• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلیفہ بلا فصل اور وصی رسُول اللہ ﷺ، نسل اور شخصیت پرستی کا غیر شعوری چرکا! سانپ نکل گیا، لکیر پیٹا ک

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خلیفہ بلا ضل اور وصیِّ رسُول اللہ نسل اور شخصیت پرستی کا غیر شعوری چرکا سانپ نکل گیا، لکیر پیٹا کر

مولانا عزیز زبیدی وار برٹن​

شیعہ حضرات کے رسالہ ماہنامہ ’’معارف اسلام‘‘ لاہور کا تازہ شمارہ ’’علی و فاطمہ نمبر‘‘ ہمارے سامنے ہے۔ اس فرقہ کی دوسری نگارشات اور مؤلفات کی طرح اس خصوصی نمبر کے مطالعہ سے بھی ایک قاری کو جو عام تأثر ملتا ہے وہ یہ ہے کہ:
ان حضرات کی دعوت
1. کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی بجائے حضرت علیؓ اور آپ کی آل کی طرف ہے۔
اور ان کے دین و شریعت کا ماخذ اور مرجع
2. سنتِ رسول اور اللہ کی کتاب نہیں ہیں بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی اور آلِ اطہار ہے اس پرچہ میں ص 3-4 پر اس امر کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ:
’’سنتِ رسول کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ علی اور فاطمہ کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھئے۔‘‘ (معارف اسلام نومبر و دسمبر کا مشترکہ علی و فاطمہ نمبر)
اور ہر دور میں ان کا سیاسی رہنما۔
3. حضرت علیؓ اور آلِ اطہار ہے اور کوئی نہیں۔ اس لئے ان کے علاوہ اور جتنے ہیں، یہ لوگ ان کو صحیح جذبۂ وفاداری کے بجائے صرف ’’تقیہ‘‘ کے ذریعے بہلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً جب کبھی کسی مسلمان حکومت پر کوئی مصیبت آتی ہے ان کو اس کا کوئی خاص صدمہ نہیں ہوا۔
اگر آپ بغداد میں چنگیزیوں کی یورش اور فتنوں کی تاریخ کے مطالعے کی کوشش کریں گے تو معاملہ آپ کو اس سے بھی زیادہ حوصلہ شکن نظر آئے گا۔
اس کے علاوہ آپ کو یہ بھی محسوس ہو گا کہ ان کے اختلاف کا محرک اور باعث۔
4. کوئی ایسا امر بھی نہیں ہے کہ اس کو اگر اب تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس کی کسی طرح کوئی تلافی ہو جائے۔ بس یہ ایک فرضی نعرہ، بے وقت آواز اور بے محل رسہ کشی ہے جو صرف اس مثل کے مصداق ہے کہ:
’’سانپ نکل گیا لکیر پیٹا کر۔‘‘
اب یہ لوگ اپنا اور ہمارا قیمتی وقت بھی ضائع کر رہے ہیں اور ان کی وجہ سے ملی قوت کا بے جا اسراف اور قومی اتحاد کا بے تحاشا ضیاع بھی ہو رہا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
دینِ حنیف میں ان عناصرِ اربعہ کی پوزیشن:
اب اگر کوئی صاحبِ دماغ کسی تفصیلی تبصرہ کے بغیر بھی ان چاروں امور کے صرف عنوانوں پر ہی ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال لے تو بتائیے! اس کی نگاہ میں ایسے مسلک کی آبرہ کیا رہے گی جس کی عمارت مندرجہ بالا اربعہ عناصر کی بنیاد پر ہے یا اس دینِ حنیف سے اسے کیا نسبت ہو سکتی ہے؟
(الف) جس کی دعوت شخصیتوں کی طرف نہیں، اصولِ حقہ کی طرف ہے۔
(ب) یا جس میں دین و شریعت کا ماخذ کوئی فرد ذاتی حیثیت میں یا کوئی خاندان نسلی حیثیت میں نہیں ہے بلکہ صرف وحی الٰہی ہے۔ یہاں تک کہ اس دین کے نزدیک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مبارک بھی اس حیثیت سے مطاع اور پیشوا نہیں ہے کہ آپ قریش خاندان کے ایک فرزند ارجمند اور محمد بن عبد اللہ ہیں بلکہ صرف اس لئے ہمارے مطاع اور مقتدا ہیں کہ آپ ﷺ ’’محمد رسول اللہﷺ‘‘ ہیں۔ یعنی سرکاری منصب اور عہدہ کی بناء پر آپ ہماری توجہات کا مرکز ہیں ورنہ یہ ذاتِ گرامی نزولِ وحی سے پہلے چالیس سال کی عمر تک پہلے بھی تو ہم میں موجود ہی تھی۔
(ج) اسی طرح اس دین حنیف سے انہیں کیا نسبت ہو سکتی ہے جس میں نبوت کے لئے انتخاب کی ذمہ داری صرف خدا کا حق تصور کیا گیا ہے۔ لیکن سیاسی پیشوائی اور نیابت یا خؒافت کا ماملہ امت پر چھوڑ دیا گیا، کیونکہ اس کا تعلق براہِ راست بندوں سے متعلق ہے۔ اس کی نشاندہی کے لئے وحی نے اپنی کوئی ذمہ داری نہیں لی۔ اس لئے پوری آزادی اور دیانداری کے ساتھ جس کو لوگ ملک و ملت اور دینِ اسلام کے مستقبل، مفاد اور استحکام و ترقی کے لئے مفید سمجھ کر انتخاب کر لیں گے، وہی برحق ہو گا۔ لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہو گا جب پہلے سے یہ نیابت یا خلافت کسی فرد یا خاندان کے نام الاٹ نہ کی جا چکی ہو اور نہ یہ کسی فرد اور گروہ کی میراث اور جاگیر سمجھی گئی ہو۔ ورنہ انتخاب کے معنی ہی فضول ہیں۔ اور یہ اصول واقعی صحیح بھی ہے اور برحق بھی کیونکہ جس نے انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ قسامِ ازل نے ’اہلیت اور صالحیت‘ کسی فرد اور خاندان کی میراث نہیں بنائی۔ آج یہ سرفراز ہوتی ہے تو کل دوسری کوئی قوم سربلند ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ لیل و نہار نے یہ نظارے بھی دیکھے ہیں کہ حرمِ فراعنہ کو تو حق سے ہم کنار کر دیا گیا ہے اور خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ یا سرپرست کو طاغوت کے آساں پر جبہ سائی کے ذریعہ ذلیل اور رسوا کر ڈالا ہے۔ خدا کی قسم اس تقسیم کے پیمانے اس کے اپنے پاس ہیں، ہم اور آپ کیا جانیں کہ کون کس چیز کے قابل ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اب ان حالات میں کوئی ائمہ معصومین کی گرہ لگا کر خلافت کی گراں باریوں سے کیسے عہدہ برآ ہو سکتا ہے اور یہ ہمارا روز و شب کا مشاہدہ ہے کہ نیک سے بد اور بد سے نیک پیدا ہو رہے ہیں، اہل سے نا اہل اور نا اہلوں سے اہل جنم لے رہے ہیں تو معلوم ہوا کہ از خود کسی فردِ واحد یا خاندا کے نام سے اس کی الاٹ منٹ کا فیصلہ کوئی فطری اور دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہو سکتا۔
(د) اسی طرح اس دینِ حنیف میں ان لوگوں کی کیا کھپت ہو سکتی ہے جس میں اس سے بڑھ کر اور کوئی نادانی نہیں تصور کی گئی کہ:
انسان حقائق اور درپیش مسائل کو چھوڑ کر کسی ایسے فرضی نعرہ اور لا حاصل منصوبہ کے نام پر امت کے اندر انتشار و افتراق کا ایک غیر مختتم سلسلہ جاری کر ڈالے جس کو اگر اب تسلیم بھی کر لیا جائے تو نتیجہ کوئی بھی برآمد نہ ہو۔ خلافت جس ترتیب سے انجام پا گئی ہے وہ ترتیب تو اب ٹوٹ نہیں سکتی جو پہلے منتخب ہوئے وہ بعد میں نہیں چلے جائیں گے اور جو بعد میں آئے ہیں، وہ پہلے نہیں آجائیں گے تو آخر ایک ایسے لا حاصل مشغلہ میں امت کی توجہ، محنت و وقت اور قوتیں کیوں ضائع کی جائیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اگر یہ حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کے وصی کا مسئلہ ضرور طے ہو جائے تاکہ پھر امت سے غلطی نہ ہو تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ یہ لوگ ’’ختم نبوت‘‘ کے قائل نہیں ہیں اور غالباً اس کا ان کو انکار ہے۔ اس لئے وصی کوئی تھا یا نہیں تھا۔ اب بہرحال آپ کے فرض کر لینے سے تو وہاں کوئی تبدیلی ہونے سے رہی۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اپنی فکری اور عملی قوتوں کے استعمال کے لئے کوئی دوسرا میدان تجویز کریں جس کا کوئی ٹھوس نتیجہ بھی بر آمد ہو۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ائمۂ معصومین کا چکر:
جن لوگوں نے امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں بر سر اقتدار فرد کے لئے ’ظل اللہ‘ یا ’امام معصوم‘ کے نعرے ایجاد کیے ہیں۔ انہوں نے امت کی آنکھوں سے نور اور دماغ سے شعور چھیننے کی کوشش کی ہے۔ جمہوری اقدار کو غارت کیا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جرأت مندانہ صلاحیتوں کو تباہ کیا ہے۔ رائے اور تدبیر کی آزادی پر قدغن عائد کی اور ان سے اختلاف رائے کو مقام کافری سے ہم کنار کیا ہے۔ کیا یہ بھی کوئی دانشمندانہ یا نیکی کام کام ہے۔
دینِ اسلام میں بندوں میں ’’مقامِ عصمت‘‘ صرف انبیاء کے لئے مخصوص ہے۔ اس لئے نہیں کہ وہ میکانکی طرز کے بنے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان سے لغزش کا صدور ممکن نہیں ہتا بلکہ محض اس لئے کہ وحیِ الٰہی ہر وقت ان کی رفیقِ حال رہتی ہے۔ ذرہ بھر ڈگمگاتے نہیں کہ وحیِ الٰہی آگے بڑھ کر اُن کو تھام لیتی ہے۔ ورنہ جو انسان وحیِ الٰہی سے ہم کنار نہیں ہے۔ وہ گو بذات خود پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، لغزش سہو و نسیان اور خطا سے قطعی طور پر محفوظ نہیں رہتا۔ جب اس سٹیج پر پیغمبر کا یہ حال ہے تو غیر نبی کی جو پوزیشن ہو سکتی ہے وہ ظاہر ہے۔ دراصل دنیا بعض انسانوں کے ذاتی فضل و تقدس یا وحی سے سرفراز ہونے کی بنا پر ان کو خصائص انسانی اور سرشتِ آدمیت سے بالکل بالا تر لے جاتی ہے۔ ان کے لئے وہ یہ تو تسلیم کر لیتی ہے کہ اسے سونا بھی چاہئے اور کھانا پینا بھی۔ سردی و گرمی کا احساس بھی ان کو ہو سکتا ہے اور غمی و خوشی سے بھی ہم کنار ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کی سمجھ سے یہ چیز بالا تر ہے کہ ان سے بھول اور غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ اگر یہ چیز انہیں سمجھ میں آجائے تو وہ ’’ائمۂ معصومین‘‘ کی فرضی تخلیق کے سودا سے آزاد ہو جائیں۔ اور انسانوں کو انسان کے ہی رجے میں رہنے دیں اور ان میں ’’وحی کی توانائیوں اور خدائی خصائص کی جھلکیوں‘‘ کا جو سراب نظر آتا ہے وہ ان مدعیوں پر بے نقاب ہو جائے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شخصیت پرستی کا وہی پرانا روگ:
اوثان اور اصنام کی تاریخ کا ایک طالب علم اچھی طرح جانتا ہے کہ شخصیت پرستی کے جذبہ نے ہی انسان کو بتوں کے گھڑنے کا حوصلہ بخشا تھا۔ اور یہ ایک عجمی ذہنیت اور بت پرستانہ سرشت ہے کہ جس خاندان میں کوی ایک آدھ فرد ’’فضل و تقدس‘‘ کا مظہر بن جاتا ہے۔ بعد میں آنے والی اس کی ساری نسل کے لئے فضل و تقدس کا یہ استحقاق پیدائشی حق تصور کر لیا جاتا ہے۔ حالانکہ وحی نے صلحاء اور انبیاء کی تاریخ کے ہر موڑ پر اس قسم کے سنگ و میل اور نشان لگائے ہیں کہ اگر انسان ان کا بنظرِ غور مطالعہ کرے تو وہ شخصیت پرستی کے چرکوں اور فتنوں سے بچ جائے۔ حضرت آدمؑ کی آغوش میں ’’قابیل‘‘، حضرت نوحؑ کے گھر میں ’’پسر نوح‘‘، حضرت ’’لوطؑ‘‘ کے گھر میں ’’کافر بیوی‘‘ حضرت موسیٰؑ کی قوم میں سامری، حضرت خلیل اللہ ؑ کے خانوادہ میں آزر، محمد رسول اللہ ﷺ وعلٰی جمیع الانبیاء کے کنبہ میں ابو جہل، ابو طالب اور ابو لہب کے ’’مینارِ نامرادی‘‘ نصب کیے تاکہ دنیا مقربینِ الٰہ کی بے چارگی اور خدا کی بے نیازی کا اندازہ کر لے مگر ان سے درسِ عبرت وہی روحیں لے سکتی ہیں جو نتائج کے اخذ کرنے کا سلیقہ رکھتی ہیں اور جنہوں نے سبھی کچھ اسی دنیا کو نہیں سمجھ لیا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خاندانِ نبوت کے سلسلہ میں شیعہ حضرات کا یہ غلو، آل اطہار کے بارے میں ان کا یہ افراط، حضرت علیؓ اور ائمۂ معصومین کے متعلق ان کی یہ مسرفانہ عقیدت دراصل اسی عہدِ کہن کی صدائے بازگشت ہے مگر ان کو اس کا ہوش نہیں ہے۔ بہرحال حق پر بعض افراد اور خاندانوں کی اجارہ داری اور کسی کو پسند ہو تو ہو اسلام کو پسند نہیں ہے اور نہ کوئی باہوش آدمی اس کو قبول کر سکتا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خلفاءِ راشدین کی خلافت کو برحق اور خود خلفاء کو باخدا ماننے کے باوجود ہم نہ ان کو معصوم تصور کرتے ہیں اور نہ کسی کے تمام افکار اور اعمال کو غلطیوں سے منزہ اور پاک مانتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ سبھی اللہ والے تھے، دیانتدار اور دانش مند بزرگ تھے لیکن بہرحال انسان تھے۔ گو ان میں صدیق بھی تھے اور ملہم اور محدث بھی تاہم وہ بدرجہا پیغمبرانہ عصمتوں سے درے تھے۔ اگر امت اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لئے منتخب کر لیتی تو ہم اسے ہی حق سمجھتے اور ان سابقون الاوّلون سے الجھنے کو اپنے لیے بد بختی اور کورذوقی تصور کرتے اور اگر اس نے حضرت علیؓ کے بجائے دسری بزرگ ہستیوں کو اس کے لئے انتخاب کر لیا تو ہم اسے ہی حق تصور کرتے ہیں۔ اور یہی اصول حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود حضرت امیر معاویہؓ کے سامنے رکھا تھا اور اسے ہی برحق قرار دیا تھا۔ تفصیل آگے آئے گی۔ (نہج البلاغہ۔ جلد ۴ ص ۸)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
کیونکہ اس سے کسی فرد کی ’’جاہ طلبی اور اقتدار پرستی‘‘ کی پیاس بجھانا مقصود نہیں ہے، خدمتِ دین منظور ہے۔ سو وقت کے اہل الرائے جس کو دیانتداری کے ساتھ اپنا رہنما اور دین کا خادم پسند کر لیتے ہیں اسے ہی ہم صحیح اور برحق سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور جتنے طریقے ہیں وہ افراط اور تفریط سے محفوظ نہیں ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حضرت علیؓ کے لئے وصیت، حضور ﷺ کے لئے سامانِ تہمت ہے:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آلِ رسول کے لئے زکوٰۃ کو حرام قرار دیا تھا تاکہ آپ پر یہ الزام نہ آئے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے (العیاذ باللہ) اپنے خاندان کے لئے نبوت کا کاروبار کیا ہے۔ اسی طرح اگر پیغمبرِ خدا ﷺ حضرت علیؓ یا کسی اور خانوادہ نبوت کے لئے خلافت کی وصیت فرماتے تو دنیا کو بد گمانی کا یہ بجا موقعہ مل جاتا کہ حضور نے نبوت کا یہ سارا ڈھونگ (العیاذ باللہ) اپنے خاندان کے اقتدار کے لئے رچایا تھا۔ حالانکہ آپ ﷺ کی ذات گرامی ان تمام الزامات اور دھبّوں سے منزہ اور پاک ہے ﷺ۔
 
Top