت کے دستور کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے سيدنا ابوبکر علیہ السلام کے سپرد کيا ، ليکن اللہ تعاليٰ نے آپ کو حکم ديا کہ آپ اپنے قبيلے کا کوئي آدمي اس کام کے ليے بھيجيں تاکہ ان کي حجت ختم ہوجائے اور ان کے حيلے کٹ جائيںاور وہ اپنے دستور کودليل نہ بنائے پھريں۔نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں کے ساتھ تبليغ خاص نہ تھي ، اس پردليل يہ ضروري طورپر معلوم بات ہے کہ تبليغ ، رسالت ،احکام کي تعليم اور پيغامات کے ليے آپ کے پيغام رساں مختلف علاقوں کي طرف مختلف رہے ہيں۔"
(ذخائر العقبٰي لاحمد بن عبد اللہ الطبري : ص 129)
لہٰذا بعض لوگوں کا اس حديث کو سيدناعلي علیہ السلام کے خليفہ بلافصل ہونے پر دليل بنانا ، درحقيقت اس بات کا واضح اعتراف ہے کہ وہ دلائل سے تہي دست ہيں۔
فائدہ نمبر 1 :جس روايت (مسند الامام احمد: 1/3)ميں ہے کہ سيدنا ابوبکر علیہ السلام چل دئيے تھے ، پيچھے سے جاکر سيدنا علي علیہ السلام نے نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پيغام پہنچايا۔جب سيدنا ابوبکرعلیہ السلام واپس آئے تو روپڑے ياجس روايت ميں ہے کہ :
فانصرف أبو بکر ، وھو کئيب ۔“سيدنا ابوبکر علیہ السلام رنجيدہ حالت ميں واپس آئے ۔”(خصائص علي للنسائي : 76)
يہ دونوں روايات “ضعيف” ہيں۔ ان ميں ابواسحاق راوي کي “تدليس” ہے ، جو عن کے لفظ سے بيان کررہے ہيں۔