- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
خیر القرون کا تعلیمی وتدریسی منہج حدیث
٭…وفاتِ رسول ﷺ ۱۱ھ کو ہوئی۔ تقریباً ۴۰ھ تک اکابر صحابہ فوت ہوچکے تھے۔ ۶۰ھ تک اصاغر کی اکثریت بھی اپنی حیاتِ مستعار کا چراغ گل کرچکی تھی۔ عالم بزرگی اور سن رسیدگی میں جو فوت ہوئے ان میں سب سے آخری صحابی ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ ۱۰۸ھ میں فوت ہوئے اور یہ دور ختم ہوا۔دور تابعین کا آغاز سن ۱ھ سے شروع ہوا۔ کیونکہ یہ لوگ پیدا ہونے کے باوجود متعدد وجوہات کی بنا پرزیارت رسول نہ کرسکے بلکہ وفاتِ رسول کے بعد اکابر صحابہ سے مستفید ہوئے۔
٭…ان صحابہ رسول میں ضرورۃً یہ شعور بھی بیدار ہوگیا کہ سنت ِرسول کو انتہائی ذمہ داری سے منتقل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دبے اور ابھرے فتنوں نے انہیں روایت حدیث اور اس کی ترویج کے لئے بہت محتاط کردیا تھا۔مقصد یہ تھا کہ ناہنجاروں کو یہ خاموش پیغام مل جائے کہ اس راہ میں بدنیتی سے قدم رکھنا بھی ذلت ورسوائی کا سبب ہے اور غیر محتاط رویہ ان کے برے مقاصد کو پورا نہ کرسکے گا۔صحابہ وتابعین نے درج ذیل اقدامات کئے:
٭…مدارسۂ حدیث:
جس کا مطلب ہے ایک دوسرے کو حدیث کی تعلیم دیتے رہنا اس کا سبق یاد دلاتے رہنا۔تاکہ زندگی اسوہ ٔرسول کے رنگ میں ہی ڈھلی رہے۔ صحابہ کرام کو یہ حدیث بہت کام آئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
تَسْمَعُوْنَ، وَیُسْمَعُ مِنْکُم، وَیُسْمعُ مِمَّنْ یَسْمَعُ مِنْکُمْ۔تم حدیث سن رہے ہو اور تم سے یہ سنی بھی جائے گی اور اس سے بھی سنی جائے گی جو تم میں سن رہا ہے۔(ترمذی باب ذم الإکثار من الروایۃ)۔
سیدنا ابن عباسؓ حدیث سننے کے لئے عین دوپہر کے وقت سینئرانصار صحابہ کے گھر آتے اور انتظار میں باہر بیٹھے رہتے۔اس لئے کہ علم کی ضرورت انہیں تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ طلبہ سے فرمایا کرتے :
تَفَقَّہُوْا قَبْلَ أَنْ تَسَوَّدُوْا۔
لیڈربننے سے پہلے علم سیکھ کر سمجھ لو۔
طلبۂ حدیث کو ابھارا کرتے:
تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَالسُّنَّۃَ کَمَا تَتَعَلَّمُوْنَ الْقُرآنَ
علم فرائض اور سنت کو اسی طرح سیکھا کرو جس طرح تم قرآن کو سیکھتے ہو۔(فتح الباری ۱/۱۶۵)، (جامع بیان العلم ۲/۳۴)
انہوں نے اپنی سلطنت کے ذمہ دار حضرات کو یہ لکھا:
أَنْ یَتَعَلَّمُوا السُّنَّۃَ وَالْفَرَائِضَ وَاللَّحْنَ یَعْنِی النَّحْوَ کَمَا یَتَعَلَّمُونَ الْقُرآنَ۔
لوگ سنت، فرائض اور لحن کو یعنی نحو کو اس طرح سیکھیں جس طرح وہ قرآن سیکھتے ہیں۔
ان کی کوشش یہ بھی ہوتی کہ علم کو بہر صورت دوسروں تک پہنچا دیا جائے۔ اس کی حکمت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ یہ فرمایا کرتے:
تَزَاوَرُوا وَتَذَاکَرُوا الْحَدِیْثَ فَإِنَّکُمْ إِلاَّ تَفْعَلُوا یَدْرُسُ۔
ایک دوسرے کو ملا کرو اور باہم مذاکرہ حدیث کیا کرو اگر ایسا نہیں کروگے تو یہ علم مٹ جائے گا۔( معرفۃ علوم الحدیث:۶۰)
سیدناابن مسعودؓ کا کہنا ہے:
عَلَیْکُمْ بِالْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ، وَقَبْضُہُ ذَہَابُ الْعُلَمَائِ۔
علم(حدیث) کا سیکھنا اپنے اوپر لازم کرلو اس سے پہلے کہ وہ ختم ہوجائے اور اس کا ختم ہونا علماء کا چلے جانا ہے۔
٭… سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اپنے عہد میں سرکاری سطح پر اس کام کو ہنگامی انداز میں کرواڈالا۔ جس کی وجہ انہوں نے بھی علماء حدیث کویہ بتائی:
فَإِنِّی خِفْتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ وَذَہَابَ العُلَمَائِ۔
مجھے حدیث کے ختم ہونے اور علماء کے فوت ہوجانے کا ڈر ہے۔
دونوں عہدکے معاصرین حدیث کوسیکھنے سکھانے اور پڑھنے پڑھانے کا خوب کام سرانجام دیتے ہیں۔