اللہ تعالٰی نے تمام انسانوں کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کو سب کا باپ بنایا ہے اس لحاظ سے سب کی بنیاد تو ایک ہے لیکن کئی اعتبار سے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں چنانچہ شکل وصورت کے اعتبار سے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور کم ہی کوئی شخص دوسرے سے ملتا جلتا ہے، کوئی سفید گورے رنگ کا اور کوئی کالے سیاہ رنگ کا، کوئی چھوٹے قد والا اور کوئی بڑے قد والا، اسی طرح وہ سب اپنے معاشی حالات کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں کوئی مالدار اور کوئی غریب کوئی بخیل اور کوئی سخی کوئی ہر حال میں شکر آور کوئی ہرحال میں حریص لالچ اسی طرح ایمان وعمل کے اعتبار سے بھی وہ الگ الگ نظریات کے حامل ہوتے ہیں کوئی مومن اور کوئی کافر، کوئی نیک وپارسا اور کوئی فاسق وفاجر، کوئی باکردار اور بااخلاق اور کوئی بدکردار اور بداخلاق۔
لیکن یہ سب کے سب اپنے احوال میں ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں اور وہ ہے خوشحال زندگی کی تمنا اور آرزو چنانچہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ اس بات کے متمنی نظر آتے ہیں کہ انہیں دنیا میں ایک خوشگوار زندگی نصیب ہوجائے اور سب کے سب لوگ ایک باوقار اور پرسکون زندگی کے حصول کی خاطر دن رات جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں گویا سب کا ہدف تو ایک ہی ہے البتہ وسائل واسباب مختلف ہیں۔
١۔ ایک تاجر جو دن بھر اپنے کاروبار کو وسیع کرنے اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کیلئے اپنی پوری صلاحیتیں اور توانائیاں کھپادیتا ہے وہ اور اسی طرح وہ مزدور جو صبح سے لے کر شام تک پسینے میں شرابور ہوکر محنت ومزدوری کرتا ہے دونوں خوشحال اور خوشگوار زندگی کے حصول کیلئے کوشاں ہوتے ہیں۔
٢۔ اور ایک عبادت گذار، جو اللہ تعالٰی کے فرائض وواجبات کو پابندی سے ادا کرتا ہے اور نوافل میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے وہ اور اسی طرح وہ فاسق وفاجر انسان جو دن رات اللہ تعالٰی کی نافرمانی کرتا ہے دونوں ہی ایسی زندگی کے متمنی ہوتے ہیں جس میں کوئی پریشانی اور کوئی دکھ نہ ہو!۔
٣۔ اسی طرح تمام لوگ سعادتمندی اور خوشحالی کو حاصل کرنے کی تمنا لئے تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں کوئی کسی طرح اور کوئی کسی طرح لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سعادت مندی ہر ایک کو مل جاتی ہے؟۔ اور کیا خوشحالی ہر ایک کو نصیب ہوجاتی ہے؟۔ اور آخر وہ کونسا راستہ ہے جس پر چل کر ہم سب خوشحال وخوشگوار زندگی تک پہنچ سکتے ہیں؟۔
قارئیں محترم!۔
ہم یہ ہی سوال ایک دوسرے انداز سے بھی کرسکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اس دور میں تقریبا ہر انسان پریشان حال اور سرگرداں نظر آتا ہے کسی کو روزگار کی پریشانی، کسی کو مالی پریشانی، کسی کو کاروباری مشکلات کا سامنا، کسی پر قرضوں کا بوجھ، کسی کو جسمانی بیماری، چین اور سکھ سے سونے نہیں دیتیں، کسی کو خاندانی لڑائی جھگڑے بے قرار کئے ہوئے ہیں کسی کو بیوی بچوں کی نافرمانی کا صدمہ، کسی کو دشمن کا خوف اور کسی کو احباء واقرباء کی جدائی کا دکھ الغرض یہ کہ تقریبا ہر شخص کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا نظر آتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر شخص ان دکھوں، صدموں اور پریشانیوں سے نجات بھی حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ حقیقی وسائل واسباب کون سے ہیں جنھیں اختیار کرنے سے دنیا کی مختلف آزمائشوں سے نجات مل سکتی ہے؟۔
آپ میں سے ہر شخص یقینا یہ چاہتا ہوگا کہ اسے ان دونوں سوالوں کے جوابات معلوم ہوجائیں تاکہ وہ ایک خوشحال وباوقار زندگی حاصل کرسکے اور دنیا کی پریشانیوں سے چھٹکارا پاسکے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العالمین نے ہمارے لئے یہ اصول کیس طرح متعین کیئے ہیں۔
اقتباس
خوشگوار زندگی کے اصول
قارئین سے التماس ہے وہ جواب نہ دیں تاکہ میں پوری تحریر کو مکمل کرسکوں۔
لیکن یہ سب کے سب اپنے احوال میں ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں اور وہ ہے خوشحال زندگی کی تمنا اور آرزو چنانچہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ اس بات کے متمنی نظر آتے ہیں کہ انہیں دنیا میں ایک خوشگوار زندگی نصیب ہوجائے اور سب کے سب لوگ ایک باوقار اور پرسکون زندگی کے حصول کی خاطر دن رات جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں گویا سب کا ہدف تو ایک ہی ہے البتہ وسائل واسباب مختلف ہیں۔
١۔ ایک تاجر جو دن بھر اپنے کاروبار کو وسیع کرنے اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کیلئے اپنی پوری صلاحیتیں اور توانائیاں کھپادیتا ہے وہ اور اسی طرح وہ مزدور جو صبح سے لے کر شام تک پسینے میں شرابور ہوکر محنت ومزدوری کرتا ہے دونوں خوشحال اور خوشگوار زندگی کے حصول کیلئے کوشاں ہوتے ہیں۔
٢۔ اور ایک عبادت گذار، جو اللہ تعالٰی کے فرائض وواجبات کو پابندی سے ادا کرتا ہے اور نوافل میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے وہ اور اسی طرح وہ فاسق وفاجر انسان جو دن رات اللہ تعالٰی کی نافرمانی کرتا ہے دونوں ہی ایسی زندگی کے متمنی ہوتے ہیں جس میں کوئی پریشانی اور کوئی دکھ نہ ہو!۔
٣۔ اسی طرح تمام لوگ سعادتمندی اور خوشحالی کو حاصل کرنے کی تمنا لئے تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں کوئی کسی طرح اور کوئی کسی طرح لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سعادت مندی ہر ایک کو مل جاتی ہے؟۔ اور کیا خوشحالی ہر ایک کو نصیب ہوجاتی ہے؟۔ اور آخر وہ کونسا راستہ ہے جس پر چل کر ہم سب خوشحال وخوشگوار زندگی تک پہنچ سکتے ہیں؟۔
قارئیں محترم!۔
ہم یہ ہی سوال ایک دوسرے انداز سے بھی کرسکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اس دور میں تقریبا ہر انسان پریشان حال اور سرگرداں نظر آتا ہے کسی کو روزگار کی پریشانی، کسی کو مالی پریشانی، کسی کو کاروباری مشکلات کا سامنا، کسی پر قرضوں کا بوجھ، کسی کو جسمانی بیماری، چین اور سکھ سے سونے نہیں دیتیں، کسی کو خاندانی لڑائی جھگڑے بے قرار کئے ہوئے ہیں کسی کو بیوی بچوں کی نافرمانی کا صدمہ، کسی کو دشمن کا خوف اور کسی کو احباء واقرباء کی جدائی کا دکھ الغرض یہ کہ تقریبا ہر شخص کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا نظر آتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر شخص ان دکھوں، صدموں اور پریشانیوں سے نجات بھی حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ حقیقی وسائل واسباب کون سے ہیں جنھیں اختیار کرنے سے دنیا کی مختلف آزمائشوں سے نجات مل سکتی ہے؟۔
آپ میں سے ہر شخص یقینا یہ چاہتا ہوگا کہ اسے ان دونوں سوالوں کے جوابات معلوم ہوجائیں تاکہ وہ ایک خوشحال وباوقار زندگی حاصل کرسکے اور دنیا کی پریشانیوں سے چھٹکارا پاسکے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العالمین نے ہمارے لئے یہ اصول کیس طرح متعین کیئے ہیں۔
اقتباس
خوشگوار زندگی کے اصول
قارئین سے التماس ہے وہ جواب نہ دیں تاکہ میں پوری تحریر کو مکمل کرسکوں۔