سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
خیر اور خیر کی جنگ
جو لوگ اپنے اعمال پر نظرثانی کرنا چھوڑ دیتے ہیں انھیں پتا نہیں چلتا کہ آگے کی اور چلتے چلتے وہ کب پیچھے کی طرف مڑگئے۔ اور جب یہ الٹا سفر شروع ہوتا ہے تو سمٹتے سمٹتے لوگ ایک دن اتنا سمٹ جاتے ہیں کہ ان کی ساری ترجیحات بدل جاتی ہیں۔برا بھلا ہوجاتا ہے اور بھلا برا۔ ضروری غیر ضروری ہوجاتا ہے اور ناپسندیدہ پسندیدہ۔ پھر تو ہر چیز کو دیکھنے کا زاویہ ہی بدل جاتا ہے۔ اور یہ بیماری عام طور پر ایسے ہی افراد کو لگتی ہے جو چلتے ہیں تو ان کے ساتھ ایک جہان چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ہر سماج کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایک فرد سماج سے بڑا ہوجائے۔ جس کے بڑکپن پر منحصر ہوتا ہے کہ سماج ترقی کرے گا یا تنزلی۔ ایسے فرد کا احترام سماج پر واجب تو ہوتا ہے مگر اسے خود سماج کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینا پڑتا ہے ۔ اور جہاں بھی ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہوتی ہے وہاں وہ خیر وشر کی تمیز بھی کرتا ہے اور فریقین کو اس نظر سے دیکھنے پر مجبور کردیتا ہے جو سماج کی برتری کو تمام مفادات پر مقدم رکھتی ہو۔ ہر کامیاب سماج کا یہ اجتماعی رویہ ہونا چاہیے۔
میرے ذہن میں آج تک وہ جملہ گونج رہا ہے جو ایک بزرگ نے فون پر دوران گفتگو مجھ سے کہا تھا۔ انھوں نے میری ایک حرکت پر تقریباً ڈانٹنے کے سے انداز میں پوچھا تھا:
’’کیوں کیا ایسا؟‘‘
’’لوگ الزام تراشی پر اتر آئے تھے اس لیے……‘‘
یہ جواب دینے کے بعد مجھے پوری امید تھی کہ بات یہیں ختم ہوجائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ فوراً بولے:
’’کیا قوم سے زیادہ تمھیں اپنی عزت عزیز ہے؟‘‘
اس سوال کا جواب نہ تو اس وقت میرے پاس تھا اور نہ ہی آج ہے۔ بات بہت معقول تھی، رسول اﷲﷺ بڑے نقصان کے مقابلے میں چھوٹا گھاٹا گوارا کرلیا کرتے تھے۔ دین اسلام کا یہی مزاج ہے۔ مگر انسان ایسے بہت سارے نازک مواقع پر فتنے میں پڑجایا کرتا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ سے ایک روایت ہے کہ بنو تمیم کا ایک وفد رسول اﷲﷺ کے پاس آیا ۔ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا، قعقاع بن معبد کو امیر بنائیے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا، نہیں بلکہ اقرع بن حابس کو امیر بنائیے۔حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے فرمایا،تم نے میری مخالفت کرنا چاہتے ہو۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس بات کی نفی فرمائی۔ یہ بحث بڑھتے بڑھتے شور میں تبدیل ہوگئی۔
حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ سورہ حجرات کی یہ آیت ﴿لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی﴾ اسی صورت حال کے مدنظر نازل ہوئی کہ رسول اﷲﷺ کے سامنے آوازیں بلند نہ کیا کرو۔
حضرت ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کے اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ بسا اوقات خیر اور خیر بھی ایک دوسرے سے بھڑ پڑتے ہیں۔ جس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔ مگر اختلاف نظریات کو بنیاد بناکر کسی فریق پر لعن طعن نہیں کیا جانا چاہیے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس وقت بنوتمیم کا امیر کسی ایک ہی فرد کو بنایا گیا ہوگا جس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اپنی صوابدید کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کرنا بری بات نہیں ہے۔ دو افراد ہم عقیدہ ہونے کے باوجود ان تمام معاملات میں ایک دوسرے سے اختلاف کرسکتے ہیں جن میں نص صریح موجود نہ ہو۔ کسی کی رائے پر عمل کیے جانے سے متروک الرائے شخص کی کلی نفی نہیں ہوجاتی۔ ان تمام باتوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ سورہ حجرات میں تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ایک مسلم سماج کو فساد فکر وعمل سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا جتن کیا جانا چاہیے۔
آج صورت حال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ خیر وشر کا محاذ سونا پڑا ہے۔ جو بھی خیر نہیں ہے وہ شر ہے اور اس کے حملے جاری ہیں مگر خیر کا دفاع بھی اتنا کمزور ہے کہ روز بروز نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں۔ یہاں خیر اور خیر کی جنگ ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے تو کوئی شر کے حملوں کو کیا روکے گا۔ منبر پر جس آفاقی اسلام کی دہائیاں دی جاتی ہیں وہ مسجد سے باہر آتے ہی کسی کے آفس یا گھر کی زینت بن جاتا ہے۔ پھر آفاقیت کی بات کرنے والے شرپسند اور گستاخ قرار پاتے ہیں۔ حالات نے اب ذرا سا کروٹ لیا ہے اور نئی نسل اپنا کام دھندہ چھوڑ کر دینی بحثوں میں حصہ لینے لگی ہے تو بھی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ آخر جھگڑا کس بات کا ہے؟ ……ایک طرف قلت افراد کا شکوہ ہے تو دوسری طرف افراد کو برگشتہ کرنے کا عمل……مسجدوں کے لیے ڈھنگ کے امام نہیں مل رہے ہیں تو اقتدا کرنے کے لیے اﷲ میاں کی گائے کہاں سے مل جائے گی؟……مناسب فیکٹری لگانے کی تو کسی کو فکر ہی نہیں ہے، صرف نفی کے عمل سے کس کا کیا بنے بگڑے گا؟……امریکی اور یہودی مصنوعات کے اور کتنے ناکام بائیکاٹ کیے جائیں گے بھائی؟؟؟
r……ابو المیزان
( ایڈیٹر ماہنامہ دی فری لانسر )
مضمون دی فری لانسر جنوری شمارہ کا اداریہ ہے ۔
( ایڈیٹر ماہنامہ دی فری لانسر )
مضمون دی فری لانسر جنوری شمارہ کا اداریہ ہے ۔