• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواہشات پر کنٹرول اور نیک اعمال میں بہتات

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
خطبہ حرم مکی 2011/11/25ء .... 1432/12/29ھ



خطیب: الدکتور صالح بن حمید
مترجم :محمد فاروق

خطبہ اوّل

سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، جس نے دن رات کو پیدا کیا اور ان کےذریعے اعمال کے اوقات اور عمر کی حد بندیاں مقرر کیں -اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہی ذات ہے جس نے دنوں اور راتوں کے ادل بدل کو دنیا والوں کے لیے سبق حاصل کرنے آمیز بنایا۔ میں اس کی تعریف کرتا ہوں اور اس کے عظیم انعامات پر اس کا شکر بجا لاتا ہے ،کیونکہ نعمتوں کی قدردانی ،نعمتوں کی کثرت و بہتات کا باعث ہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، یہ گواہی صدق قلب اور صحت اقرار سے ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار نبی محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپؐ پر، آپ کی پاکیزہ آل پر اور نیک و منتخب اصحاب پر، تابعین پر او رجنہوں نے اچھے طریقے سے ان کی پیروی کی،ان پر رحمتیں او ربرکتیں نازل کرے او ران پر بہت زیادہ سلامتی بھیجے۔
حمد و ثناء کے بعد!
حاضرین مجلس میں تمہیں اور خود کو اللہ عزوجل کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کرو ۔ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا رحم و فضل کرے۔چنانچہ جو شخص اللہ کی معرفت حاصل کرے وہ اسے اس کا اصل حق(یعنی جملہ عبادات بجا لاتا ہے) دیتا ہے، جو رسول اللہ ﷺ سے محبت کرے وہ آپؐ کی سنت کا التزام کرتا ہے، جو قرآن کی تلاوت کرے گا وہ اس پر عمل کرے گا۔ جو جنت کا شائق ہے وہ حصول جنت کے لیے اعمال انجام دے گا ۔ جہنم سے خائف اس سے بھاگے گا اور جسے موت کا یقین ہے وہ اس کی تیاری کرے گا۔
سیدنا علیؓ کا فرمان ہے: میں دو چیزوں، لمبی آرزو اور خواہشات کی پیروی سے سخت خائف ہوں، کیونکہ لمبی آرزو آخرت بھلادیتی ہے اور خواہشات کی پیروی حق سے روک دیتی ہے۔ او راللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
افرأیت من اتخذ الھہ ھواہ واضلہ اللہ علی علم و ختم علی سمعہ وقلبہ و جعل علی بصرہ غشاوۃ فمن یھدئہ من بعد اللہ افلا تتذکرون (الجاثیہ:23)
’’آپ کا اس شخص کے بارے کیا خیال ہے جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا اور باوجود علم کے اللہ نے اسے گمراہ کردیا او راس کے کان اور دل پر مہر لگا دی او رجس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا۔ ایسے شخص کواللہ کے بعد کون ہدایت دے گا کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے۔‘‘
اےمسلمان بھائیو اور حجاج کرام!
تم یہ سال گزار چکے ہو اور آئندہ سال کے آغاز میں ہو، گزشتہ سال کے اعمال جو تم ادا کرچکے ہو یہی تمہارا سرمایہ ہے- سو جس نے اچھے اعمال کیے ہیں اس پر اسے خوش ہونا چاہیے ، اللہ کی تعریف کرنی چاہیے اور زیادہ اعمال انجام دینا چاہیئیں او ربہترین توشہ تقویٰ ہے ، جس نے اعمال میں کوتاہیاں کی ہیں تو ابھی زندگی میں توسیع ہے۔ لہٰذا اسے توبہ کرنی چاہیے اور اللہ تبارک و تعالیٰ توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتے ہیں۔
اے اللہ! ہمارے اس سال کو خیر و برکت کا باعث بنا ،اس کے ایام امن و سلامتی والے کردے۔ ہمیں اس سال میں نیک اعمال کی توفیق دے اور ظاہری و باطنی فتنوں سے بچا۔ اے اللہ! مسلمانوں کو دین حق، ہدایت اور خیر کے کاموں پر متحد کردے۔ اسلام او راہل اسلام کو عزت سے نواز اور سرکشوں اور دشمنان دین کو ذلت سے دوچار کر۔
اے بندگان خدا!
سوچیےہمارے آباؤواجداد کہاں ہیں؟ بیمار و تندرست اور تیمار دار کہاں گئے؟ وہ مرنے کے بعد ان اعمال کو پاچکے جو انہوں نے آگے بھیجے تھے۔ حشر کے دن ان کے اٹھنے کا وعدہ ہے اور قیامت کے دن ملاقات کا مقام، جس دن صور پھونکا جائے گا اور قیامت برپا ہوجائے گی۔
اللہ کے بندو!
سعادت مند وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے، چنانچہ جب مُردوں کا ذکر ہو تو خود کو ان میں شمار کرو۔ اپنی زندگی سے موت کا سامان کر۔ اپنی فراغت سے مشغولیت کے لیے انتظام کر، اپنی صحت سے بیماری کا بندوبست کر او راپنی تونگری سے مفلسی کا مداوا کراو رجب شام کرے تو صبح کا انتظار مت کر او رجب صبح کرے تو شام کا انتطار نہ کر ،یاد رکھیئے! جتنی آرزوئیں کم ہوں اتنے ہی اعمال اچھے انجام پائیں گے۔
دیکھیں کتنے ہی دن کو مکمل گزارنے کا ارادہ رکھنے والے اسے مکمل نہیں گزار پاتے او رکتنے ہی کل کے آرزو مند کل تک نہیں پہنچ پاتے ،لیکن جو شخص موت سے دوچار ہوجاتا ہےوہ آرزوؤں اور اس دھوکے کی حقیقت سے آگاہ ہوجاتا ہے (لیکن موت کے بعد یہ آگاہی بے سود ہے) مومن کے مفید ترین دنوں میں سے وہ دن اہم ہیں جو اس نے اس نیت سے گزارے ہوں کہ وہ اس کے آخری حصہ میں زندہ نہ رہے گا۔
اے کچھ وقت کے بعد قبر میں تنہا رہ جانے والے اور عزیز و اقارب سے کچھ وقت مانوسیت کا گزار کر وحشت کا شکار ہونے والے ، تو دنیا کا بے تحاشا سامان اکٹھا کررہا ہے اور اس چیز کی ہلاکت خیزیوں سے غافل ہے جس نے تجھے ہر خیر سے بھلا دیا ہے- تو اپنی آخرت کے لیے زاد راہ جمع کیوں نہیں کرتا؟ سو اپنی صحت میں بیماری کے لیے جلد اعمال کرو اور تکلیف شرعی کی امانت کی حفاظت کرو ۔ یاد رکھئے ! دنیا سے کم ترین اور جان سے قیمتی کوئی چیز نہیں۔ اس لیے معمولی گزر بسر پر قناعت کرو، عفت دامنی کے ذریعہ خود کو محفوظ بنا لو اور سمجھدار بن کر اپنے حال پر غوروخوض کرو۔ کیونکہ مومن تو اپنے معاملات میں بڑا ہی حساس اور فکر مند ہوتا ہے۔
اللہ کے بندو!
یاد رکھیے! اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائص کی ادائیگی ، حرام چیزوں سے اجتناب اور صدق نیت افضل اعمال ہیں۔
اور یقین کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اطاعت الٰہیہ ہی میں پوشیدہ ہے۔ اس لیے طاعت گزاری کے کسی بھی کام کو حقیر مت جانیے اور اصل ناراضگی اللہ تعالیٰ کی معصیت میں ہے۔ اس لیے کسی بھی معصیت کو معمولی مت سمجھیئے۔ بہترین اوقات وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری میں صرف ہو ں اور معصیت کاچھوٹاپن نہ دیکھیں، بلکہ جس کی نافرمانی کررہے ہو اس کی عظمت و رفعت ملحوظ رکھیں۔
آپ دل کو اگر نیکی کے کاموں میں مشغول نہ کریں گے تو یہ لایعنی اور فضول خیالات میں منہمک ہوجائے گا اور دل ہانڈیوں کی مثل ہیں ان میں جو مواد موجود ہو وہ ابلتا ہے۔ زبانیں کفگیر ہیں (جو اچھا یا بُرا جو مواد دل میں ہو نکال باہر کرتی ہیں)
گناہ دلوں کی بربادی کا باعث ہیں او رطاقتور شخص وہ ہے جو نیکیوں پر قائم و دائم ہو اور کمزور وہ ہے جس پر حرام کا موں کا غلبہ و اثر ہو۔ نیک اعمال قوی دلوں کی خوراک اور خواہشات اور تمنائیں کمزور دلوں کی خوراک ہیں۔ آخرت کی دوڑ کے سوا تمام معاملات میں میانہ روی مستحسن ہے ،لیکن آخرت کی دوڑ میں شرکت اور آگے بڑھنے کی دھن اخروی فلاح کےحصول میں مستحب ہے۔ اس کی دلیل آئندہ فرمان الٰہی ہے۔
وعجلت الیک لترضٰی (طہٰ:84) ’’میں نے تیرے پاس آنے میں عجلت کی کہ تو راضی ہوجائے۔‘‘
یاد رکھیے! حلال کھانے او رحلال کمائی میں برکت ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک ہےاو رپاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے، اس کے خزانون میں کبھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ وہ بے تحاشا رزق دینے والا اور زبردست قوت کا حامل ہے ۔ صدقات سے بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ صدقہ کرنے سےمال میں کبھی نقص واقع نہیں ہوتا اور ضعیف و نادار لوگوں کی برکت ہی سے تمہیں مدد اور رزق حاصل ہوتا ہے۔
قناعت بیش قیمت خزانہ ہے ۔ جسم کا سکون قلیل خوری میں ، نفس کا سکون گناہوں کی کمی میں، دل کا سکون کم خواہشات میں او رزبان کی راحت قلت کلام میں ہے اور دنیا میں نیکوکار آخرت میں بھی نیکوکار شمار ہوگا۔
شکست خوردہ وہ ہے جسے نفسانی خواہشات قابو کرلیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی قدروقضاء سے خوش نہ ہو تو اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ،کیونکہ زندگی عارضی ہے، رزق تقسیم ہوچکے ہیں ،لیکن خواہشات و تمنائیں مسلسل بڑھتی جاتی ہیں۔ چنانچہ جو شخص چاہتا ہے وہ ہمیشہ عافیت و سلامتی میں رہے اور آزمائشوں سے محفوظ رہے تو وہ قدر و قضا کو تسلیم کرلے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی ہونا سرا سر خیرو برکت کا ذریعہ ہے۔ سو اگر آپ کو جو میسر ہے او رجس سے محروم ہیں اس پر راضی ہوسکتے ہیں تو راضی ہوجائیے ورنہ صبر سے کام لیں۔
حاتم أصم کہتے ہیں:
میں نے مخلوق کے احوال کا جائزہ لیا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ لوگوں میں جو چیزیں میری پسند کی ہیں میں ان سے محروم ہوں اور جو چیز قابل نفرت ہیں ان سے نوازا گیا ہوں۔ میں نے دل میں سوچا، یہ قباحت اور سوچ کی کجی میرے دل میں کیسے گھس آئی ہے، میں غوروخوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس کجی اور تقدیر سے ناخوشی کا سبب حسد ہے، چنانچہ میں نے حسد کو جھٹک دیا تو میں تمام لوگوں سے محبت کرنے لگا۔ سو اب جو چیز میں اپنےلیے ناپسند کرتا ہوں اوروں کے لیے بھی وہی ناپسند کرتا ہوں۔
اور جو اپنی قدرومنزلت پہچان لے وہ اپنی زبان کی حفاظت کرتا ہے،فضول باتوں سے پہلو تہی کرے گا، اپنے بھائی کی عزت داغدار کرنے سے باز رہے گا، وہ ہمیشہ سلامت رہے گا اور کبھی بھی ندامت کا سامنا نہ کرے گا۔
حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان او رہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ ہوں،کامل مومن وہ ہے جس سے دیگر لوگ پرامن و بے خوف ہوں اور اصل مہاجر وہ ہے جواللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ترک کردے۔ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے ،نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے ،نہ وہ اسے کفار کے حوالے کرتا ہے، نہ اس کی مدد چھوڑتا ہے او رنہ اس کی تحقیر کرتا ہے۔
روزقیامت خوش اخلاق نبیﷺ کے مقربین ہوں گے اور جس چیز میں بھی نرمی ہو وہ اسے آراستہ کردیتی ہے او رجس چیز سے نرمی نکال دی جائے وہ اسے عیب دار کردیتی ہے او راللہ تعالیٰ نرمی و ملائمت پر وہ کچھ عنایت کرتا ہے جو سختی پر عنایت نہیں کرتا او رنیکو کار کبھی بھی زوال پذیر نہیں ہوتا او رکبھی مشکلات کا شکار ہو تو نصرت الٰہی اسے سہارا دیتی اور بحران ٹال دیتی ہے۔
عباد اللہ!
اللہ تعالیٰ سے قلبی تعلق جوڑئیے اور اس کی قربت کے اسباب حاصل کیجئے اور تمہارا زاد راہ قناعت، صبر و شکر، اچھے اعمال کی آرزو اور حسن ظن ہونا چاہیے۔ تمہارا توشہ حق پر وقوف، حدود اللہ سے عدم تجاوز اور تقویٰ کی حرص ہو۔ جو شخص اس نہج پر چلے گا اس کا ایمان مثالی ہوگا۔ اس کے منتشر امور سمٹ جائیں گے ،اس کے اوقات کار مبارک ہوں گے اور وہ وقت کے ضیاع اور فضولیات سے بچ جائے گا۔
خبردار! اللہ کے بندو، اللہ سے ڈرو اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جن کے دل سخت ہوگئے اور ان کی آنکھوں پر اللہ تعالیٰ کے معجزات کے انکار کا دبیز پردہ حائل ہوگیا کہ انہوں نے ان سے نہ عبرت پکڑی اور نہ نصحیت حاصل کی اور صورت حال یہ ہوگئی کہ کچھ قوموں کے پاس معجزات آتے تو وہ انہیں مذاق سمجھنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک سے بڑھ کر ایک معجزہ دیکھا لیکن انہوں نے ان سے اعراض ہی برتا، (جس سے ہلاکت و تباہی ان کا مقدر ٹھہری۔ سو ان جیسی بدکرداری کا ارتکاب مت کیجئے)
فرمان باری تعالیٰ ہے:
یاایھا الناس اتقوا ربکم واخشوا یوما لا یجزی والدعن ولدہ ولا مولود ھو جاز عن والدہ شیئأ ان وعداللہ حق فلا تغرنکم الحیاۃ الدنیا ولا یغرنکم باللہ الغرور۔ ان اللہ عندہ علم الساعۃ و ینزل الغیث ویعلم ما فی الارحام وما تدری نفس ماذا تکسب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت ان اللہ علیم خبیر ( لقمان:33۔34)
’’لوگو! اپنے رب سےڈرو او راس دن سے ڈرو، جس دن باپ بیٹے کے کام نہ آئے گا اور بیٹا باپ کو کوئی فائدہ نہ دے گا، بے شک اللہ کا وعدہ سچ ہے سو تمہیں دنیا کی زندگی دھوکا نہ دے اور نہ بہت زیادہ دھوکے باز (شیطان) تمہیں دھوکا دے۔ بلا شبہ اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم اور وہی بارش اتارتا ہے اور جو مادر رحم میں ہے اسے جانتا ہے او رکسی جان کو معلوم نہیں کہ وہ کل کیاکرے گی اور نہ کسی کو علم ہے کہ وہ کس زمین میں مرے گا یقیناً اللہ بہت زیادہ جاننے والا بہت باخبر ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ آپ کے لیے اور میرے لیےقرآن کریم کی تعلیمات او رنبی ﷺ کے طریقے کو فائدہ مند بنائے۔میں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں اور اپنے لیے تمہارے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے ہر گناہ اور خطا کی اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتا ہوں ۔ تم بھی اس سے بخشش طلب کرو ،بے شک وہ بہت بخشنے والا ، نہایت رحم کرنے والا ہے۔
خطبہ دوم

سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے جو وعظ و تذکیر کے ذریعے دل بیدار کرتا ہے۔ میں اس کی تعریف کرتا ہوں،وہ پاک ہے او راس کی بے شمار نعمتوں اور بے تحاشا فضل و کرم پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں او رمیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،میں اس کی واحدنیت کی ٹھوس گواہی دیتا ہوں ،جو شرک اصغر و اکبر سے پاک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے آقا و نبی محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔جو خوشخبری دینے والے، ڈرانے والے اور روشن آفتاب ہیں۔ اے اللہ آپؐ پر، آپؐ کی پاک آل پر اور آپؐ کے صحابہ پر اور جو ان کے نقش قدم پر چلے ان پر اور جو ان کا منہج اختیار کریں ، ان پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرما اور ان پر سلامتی نازل کر۔
بعداز حمد و ثناء !
انسان بغیر دین کے درخت کے پتے کی مانند ہے جسے کبھی قرار نہیں آتا اور اس کے لیے کوئی سمت معتین نہیں ہوتی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
ومن یشرک باللہ فکأنما خر من السماءفتخطفہ الطیر او تھوی بہ الریح فی مکان سحیق (الحج:31)
’’اور جو اللہ کے ساتھ شریک بنائے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا اسے پرندے اچک لیں گے یا ہوا کسی دور جگہ پھینک دے گی۔‘‘
دین کے بعیر انسان کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ وہ ہر وقت حیران و مضطرب رہے گا اور دین کے بغیر اسے نہ اپنی پہچان ہوگی او رنہ وہ اپنے وجود کی حکمت سے آگاہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للاسلام ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا حرجا کانما یصعد فی السماء کذلک یجعل اللہ الرجس علی الذین لا یؤمنون (الانعام:125)
’’جسے اللہ ہدایت دینا چاہتے ہیں اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں اور جس کی گمراہی کا ارادہ رکھتے ہیں اس کا سینہ بہت تنگ کردیتے ہیں ۔ گویا وہ آسمان میں چڑھ رہا ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر نجاست مسلط کردیتے ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔‘‘
دین کے بعیر انسان جانور او روحشی درندے کی مثل ہے۔ جسےنہ تہذیب و ثقافت کچھ سکھاتی ہے اور نہ کوئی قاعدہ و قانون اسے پابند بناتا ہے۔ بے دین لوگوں کی مثالیں قرآن حکیم میں یوں وارد ہیں:
(1) والذین کفروا یتمتعون و یأکلون کما تأکل الانعام (محمؐد:12)
’’اور جو لوگ کافر ہوئے (وہ دنیا ہی کا) فائدہ اٹھا رہے ہیں اور جانوروں کی طرح کھا رہے ہیں۔‘‘
(2) لھم قلوب لا یفقھون بھا ولھم اعین لا یبصرون بھا ولھم آذان لا یسمعون بھا اولئک کالانعام بل ھم اضل اولئک ھم الغافلون( الاعراف:179)
’’ان کےدل ہیں جس سے وہ سمجھتے نہیں او ران کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں او ران کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ،یہ لوگ چوپایوں کی مثل ہیں بلکہ ان سےبھی زیادہ گمراہ، یہی لوگ غافل ہیں۔‘‘
دین کے بغیر معاشرہ جنگلی معاشرے کی مثل ہے کہ اس میں اگر پوری تابانیاں اور علم کی بہتات ہو تب بھی ایسے افراد میں صرف طاقتور لوگوں کی شادمانی ہوتی ہے اور صالح اور متقی افراد کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔
کتاب و سنت سے عاری علوم وفنون و سائل کے تک راہنمائی تو کرتے ہیں لیکن منتہیٰ تک رسائی سے محروم ہیں۔یہ وسائل کی علامات تو مہیا کرتے ہیں لیکن اقدار و اہداف تک رسائی نہیں دیتے۔ دنیا اور دنیاوی اسباب کا ظاہری علم (اور دین سے غفلت قوموں کی شناعت اور آخرت سے غفلت کا باعث بنتا ہے)
اللہ تعالیٰ دنیاوی علوم سے آراستہ اور دینی علوم سے بہرہ اقوام کی بدحالی یوں بیان کرتے ہیں۔
یعلمون ظاھراً من الحیاۃ الدنیا وھم عن الآخرۃ ھم غافلون (الروم:7)
’’وہ تو دنیا کی ظاہری زندگی جانتے ہیں اور وہ آخرت سے بالکل بے خبر ہیں۔‘‘
اور ظاہری دنیا پر تکیہ کرنے والوں کے گناہوں اور دین کی مخالفت کی وجہ سے ان کی دولت و ثروت میں بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فلما نسوا ما ذکروا بہ فتحنا علیھم أبواب کل شئ حتی اذا فرحوا بما اوتوا اخذنا ھم بغتۃ فاذا ھم مبلسون۔ فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمدللہ رب العالمین (الانعام :44۔45)
’’پھر جب انہوں نے اس چیز کوبھلا دیا جس کی وہ نصیحت کیے گئے تھے تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے حتیٰ کہ جب وہ دیئے ہوئے انعامات پراترا گئے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا تو وہ بالکل مایوس ہوگئے۔پھر ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘
پھر گناہ گاروں میں بعض لوگ وہ ہیں جنہیں نصیحت کی جائے تووہ نصیحت قبول کرلیتے ہیں ،اگر ان پر پکڑ آئے تو وہ گناہ ترک کردیتے ہیں ،گویا ایسے شخص کی مصائب میں پکڑ اور نعمتوں سے محرومی اس کے ترک گناہ اور راہ حق پر چلنے کا باعث بنی ہے۔
لیکن کچھ گناہ گار دوسری قسم کے ہیں جن پر دنیا کی آسائشیں ایسے پیہم برستی ہیں جیسے ڈوبنے والے پر دریا کی موجیں حملہ آور ہوں ،وہ مسلسل ڈبکیاں کھا کھا کر بالآخر ہلاک ہوجاتا ہے۔
آزمائشوں اور ثواب کی اقسام بے حدو حساب ہیں۔ اس لیے سامعین محترم اس نئے سال کا آغاز نیک اعمال سے کرو۔ اپنے رب کے ساتھ حسن ظن رکھو اور باہمی اصلاح کا کام کرو۔
اللہ سے ڈرو او راس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ تم پرانوار و برکات کی بارش برسائے گا۔اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
یاایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وامنوا برسولہ یؤتکم کفلین من رحمتہ و یجعل لکم نورا تمشون بہ و یغفرلکم واللہ غفور رحیم (الحدیث:28)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو او راس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی دوہری رحمت سے نوازے گا اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے او روہ تمہارے گناہ معاف کردے گا او راللہ بہت معاف کرنے والا، بے حد رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اپنے پروردگار سے گناہوں کی توبہ کرو اور اس دن کی تیاری کرو جس دن قدموں اور پیشانیوں سے پکڑا جائے گا اور آخرت کی دائمی زندگی کو اس فانی دنیا پر فوقیت دو تاکہ تم ان عنایات کو حاصل کرسکو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تیا رکی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
کلواواشربوا ھنیاً بما اسلفتم فی الایام الخالیۃ (الحاقۃ:24)
’’مزے سے کھاؤ پیئو ان اعمال کے بدلے میں جو تم نے گزشتہ دنوں انجام دیئے ہیں۔‘‘
آخر میں رحمت مجسم، نبی رحمت، محمد رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجو۔کیونکہ قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا حکم دیاہے:
ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی یاایھا الذین اٰمنوا صلوا علیہ و سلما تسلیما (الاحزاب:56)
اللھم صل وسلم و بارک علی عبدک و رسولک نبینا محمد الحبیب المصطفی، والنبی المجتبی، وعلی آلہ الطیبین الطاھرین، وعلی أزواجہ أمھات المؤمنین، وارض اللھم عن الخلفاء الأربعۃ الراشدین: أبی بکر ، و عمر، عثمان، وعلی، وعن الصحابۃ أجمعین، والتابعین و من تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، وعنا معھم بعفوک وجودک و إحسانک یا أکرم الأکرمین۔
اللھم أعز الإسلام والمسلمین، اللھم أعز الإسلام والمسلمین، اللھم أعز الإسلام والمسلمین، وأذل الشرک والمشرکین، واحم حوزۃ الدین، واخذل الطغاۃ والظلمۃ والملاحدۃ و سائر أعداء الملۃ والدین۔



اللھم آمنا فی أوطاننا، اللھم آمنا فی أوطاننا، وأصلح أئمتنا وولاۃ أمور نا،واجعل اللھم ولا یتنا فیمن خافک و اتقاک، و اتبع رضاک یا رب العالمین۔
اللھم وفق إمامنا وولی أمرنا بتوفیقک، وأعزہ بطاعتک، و أعل بہ کلمتک واجعلہ نصرۃ للإسلام والمسلمین، واجمع بہ کلمۃ المسلمین علی الحق والھدی یارب العالمین۔
اللھم وفقہ و نائبہ وإخوانہم و أعوانہم لما تحب و ترضی، و حذ بنواصیھم للبروالتقوی۔
اللھم وفق ولاۃ أمور المسلمین للعمل بکتابک و بسنۃ نبیک محمد۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔، واجعلھم رحمۃ لعبادک المؤمنین، واجمع کلمتھم علی الحق والھدی یارب العالمین۔
اللھم و أبرم لأمۃ الإسلام أمر رُشد یعزفیہ أھل الطاعۃ، ویہدی فیہ أھل المعصیۃ، ویؤمر فیہ بالمعروف، وینھی فیہ عن المنکر، إنک علی کل شیئ قدیر۔
اللھم إن لن إخوانا مستضعفین مظلومین قد مھم الضروحل بہم الکرب و اشتد علیہم الأمر، تعرضوا للظلم و الطغیان، سفکت دماء، وقتل أبریاء، ورملت نساء، ویتم أطفال، اللھم یا ناصر المتضعفین، ویا منجی المؤمنین انتصر لھم، وتول أمرھم و اکشف کربہم، وارفع ضرھم۔
اللھم أصلح أحوال المسلمین، اللھم أصلح أحوال المسلمین فی کل مکان، اللھم احقن دماءھم، واجمع علی الحق والھُدی کلمتھم، وول علیہم خیارھم، واکفھم أشرارھم، وابسط الأمن والعدل والرخاء فی دیارھم، واعذھم من الشرور والفتن ماظھر منھا وما بطن۔
اللھم أنت اللہ لا إلہ إلا أنت، أنت الغنیی و نحن الفقراء، أنزل علینا الغیث ولا تجعلنا من القانطین، اللھم أنت اللہ لا إلہ إلا أنت، حنت الغنیی و نحن الفقراء، أنزل علینا الغیث ولا تجعلنا من القانطین، اللھم أنت اللہ لا إلہ إلا أنت، أنت الغنیی ونحن الفقراء، أنزل علینا الغیث ولا تجعلنا من القانطین ، اللھم أغثنا، اللھم أغثنا، اللھم أغثنا، اللھم إنا نستغفرک إنک کنت غفارا، فأرسل السماء علینا مدرارا، واجعل ما أنزلتہ ، قوۃ لنا علی طاعتک ، وبلاغا إلی حین۔
اللھم إنا کلق من خلقک ، فلا تمنع عنا بذنوبنا فضلک۔

۔۔۔۔۔:::::۔۔۔۔۔
 
Top