• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خیر خواہی مشن کا تحقیقی جائزہ

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
محمد حسین میمن


کراچی میں کئی سال قبل مجھے کسی نے رنگا رنگ کتابوں کا تحفہ ارسال کیا، میں اسے دیکھ کر بہت پر مستر ہوا اور ہر کتاب کے ٹائٹل پر یہ لکھا ہوا تھا کہ ‘‘آپ کا خیر خواہ بھائی’’ جب اس خیر خواہی کو میں نے تحقیق کی نگاہ سے پڑھنا شروع کیو تو معلوم ہوا کہ یہ جذبہ خیر خواہی کے نام سے امت کو خیر اور بھلائی سے کوسوں دور کیا جا رہا ہے اور خصوصاً ان کتب میں جو کئی موضوعات پر ہیں۔ انکارِ حدیث اور احادیث صحیحہ کی متفق علیہ روایت پر طعن و شکنی پر مبنی ہیں ۔ ان کتب میں اسلام کے مجرم، دو قرآن، حیات ام المؤمنین عائشہ r، میں کرسچن کیوں نہیں ہوئی؟، ارمغان عرب، تحقیق عمر عائشہ r، موازنہ، قربانی، حوا کی بیٹی، نبی امّی، تقدیر کیا ہے؟، قرآنی احکام، اسلام کہاں ہے؟، وغیرہ سر فہرست ہیں۔

ان کتب کے علاوہ بھی اور کئی کتب ہیں جو خیر خواہی کے نام سے مفت تقسیم کی جاتی ہیں، ان میں بعض ایسی کتابیں ہیں جو انکارِ حدیث کے فتنے کو تدویج دیتی ہیں ہم ان شاء اللہ ‘‘مجلہ دفاع اسلام’’ میں خیر خواہی مشن کی ان کتب پر علمی نقد کریں گے جو قرآن و صحیح حدیث و منہج سلف صالحین کے متفقہ اصول کے مخالف ہوں گیں۔ اس مرتبہ ہم کاندھلوی صاحب کی کتاب ‘‘تحقیق عمر عائشہ r’’ پر تحقیقی تبصرہ کریں گے اور کاندھلوی صاحب کی علمی خیانتوں کا پردہ چاک کریں گے۔ ان شاء اللہ

میری گذارش ہے عوام الناس سے کہ خیر خواہی مشن کو پرھنے کی جگہ قرآن و صحیح حدیث کا مطالعہ کریں تاکہ آخرت میں جنت کا حصول ممکن ہو سکے۔ کیونکہ انسانیت کی اصل خیر خواہ کتابیں قرآنِ مجید اور احادیث صحیحہ ہی ہیں۔

نوٹ: ہم صرف ان اشکالات کا جواب دیں گے جو قرآن و صحیح حدیث کے خلاف کیے گئے ہیں ہم کسی صوفیت کی کتاب کے جواب دینے کے روادار نہیں ہیں۔ کیونکہ دین قرآن و حدیث میں محفوظ ہے کسی صوفیت کی کتاب میں ہیں۔

تحقیق عمر عائشہ r


خیر خواہی مشن میں عمر عائشہ r پر بھی بہت زیادہ تنقید کی گئی ہے۔ اور بخاری و مسلم کی احادیث کو تختۂ مشق بنانے کی ناکام جستجو کی گئی ہے۔ بغور مطالعہ اور گہری نگاہ سے جب ان خیر خواہوں کے دلائل کا جائزہ لیا گیا تو ان کے تمام دلائل کا ٹھیک ٹھاک بھانڈہ پھوٹا اور مسئلہ مترشح ہوا کہ امام بخاری a نے جس عمر کا تعین صحیح بخاری میں نکاح عائشہ r کا فرمایا ہے یہی درست اور حق ہے۔ کاندھلوی اور خیر خواہوں کو صرف تنقید کے لیے ھشام بن عروہ ہی نظر آئے،پتہ نہیں ہشام ہی ان کی آنکھ کا شہتیر کیوں ہیں؟

عمر عائشہ r میں کاندھلوی صاحب نے کی اعتراضات کیے اگر استیعاب مقصود نہ ہوتا تو یہاں حضرت صاحب کو ایک ایک نکتہ کا جواب کافی و شافی دیا جاتا، مگر اختصاراً ہم کچھ اشکالات کے جوابات دیئے دیتے ہیں۔

تجربہ اور مشاھدہ کے خلاف ہونا:


کاندھلوی صاحب فرماتے ہیں:

‘‘یہ روایت تجربہ و مشاھدہ اور فطرت انسانی کے خلاف ہے اور نبی کریم ﷺ سے اس کا صدور ممکن نہیں۔ اگر ایسا وقوعہ پیش آتا تو اس دور کے مخالفین اسلام کے جناب سے کوئی اعتراض ظہور میں نہیں آیا تو یہ ثابت ہوا کہ کوئی ایسا فعل سرزد ہی نہیں ہوا جو کسی دشمن کو انگشت نمائی کا موقعہ ملتا۔ لازماً اس روایت میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے۔ اور چونکہ اس روایت کو ہشام سے متعدد افراد نے نقل کیا ہے اس لحاظ سے تمام شبہات ہشام پر جا کر مرتکز ہو جاتے ہیں۔اس لیے کہ وہ اس روایت کا مرکزی راوی ہے’’۔ (عمر عائشہ r ،ص۱۳)

کاندھلوی صاحب کے اقتباسات جو کہ مشاہدہ کا تقاضہ کرتے ہیں اور وہ اپنے اصول جو کہ نت نئے زاویئے اور رنگوں میں پیش کرتے نظر آ رہے ہیں انہیں بخاری و مسلم کی صحت پر مقدم جان رہے ہیں۔۔۔

جہاں تک تعلق ہے تجربہ اور مشاہدہ کا تو ہم مان لیتے ہیں کہ آپ کے تجربہ اور مشاھدہ میں ایسی بات نہ آی ہو۔ لیکن الحمدللہ مجھ نا چیز اور حقیر کے مشاھدہ میں بھی اور تجربہ میں یہ کوئی انوکھی چیز نظر نہیں آئی، کیونکہ میں نے جب رسول اللہﷺ کا فعل مبارک صحیح سند سے پڑھا تو ایمان نے قبول کر لیا، پھر میں نے مشاھدہ کا کبھی تقاضہ نہ کیا، لیکن شانِ کریمی دیکھیں کہ نیت صاف تو منزل بھی آسان ہے۔ اللہ پاک نے مجھ حقیر کے مشاھدہ میں بھی اور اس کے علاوہ کئی ایک دلائل کتب رجال و حدیث میں میسّر آئے۔ الحمدللہ وما توفیق الا باللہ

صحیح بخاری کی یہ حدیث جس میں کاندھلوی صاحب تحقیق کے نام پر تلبیس برھان کے نام پر کتمان اور علم کے نام پر ضلالت کرتے دکھلائی دے رہے ہیں ، بخاری شریف کے علاوہ کئی اور کتب میں بھی ۹ سال کی عمر کے نکاح کا ذکر موجود ہے،جوکاندھلوی صاحب کی نگاہ سے اوجھل رہے۔ مثلاً:

‘‘اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں اگر تمہیں کچھ شبہ ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی کہ جنھیں ابھی حیض شروع نہ ہوا ہو’’۔ (الطلاق:۴)

مندرجہ بالا آیت میں اللہ رب العالمین عدت کے قوانین بیان کر رہا ہے کہ:

1 وہ عورتیں جنھیں حیض آنا بند ہو گیا ہو، ان کی عدت تین ماہ ہے۔

2 وہ عورتیں جنھیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ان کی عدت بھی تین ماہ ہے (یعنی جو ابھی بالغ نہیں ہوئیں)۔

قارئین کرام! عورت پر عدت کے احکام خاوند کے انتقال کے بعد اور یا جب طلاق مل جائے اور یا وہ خلع حاصل کرے اس وقت لاگو ہوتے ہیں۔

اب وہ لڑکی جس کو ابھی حیض نہیں آیا (یعنی بالغ نہیں ہوئی) نکاح کے بعد اس کی عدت کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور عدت منکوحہ کے لیے ہے، لہٰذا کم سن کا نکاح اور عدت کا بیان قرآن مجید میں موجود ہے، اب جو اعتراض حدیث پر ہے وہی قرآن پر بھی وارد ہوتا ہے۔

مزید برآں ہر ملک و علاقے کے ماحول کے مطابق لوگوں کے رنگ و روپ ، جسمانی و جنسی بناوٹ اور عادت و اطوار جس طرح باہم مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح سن بلوغت میں بھی کافی تفاوت و فرق ہوتا ہے۔ جن ممالک میں موسم سرد ہوتا ہے وہاں بلوغت کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور جہاں موسم گرم ہوتا ہے وہاں بلوغت جلد وقوع پذیر ہو جاتی ہے۔

مثلاً عرب ایک گرم ملک ہے ، وہاں کی خوراک بھی گرم ہوتی ہے جو کہ عموماً کھجور اور اونٹ کے گوشت پر مبنی ہوتی ہے، اس لیے ام المؤمنین عائشہ r کا ۹ سال کی عمر میں بالغ ہو جانا بعید از عقل نہیں۔ کیونکہ اسلاف نے ایسے بہت سے واقعات نقل فرمائے ہیں جو منکرین حدیث سے اوجھل ہیں، صرف امی عائشہ r کا قصہ ہی کیوں زیر بحث ہے۔ حالانکہ کئی حوالے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کوئی انوکھا معاملہ نہیں پہلے بھی اس قسم کے بہت سارے معاملات ہو چکے ہیں اور اب بھی اخباروں میں اس قسم کی خبریں موجود ہیں۔ عرب کے معاشرے میں نو (۹) سال کی عمر میں بچہ جنم دینا اور اس عمر میں نکاح کرنا رواج تھا پر ان لوگوں کے لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی، مثلاً:

ابو عاصم النبیل کہتے ہیں کہ میری والدہ ایک سو دس (۱۱۰) ہجری میں پیدا ہوئیں اور میں ایک سو بائیس (۱۲۲) ہجری میں پیدا ہوا۔ (سیر اعلام النبلاء، ج۷رقم۱۶۲۷)

یعنی بارہ سال کی عمر میں ان کا بیٹا پیدا ہوا تو ظاہر ہے کہ ان کی والدہ کی شادی دس سے گیارہ سال کی عمر میں ہوئی ہوگی۔

عبداللہ بن عمرو اپنے باپ عمرو بن عاص t سے صرف گیارہ سال چھوٹے تھے۔(تذکرۃ الحفاظ، ج۱،ص۹۳)

ہشام بن عروہ نے فاطمہ بنت منذر سے شادی کی اور بوقت زواج فاطمہ کی عمر نو سال تھی۔(الضعفاء للعقیلی، ج۴،رقم۱۵۸۳، تاریخ بغداد ۲۲۲/۱)

عبداللہ بن صالح کہتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں ایک عورت نو سال کی عمر میں حاملہ ہوئی اور اس روایت میں یہ بھی درج ہے کہ ایک آدمی نے ان کو بتایا کہ اس کی بیٹی دس سال کی عمر میں حاملہ ہوئی۔ (کامل لابن عدی ، ج۵، رقم ۱۰۱۵)

حضرت معاویہ t نے اپنی بیٹی کی شادی نو سال کی عمر میں عبداللہ بنع امر سے کرائی۔ (تاریخ ابن عساکر ،ج۷۰)

امام دارقطنی a نے ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ عباد بن عباد المہلبی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی نو سال کی عمر میں اس نے بیٹی کو جنم دیا اور اس کی بیٹی نے بھی نو سال کی عمر میں بچہ جنم دیا۔

(سنن دار قطنی، ج۳،کتاب النکاح، رقم ۳۸۳۶)

ان دلائل کے علاوہ اور بھی بے شمار دلائل موجود ہیں جو کہ طالب حق کے لیے کافی اور شافی ہوں گے۔ ان شاء اللہ(الحمدللہ میرے ایک پروگرام میں ایک منکرین حدیث نے اس مسئلہ پر مجھ سے سوال کیا اور جب اس کو اس سوال کا جواب تسلی بخش مل گیا تو الحمدللہ اسی وقت رجوع کر لیا۔)

ماضی قریب میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ رونما ہوا کہ ۸ سال کی بچی حاملہ ہوئی اور ۹ سال کی عمر میں بچہ جنا )روزنامہDAWN ۲۹ مارچ ۱۹۶۶(۔ دور حاضر کے نامور اسلامک اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں:

‘‘حدیث عائشہ r کے بارے میں میرے ذہن میں بھی کافی شکوک و شبہات تھے۔ بطور پیشہ میں ایک میڈیکل ڈاکٹر ہوں، ایک دن میرے پاس ایک مریضہ آئی جس کی عمر تقریباً ۹ سال تھی اور اسے حیض آ رہے تھے، تو مجھے اس روایت کی سچائی اور حقانیت پر یقین آ گیا’’[1]

علاوہ ازیں روزنامہ جنگ کراچی میں ۱۶ اپریل ۱۹۸۶؁ء کو ایک خبر مع تصویر کے شائع ہوئی تھی جس میں ایک نو سال کی بچی جس کا نام (ایلینس) تھا اور جو برازیل کی رہنے والی تھی بیس دن کی بچی کی ماں تھی اس لڑکی اور اس کی بچی کی تصویر مجلہ کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔) ARY پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ ایک نشست دیکھنے کے لیے ہماری ویب سائت وزت کریں (www.ismalicmsg.org
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
آنکھیں ہوں بند تو شفق کا کیا قصور؟


اب رہا مسئلہ فطرت انسای تو جتنے واقعات حقیر نے اس میں قلمبند کیے ہیں وہ سارے کے سارے بلا شبہ انسان ہی تھے اگر کاندھلوی صاحب کسی اور مخلوق کو انسان کہہ رہے ہوں تو وہ اپنی منشاء کو خود ہی قارئین پر واضح کریں گے۔ عرف میں انسان بنی نوع آدم u کی اولاد کو ہی کہا جاتا ہے، جن سے میں نے کئی دلائل جس کو کاندھلوی صاحب نے پردیبیز پردے کرنا چاہا اس کا حقیر نے انکشاف کر دیا۔ جہاں تک تعلق ہے کہ مخالفین کی مخالفت کا کہ اگر یہ فعل رسول اللہﷺ کرتے تو مخالفین مخالفت کرتے اور ان کی مخالفت نہ کرنا اس پر دال ہے کہ واقعہ میں گڑ بڑ ہے۔۔۔

واہ! جناب بہت دور کی کوڑی لائے ، جب دلائل سے دور کا بھی تعلق نہ ہو تو انسان ایسی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ آپ کے اعتراضات کوئی نئے اعتراضات نہیں ہیں۔ دور تدوین کے بعد اعتقادی یا مذہبی جمود کی بنا پر، یا عقلی و استقرائی بنیادوں پر جن جن احادیث پر اعتراضات ہوئے اہل علم نے ترکی بہ ترکی ان کے جوابات مہیہ فرمائے اور اپنے دلائل سے گمراہی کو چت کر دیا۔ جہاں تک آپ کے اصول کا تعلق ہے ایسے اصول و ضوابط کی انہی کو ضرورت محسوس ہوتی ہے جو حق سے انحراف کرتے ہیں یا پھر دلائل و براہین کی موجودگی میں ہیرا پھیری سے کام لیتے ہیں۔

تھوڑی دیر کے لیے اگر ہم کاندھلوی صاحب کا اصول قبول کر بھی لیتے ہیں تو کاندھلوی صاحب کا اپنا اصول انہی کے من گھڑت اصول کے نیچے دبتا نظر آتا ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے صحیح البخاری اور صحیح مسلم سے نبی کریمﷺ پر جادو ہونے کا بھی انکار کیا ہے، حالانکہ قرآن مجید کہتا ہے کہ کفار نبی کریمﷺ کو رجل مسحوراً (طہ:۸) سحر زدہ کہا ۔

لہٰذا انہی کے اصول میں کاندھلوی صاحب کو اب اس حدیث کو ماننے میں کوئی چیز مانع نہیں رکھتی کہ نبی ﷺ پر جادو ہوا تھا کیونکہ کفار نے یہ آواز نبیﷺ پر اٹھائی تھی۔

میرے گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے


لہٰذا جہاں تک تعلق ہے اس اصول کا جسے کاندھلوی صاحب حجت بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور اسے ماننے کے لیے قارئین کے سامنے حاملِ کشکول ہیں کہ وہ ان اصولوں کو اپنے سینے سے لگائیں ۔ مگر یہ اصول اصول ہی نہیں ہیں کیونکہ یہ وہ منطق اور دقیانوسی باتیں ہیں ، جنہیں علماء نے دلائل کے رو سے تھوک دیے ہیں۔ اب یہی تھوکے ہوئے چنوں کو کاندھلوی صاحب اٹھائے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

خلاصہ کلام یہی ہے کہ انسان کے مشاھدہ اور تجربہ میں کسی بات کے ہونے یا نہ ہونے سے حق کی دلیل نہیں بن سکتا۔ حق اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرمان میں ہے جسے ایک مسلم کو قبول کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہو سکتی۔جہاں تک تعلق ہے ہشام کی روایت کی تو اس کا جواب ہم آگے دیں گے۔ ان شاء اللہ

کاندھلوی صاحب نے صفحہ ۱۶ پر کئی اعتراضات نقل کیے ہیں، جن کا جواب ہم یہاں نقل کر دیتے ہیں تاکہ کاندھلوی صاحب کے دھوکہ کا انکشاف واضح ہو جائے۔

اعتراضات:


1 علماء تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ یہ بخاری و مسلم کا راوی ہے، لہٰذا معصوم عن الخطاء ہے۔

2 ھشام کے دو دور تھے، ایک مدنی اور دوسرا عراقی۔ مدنی قابل قبول اور عراقی غیر قابل قبول ہے۔

3 حافظ ابن حجر اور یعقوب بن شیبۃ کے قول سے غلط استدلال۔

4 امام عقیلی کا قول ‘‘قد حذف فی اٰخذہ عمرہ’’

ویسے تو قارئین کئی اغلاط اور خیانتیں ہیں جس کا ارتکاب کاندھلوی صاحب نے کیا ہے، مگر حقیر یہاں چند مسائل پر گفتگو کرے گا تاکہ خیر خواہی مشن کی اور خامیاں آپ پر عیاں ہوں۔

جہاں تک تعلق ہے پہلی بات کا کہ علماء صرف یہی دیکھتے ہیں کہ بخار و مسلم کا راوی ہے، لہٰذا یہ معصوم عن الخطاء ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کسی محدث نے یہ حکم بخاری و مسلم کی حدیث پر نہیں لگایا ۔ یہ صرف کاندھلوی صاحب کا افترا اور کذب ہے۔ ہاں ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ جس حدیث کو امام بخاری اور مسلم نے اصول میں بیان فرمایا اور اس کی صحت پر امت کا اجماع ہے ۔ وہ راوی اس روایت کو بیان کرنے میں بالکل صحیح ہے کیونکہ اس پر امت کا اجماع ہو چکا ہے۔

حافظ ابن حجر a فرماتے ہیں:

‘‘فالاجماع حاصل علی تسلیم صحتہ’’


‘‘بخاری شریف کی صحت پر اجماع حاصل ہے’’

(نزھۃ النظر فی توضیح نحبۃ الفکر، ص۷۱)

مزید حافظ صاحب رقمطراز ہیں:


‘‘جلا لتھما فی ھذا الشأن وتقدمھما فی تمییز الصحیح علی غیرھما وتلقی العلماء لکتاب بیھما بالقبول’’ (نزھۃ النظر، ص۶۰)

یعنی امام بخاری و مسلم کی فن حدیث میں بڑی شان ہے اور یہ لوگ صحیح کی تمیز کرنے میں دیگر محدثین سے مقدم ہیں اور علماء کرام نے ان دونوں کی کتابوں کو دست قبول میں لے لیا ہے۔

لہٰذا کاندھلوی صاحب نے اجماع سے مراد ‘‘معصوم عن الخطاء’’لیا ہے، جوکہ ان کی علمی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ جیسے اصولوں کے ذریعے صرف گمراہی کا ہی نام دیا جا سکتا ہے۔

قارئین کرام! بخاری و مسلم کی صحت پر امت کا اجماع ہے اور اگر کوئی اس اجماع کی مخالفت کرتا ہے تو وہ گمراہ خود بھی ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی اپنے نقش قدم پر چلا کے گمراہی کی دعوت دیتا ہے۔ لہٰذا کسی محدث نے بخاری و مسلم کے راویوں کو معصوم نہیں قرار دیا۔ مگر جن راویوں کو محدثین نے مقبور قرار دیا ان کو رد کرنا چہ معنی وارد؟؟اور معصوم عن الخطاء کا دعویٰ راوی پر نہیں ہوتا بلکہ اجماع امت معصوم عن الخطاء ہوا کرتی ہے۔

ابن صلاح a فرماتے ہیں:


‘‘والامۃ اجماعھا معصومۃ عن الخطاء ولھذا کان الاجماع المبتنی علی الاجتھاد ھجۃ مقطعابھا، وھذہ نکتۃ نفسیۃ نافعۃ’’

(مقدمۃ ابن الصلاح، ص۱۲)

‘‘یعنی امت کا اجماع معصوم عن الخطاء ہے۔ لہٰذا امت کا کسی چیز پر بربنائے اجتہاد جو اجماع اور کسی امر پر تلقی بالقبول ہے وہ حجت قطعی ہے۔’’

ابن تیمیہ a رقمطراز ہیں:


‘‘جب علمائے اسلام کا کسی حکم پر اجماع ہو جائے تو اس کا وزن ہے کہ پھر اس سے مجالِ انکار کسی کے لیے باقی نہیں رہتا’’ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج۱،ص۴۰۶)
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
ہشام کا مدینہ اور کوفہ میں روایت کرنا:


محدثین کے نزدیک یہ بات مسلمہ ہے کہ ھشام ایک مرتبہ کوفہ نہیں گئے بلکہ وہ تین مرتبہ کوفہ گئے اور جو ان کی روایات پر اعتراض ہے وہ تیسری بار کے جانے پر ہے، نہ کہ ہر بار جانے پر۔ کاندھلوی صاحب کی عبارت سے یہ بات نکھر کر برملا سامنے آتی ہے کہ انہوں نے ہشام کی تمام روایات جو کوفہ میں مروی ہیں مطلق ردّ کر دیا ہے۔ جو کہ محدثین کے قاعدہ سے انحراف کرنا ہے۔

حافظ ابن حجر a فرماتے ہیں:


‘‘قوم الکوفۃ ثلاث مراث قدمۃ، کان یقول: حدثنی أبی قال: سمعت عائشۃ، وقدم الثانیۃ فکان یقول: أخبرنی أبی من عائشۃ وقدم الثالثۃ فکان یقول: أبی عن عائشۃ’’ (تھذیب، ج۹،ص۵۷)

‘‘ہشام کوفہ تین بار آئے، پہلی مرتبہ آئے تو کہتے تھے ‘‘حدثنی ابی قال : سمعت عائشۃ ’’یعنی ارسال نہیں کرتے، بلکہ سماع کی صراحت کرتے تھے۔ دوسری بار آئے تو ‘‘أخبرنی أبی عن عائشۃ’’ کہتے تھے۔ یعنی تب بھی اپنے باپ سے سماع کی صراحت کرتے تھے ۔ مگر باپ اور عائشہ r کے درمیان سماع کی صراحت نہیں کرتے تھے۔ اور تیسری بار آئے تو باپ سے اور باپ کا سیدہ عائشہ r سے سماع کا ذکر نہیں کرتے تھے۔’’

لہٰذا اس صراحت کی روشنی میں مطلق طور پر تمام اہل کوفہ کی روایات کو غیر متصل اور غیر صحیح قرار دینا ظلم اور ہٹ دھرمی کے سوا اور کیا ہے؟

بالخصوص جب کے ہشام حماد بن اسامہ اور ابو اسامہ جو کہ محدثین کی نگاہ میں وہ ہشام سے روایت کرنے میں ثقہ اور ثبت ۔ ان کی بھی روایت کو جھٹلا دیا جائے صرف اپنی بھونڑے اصول کی ترویج کے لیے تو یہ کونسا انصاف اور حق کے قریب ہے؟؟

لہٰذا صحیحین میں جو ہشام سے احادیث مروی ہیں وہ ارسال پر نہیں بلکہ اتصال پر مبنی ہیں اور اسی پر آج تک امت کا عمل رہا ہے۔ جیسے آج کاندھلوی صاحب پارہ پارہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

ھشام کے علاوہ کئی اور راویوں نے روایت کیا:

ابواب مہ عن ہشام عن ابیہ عن عائشہ (صحیح مسلم)

الزھری عن عروۃ عن عائشہ (صحیح مسلم)

الاعمش عن إبراہیم عن الاسود عن عائشۃ (سنن نسائی)

سفیان عن ہشام عن ابیہ عن عائشہ (صحیح البخاری)

وھیب عن ہشام بن عروۃ عن ابیہ عن عائشہ (بخاری)

علی بن محمد عن ہشام عن ابیہ عن عائشہ (ابن ماجہ و صحیح البخاری)

عبدۃ عن ھشام عن ابیہ عن عائشہ (صحیح مسلم)

ابو معاویہ عن الاعمش عن إبراہیم عن الاسود عن عائشہ (صحیح مسلم)

ابو سلمۃ بن عبدالرحمن عن عائشہ (سنن النسائی)

محمد بن عمرو بن علقمہ ثا یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب عن عائشہ (مستدک الحاکم)

یہ وہ طرق ہیں جو مختلف کتب احادیث سے امی عائشہ r کی عمر کے بارے میں موجود ہیں۔ لہٰذا کاندھلوی صاحب کا افتراء کے ھشام کے علاوہ اس کو کوئی روایت نہیں کرتا تو یہ صرف لا علمی یا پھر تعصب کی پاداش کا نتیجہ ہے۔

لہٰذا یہ بات عیاں ہوئی کہ بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر محدثین نے بھی اپنی کتب میں دیگر راویوں سے اسے روایت کیا ہے۔
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
یعقوب بن شیبۃ کی جرح ھشام بن مروہ کے بارے میں:


کاندھلوی صاحب جو کہ اپنے تئیں ماہر اسماء الرجال اپنے آپ کو گردانتے ہیں ان کو اتنی خبر تک نہ ہوئی کہ یعقوب ، یعقوب بن ابی شیبۃ نہیں ہیں بلکہ یعقوب بن شیبۃ ہیں ۔ موصوف مختلف مقامات پر ۳ مرتبہ یہ فحش غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں جن سے انکار رجال پر مہارت آشکارہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔

یعقوب بن شیبۃ نے جو ‘‘قال’’ کہہ کر ھشام پر جرح نقل کی ہے وہ مردود ہے، کیونکہ یعقوب بن شیبۃ نے یہ قول کہ ‘‘۔۔۔لم ینکر علیہ الا بعد ماصار الی العراق’’ کس سے نقل فرمایا۔ کیونکہ یعقوب بن شیبہ ھشام کی وفات کے بعد پیدا ہوئے۔ لہٰذا یعقوب کی جرح نا قابل قبول ہے۔ کیونکہ قال کے پیچھے کون یہ جرح نقل کر رہا ہے وہ مجھول ہے ۔ لہٰذا اصول کی بنیاد پر روایت نا قابل احتجاج و مردود ٹھہری۔

اب رہا مسئلہ عبدالرحمن بن فراش کا کہ انہوں امام مالک a کے حوالے سے نقل کیا کہ:

‘‘ان مالکاً فقم علی ھشام ابن عروۃ حدیثہ لأھل العراق’’


‘‘امام مالک ھشام کی اھل عراق سے روایت نا پسند کرتے تھے’’

قارئین کرام! یہ جرح بھی مردود ہے کیونکہ اس جرح کو امام مالک کی حوالے سے عبدالرحمن بن خراش نے نقل کی ہے۔ جس پر محدثین نے سخت کلام کیا ہے ۔ اس کا پورا نام ابو عبدالرحمن بن یوسف بن سعید بن فراش تھا جو کہ ابو بکر اور عمر t کے بارے میں برے ارتکاب نکالتا تھا۔ امام ابو زرعہ t فرماتےہیں:

‘‘کان خرج مقالب الشیخین وکان رافضاً’’

عبدالرحمن بن یوسف الخراش ابو بکر و عمر w کے بارے میں غلط باتیں اپنی زبان سے نکالنا تھا اور وہ رافضی تھا۔

اور رسول اللہﷺ کی حدیث کہ ‘‘لا نورث، ما ترکنا صدقۃ قال: باطل’’

کہ ہم انبیاء o جو مال چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور ہمارا کوئی وارث نہیں۔ا س حدیث کو بھی وہ باطل قرار دیتا تھا (جس سے اس کا رافضی ہوناضوء النہار کی طرح ثابت ہوتا ہے)۔

اور امام ذھبی a نے بھی لکھا کہ یہ شخص اس حال میں فوت ہوا کہ یہ اللہ کی رحمت سے دور تھا۔ (دیکھیے کتاب الضعفاء لابن الجوزی، ج۲،ص۱۰۶، میزان الاعتدال للذھبی، ج۲،ص۴۶۳، الکامل لابن عدی ، ج۵،ص۵۱۸)

لہٰذا کاندھلوی صاحب کئی علمی خیانتوں کے مرتکب ہیں۔ یہ چند اغلاط اور خیانتیں تھیں اس کے علاوہ کئی اور اغلاط ہیں، یہاں استیعاب مقصود نہیں، ورنہ ہر پہلو پر گفتگو کی جاتی۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ خیر خواہی مشن کی یہ کتاب ‘‘عمر عائشہ r ’’ اہل سنت والجماعت کے مسلمہ عقائد کے خلاف لکھی گئی ہے۔ جو واضح قرآنِ مجید اور احادیث رسولﷺ کے خلاف ہے۔ ہمیں ان کتب سے ہمہ وقت بچنا چاہیے۔
 
Top