• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواتین کے ایشوز از جاوید چوہدری

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
یہ مئی 2014ء کی 27 تاریخ تھی‘ وقت صبح کے پونے آٹھ بجے تھا اور مقام تھا لاہور ہائی کورٹ۔ 25 سال کی ایک نوجوان خاتون اور 45 سال کا ایک جوان مرد ہائیکورٹ کے گیٹ کے نزدیک پہنچا‘ یہ دونوں مسجد گیٹ کے ذریعے ہائیکورٹ میں داخل ہونا چاہتے تھے‘ یہ سڑک پر پہنچے تو اچانک اونچی آواز میں گالی کی آواز آئی‘ یہ دونوں گھبرا کر مڑے‘ سامنے سو گز کے فاصلے پر درجن بھر لوگ کھڑے تھے‘ یہ دونوں دوڑ پڑے مگر لوگوں نے انھیں گھیر لیا‘ جھگڑا شروع ہو گیا‘ خاتون نے چیخنا شروع کر دیا‘ لوگ اکٹھے ہوئے۔
اس دوران حملہ آوروں میں سے ایک شخص نے پستول نکالا اور خاتون پر فائر کر دیا‘ فائر خاتون کی ایڑی پر لگا‘ ہجوم میں موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے پستول چھین لیا‘ یہ شخص سیالکوٹ سے تعلق رکھتا تھا‘ سب انسپکٹر تھا اور یہ پیشی کے لیے ہائی کورٹ آیا تھا‘ اس دوران حملہ آوروں میں شامل ایک بزرگ نے سڑک سے اینٹ اٹھائی اور خاتون کے سر پر دے ماری‘ خاتون نیچے گر گئی‘ تین جوان حملہ آور بھاگے اور بزرگ کے ساتھ شامل ہو گئے‘ ان تینوں نے خاتون کو اینٹیں مارنا شروع کر دیں‘ لوگوں نے انھیں ہٹانے کی کوشش کی لیکن ان کے اٹھنے سے قبل خاتون زندگی کی سر حد پار کر گئی جب کہ خاتون کے ساتھ موجود جوان شخص ہجوم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگ گیا ‘پولیس کو اطلاع دی گئی‘ پولیس پہنچی‘ ایس پی‘ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او وہاں پہنچ گئے۔

خاتون کی لاش سڑک پر پڑی تھی‘ پولیس کو دیکھ کر خاتون کے ساتھ آنے والا شخص بھی وہاں پہنچ گیا‘ اسٹوری کھلی تو کھلتی چلی گئی‘ پتہ چلا مرنے والی خاتون کا نام فرزانہ تھا‘ یہ جڑانوالہ کے علاقے سیدوالا کی رہنے والی تھی‘ والدین نے دو سال قبل اس کا نکاح اس کے کزن مظہر اقبال سے کر دیا‘ یہ اپنے خاوند کے ساتھ خوش نہیں تھی‘ اس دوران فرزانہ کے محمد اقبال کے ساتھ تعلقات استوار ہو گئے‘ محمد اقبال شادی شدہ تھا لیکن وہ بھی اپنی بیوی سے خوش نہیں تھا‘ یہ تعلقات تقریباً سال ڈیڑھ سال چلتے رہے یہاں تک کہ فرزانہ نے اپنا گھر چھوڑا اور سات جنوری 2014ء کو اقبال کے ساتھ نکاح کر لیا‘ یہ نکاح پر نکاح تھا‘ فرزانہ کے پہلے خاوند مظہر اقبال کو اطلاع ملی تو اس نے دس جنوری کو اقبال کے خلاف سید والا میں ایف آئی آر کٹوا دی‘ اقبال گرفتار ہوگیا۔

فرزانہ بھاگ کر پاک پتن چلی گئی اور اس نے دارالامان میں پناہ لے لی‘ اقبال نے ضمانت کی درخواست دی‘ اس کی ضمانت ہو گئی‘ یہ پاک پتن گیا‘ اس نے فرزانہ کو دارالامان سے لیا اور یہ (شاید) لاہور آ گئے‘ دونوں نے لاہور ہائی کورٹ میں سید والا کی ایف آئی آر کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کر دی‘ یہ لوگ اس پٹیشن کے سلسلے میں 27 مئی کو لاہور ہائی کورٹ آئے‘ فرزانہ کے خاندان کو ان کی آمد کی اطلاع ہو گئی‘ یہ لوگ بھی ہائی کورٹ پہنچ گئے‘ لاہور آنے والوں میں اس کا والد اعظم‘ بھائی زاہد‘ بھائی غلام علی‘ کزن جہان خان اور پہلے خاوند مظہر اقبال سمیت پندرہ بیس قریبی رشتے دار شامل تھے‘ فرزانہ اور اقبال دونوں مسجد گیٹ کے قریب پہنچے تو رشتے داروں نے انھیں گھیر لیا‘ والد نے فرزانہ کے سر پر اینٹ ماری‘ دونوں بھائی اور پہلا خاوند والد کے ساتھ شامل ہوگئے اور چاروں نے اسے چند سیکنڈ میں قتل کر دیا۔

یہ انتہائی بہیمانہ واقعہ ہے‘ آپ اگر ذرا سے بھی حساس ہیں‘ آپ اگر معمولی سی بھی سمجھ بوجھ کے مالک ہیں اور آپ اگر تھوڑے سے بھی تعلیم یافتہ ہیں تو آپ خود کو اس واقعے پر دکھی ہونے سے باز نہیں رکھ سکتے‘ میں بھی چھ دن سے دکھی ہوں‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بھی دکھی ہیں‘ انھوں نے اس واقعے کا نوٹس بھی لے لیا اور یورپی یونین‘ امریکا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور برطانیہ کے ادارے بھی دکھی ہیں‘ انھوں نے بھی آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے‘ ہم اس واقعے کی جس قدر مذمت کریں‘ یہ کم ہو گی لیکن سوال یہ ہے کیا صرف مذمت‘ آسمان سر پر اٹھانا اور حکومت کا نوٹس لے لینا کافی ہے؟ کیا اس سے ایسے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے؟

پاکستان دنیا میں غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل میں پہلے نمبرپر آتا ہے‘ ملک میں ہر سال ہزاروں عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں‘ ان میں سے صرف دس فیصد کیس رپورٹ ہوتے ہیںاور ان میں بھی کیونکہ مدعی گھر والے ہوتے ہیں چنانچہ مقدمے کی پیروی جلد بند ہو جاتی ہے یا پھر ملزم کو معاف کر دیا جاتا ہے اور یوں ایک جیتی جاگتی عورت عبرت کا قصہ بن کر ماضی میں گم ہو جاتی ہے‘ ہم جب تک اس نظام کو نہیں بدلیں گے‘ ہم ’’غیرت‘‘ کے خلاف کڑی قانون سازی نہیں کریں گے‘ یہ واقعات اسی طرح ہوتے رہیں گے‘ حکومتیں اسی طرح نوٹس لیتی رہیں گی‘ پولیس اہلکار اسی طرح معطل ہوتے رہیں گے۔

میڈیا اسی طرح مصالحہ دار خبریں دیتا رہے گا اور پھر ایک اندوہناک واقعہ اسی طرح دوسرے اندوہناک واقعے کی جگہ لیتا رہے گا‘ فرزانہ کی جگہ شبنم آ جائے گی‘ شبنم کی جگہ فریحہ ماری جائے گی اور فریحہ کی خبر کو مریم کے خون کی لالی مٹا دے گی‘ ہم یہ واقعات‘ یہ خبریں اور یہ لاشیں کب تک چنتے رہیں گے لہٰذا میری وزیراعظم سے درخواست ہے‘ یہ ایک ہی بار یہ معاملہ نبٹا دیں‘ یہ اس سوراخ کو بند کر دیں جہاں سے فرزانہ جیسے واقعات نکلتے ہیں‘ میں حکومت کو چند تجاویز دینا چاہتا ہوں‘ میرا خیال ہے‘ حکومت اگر مہربانی فرمائے تو ان تجاویز کے ذریعے ہم یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں‘ وزیراعظم سب سے پہلے خواتین کے ایشوز اپنی صاحبزادی مریم نواز کے حوالے کر دیں۔

یہ اس وقت سیاست کی ٹریننگ لے رہی ہیں‘ یہ ان ایشوز میں آئیں گی تو یہ زیادہ تیزی سے اس معاشرے کو سمجھ سکیں گی‘ ملک میں خواتین کی تعداد 52 فیصد ہے‘ یہ 52 فیصد خواتین 52 فیصد مینڈیٹ بھی ہیں‘ مریم نواز ان کے مسائل حل کر کے 52 فیصد مینڈیٹ جیت لیں گی اور یہ میاں صاحب کی سیاست کے لیے بہت اچھا ہو گا‘ دنیا بھر میں قتل ریاست کے خلاف جرم سمجھا جاتا ہے‘ قتل کے مدعی لواحقین نہیں ہوتے ریاست ہوتی ہے چنانچہ ملک میں قتل کو ریاستی جرم قرار دیا جائے‘ اگر اس معاملے میں کوئی مذہبی رکاوٹ ہو تو حکومت علماء کرام سے مدد لے سکتی ہے‘ حکومت پہلے مرحلے میں خواتین کے قتل کو ریاستی جرم قرار دے دے اور پولیس کو اس کی تفتیش تین ماہ کے اندر مکمل کرنے اور عدالتوں کو چھ ماہ میں کیس نبٹانے کی ہدایت کرے۔

پولیس اور عدلیہ کے جو اہلکار اس قانون کی خلاف ورزی کریں‘ ان کی ترقیاں روک دی جائیں‘سول جج سیشن نہ بن سکے اور سیشن جج ہائی کورٹ کا جج نہ بن سکے اور پولیس کا سب انسپکٹر‘ انسپکٹر نہ بن سکے‘ ملک میں تمام فیملی مقدمات‘ خلع‘ خواتین کی وراثت کا کیس اور نان نفقے کے مقدمات ایک سال کے اندر اندر پایہ تکمیل تک پہنچائے جائیں‘ خواتین سے متعلق تمام مقدمات ’’آن لائین‘‘ کر دیے جائیں اور مریم نواز شریف اور میاں نواز شریف روزانہ ان کیسز کی پیش رفت مانیٹر کریں‘ یہ مقدمات جوں ہی ایک سال کی حد سے اوپر جانے لگیں حکومت مداخلت کرے اور ان مقدمات کی راہ میں موجود رکاوٹیں دور کرے‘ آپ کو آج بھی عدالتوں میں طلاق اور خلع کے بیس بیس سال پرانے مقدمے ملتے ہیں‘ آپ خود سوچئے کیا یہ ظلم نہیں‘حکومت ایک آرڈر سے ان تمام مقدموں کا فیصلہ کر دے۔

حکومت خواتین کے لیے لیگل سروس شروع کرے‘ حکومت خواتین وکیل ہائر کرے‘ یہ وکیل مظلوم عورتوں کے مفت مقدمے لڑیں یا ان کی فیس حکومت ادا کرے‘ فیسوں کا بوجھ عورتوں پر نہیں پڑنا چاہیے‘ ملک بھر میں نکاح کا سسٹم آن لائین کر دیا جائے‘ ملک بھر کے نکاح آن لائین رجسٹر ہوں اور جو نکاح خوان اس قانون کی خلاف ورزی کرے اسے کڑی سزا دی جائے‘ بچیوں کے والدین بھی فیس دے کر اپنے ہونے والے داماد کا ریکارڈ چیک کر سکیں‘ اس سسٹم سے نکاح پر نکاح‘ جعل سازی اور رشتوں کے معاملے میں مکرو فریب کا تدارک ہو جائے گا‘ یہ کام نادرا چند دنوں میں کر سکتا ہے‘ فرزانہ جیسی خواتین کے لیے ہیلپ لائین شروع کی جائے‘ یہ خواتین کسی بھی وقت ’’ٹول فری نمبر‘‘ پر فون کریں اور سیکیورٹی حاصل کرلیں‘ یورپی یونین اور بین الاقوامی تنظیمیں اس معاملے میں حکومت کی مدد کر سکتی ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے ’’غیرت‘‘ صرف دیہاتی‘ غریب‘ متوسط اور لوئر مڈل کلاس کا ایشو ہے‘ ہم جب تک دیہاتی زندگی کو شہری اور لوئر مڈل کلاس کو مڈل کلاس نہیں بنائیں گے‘ یہ معاملات جوں کے توں رہیں گے چنانچہ میری حکومت سے درخواست ہے‘ یہ فوری طور پر ملک کی تمام بچیوں کے لیے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنا لازم قرار دے دیں‘ یہ ہنر جدید ہونا چاہیے اور یہ بچیاں اس کی مدد سے اپنے خاندان کو پال سکیں‘ حکومت فوری طور پر تمام شہروں اور قصبوں میں زنانہ بازار بنائے‘ اس بازار کی تمام دکاندار بھی خواتین ہوں اور خریدار بھی خواتین۔ یہ بازار عورتوں کو مردوں کی معاشی غلامی سے آزاد کریں گے اور یوں حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور آخری بات ملک میں جرائم کی لامحدود کوریج پر پابندی لگا دی جائے‘ میڈیا کے پاس جب تک ناقابل تردید ثبوت نہ ہوں‘ یہ جرائم بالخصوص خواتین کے خلاف جرائم کی خبریں نہ دے سکے۔

وزیراعظم اگر فرزانہ کے قتل کو ٹیسٹ کیس بنا کر یہ فیصلے کر لیتے ہیں تو ملک کی زیادہ تر فرزانائیں بچ جائیں گی بصورت دیگر ایک کے بعد دوسری فرزانہ آئے گی اور ہر فرزانہ ملکی اور غیر ملکی ضمیر کو جھنجوڑدے گی چنانچہ وزیراعظم پولیس کے خلاف نوٹس لینے کے بجائے ایسے واقعات کی والدہ کی نس بندی کریں‘ یہ ضروری ہے۔
از جاوید چوہدری
http://www.express.pk/story/259408/
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
کیوں اس پاگل کے کالم لگا لگا کردوسروں کو ’’پاگل ‘‘کرنا ہے آپ نے):
 
  • پسند
Reactions: Dua

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا بہن۔۔۔
میں نے ابھی ہی یہ لنک دیکھا ہے۔
جاوید چوہدری صاحب کے ساتھ ساتھ عورتوں کو آگہی دلانا بھی بہت ضروری ہے۔ایک عورت کا نکاح ایک وقت میں ایک ہی مرد کے ساتھ ممکن ہے۔
نیز اس طرح سے بیرونی راستے اختیار کرنا کسی طور درست نہیں۔ایسے راستوں کے لیے حکومتی تحفظ اور سرپرستی حاصل نہیں ہونی چاہیئے۔ورنہ معاف کیجیئے گا
وقت کا پہیہ کسی طرف بھی گھومتے دیر نہیں لگتے۔مذکورہ واقعہ میں یہ ’’غیرت‘‘ یقینا ’’ غیرت مندوں‘‘ کو ہی سجتی ہے۔مرد و عورت کے مابین اسی ’’غیرت‘‘ کے
مسئلہ پر شریعت میں بھی حکم موجود ہے۔اس حوالے سے دو احادیث جاوید چوہدری صاحب کے علم میں اضافہ کے لیے پیش ہیں۔
865۔سیدنا سہل بن سعد ساعد ی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ ، عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ اے عاصم! بھلا اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے تو کیا اس کو مار ڈالے؟ (اگر وہ مار ڈالے)تو پھر تم (اس مرد) کو (قصاص میں) مار ڈالو گے؟ یا وہ کیا کرے؟ یہ مسئلہ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے سوالوں کو ناپسند کیا اور ان کی برائی بیان کی۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ ان پر شاق گزرا۔ جب وہ اپنے گھر لوٹ کر آئے تو عویمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور پوچھا کہ اے عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے عویمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو میرے پاس اچھی چیز نہیں لایا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (تیرے لیے یہ) مسئلہ پوچھنا ناگوار گزرا۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو باز نہ آؤں گا جب تک یہ مسئلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھوں گا۔ پھر عویمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تمام لوگوں (کی موجودگی) میں آئے اور عرض کی یارسول اللہ! آپ کیا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس غیر مرد کو دیکھے تو (کیا) اس کو مار ڈالے؟ پھر آپ اس (مرد) کو (قصاص میں) مار ڈالیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تیرے اور تیری بیوی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہو چکا ہے، تو جا اور اپنی بیوی کو لے آ۔'' سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا اور میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا۔ جب وہ فارغ ہوئے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ! اگر میں اب اس عورت کو رکھوں تو میں جھوٹا ہوں۔ پھر سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے قبل ہی تین طلاق دے دیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ پھر لعان کرنے والوں کا یہی طریقہ ٹھہر گیا۔

866۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا یارسول اللہ! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو کیا میں اس کو اس وقت ہاتھ نہ لگاؤں جب تک چار گواہ نہ لے آؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ہاں! بے شک۔'' سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہر گز نہیں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجاہے کہ میں تو اس کا علاج تلوار سے جلد ہی کر دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تمہارے سردار کیا کہہ رہے ہیں ذرا غور سے سنو۔ وہ بڑے غیرت دار ہیں اور میں ان سے زیادہ غیرت دار ہوں اور اللہ جل جلالہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت رکھتا ہے۔ ''
(صحیح مسلم ، کتاب اللعان)

پس یہ غیرت تو موجود ہے ، اور ’’اظہار‘‘ کا طریقہ بھی شریعت سے واضح ہے۔اس کے لیے یورپی یونین اور بین الاقوامی دروزے کھٹکٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔جب کمیاں، کوتاہیاں خود میں موجود ہوں۔یہاں بھی سمجھ لینا ضروری ہے، کہ عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیرجائز نہیں ، جبکہ مذکورہ واقعہ میں نکاح پر نکاح کیا گیا ہے۔لہذا ایسے معاملات پر تحفظ کا مطالبہ ،کوئی دانشمندی نہیں۔جاوید چوہدری صاحب سے درخواست ہے کہ ’’حقوق نسواں‘‘ کے مزید قوانین پر روشنی ڈالنے سے پہلے ’’فرائض نسواں‘‘ پر مشتمل چند نکات ہی پیش کر دیں۔کہ شاید اصلاح احوال کے تناظر میں عورت ، باپ ، بھائی ، شوہر کی صورت میں ’’مرد‘‘ کو مثبت صورتوں میں قبول کر لے۔قانون بنانے سے کہیں بہتر قانون پر عمل کروانا ہوتا ہے اور ہمارے پاس قوانین کی کمی نہیں ہے۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
۔ یہ بازار عورتوں کو مردوں کی معاشی غلامی سے آزاد کریں گے اور یوں حالات ٹھیک ہو جائیں گے

از جاوید چوہدری
http://www.express.pk/story/259408/
اللہ تعالی نے مرد کو عرت پر قوام بنایا ہے ۔۔۔اور اس قوامیت کی قرآن نے دو وجوہات بیان کی ہیں

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں

گویا دو وجوہات سامنے آتی ہیں
جسمانی طور پر عورت سے زیادہ طاقتور ہونا
مرد پر معاش کی ذمہ داری ہونا
اسی بنا ء پر فقہاء نے اک بات پر بحث کی ہے کہ اگر ایک خاوند عورت کو معاشی تخفظ فراہم نہیں کر سکتا تو کیا عورت پر اس کو اطاعت لازم ہے یا نہیں۔۔۔؟؟؟
اور اگر جیسا کہ چوہدری صاحب فرما رہے ہیں کہ مرد کی معاشی ذمہ داری سے نکل کر عورت کے مسائل حل ہو جائیں گے ۔۔۔۔عملاً اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ عورت خاوند کی اطاعت سے باغی ہو جائے گی ۔۔۔گھر اور بچے میڈز کے حوالے کر دیئے جائیں گے۔۔۔اور یوں پاکستان میں بچا کچا خاندانی نظام تباہ ہو کر رہ جائے گا
اللہ تعالی نے قرآن میں اس بات کا نقشہ کھینچا ہے کہ اگر دنیا میں دو معبود ہوتےتو کیا ہوتا۔۔

لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَانَ اللَّـهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿٢٢
اگر آسمان وزمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں (22)


اگر دنیا کا اتنا بڑا نظام دو الہہ کی موجودگی میں درہم برہم ہو جائے گا تو ایک گھر دو حاکموں سے کیسے چل پائے گا۔۔۔
اور یہ تجربے کی بات ہے جن گھروں میں عورتیں مردوں کی غلامی سے آذادی کی خاطر معاش کمانے باہر نکل جاتی ہیں ان گھروں کا نظام تباہ وبرباد ہو کر رہ جاتا ہے ۔۔۔عورت اس خوش فہمی میں مبتلا رہتی ہے کہ وہ گھر کو معاشی طور پر سپورٹ کر رہی ہے حالانکہ اگر غور کیا جائے لو گھر کے بنیادی خرچے مرد کی تنخواہ سے ہی پورے ہوتے ہیں۔۔۔۔عورت کی کمائی تعیشات پر ضائع ہو جاتی ہے۔۔۔عورت گھر سے نکلے گی تو گھر میں میڈ آئے گی اس کا خرچہ۔۔۔عورت کی پرانسپورٹ کا خرچہ ۔۔۔روز گھر سے نکلے گی تو اس کے نت نئے کپڑوں اور جوتوں کا خرچہ۔۔۔گھر میں بیٹھے تو اپنے اور بچوں کے کپڑے خود سی سکتی ہےنوکری کی صورت میں درزیوں کے ہوش ربا خرچے۔۔۔یہ سارےاور اس کے علاوہ مزیداضافی خرچے بھی عورت کی تنخواہ سے ہی پورے ہوتے ہیں۔۔۔جبکہ گھر کی دال روٹی‘ گھر کے بلز‘ علاج معالجہ وغیرہ جیسے بنیادی خرچے مرد کی کمائی سے ہی پورے ہوتے ہیں۔۔۔اور اوپر سے عورت کا یہ رعب کہ گھر میری کمائی سے چل رہا ہے۔۔۔اور مزید لڑائی جھگڑے۔۔گویا عورت کا کمانا مسائل کو حل نہیں کرتا بلکہ نت نئے مسائل کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔۔۔

اور اگر بالفرض عورت اپنی کمائی سے گھر کے بنیادی خرچے پورے کرے تب بھی کہ ایک خلش میں مبتلا رہتی ہے۔۔۔اللہ نے مرد اور عورت کی فطرت میں فرق رکھا ہے۔۔مرد کھلا کر خوش ہوتا ہے اور عورت کھا کر۔۔۔مرد ذمہ داری اٹھا کر مطمئن رہتا ہے جبکہ عورت ذمہ داری ڈال کر۔۔۔عورت فطری طور پر بخیل ہوتی ہے اور مرد کی طبیعت میں کشادگی ہوتی ہے۔۔۔جب دونوں اپنی فطرت سے بغاوت کریں گے تو نتیجہ تباہی وبربادی کے سوا کچھ اور نہیں نکلے گا

میں یکسر عور ت کی ملازمت کے خلاف نہیں ۔۔۔اگر اس کے بغیر کوئی اور چارہ نہ ہو تو نوکری کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔لیکن اس سوچ کے ساتھ گھر سے باہر نکلنا (خواہ ضرورت نہ بھی ہو ) کہ مرد کے معاشی تسلط سے نجات ملے یہ نیت شریعت اور معاشرت دونوں لحاظ سے غلط ہے اور جاوید چوہدری صاحب اسی کو پروموٹ کر رہے ہیں
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
ر آخری بات ملک میں جرائم کی لامحدود کوریج پر پابندی لگا دی جائے‘ میڈیا کے پاس جب تک ناقابل تردید ثبوت نہ ہوں‘ یہ جرائم بالخصوص خواتین کے خلاف جرائم کی خبریں نہ دے سکے۔[/HL

پورے کالم میں یہ واحد کام کی بات ہے جو غلطی سے چوہدری صاحب کے قلم سے ادا ہوگئی ہے
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
یہ بھی حقیقت ہے ’’غیرت‘‘ صرف دیہاتی‘ غریب‘ متوسط اور لوئر مڈل کلاس کا ایشو ہے‘ ہم جب تک دیہاتی زندگی کو شہری اور لوئر مڈل کلاس کو مڈل کلاس نہیں بنائیں گے‘ یہ معاملات جوں کے توں رہیں گے
جبکہ ’’چلا گولی‘‘ میں ’’بگڑا ابنارمل رئیس‘‘ اور ’’کروڑ پتی بھانجا‘‘۔۔۔معلوم نہیں ہمارے ہاں کب سے مڈل اور لوئر مڈل کلاس ’’رئیس اور کروڑ پتی‘‘ پائے جانے لگے ہیں؟
معاملہ لوئر،مڈل،لوئر مڈل،اپر اور ایلیٹ کلاس کا نہیں۔۔معاملہ غیرت کا ہے!!
شاید غیرت اس لیے بھی مڈل کلاس کا ایشو ہےکہ اپر کلاس تو حرام مال کھا کھا کر بے غیرت بنی ہوتی ہے۔۔۔جنہوں نے محنت کی حلال روزی کھانی ہے،غیرت انہیں ہی’’ستائے‘‘ گی!
 
Last edited:

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
’’خواتین کے ایشوز‘‘ مین درج تمام معاملات کے بعد اسلام اور اسلام پسندوں کو طعن کیا جاتا ہے۔۔ملزم کو دقیانوس اور مولویت کے خطاب عطا کیے جاتے ہیں(چاہے ’مولوی‘صاحب نے کبھی مسجد کا رخ بھی نہ کیا ہو)۔جبکہ یہ تمام باتیں اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا نہ ہونے کا ہی تو شاخسانہ ہیں!
والدین نے دو سال قبل اس کا نکاح اس کے کزن مظہر اقبال سے کر دیا‘ یہ اپنے خاوند کے ساتھ خوش نہیں تھی
لڑکی اس مرد سے شادی پر راضی ہی نہیں ہے۔اس میں بڑا معاملہ یہی ہوتا ہے کہ شادی سے قبل لڑکی کی مرضی پوچھی نہیں جاتی۔۔جبکہ اسلام نے اس حوالے سے کیا تعلیمات دی ہیں:
۱)ایک کنواری لڑکی نبی کریمﷺ کے پاس آئی اور اس نے ذکر کیا کہ اس کے والد نے اسکا نکاح کر دیا ہے ،حالانکہ (وہ اس شخص کو) نا پسند کرتی ہے تو آپ ﷺ نے اسے اختیار دے دیا(کہ وہ نکاح ختم کرنا چاہے تو کر سکتی ہے)۔صحیح ابی داؤد
۲)بیٹی کو ایسے شخص کے ساتھ شادی پر مجبور کرنا،جسے وہ ناپسند کرتی ہو،حرام ہے۔سعودی مجلس افتاء
دوسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ وہ شادی کے بعد بوجوہ خوش نہیں۔۔اس سلسلے میں کیا احکامات ہیں:
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِ‌يدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرً‌ا النساء:٣٥
’’اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں سے اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو، اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرا دے گا، یقیناً اللہ تعالیٰ پورے علم واﻻ پوری خبر واﻻ ہے‘‘
معاملہ تب بھی درست نہ ہو سکے تو اسلامی احکام کے مطابق مرد طلاق دے سکتا ہے اور عورت خلع لے سکتی ہے!!

فرزانہ نے اپنا گھر چھوڑا اور سات جنوری 2014ء کو اقبال کے ساتھ نکاح کر لیا‘ یہ نکاح پر نکاح تھا
’’تم میں کوئی بھی اپنے بھائی کے پیغامِ نکاح پر پیغامِ نکاح نہ بھیجے حتٰی کہ اس سے پہلے پیغامِ نکاح بھیجنے والا خود چھوڑ دے یا اسے اجازت دے دے‘‘ براویتِ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ۔متفق علیہ
یہ تو پیغامِ نکاح کا معاملہ ہے تو نکاح پر نکاح کیا حیثیت رکھے گا؟؟
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْالنساء :۲۴
’’اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وه جو تمہاری ملکیت میں آجائیں، اللہ تعالیٰ نے یہ احکام تم پر فرض کر دیئے ہیں‘‘
’’یعنی ان عورتوں سے بھی نکاح حرام ہے جو پہلے سے کسی کے نکاح میں ہیں اور شوہر والی ہیں جب تک یہ عورتیں پہلے شوہر کی زوجیت میں ہیں ،ان سے نکاح حرام ہے۔اگر پہلا خاوند طلاق دے دے اور عدت گزر جائے تو ان سے نکاح جائز ہو گا‘‘تفسیر السعدی
یہاںإِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ سے مراد جنگ میں شادی شدہ لونڈیاں ہیں۔
اس طرح کے نکاح میں عورت کو واپس پہلے خاوند کی طرف لوٹایا جائے گا کیونکہ یہ دوسرا نکاح باطل ہے!!
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
فرزانہ نے اپنا گھر چھوڑا اور سات جنوری 2014ء کو اقبال کے ساتھ نکاح کر لیا
از خود نکاح کی شرعی حیثیت:
1)’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘‘احمد،ابی داؤد،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ
2)’’ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘‘ صحیح جامع الصغیر
3)’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا۔اس کا نکاح باطل ہے‘‘ابی داؤد
4)’’بلاشبہ وہ عورت زانیہ ہے جس نے اپنا نکاح خود کر لیا‘‘صحیح ابن ماجہ
5)’’عورت خود اپنا نکاح نہ کرے،بے شک زانیہ ہی اپنا نکاح خود کرتی ہے‘‘سنن ابن ماجہ

اب شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے مگر ملحوظِ خاطر رہے کہ عام عوام کو قوانین ہاتھ میں لینے سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا!!مگر یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان تو کجا دیگر اسلامی ممالک میں بھی اسلامی حدود کا نفاذ نہیں۔۔لہذایہ معاملات تو لازم ہیں!!
اسلام عین فطرت ہے۔۔جب فطرت کے اصول و ضوابط کو پسِ پشت ڈالا جائے گا تو انجام یہی ہو گا!!
ایک اور صورت ’’لعان‘‘ کا ذکر اوپر دعا بہن نے کر دیا ہے۔۔

ہم ’’غیرت‘‘ کے خلاف کڑی قانون سازی نہیں کریں گے
ان معاملات میں غیرت آنا فطری ہے۔۔اب یہ اور بات ہے کہ ہم بے غیرت بن کر رہنا پسند کریں تو کیا کیا جا سکتا ہے!!
 
Top