• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خليفہ بلا فصل کون؟

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
اصل مضمون نگار: شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
بحوالہ ویب سائٹ: [LINK=http://deenekhalis.net/play.php?catsmktba=703]دین خالص[/LINK]
تنبیہہ: ابو تراب بھائی سے گزارش ہے کہ دیگر سائٹس سے مضامین شیئر کرتے وقت اصل ویب سائٹ کا حوالہ ضرور دیں۔ انتظامیہ

خليفہ بلا فصل کون؟- حصہ اول​

بعض لوگ قرآن وحديث اوراجماعِ امت کي مخالفت کرتے ہوئے سيدنا علي بن ابي طالب علیہ السلام کو پہلا خليفہ کہتے ہيں ۔ ان کے حديثي دلائل کاجائزہ پيشِ خدمت ہے:

دليل نمبر 1 : سيدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہيں :

بعث النبيّ صلي اللہ عليہ وسلم ببراء ۃ مع أبي بکر ، ثمّ دعاہ ، فقال : لا ينبغي أن تبلغ ھذا عنّي إلّا رجل من أھلي ، فدعا عليّا ، فأعطاہ إيّاہ ۔

“نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا ابوبکر علیہ السلام کو براٴت کے ساتھ بھيجا ، پھر ان کو بلايا اور فرمايا : اس براٴت کو ميرے گھروالوں ميں سے کوئي آدمي پہنچائے تو ہي مناسب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا علي علیہ السلام کو بلايا اور اسے عطا فرمايا۔”(مصنف ابن ابي شيبۃ : 12/84۔85، مسند الامام احمد : 3/212،283، سنن الترمذي : 3090، وقال : حسن غريب ، خصائص علي للنسائي : 75، مشکل الآثار للطحاوي : 3588، 3589، وسندہٗ حسنٌ)

حافظ ابنِ حجرنے اس کي سند کو “حسن” کہا ہے۔(فتح الباري لابن حجر : 8/320)

تبصرہ : نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پہل سيدنا ابوبکر علیہ السلام کو دو کام سونپے تھے۔ پہلا کام امارت ِ حج اوردوسرا سورۂ توبہ کي تبليغ ۔ آپ رضی اللہ عنہ امارت ِ حج پر بدستور قائم رہے، البتہ سورۂ توبہ کي آيات کي تبليغ خاص سيدناعلي t کے ذمہ لگا دي گئي۔ اس کا ہرگز يہ مطلب نہيں تھا کہ سيدنا ابوبکر علیہ السلام تبليغِ دين کي اہليت نہيں رکھتے تھے يا تبليغِ دين صرف سيدناعلي علیہ السلام کا حق تھا يا نبيِ اکرم e ، سيدناابوبکر علیہ السلام سے ناخوش تھے ۔ ايسے بالکل نہ تھا ۔نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کي وجہ صرف يہ بيان کي کہ ميرے گھر والوں ميں سے ہي کوئي يہ تبليغ کرے گا۔کيونکہ امارت ِ حج اس سے بھي بھاري ذمہ داري تھي جوسيدنا ابوبکر علیہ السلام کوسونپي گئي تھي اورآخر تک انہوں نے اسے نبھايا تھا۔

صحيح البخاري (2/671، ح : 4657) ميں ہے ۔ سيدنا ابوہريرہ رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہيں :

إنّ أبا بکر رضي اللّٰہ عنہ بعثہ في الحجّۃ التي أمّرہ رسول اللّٰہ صلي اللہ عليہ وسلم عليھا قبل حجّۃ الوداع في رھط يؤذّن في الناس أن لا يحجّن بعد العام مشرک ، ولا يطوف بالبيت عريان ۔

“سيدنا ابوبکر علیہ السلام کو حجۃ الوداع سے قبل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حج ميں بھيجا جس ميں انہيں لوگوں کے ايک بڑے گروہ ميں امير مقررکيا تھا کہ آپ يہ اعلان کرديں کہ اس سال کے بعد کوئي مشرک قطعاً حج نہ کرے اور نہ کوئي ننگا شخص بيت اللہ کا طواف کرے۔”

حافظ ابنِ حجر a ، امام طحاوي حنفي a کي کتاب شرح مشکل الآثار کے حوالے سے نقل کرتے ہيں :ہذا مشکل ، لأنّ الأخبار في ہذہ القصۃ تدلّ علي أنّ النبيّ صلي اللہ عليہ وسلم کان بعث أبا بکر بذلک ثم أتبعہ عليا فأمرہ أن يؤذّن فکيف يبعث أبو بکر أبا ہريرۃ ومن معہ بالتأذين مع صرف الأمر عنہ في ذلک إلي عليّ ، ثم أجاب بما حاصلہ أنّ أبا بکر کان الأمير علي الناس في تلک الحجّۃ بلا خلاف ، وکان عليّ ہو المأمور بالتأذين بذلک ، وکأنّ عليّا لم يطق التأذين بذلک وحدہ ، واحتاج إلي من يعينہ علي ذلک ، فأرسل معہ أبو بکر أبا ہريرۃ وغيرہ ليساعدوہ علي ذلک ۔۔۔

“اس ميں کچھ اشکال ہے ، کيونکہ اس قصہ کے بارے ميں احاديث يہ بتاتي ہيں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا ابوبکر علیہ السلام کو اس حکم کے ساتھ بھيجا تھا، پھر سيدنا علي علیہ السلام کو اس کے پيچھے بھيجا اورحکم فرمايا کہ وہ اعلان کريں ۔ پھر سيدنا ابوبکر علیہ السلام ، سيدنا ابوہريرہ اور دوسرے لوگوں کا اعلان کرنے کے ليے سيدناعلي علیہ السلام کي طرف کيسے بھيج سکتے تھے ، حالانکہ يہ معاملہ ان سے واپس لے ليا گياتھا؟ پھر امام طحاوي نے اس کا جواب ديا ہے جس کا حاصل يہ ہے کہ بلاشبہ سيدناابوبکر علیہ السلام لوگوں کے امير تھے۔ سيدنا علي علیہ السلام اس اعلان کا حکم ديئے گئے تھے۔شايد يہ اعلان اکيلے سيدناعلي علیہ السلام کے بس ميں نہ تھا اور آپ t معاونت کے ليے لوگوں کے محتاج تھے۔ لہٰذا سيدنا ابوبکر علیہ السلام نے سيدنا ابوہريرہ اورديگر لوگوں کو ان کے ساتھ بھيجا تاکہ وہ سيدناعلي علیہ السلام کي معاونت کريں۔”(فتح الباري لابن حجر : 8/318)

يہ حديث اس بات پر نص ہے کہ خلافت کے اولين حقدار سيدنا ابوبکر علیہ السلام ہي تھے ، کيونکہ امير حج آپ تھے ۔ رہا سورۂ توبہ کي تبليغ کا معاملہ تو حافظ ابنِ حجر

( a773۔852ھ) حديث کے الفاظ لا ينبغي أن تبلغ ھذا عنّي کے تحت لکھتے ہيں :

ويعرف منہ أنّ المراد خصوص القصّۃ المذکورۃ ، لا مطلق التبليغ ۔

“اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مخصوص مذکورہ واقعہ تھا ، نہ کہ مطلق تبليغ ۔”

(فتح الباري لابن حجر : 8/319)

احمد بن عبداللہ الطبري لکھتے ہيں : وہذا التبليغ والاداء يختصّ بہذہ الواقعۃ لسبب اقتضاہ ، وذلک أنّ عادۃ العرب في نقض العہود أن لا يتولّي ذلک إلّا من تولّي عقدہا ، أو رجل من قبيلتہ ، وکان النبي صلي اللہ عليہ وسلم ولّي أبا بکر ذلک جريا علي عادتہ في عدم مراعاۃ العوائد الجاہليۃ ، فأمرہ اللّٰہ تعالي أن لا يبعث في نقض عہودہم إلّا رجلا منہ قطعا لحججہم وإزاحۃ لعللہم ، لئلّا يحتجّوا بعوائدہم ، والدليل علي أنّہ لا يختصّ التبليغ عنہ بأہل بيتہ أنّہ قد علم بالضرورۃ أنّ رسلہ صلي اللہ عليہ وسلم لم تزل مختلفۃ إلي الآفاق في التبليغ عنہ وأداء رسالتہ وتعليم الأحکام والوقائع يؤدّون عنہ صلي اللہ عليہ وسلم ۔"يہ تبليغ واداء اس واقعے کے ساتھ خاص ہے جس کا ايک سبب متقاضي تھا۔ عرب کادستور عہد کوتوڑنے کا يہ تھا کہ اس کا اعلان وہي کرتا جس نے عہد کياتھا يا اس کے قبيلے کا کوئي آدمي ۔ نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے يہ کام پہلے جاہليت کے دستور کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے سيدنا ابوبکر علیہ السلام کے سپرد کيا ، ليکن اللہ تعاليٰ نے آپ کو حکم ديا کہ آپ اپنے قبيلے کا کوئي آدمي اس کام کے ليے بھيجيں تاکہ ان کي حجت ختم ہوجائے اور ان کے حيلے کٹ جائيںاور وہ اپنے دستور کودليل نہ بنائے پھريں۔نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں کے ساتھ تبليغ خاص نہ تھي ، اس پردليل يہ ضروري طورپر معلوم بات ہے کہ تبليغ ، رسالت ،احکام کي تعليم اور پيغامات کے ليے آپ کے پيغام رساں مختلف علاقوں کي طرف مختلف رہے ہيں۔"

(ذخائر العقبٰي لاحمد بن عبد اللہ الطبري : ص 129)

لہٰذا بعض لوگوں کا اس حديث کو سيدناعلي علیہ السلام کے خليفہ بلافصل ہونے پر دليل بنانا ، درحقيقت اس بات کا واضح اعتراف ہے کہ وہ دلائل سے تہي دست ہيں۔

فائدہ نمبر 1 :جس روايت (مسند الامام احمد: 1/3)ميں ہے کہ سيدنا ابوبکر علیہ السلام چل دئيے تھے ، پيچھے سے جاکر سيدنا علي علیہ السلام نے نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پيغام پہنچايا۔جب سيدنا ابوبکرعلیہ السلام واپس آئے تو روپڑے ياجس روايت ميں ہے کہ :

فانصرف أبو بکر ، وھو کئيب ۔“سيدنا ابوبکر علیہ السلام رنجيدہ حالت ميں واپس آئے ۔”(خصائص علي للنسائي : 76)

يہ دونوں روايات “ضعيف” ہيں۔ ان ميں ابواسحاق راوي کي “تدليس” ہے ، جو عن کے لفظ سے بيان کررہے ہيں۔
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
خليفہ بلا فصل کون؟- حصہ دوم​

دليل نمبر 2 :امام حسن بصري سے سيدنا علي علیہ السلام کے بارے ميں پوچھا گيا تو آپ نے فرمايا:ما أقول فيمن جمع الخصال الأربع : ائتمانہ علي براء ۃ ، وما قال لہ رسول اللّٰہ صلي اللہ عليہ وسلم في غزاۃ تبوک ، فلو کان غير النبوّۃ شيء يفوتہ لاستثناہ ، وقول النبيّ صلي اللہ عليہ وسلم (( الثقلان کتاب اللّٰہ وعترتي )) ، وإنّہ لم يؤمّر عليہ أمير قطّ ، وقد أمّرت الأمراء علي غيرہ ۔“ميں اس شخص کے بارے ميں کيا کہہ سکتا ہوں جس ميں چار خصلتيں جمع ہوں۔ ايک براٴت کے اعلان کي امانت کي سپردگي ، دوسري غزوۂ تبوک ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کا ان کو فرمانا کہ اگر نبوت کے علاوہ کوئي چيز ان سے رہتي ہوتي توآپ ان کوخاص کر ديتے۔ تيسري نبي کي يہ بشارت کہ دو بھاري چيزيں (جو نجات کي ضامن ہيں)، وہ کتاب اللہ اورميرا خاندان ہے۔ چوتھي خصوصيت يہ کہ ان پر کبھي کوئي امير مقرر نہيں کياگيا ، جبکہ ان کے علاوہ دوسرے لوگوں پرامير مقرر کيے گئے تھے۔”

(شرح نہج البلاغۃ لابن ابي الحديد : 1/482، طبع بيروت)

تبصرہ :يہ جھوٹ کا پلنداہے۔ اس کاراوي محمدبن عمر الواقدي جمہور محدثين کے نزديک “ضعيف” قرارديا ہے۔

محمد بن عمر الواقدي (م207ھ)اورامام حسن بصري(م110ھ)کے درميان صديوں کا فاصلہ ہے تو واقدي نے امام حسن بصري سے کيسے روايت لے لي؟ واقدي سے نيچے بھي سند غائب ہے۔ معلوم ہوا کہ يہ کسي شيطان کي کارستاني ہے۔

يہ بين ثبوت ہے کہ بعض لوگوں کا علي علیہ السلام کے خليفہ بلا فصل ہونے کا دعويٰ بے ثبوت اور بے دليل ہے۔


دليل نمبر 3 :سيدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا علي علیہ السلام کے بارے ميں فرمايا:

ھذا أمير البررۃ ، قاتل الفجرۃ ، منصور من نصرہ ، مخذول من خذلہ ۔

“يہ علي نيکوکاروں کے امير اورکافروں کے قاتل ہيں ۔ جوشخص ان کي نصرت کرے گا ، وہ خود منصور ہوگا اور جوان کي نصرت سے دست بردار ہو گا ، وہ ذليل وخوار ہوگا۔”

(المستدرک علي الصحيحين للحاکم : 3/129، ح : 4644، الکامل لابن عدي : 1/192، تاريخ بغداد للخطيب : 3/219)

تبصرہ :يہ موضوع(من گھڑت) روايت ہے۔ امام ابنِ عدي اس روايت کے بارے ميں فرماتے ہيں:وہذا حديث منکر موضوع ۔
“يہ منکراورمن گھڑت حديث ہے۔”(الکامل لابن عدي : 1/192)
حافظ ابن الجوزي نے اسے اپني کتاب “الموضوعات” (1/353) ميں ذکر کيا ہے۔

امام حاکم اُسے ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہيں :وہذا حديث صحيح الإسناد ۔“اس حديث کي سند صحيح ہے۔”

حافظ ذہبي ان کے تعاقب ميں لکھتے ہيں :بل ، واللّٰہ ! موضوع ، وأحمد کذّاب ، فما أجہلک علي سعۃ معرفتک !

“بلکہ اللہ کي قسم يہ من گھڑت روايت ہے ۔ احمد راوي کذاب ہے۔ اتنے وسيع علم کے باوجود آپ اس راوي سے کتنے ناواقف رہ گئے ہيں!”(تلخيص المستدرک : 3/129)

اس روايت کو گھڑنے والا احمد بن عبداللہ بن يزيد المکتب راوي ہے۔ اس کے بارے ميں اما م ابنِ عدي فرماتے ہيں :يضع الحديث ۔“يہ احاديث گھڑتا ہے۔”(الکامل لابن عدي : 1/192)

امام دارقطني فرماتے ہيں : يترک حديثہ ۔“اس کي حديث چھوڑ دي جائے گي۔”(تاريخ بغداد للخطيب : 4ل220، وسندہٗ صحيحٌ)

نيز اس روايت ميں امام سفيان ثوري کي "تدليس" ہے۔
اس طرح کي جھوٹي اورمن گھڑت روايات سے سيدنا علي علیہ السلام کا خليفہ بلا فصل ہونا ثابت کرنے والے کون لوگ ہوسکتے ہيں؟
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
خليفہ بلا فصل کون؟- حصہ سوم​

دليل نمبر5:سيدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :يا أنس أوّل من يدخل عليک من ھذا الباب أمير المؤمنين ، وسيّد المسلمين ، وقائد الغرّ المحجّلين ، وخاتم الوصيّين ، قال أنس : قلت : اللّٰہم أجعلہ رجلاً من الأنصار وکتمتہ ، إذ جاء عليّ ، فقال : من ھنا يا أنس ؟ فقلت : عليّ ، فقام مستبشراً فاعتنقہ ، ثمّ جعل يمسح عرق وجھہ بوجھہ ، ويمسح عرق عليّ بوجھہ ، قال عليّ : يارسول اللّٰہ صلي اللہ عليہ وسلم ! لقد رأيتک صنعت شيئاً ما صنعت بي من قبل ؟ قال : وما يمنعني وأنت تؤدّي عنّي ، وتسمعہم صوتي ، وتبيّن لہم ما اختلفوا فيہ بعدي ۔

“اے انس ! جو شخص سب سے پہلے اس دروازے سے داخل ہوگا ، وہ اميرالمومنين ، سيدالمسلمين ، روشن اعضاء والے لوگوں کا قائد اور خاتم الوصيين ہوگا۔ انس t نے کہا : ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچانک علي علیہ السلام آگئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا : کہاں کون ہے اے انس! ميں نے عرض کي : علي ہيں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے ہوئے اٹھے اوران کو گلے سے لگاليا، پھر ان کے چہرے کا پسينہ اپنے چہرے کے ساتھ صاف کرنے لگے ۔ علي t نے عرض کي : اے اللہ کے رسول ! ميں آپ کو ايسا کام کرتے ديکھا ہے ، جو آپ نے پہلے کبھي نہيں کيا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: مجھے کون سي چيز مانع ہے ۔ آپ ميرا پيغام پہنچاتے ہيں ۔ لوگوں کو ميري آواز سناتے ہيں اور ميرے بعد جو وہ اختلاف کريں گے ،آپ اس کي وضاحت کريں گے۔”

(حليۃ الاولياء لابي نعيم الاصبہاني : 1/63۔64)

تبصرہ :يہ گھڑنتل اورافک ِ بين ہے۔ حافظ ذہبي نے اس روايت کو من گھڑت قرارديا ہے۔(ميزان الاعتدال للذہبي : 1/64)

حافظ ابن الجوزي فرماتے ہيں :ہذا حديث لا يصحّ ۔

“يہ حديث ثابت نہيں ہے۔”(الموضوعات لابن الجوزي : 1/350)

ابنِ عراق الکناني نے بھي اُسے من گھڑت قرارديا ہے۔(تنزيہ الشريعۃ : 1/24)

1. اس کے راوي ابراہيم بن محمد بن ميمون کے بارے ميں حافظ ذہبي لکھتے ہيں :

من أجلّاء الشيعۃ ۔“يہ کٹڑشيعوں ميں سے تھا۔”

(ميزان الاعتدال للذہبي : 1/63)

حافظ ابنِ حجرفرماتے ہيں :وذکرہ الأسديّ في الضعفاء وقال : إنّہ منکر الحديث ، وذکرہ ابن حبّان في الثقات ، ونقلت من خطّ شيخنا أبي الفضل الحافظ أنّ ہذا الرجل ليس بثقۃ ۔

“اسدي نے اسے ضعفاء ميں ذکر کيا ہے اورکہا ہے : يہ منکر الحديث راوي ہے۔ ابنِ حبان نے اسے ثقات (8/74)ميں ذکر کيا ہے اور ميں نے اپنے شيخ ابوالفضل الحافظ کے خط سے نقل کيا ہے کہ يہ آدمي ثقہ نہيں ہے۔”(لسان الميزان لابن حجر : 1/107)

حافظ ابنِ حجر نے اس کي ايک حديث کي سند کو”حسن” قرارديا ہے۔

(زوائد مسند البزار)

حافظ ہيثمي نے اُسے “ضعيف” کہا ہے۔(مجمع الزوائد : 3/271)

نيز اسے ثقہ بھي کہا ہے۔(مجمع الزوائد : 10/252)

لہٰذا يہ دونوں قول ساقط ہيں ۔ اس کا ضعف ہي راجح ہے۔

2. القاسم بن جندب کے حالات ِ زندگي نہيں مل سکے۔
3. علي بن عابس “ضعيف” راوي ہے۔(تقريب التہذيب لابن حجر : 4757)

دليل نمبر 6 :نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدينہ ميں تشريف لائے تومسلمانوں ميں عقد ِ مواخات قائم کيا۔ صحابہ کرام کو بھائي بھائي بنايا اور خود سيدنا علي علیہ السلام کو اپنا بھائي بنايا۔

تبصرہ :عقد ِ مواخات ميں نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سيدنا عليعلیہ السلام کواپنا بھائي بنانا ثابت نہيں ۔ اس حوالے سے دلائل کا تحقيقي جائزہ ملاحظہ ہو:

1. نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرين وانصار کے درميان بھائي چارہ قائم کيا۔ خود سيدنا علي علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمايا : ہم باہم بھائي ہيں۔(سيرۃ ابن ہشام : 2/142)
تبصرہ :يہ روايت بے سند ہونے کي وجہ سے مردود وباطل ہے۔

2. سيدنا ابوہريرہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے :کان رسول اللّٰہ صلي اللہ عليہ وسلم يؤاخي بين أصحابہ ، فقال : عليّ أخي ، وأنا أخوہ ، وأحبّہ ۔۔۔

“ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے درميان بھائي چارہ کرا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا : علي ميرے بھائي ہيں ۔ ميں ان کا بھائي ہوں ۔ ميں ان سے محبت کرتاہوں۔”(الکامل في ضعفاء الرجال : 7/132)

تبصرہ : يہ سخت ترين “ضعيف” ہے ۔ اس کاراوي ہياج بن بسطام ہروي راوي جمہور کے نزديک “ضعيف” ہے۔ اس کو امام يحييٰ بن معين ، امام نسائي ، امام ابوحاتم الرازي ، امام ابنِ حبان ، امام ابنِ عدي وغيرہم نے “ضعيف “ قرار ديا ہے۔

حافظ ابنِ حجر اس کے بارے ميں فرماتے ہيں :ضعيف ، روي عنہ ابنہ خالد منکرات شديدۃ ۔“يہ ضعيف راوي ہے ۔ اس سے اس کے بيٹے خالد نے شديد منکر روايات بيان کي ہيں۔”(تقريب التہذيب لابن حجر : 7355)

3. سيدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:

عليّ أخي وصاحبي وابن عمّي ، وخير من أترک بعدي يقضي ديني وينجز موعدي ۔“علي ميرے بھائي ہيں اوردوست ہيں اورچچا زاد ہيں اور ان لوگوں ميں سے سب سے بہتر ہيں ، جن کو ميں بعد ميں چھوڑ کر جارہا ہوں۔ يہ ميرے قرض چکائيں گے اور ميرے وعدے پورے کريں گے۔”(الکامل لابن عدي : 6/397)

تبصرہ :اس کي سند سخت ترين “ضعيف” ہے ۔ اس کاراوي مطر بن ميمون الاسکاف باتفاق محدثين سخت ترين “ضعيف” ہے۔ اس کے حق ميں ادنيٰ کلمہ توثيق ثابت ہے۔

اسے امام بخاري ، امام ابوحاتم الرازي ، امام نسائي وغيرہم نے “منکرالحديث” کہاہے۔ امام يعقوب بن سفيان ، امام ابنِ عدي وغيرہما نے “ضعيف” کہا ہے۔
حافظ ابنِ حجر اس کے بارے ميں فرماتے ہيں :متروک ۔
“يہ متروک راوي ہے۔”(تقريب التہذيب لابن حجر : 6703)

نيز حافظ ابنِ حجر نے اس روايت کو باطل (جھوٹي )قرار ديا ہے۔
(تہذيب التہذيب لابن حجر : 10/154)

ان کے علاوہ جتني بھي روايات وارد ہوتي ہيں، جن ميں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سيدنا علي علیہ السلام سے مواخات کاذکر ہيں۔ وہ ساري کي ساري “ضعيف” اورناقابل حجت ہيں ۔ اگر کسي کے پاس ايک روايت بھي حسن سند کے ساتھ موجود ہو ، جس ميں نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا علي علیہ السلام کو بھائي کہا ہے۔ ہم اس کا جائزہ پيش کريں گے۔ ہمارا دعويٰ ہے کہ اصولِ محدثين کي روشني ميں اس حوالے سے ايک روايت بھي پايۂ ثبوت تک نہيں پہنچتي ۔ مدعي پر باسند ِ صحيح دليل لازم ہے۔

البتہ نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا ابوبکر علیہ السلام کو اپنا بھائي کہا ہے ، جيسا کہ :

سيدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :
لو کنت متّخذا خليلا لاتّخذت أبا بکر ، ولکن أخي وصاحبي ۔
“اگر ميں کسي کو خليل بناتا تو ميں ابوبکر کو خليل بناتا ، ليکن وہ ميرے بھائي اوردوست ہيں۔”
(صحيح البخاري : 3656، صحيح مسلم : 2383عن عبد اللہ بن مسعود)
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
آپ حدیث غدیرکےبارےمیں کیافرماتےہیں?
بھائی حدیث غدیرمتواتر احادیث میں سے ہے۔ اس میں سیدنا علی علیہ السلام کی شان،فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اس حدیث کا مکمل پس منظر پڑھیں کہ وہ کونسے عوامل تھے جس کی بنا پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے بیان فرمائی؟؟؟ آپ خود پڑھیں.
مزید یہ کہ جب یہ حدیث بیان ہوئی تو سب سے پہلے مبارک باد دینے والے بھی سیدنا عمر علیہ السلام تھے۔ اس میں خلافت کا کہاں بیان ہوا۔
اگر سیدنا علی علیہ السلام کا حق غصب کیا گیا تھا تو جب سیدنا عمر علیہ السلام بیت المقدس کی کنجیاں لینے گئے تھے تب علی علیہ السلام کو قا ئم مقام بنا کر گئے، اس وقت آپ اپنی خلافت کا اعلان فرمادیتے۔۔

جزاک اللہ
 

اہل الحدیث

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
89
ری ایکشن اسکور
544
پوائنٹ
0
خليفہ بلا فصل کون؟- حصہ اول​

بعض لوگ قرآن وحديث اوراجماعِ امت کي مخالفت کرتے ہوئے سيدنا علي بن ابي طالب علیہ السلام کو پہلا خليفہ کہتے ہيں ۔ ان کے حديثي دلائل کاجائزہ پيشِ خدمت ہے:

دليل نمبر 1 : سيدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہيں :

بعث النبيّ صلي اللہ عليہ وسلم ببراء ۃ مع أبي بکر ، ثمّ دعاہ ، فقال : لا ينبغي أن تبلغ ھذا عنّي إلّا رجل من أھلي ، فدعا عليّا ، فأعطاہ إيّاہ ۔

“نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا ابوبکر علیہ السلام کو براٴت کے ساتھ بھيجا ، پھر ان کو بلايا اور فرمايا : اس براٴت کو ميرے گھروالوں ميں سے کوئي آدمي پہنچائے تو ہي مناسب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا علي علیہ السلام کو بلايا اور اسے عطا فرمايا۔”(مصنف ابن ابي شيبۃ : 12/84۔85، مسند الامام احمد : 3/212،283، سنن الترمذي : 3090، وقال : حسن غريب ، خصائص علي للنسائي : 75، مشکل الآثار للطحاوي : 3588، 3589، وسندہٗ حسنٌ)

حافظ ابنِ حجرنے اس کي سند کو “حسن” کہا ہے۔(فتح الباري لابن حجر : 8/320)

تبصرہ : نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پہل سيدنا ابوبکر علیہ السلام کو دو کام سونپے تھے۔ پہلا کام امارت ِ حج اوردوسرا سورۂ توبہ کي تبليغ ۔ آپ رضی اللہ عنہ امارت ِ حج پر بدستور قائم رہے، البتہ سورۂ توبہ کي آيات کي تبليغ خاص سيدناعلي t کے ذمہ لگا دي گئي۔ اس کا ہرگز يہ مطلب نہيں تھا کہ سيدنا ابوبکر علیہ السلام تبليغِ دين کي اہليت نہيں رکھتے تھے يا تبليغِ دين صرف سيدناعلي علیہ السلام کا حق تھا يا نبيِ اکرم e ، سيدناابوبکر علیہ السلام سے ناخوش تھے ۔ ايسے بالکل نہ تھا ۔نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کي وجہ صرف يہ بيان کي کہ ميرے گھر والوں ميں سے ہي کوئي يہ تبليغ کرے گا۔کيونکہ امارت ِ حج اس سے بھي بھاري ذمہ داري تھي جوسيدنا ابوبکر علیہ السلام کوسونپي گئي تھي اورآخر تک انہوں نے اسے نبھايا تھا۔

صحيح البخاري (2/671، ح : 4657) ميں ہے ۔ سيدنا ابوہريرہ رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہيں :

إنّ أبا بکر رضي اللّٰہ عنہ بعثہ في الحجّۃ التي أمّرہ رسول اللّٰہ صلي اللہ عليہ وسلم عليھا قبل حجّۃ الوداع في رھط يؤذّن في الناس أن لا يحجّن بعد العام مشرک ، ولا يطوف بالبيت عريان ۔

“سيدنا ابوبکر علیہ السلام کو حجۃ الوداع سے قبل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حج ميں بھيجا جس ميں انہيں لوگوں کے ايک بڑے گروہ ميں امير مقررکيا تھا کہ آپ يہ اعلان کرديں کہ اس سال کے بعد کوئي مشرک قطعاً حج نہ کرے اور نہ کوئي ننگا شخص بيت اللہ کا طواف کرے۔”

حافظ ابنِ حجر a ، امام طحاوي حنفي a کي کتاب شرح مشکل الآثار کے حوالے سے نقل کرتے ہيں :ہذا مشکل ، لأنّ الأخبار في ہذہ القصۃ تدلّ علي أنّ النبيّ صلي اللہ عليہ وسلم کان بعث أبا بکر بذلک ثم أتبعہ عليا فأمرہ أن يؤذّن فکيف يبعث أبو بکر أبا ہريرۃ ومن معہ بالتأذين مع صرف الأمر عنہ في ذلک إلي عليّ ، ثم أجاب بما حاصلہ أنّ أبا بکر کان الأمير علي الناس في تلک الحجّۃ بلا خلاف ، وکان عليّ ہو المأمور بالتأذين بذلک ، وکأنّ عليّا لم يطق التأذين بذلک وحدہ ، واحتاج إلي من يعينہ علي ذلک ، فأرسل معہ أبو بکر أبا ہريرۃ وغيرہ ليساعدوہ علي ذلک ۔۔۔

“اس ميں کچھ اشکال ہے ، کيونکہ اس قصہ کے بارے ميں احاديث يہ بتاتي ہيں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا ابوبکر علیہ السلام کو اس حکم کے ساتھ بھيجا تھا، پھر سيدنا علي علیہ السلام کو اس کے پيچھے بھيجا اورحکم فرمايا کہ وہ اعلان کريں ۔ پھر سيدنا ابوبکر علیہ السلام ، سيدنا ابوہريرہ اور دوسرے لوگوں کا اعلان کرنے کے ليے سيدناعلي علیہ السلام کي طرف کيسے بھيج سکتے تھے ، حالانکہ يہ معاملہ ان سے واپس لے ليا گياتھا؟ پھر امام طحاوي نے اس کا جواب ديا ہے جس کا حاصل يہ ہے کہ بلاشبہ سيدناابوبکر علیہ السلام لوگوں کے امير تھے۔ سيدنا علي علیہ السلام اس اعلان کا حکم ديئے گئے تھے۔شايد يہ اعلان اکيلے سيدناعلي علیہ السلام کے بس ميں نہ تھا اور آپ t معاونت کے ليے لوگوں کے محتاج تھے۔ لہٰذا سيدنا ابوبکر علیہ السلام نے سيدنا ابوہريرہ اورديگر لوگوں کو ان کے ساتھ بھيجا تاکہ وہ سيدناعلي علیہ السلام کي معاونت کريں۔”(فتح الباري لابن حجر : 8/318)

يہ حديث اس بات پر نص ہے کہ خلافت کے اولين حقدار سيدنا ابوبکر علیہ السلام ہي تھے ، کيونکہ امير حج آپ تھے ۔ رہا سورۂ توبہ کي تبليغ کا معاملہ تو حافظ ابنِ حجر

( a773۔852ھ) حديث کے الفاظ لا ينبغي أن تبلغ ھذا عنّي کے تحت لکھتے ہيں :

ويعرف منہ أنّ المراد خصوص القصّۃ المذکورۃ ، لا مطلق التبليغ ۔

“اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مخصوص مذکورہ واقعہ تھا ، نہ کہ مطلق تبليغ ۔”

(فتح الباري لابن حجر : 8/319)

احمد بن عبداللہ الطبري لکھتے ہيں : وہذا التبليغ والاداء يختصّ بہذہ الواقعۃ لسبب اقتضاہ ، وذلک أنّ عادۃ العرب في نقض العہود أن لا يتولّي ذلک إلّا من تولّي عقدہا ، أو رجل من قبيلتہ ، وکان النبي صلي اللہ عليہ وسلم ولّي أبا بکر ذلک جريا علي عادتہ في عدم مراعاۃ العوائد الجاہليۃ ، فأمرہ اللّٰہ تعالي أن لا يبعث في نقض عہودہم إلّا رجلا منہ قطعا لحججہم وإزاحۃ لعللہم ، لئلّا يحتجّوا بعوائدہم ، والدليل علي أنّہ لا يختصّ التبليغ عنہ بأہل بيتہ أنّہ قد علم بالضرورۃ أنّ رسلہ صلي اللہ عليہ وسلم لم تزل مختلفۃ إلي الآفاق في التبليغ عنہ وأداء رسالتہ وتعليم الأحکام والوقائع يؤدّون عنہ صلي اللہ عليہ وسلم ۔"يہ تبليغ واداء اس واقعے کے ساتھ خاص ہے جس کا ايک سبب متقاضي تھا۔ عرب کادستور عہد کوتوڑنے کا يہ تھا کہ اس کا اعلان وہي کرتا جس نے عہد کياتھا يا اس کے قبيلے کا کوئي آدمي ۔ نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے يہ کام پہلے جاہليت کے دستور کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے سيدنا ابوبکر علیہ السلام کے سپرد کيا ، ليکن اللہ تعاليٰ نے آپ کو حکم ديا کہ آپ اپنے قبيلے کا کوئي آدمي اس کام کے ليے بھيجيں تاکہ ان کي حجت ختم ہوجائے اور ان کے حيلے کٹ جائيںاور وہ اپنے دستور کودليل نہ بنائے پھريں۔نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں کے ساتھ تبليغ خاص نہ تھي ، اس پردليل يہ ضروري طورپر معلوم بات ہے کہ تبليغ ، رسالت ،احکام کي تعليم اور پيغامات کے ليے آپ کے پيغام رساں مختلف علاقوں کي طرف مختلف رہے ہيں۔"

(ذخائر العقبٰي لاحمد بن عبد اللہ الطبري : ص 129)

لہٰذا بعض لوگوں کا اس حديث کو سيدناعلي علیہ السلام کے خليفہ بلافصل ہونے پر دليل بنانا ، درحقيقت اس بات کا واضح اعتراف ہے کہ وہ دلائل سے تہي دست ہيں۔

فائدہ نمبر 1 :جس روايت (مسند الامام احمد: 1/3)ميں ہے کہ سيدنا ابوبکر علیہ السلام چل دئيے تھے ، پيچھے سے جاکر سيدنا علي علیہ السلام نے نبيِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پيغام پہنچايا۔جب سيدنا ابوبکرعلیہ السلام واپس آئے تو روپڑے ياجس روايت ميں ہے کہ :

فانصرف أبو بکر ، وھو کئيب ۔“سيدنا ابوبکر علیہ السلام رنجيدہ حالت ميں واپس آئے ۔”(خصائص علي للنسائي : 76)

يہ دونوں روايات “ضعيف” ہيں۔ ان ميں ابواسحاق راوي کي “تدليس” ہے ، جو عن کے لفظ سے بيان کررہے ہيں۔
السلام علیکم

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کی تحریر ہے جو [LINK=http://deenekhalis.net/play.php?catsmktba=703]دین خالص[/LINK] پر 5 جنوری 2011 کو لگائی گئی تھی لیکن ابوتراب بھائی نے حوالہ دینا تو درکنار، مضمون کی تالیف ہی اپنے نام کر لی۔ کیسے کیسے چور پیدا ہو گئے ہیں جو ڈھٹائی کے ساتھ یہ عمل کرتے ہیں۔

افسوس شاکر بھائی کہ آپ نے بھی اس حوالے سے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
السلام علیکم

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کی تحریر ہے جو [LINK=http://deenekhalis.net/play.php?catsmktba=703]دین خالص[/LINK] پر 5 جنوری 2011 کو لگائی گئی تھی لیکن ابوتراب بھائی نے حوالہ دینا تو درکنار، مضمون کی تالیف ہی اپنے نام کر لی۔ کیسے کیسے چور پیدا ہو گئے ہیں جو ڈھٹائی کے ساتھ یہ عمل کرتے ہیں۔

افسوس شاکر بھائی کہ آپ نے بھی اس حوالے سے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
ایک طرف تو آپ ابوتراب بھائی کو ''بھائی'' کہہ رہے ہیں دوسری طرف کہہ رہے ھیں :
لیکن ابوتراب بھائی نے حوالہ دینا تو درکنار، مضمون کی تالیف ہی اپنے نام کر لی۔ کیسے کیسے چور پیدا ہو گئے ہیں جو ڈھٹائی کے ساتھ یہ عمل کرتے ہیں۔
ماشاء اللہ کیا کہنے آپ کی سادگی کے ۔ آپ کو تو اس فورم پر کھلی چھوٹ ہے چاہے جس کو چور بنائیں ۔ کسی کو خوارج کا لقب دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاکر بھائی کو کچھ اس طرف بھی نظر کرنی چاہئیے !
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
السلام علیکم

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کی تحریر ہے جو [LINK=http://deenekhalis.net/play.php?catsmktba=703]دین خالص[/LINK] پر 5 جنوری 2011 کو لگائی گئی تھی لیکن ابوتراب بھائی نے حوالہ دینا تو درکنار، مضمون کی تالیف ہی اپنے نام کر لی۔ کیسے کیسے چور پیدا ہو گئے ہیں جو ڈھٹائی کے ساتھ یہ عمل کرتے ہیں۔

افسوس شاکر بھائی کہ آپ نے بھی اس حوالے سے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
محترم اہل الحدیث بھائی،
ہماری کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ یوزرز کو حوالہ دینے کے لئے ضرور کہا جائے۔ لیکن ہم سمیت کسی بھی فورم یا ویب سائٹ انتظامیہ کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ ہر ہر تحریر کے بارے میں جان سکیں کہ یہ اول کہاں شائع کی گئی تھی۔ آپ نے درج بالا پوسٹ میں دین خالص کا حوالہ دے دیا ہے تو ابوتراب کی پوسٹ میں یہ حوالہ ہم شامل کر دیں گے۔ اتنی سی بات ہے۔ اس پر ناراض ہونے کی بات نہیں۔ ہر فورم و ویب سائٹ کے اپنے اصول ہوتے ہیں جن کا ہم سب کو احترام کرنا چاہئے، ہم بھی آپ کی محنت اور آپ کی سائٹ کے اصول و ضوابط کا احترام کرتے ہیں، آئندہ بھی آپ کو کوئی ایسی تحریر نظر آئے تو بلاجھجک ہمیں بتا دیا کریں، حوالہ شامل کر دینا اور یوزر کو ایجوکیٹ کرنا ہماری ذمہ داری رہی۔ جہاں کہیں ہم خود مطلع ہو جائیں گے تو بغیر آپ کے بتائے ہی حوالہ کا التزام کر لیا کریں گے۔
لیکن ایک گزارش ہے کہ اس قسم کی رپورٹنگ کے وقت بھی انداز کی شائستگی بہرحال مطلوب ہے۔
والسلام
 

اہل الحدیث

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
89
ری ایکشن اسکور
544
پوائنٹ
0
السلام علیکم۔ شاکر بھائی معاملہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔ یہ بات آج کل بہت معروف ہے اور پھر ہوتا یوں ہے کہ تحریر اصل مصنف کی بجائے اس شخص کی تحریر کی حیثیت سے زیادہ معروف ہو جاتی ہے اور لوگ اصل مصنف پر سرقہ کا الزام تھوپ ڈالتے ہیں۔
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ میرا ہرگز مقصد یہ نہیں کہ تھریڈ کو اپنا ظاہر کروں بلکہ میں نے صرف کاپی اور پیسٹ کیا ہے، اکثر تحاریر تو کتب میں بھی درج ہیں تو وہاں سے بھی تو کسی نے پڑھا ھوگا،اگر میرا مقصد ہوتا ان کو اپنی تحاریر بتاوں،کسی تحریر میں میں نے نہیں لکھا کہ یہ میری تحریر ہے، ایک بات یہ کے سورس کا حوالہ نہیں دیا،، میں نے صرف کاپی اور پیسٹ کیا،، آئیندہ حوالہ دوں گا،،
رہنمائی کا شکریہ۔
جزاک اللہ
 
Top