• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلیفہ بلا فصل اور وصی رسُول اللہ ﷺ، نسل اور شخصیت پرستی کا غیر شعوری چرکا! سانپ نکل گیا، لکیر پیٹا ک

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خدا عالیٰ نے ان کو بھیجنے کا تکلف کیوں کیا؟
کیا یہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے کوئی قابلِ رشک مقام ہے کہ ان کو انسانیت سے محروم کر کے خدا بنا ڈالیں، تولنے لگیں تو انہیں رسولوں سے بھی اونچا لے جائیں۔ کام کا موقعہ آئے و ان کے لئے خواجگی اور شہزادگی کے سوا اور کوئی کام پسند نہ آئے اور اعلاءِ کلمۃ اللہ کی جرأت مندانہ گھڑیاں پیش آجائیں تو ان کو ’’تقیہ‘‘ جیسی بزدلانہ دیوار کے پیچھے لا کر دکھایا جائے، مقامِ عزیمت کی تفسیر کا کوئی عملی مرحلہ آئے تو معذرتوں کی اوٹ میں چلے جائیں، شجاعت اور بہادری کی داستانیں سنانے کھڑے ہوں و مرحب و عنتر کے معرکوں، خیبر و حنین کی جنگوں کے سب سے بڑے فاتح نظر آئیں، غیروں کی توپوں سے لڑ جائیں، ان کے قلعوں کو مسمار کر ڈالیں اور ٹوٹی ہوئی تلوار کے ذریعے دشمنوں کی صفوں کو تہہ و بالا کر دیں لیکن گھر میں ان کی یہ حالت دکھائی جائے کہ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اس کو حضور نے خلافت کی وصیت کی مگر یار دوست ان سے پوچھے بغیر آگے بڑھ کر خلافت پر قبضہ کر لیں تو سرکار بہادر گھر کی چار دیواری میں مہینوں دبکے بیٹھے رہیں اور بات کہنے کی اور رسول کی وصیت کے اجراء اور نفاذ کے لئے ان کی ساری ہمتیں جواب دے جائیں۔ باغ فدک کا سوال پیدا ہو تو لب تک نہ ہل سکیں اور یہ ساری باتیں صرف ’’تقیہ‘‘ کے چورن کے ذریعے ہضم اور گوارا ہتی رہیں۔ اف ان نادان دوستوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کس مقام پر لا کھڑا کر دیا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ہمارا علیؓ:
بخدا ہمارا علیؓ ان کے علیؓ سے بہت مختلف ہے۔ وہ بے باک مجاہد، نڈر سپاہی اور لومۃ لائم کے خوف سے بے نیاز اور انتہائی شجاع اور بہادر ہے۔ اس لئے انہوں نے یہ اعلان کیا تھا:
والذی خلق الحبة وبرئ النسمة لو عھد اليّ رسول الله ﷺ عھا لجاھدت عليه ولم انزك ابن ابي قحافة يرقي درجة واحدة من منبره
بخدا اگر حضور ﷺ نے مجھے (خلافت کے سلسلہ میں) کوئی وصیت کی ہوتی تو میں ڈٹ کر جہاد کرتا اور ابن ابی قحافہ (حضرت ابو بکرؓ) کی کیا مجال تھی کہ وہ منبرِ رسول کی ایک سیڑھی پر بھی قدم رکھ سکتے۔ (فضائل الصدیق للعشاری)
ہمارا اس پر ایمان ہے کہ حضور ﷺ نے آپ کے لئے وصیت کی ہوتی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کو کوئی چھیننے کی کوشش نہ کرتا۔ اگر کرتا تو حضرت علیؓ اس کو کبھی نہ چھوڑتے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حضرت علیؓ کا استدلال:
چنانچہ نہج البلاغہ میں حضرت علی کی یہ تصریح بھی آئی ہے کہ:
’’مہاجرین اور انصار کی شورائیہ جس کو انتخاب کر لے وہی برحق خلیفہ ہے۔ اگر کوئی اس کو نہ مانے تو اس کے ساتھ جنگ کریں، فان ابٰی فقاتلوہ علی اتباعه غير سبيل المومنين (نهج البلاغة مصري تختي خورد جلد ۲ ص ۸)
ایک دفعہ کسی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا تو آپ نے عجیب پتے کی بات کہی، فرمایا:
کان خلیفة رسول الله ﷺ في الصلوٰة رضية لديننا فرضيناه لدنيانا
کہ نماز میں وہ حضور ﷺ کے خلیفہ اور نائب تھے۔ حضور ﷺ نے آپ کو ہمارے دین کی امامت کے لئے پسند فرمایا تو ہم نے ان کو اپنی دنیا کی امامت کے لئے پسند کر لیا۔
ومن کتاب له علیه السلام الٰي معاوية انه بايعني قوم الذين بايعوا ابا بكر و عمر و عثمان علي ما بايعوھم عليه فلم يكن للشاھد ان يختار ولا للغائب ان يردو انما الشوري للمھاجرين والانصار فان اجتمعوا علي رجل وسموه اما ما كان ذٰلك لله رضي فان خرج من امرھم خارج بطعن او بدعة ردوه الي ما خرج منه فان ابٰي قاتلوه علي اتباعه غير سبيل المؤمنين (نهج البلاغه۔ مطبوعه مصر۔ تختي خورد جلد ۲ ص ۸)
یعنی حضرت امیر معاویہؓ کو خط لکھتے ہوئے حضرت علیؓ نے لکھا کہ مجھ سے اس قوم نے بیعت کی جس نے حضرت ابو بکرؓ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی بیعت کی تھی اور اسی شرط پر کی تھی جس شرط پر ان کی کی تھی۔ اب نہ کسی حاضر کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ کسی اور کو پسند کرے اور نہ کسی غائب کو اس کا اختیار ہے کہ وہ اسے رد کرے۔ اتھارٹی اور سند صرف مہاجرین اور انصار کی شورائیہ ہی ہے۔ اگر وہ کسی ایک شخص کی امامت پر متفق ہو کر اس کو امام بنا لے تو اسی میں اللہ کی رضا ہو گی۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص اس کی اطاعت نہ کرے۔ یا اس پر اعتراض کرے تو اس کو اس کی اطاعت کے لئے مجبور کرو۔ اگر انکار کر دے تو اس کے ساتھ جنگ کرو۔ کیونکہ اس نے مومنوں کی راہ کے خلاف راہ اختیار کی۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
غور فرماؤ! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلافت کے سلسلہ میں دو اصول ذکر فرمائے ہیں:
1. ایک یہ کہ نماز جیسی دینی عظمت اور پیغمبرانہ منصب میں جو شخصیت حضور کی خلیفہ اور نائب ہو گی وہی سیاسی لحاظ سے خلیفہ اور امام بھی ہونی چاہئے اور یہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ مرض الوفات میں حضور ﷺ نے نماز کی امامت حضرت ابو بکر رضٰ اللہ عنہ کے سپرد فرمائی تھی۔ مگر اس تلمیح کو وہ حضرات کیا سمجھیں، جنہوں نے اصولوں کے بجائے خاندانوں کے پیمانوں سے خلافت کی کھیر تقسیم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
2. دوسرا یہ کہ مہاجرین اور انصار کی شورائیہ ہی اس سلسلہ کی آخری سند ہے وہ جسے اپنی امارت کے لئے انتخاب کر لے، وہی حق ہو گا اور اس کے خلاف جو کرے اس کے خلاف جہاد کیا جائے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسی ارشاد سے یہ بھی معلوم ہوا کہ:
خلافت کسی کے لئے مخصوص نہیں تھی اور نہ کسی کے حق میں بطور وصیت الاٹ ہوئی تھی ورنہ شورائیہ سے استناد کے کیا معنیٰ؟ بہرحال حضرت علیؓ کے بیان کردہ اصول کے مطابق مہاجرین اور انصار کی شورائیہ نے سب سے پہلے حضرت ابو بکرؓ کا انتخاب کیا تھا۔ اس لئے ’’خلیفہ بلا فصل‘‘ حضرت ابو بکرؓ ہوئے، حضرت علیؓ نہ ہوئے۔ ہماری بات نہیں مانتے تو نہ مانئے لیکن حضرت علیؓ کے سامنے تو کم از کم دم نہ مارئیے کیونکہ ایمان اور عشق کے دعوے کی یہ شرطِ اولیں ہے۔ آگے آپ کی مرضی۔ اور اس سے دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ ملتِ اسلامیہ کے جمہور کا اعتماد، ’’خلیفہ‘‘ کے انتخاب کے لئے بنیادی حیثیت رکھا ہے۔ اور وہ بلا شبہ حضرت ابو بکرؓ کو حاصل تھا۔ آپ کے انتخاب میں تمام مہاجرین و انصار نے حصہ لیا اور تقریباً ان کی امامت پر سب کا اجماع ہوا اور اگر ایک آدھ نے اختلاف کیا بھی تو محض ذاتی رنجش کی وجہ سے مگراس کے باوجود ان میں سے کسی ایک نے بھی اس انتخاب کو چیلنج نہ کیا تھا۔ اس کا جواب خدارا ’’تقیہ‘‘ کی آڑ میں نہ دیں اور لگی لپٹی بغیر کہیں۔ خدا کوئی کسی کا نہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
بایں دعویٰ، حضرت علیؓ کو فاش کر دیا:
یہ کتنی بد نصیبی ہے کہ یہ اہلِ بیت کے نادان دوست جس ذات گرامی کی عظمتوں اور رفعتوں کی وکالت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں وہی اس کو اپنے دور کے لحاظ سے ’’غیر منقول شخصیت‘‘ ثابت کر رہے ہیں۔ یہ تو یہ حضرات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مہاجرین اور انصارین اور انصار نے حضرت علیؓ کو منتخب نہیں کیا تھا بلکہ اس کا وہاں پر کوئی مذکور بھی نہیں تھا۔ اگر اسے ’’ہلے گلے‘‘ کی بات بھی بنا لی جائے تو بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں بھی کسی نے ان کا نام نہیں لیا تھا۔ اگر یہ ثابت بھی کر دیا جائے کہ فلاں نے نام لیا تھا تو یہ ہرگز ہرگز ثابت نہیں کیا جا سکے گا کہ جمہور صحابہؓ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی یا کم از کم حضرت صدیق اکبرؓ کے بعد حضرت عمرؓ کے انتخاب کے موقعہ پر کسی نے حضرت علیؓ کا نام لیا ہو یا اس کے بعد چھ (۶) ناموں کی فہرست میں سے حضرت علیؓ نے اکثریت کا اعتماد حاصل کیا ہو۔ اگر نہیں حاصل کیا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اس وقت دوسرے اکابر صحابہ کی موجودگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اتنے مقبول نہیں تھے، جتنے دوسرے تھے۔ یہ قوم کے اعتماد کی بات ہے۔ آپ اور میرے جذبات اور عقیدت مندیوں کی بات نہیں ہے۔ دیکھا یہ ہے کہ اپنے بھائیوں میں سے کون سے بھائی کو جمہور کا اعتماد حاصل ہے اور وہ آپ کو معلوم ہی ہے۔ اب کسی سے کوئی کیا کہے۔ بہرحال شیعہ حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی کو زیرِ بحث لا کر ان کی نیک نامی میں اضافہ نہیں کیا، بلکہ متوقع مقام سے نیچے گرانے کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے تاثر اور عقیدت مندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
سیاسی سے زیادہ آپ اہلِ علم تھے:
ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہؓ کے نزدیک اس وقت کے اکابر صحابہ کی بہ نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ بلکہ آپ کے خاندان کے سارے حضرات اتنے سیاستدان نہیں تھے جتنے وہ اہل علم تھے۔ ’’لکل فن رجال‘‘۔ ہر جج اور اہل علم، ضروری نہیں کہ وہ بڑا سیاستدان بھی ہو۔ ہم نے بعض ایسے جج بھی دیکھے ہیں جو ریٹائر ہونے کے بعد، جس قدر وہ عدالتِ عالیہ کے منصب پر کامیاب رہے ہیں، سیاست کے میدان میں اتنے کامیاب ثابت نہیں ہوئے۔ بلکہ قلم دان چھوڑتے ہی ان کی بنی ہے۔ ہمارے نزدیک نہ یہ عیب کی بات ہے اور نہ طعن کی، بلکہ صلاحیتوں کے مختلف پیمانوں کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ’’علم و قضا‘‘ کے باب میں بہت اونچے مقام پر تھے۔بلکہ آپ اونچے قسم کے ادیب اور انشا پردار ز بھی تھے اور ایسے لوگ عموماً سیاسی کم ہوا کرتے ہیں۔ گو ناممکن نہیں تاہم کم یاب ضرور ہیں۔ ان باتوں کو تولنے کے لئے عقیدت کی ترازو بہت کمزور ہوتی ہے بلکہ اس کے قاضی ٹھوس حالات اور واقعات ہوتے ہیں اس لئے اگر ہر خلیفہ کے دور میں اقتدار کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو آسانی سے پتہ چل جائے گا کہ کون سیاسی باب میں کامیاب رہا ہے اور کون نہیں کامیاب رہا۔ میری عقیدت کتنی دہائیاں دے، کتنے واسطے دے، کتنی چلائے، کتنی تڑپے اور کتنی ہی اس کی نزاکتوں پر بنے۔ بہرحال واقعات کی بے رحم گردش اپنے کانٹےاور راستے بدل کر چلنا نہیں جانتی، سیدھی چلتی ہے۔ پوری رفتار کے ساتھ چلتی ہے۔ جتنے پردے ہوتے ہیں ان کو چاک کرتے ہوئے بڑھتی رہتی ہے۔ جتنی دہائیاں اور فریادیں ہوتی ہیں۔ ان سے بہری، گونگی اور اندھی ہو کر دوڑتی ہے جو اس کا راستہ روکتا ہے وہ اس کو روند کر گزر جاتی ہے۔ اور یہ سبھی کچھ اس کا فطری اندز ہوتا ہے، عادلانہ ہوتا ہے، غیر ظالمانہ ہوتا ہے۔ واقعات کا یہ تصرہ اور کچا چِٹھا سب سے زیادہ بے لوث مؤرخ ہوتا ہے۔ بے خطا نقاد اور توانا مناد ہوتا ہے۔ بے غبار آئینہ اور مصفا شیشہ ہوتا ہے۔ اس لئے جو لوگ، کسی وجہ سے بھی، ان واقعات سے آنکھیں بند کر کے چلنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے نقوش کو چھپانے میں وقت کا اسراف ہی کریں گے۔ بہرحال حضرت علیؓ اور دوسرے خلفاء کے سیاسی دور کے حالات اور واقعات ہم سب کے سامنے ہیں۔ ان کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے کہ کون اس میں کامیاب رہا اور کون نہیں۔ کون بہتر سیاستدان تھا اور کون نہیں۔ مہاجرین اور انصار نے جن پر جس جس دور میں جو فیصلہ کیا اور جس کے بارے میں اعتماد اور اطمینان کا جو مظاہرہ کیا وہ کس قدر صحیح تھا یا کس قدر بے جا تھا؟ ہاں دَور کی پُر آشوبی کا بہانہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حضرت علیؓ کے عہدِ خلافت کی صفت نہیں تھی بلکہ حضرت ابو بکرؓ کے عہد کی پُر آشوبی اور فتنہ سامانی اس سے کہیں زیادہ حوصلہ شکن، درد ناک اور آناً فاناً تھی۔ حضرت علیؓ کو ایک وسیع و عریض مملکت پالی پوسی ملی، جتنی خرابی تھی اس وقت کفر و ایمان کی نہیں تھی انتظامی قسم کی تھی۔ غیروں سے نہیں اپنوں سے تھی۔ لیکن حضرت ابو بکرؓ کے دور میں انتظامی خرابی بھی تھی اور کفر و ایمان کی بھی، اپنوں کی بھی تھی اور غیروں کی بھی، اندرونی بھی تھی اور بیرونی بھی۔ لیکن اس کے باوجود سب سے زیادہ کامیاب رہے، یہاں تک کہ حضرت عمرؓ بن الخطاب کو کہنا پڑا کہ
’’آج جس مقامِ عزیمت کا مظاہرہ حضرت صدیق اکبرؓ نے کیا اگر میں ہوتا تو اس میں فیل ہو جاتا۔‘‘
اس لئے دور کی پُر آشوبی کی آڑ بھی تقیہ جیسی آڑ ہے۔ سیاسیات کے ماہرین اور علماء نے یہ تصریح کی ہے کہ خلافت کے لئے اہلِ علم کی بہ نسبت سیاسی مدبر زیادہ موزوں ہوتا ہے۔ اگر دونوں کا اجتماع ہو جائے تو نورٌ علیٰ نور ہو ا۔ لیکن سیاسی تفوق سے عاری انسان کے لئے اس وقت تک خلافت کے دائرہ میں قدم رکھنے کے لئے کوئی گنجائش نہیں جب تک قوم میں اس سے بہتر اور موزوں آدمی مل سکتے ہوں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
پائے چوبیں:
اب آپ ان کے بنیادی دلائل ملاحظہ فرمائیں:
لغت میں:
’’مختلف لغت کی کتابوں میں ’وصی‘ کے معنے حضرت علی بیان کئے گئے ہیں، تو معلوم ہوا کہ آپ وصی رسول تھے۔‘‘
(معارف اسلام نومبر، دسمبر 1963ء ص 14)
شیعہ دوستوں کی سطحیت کی اس سے بد تر مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ ’’وصی رسول‘‘ کے معنی لغت میں تلاش کیے جائیں۔
دراصل لغت میں ’’وصی‘‘ کے معنے عام لحاظ سے کیے گئے ہیں کہ دنیا میں نفیاً یا اثباتاً وصی کس کے لئے استعمال ہو رہا ہے لیکن اسے اس سے بحث نہیں کہ وہ صحیح ہے یا غلط؟ یعنی شرعی لحاظ سے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
وصیت کا حکم:
’’قرآن میں وصیت کرنے کا حکم ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پیغمبر نے وصیت نہ کی ہو۔‘‘ (ص 15)
کیا وصیت، صرف وصیتِ خلافت ہی رہ گئی ہے۔ اگر وہ بھی وصیتیں ممکن ہیں تو پھر اس سے آپ کو کیا فائدہ؟ ہاں حضور نے ’’خلیفہ‘‘ کی تعیین کے سوا نظامِ خلافت کے سلسلہ میں اور متعدد وصیتیں فرمائی ہیں مثلاً کیسے ہوں، جب منتخب ہو جائیں تو ان کی اطاعت کیسی ہو وغیرہ وغیرہ مگر یہ باتیں آپ کے مطلب کی نہیں ہیں۔
تاریخ طبری وغیرہ کا حوالہ:
آیت وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ کے نزول پر حضور نے اپنے قرابت داروں کو جمع کرا کے پوچھا تھا کہ کون ایسا ہے جو میری مدد کرے اور میرا وصی اور خلیفہ بنے؟ قوم نے تو جواب نہ دیا، حضرت علیؓ نے کہا میں حاضر ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ علیؓ میرا وصی اور خلیفہ ہے۔ تم اس کا حکم مانو۔‘‘ (ص 15)
 
Top