بخاری میں یہ روایت موجود ہے مگربخاری کے الفاظ یہ ہیں:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الحَكَمِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ رَقَبَةَ، عَنْ طَلْحَةَ اليَامِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ: هَلْ تَزَوَّجْتَ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: «فَتَزَوَّجْ فَإِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ أَكْثَرُهَا نِسَاءً» [صحيح البخاري: 7/ 3 رقم 5069]
سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا کہ تم نے شادی کر لی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شادی کر لو کیونکہ اس امت کے بہترین شخص جو تھے (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کی بہت سی بیویاں تھیں۔
ان الفاظ کے ساتھ اس روایت کا مفہوم بالکل واضح ہے اوروہ یہ کہ شادی کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے ، کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت میں سب سے زیادہ شادیاں کیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت میں سب سے بہتر تھے ۔
بالفاظ دیگر یوں کہہ لیجئے کہ شادی نہ کرنا انسان کے بہتر ہونے کی دلیل نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ شادیاں کی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت میں سب سے بہتر تھے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
وكأنه أشار إلى أن ترك التزويج مرجوح إذ لو كان راجحا ما آثر النبي صلى الله عليه وسلم غيره وكان مع كونه أخشى الناس لله وأعلمهم به يكثر التزويج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[فتح الباري لابن حجر: 9/ 114]۔
اورحدیث کے فوائد کا تذکرہ کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفي الحديث الحض على التزويج وترك الرهبانية [فتح الباري لابن حجر: 9/ 115]۔
آپ نے جو الفاظ نقل کئے ہیں وہ بخاری کے علاوہ دوسری کتاب میں ہیں ، چنانچہ:
أبو بكر ابن المقرئ (المتوفى: 381 ) نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، ثنا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ غِيَاثٍ، ثنا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ رُقَيَّةَ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «خَيْرُكُمْ أَكْثَرُكُمْ نِسَاءً» [الثالث عشر من فوائد ابن المقرئ ص: 80 رقم80 ترقیم جوامع الکلم والکتاب مخطوط ، واسنادہ صحیح]۔
یہ روایت بھی اسی طریق سے ہے جس طریق سے امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس روایت میں اختصار ہے جس سے دوسرا مفہوم بھی ذہن میں آسکتا ہے لیکن چونکہ یہ روایت ایک ہی طریق سے مروی ہے اوربخاری میں یہ روایت مفصل موجود ہے اوراپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے اس لئے اس کا وہی مفہوم ہے جس کی وضاحت اوپر کی گئی ۔ واللہ اعلم۔