اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
محمد حسین میمن
کراچی میں کئی سال قبل مجھے کسی نے رنگا رنگ کتابوں کا تحفہ ارسال کیا، میں اسے دیکھ کر بہت پر مستر ہوا اور ہر کتاب کے ٹائٹل پر یہ لکھا ہوا تھا کہ ‘‘آپ کا خیر خواہ بھائی’’ جب اس خیر خواہی کو میں نے تحقیق کی نگاہ سے پڑھنا شروع کیو تو معلوم ہوا کہ یہ جذبہ خیر خواہی کے نام سے امت کو خیر اور بھلائی سے کوسوں دور کیا جا رہا ہے اور خصوصاً ان کتب میں جو کئی موضوعات پر ہیں۔ انکارِ حدیث اور احادیث صحیحہ کی متفق علیہ روایت پر طعن و شکنی پر مبنی ہیں ۔ ان کتب میں اسلام کے مجرم، دو قرآن، حیات ام المؤمنین عائشہ r، میں کرسچن کیوں نہیں ہوئی؟، ارمغان عرب، تحقیق عمر عائشہ r، موازنہ، قربانی، حوا کی بیٹی، نبی امّی، تقدیر کیا ہے؟، قرآنی احکام، اسلام کہاں ہے؟، وغیرہ سر فہرست ہیں۔
ان کتب کے علاوہ بھی اور کئی کتب ہیں جو خیر خواہی کے نام سے مفت تقسیم کی جاتی ہیں، ان میں بعض ایسی کتابیں ہیں جو انکارِ حدیث کے فتنے کو تدویج دیتی ہیں ہم ان شاء اللہ ‘‘مجلہ دفاع اسلام’’ میں خیر خواہی مشن کی ان کتب پر علمی نقد کریں گے جو قرآن و صحیح حدیث و منہج سلف صالحین کے متفقہ اصول کے مخالف ہوں گیں۔ اس مرتبہ ہم کاندھلوی صاحب کی کتاب ‘‘تحقیق عمر عائشہ r’’ پر تحقیقی تبصرہ کریں گے اور کاندھلوی صاحب کی علمی خیانتوں کا پردہ چاک کریں گے۔ ان شاء اللہ
میری گذارش ہے عوام الناس سے کہ خیر خواہی مشن کو پرھنے کی جگہ قرآن و صحیح حدیث کا مطالعہ کریں تاکہ آخرت میں جنت کا حصول ممکن ہو سکے۔ کیونکہ انسانیت کی اصل خیر خواہ کتابیں قرآنِ مجید اور احادیث صحیحہ ہی ہیں۔
نوٹ: ہم صرف ان اشکالات کا جواب دیں گے جو قرآن و صحیح حدیث کے خلاف کیے گئے ہیں ہم کسی صوفیت کی کتاب کے جواب دینے کے روادار نہیں ہیں۔ کیونکہ دین قرآن و حدیث میں محفوظ ہے کسی صوفیت کی کتاب میں ہیں۔
تحقیق عمر عائشہ r
خیر خواہی مشن میں عمر عائشہ r پر بھی بہت زیادہ تنقید کی گئی ہے۔ اور بخاری و مسلم کی احادیث کو تختۂ مشق بنانے کی ناکام جستجو کی گئی ہے۔ بغور مطالعہ اور گہری نگاہ سے جب ان خیر خواہوں کے دلائل کا جائزہ لیا گیا تو ان کے تمام دلائل کا ٹھیک ٹھاک بھانڈہ پھوٹا اور مسئلہ مترشح ہوا کہ امام بخاری a نے جس عمر کا تعین صحیح بخاری میں نکاح عائشہ r کا فرمایا ہے یہی درست اور حق ہے۔ کاندھلوی اور خیر خواہوں کو صرف تنقید کے لیے ھشام بن عروہ ہی نظر آئے،پتہ نہیں ہشام ہی ان کی آنکھ کا شہتیر کیوں ہیں؟
عمر عائشہ r میں کاندھلوی صاحب نے کی اعتراضات کیے اگر استیعاب مقصود نہ ہوتا تو یہاں حضرت صاحب کو ایک ایک نکتہ کا جواب کافی و شافی دیا جاتا، مگر اختصاراً ہم کچھ اشکالات کے جوابات دیئے دیتے ہیں۔
تجربہ اور مشاھدہ کے خلاف ہونا:
کاندھلوی صاحب فرماتے ہیں:
‘‘یہ روایت تجربہ و مشاھدہ اور فطرت انسانی کے خلاف ہے اور نبی کریم ﷺ سے اس کا صدور ممکن نہیں۔ اگر ایسا وقوعہ پیش آتا تو اس دور کے مخالفین اسلام کے جناب سے کوئی اعتراض ظہور میں نہیں آیا تو یہ ثابت ہوا کہ کوئی ایسا فعل سرزد ہی نہیں ہوا جو کسی دشمن کو انگشت نمائی کا موقعہ ملتا۔ لازماً اس روایت میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے۔ اور چونکہ اس روایت کو ہشام سے متعدد افراد نے نقل کیا ہے اس لحاظ سے تمام شبہات ہشام پر جا کر مرتکز ہو جاتے ہیں۔اس لیے کہ وہ اس روایت کا مرکزی راوی ہے’’۔ (عمر عائشہ r ،ص۱۳)
کاندھلوی صاحب کے اقتباسات جو کہ مشاہدہ کا تقاضہ کرتے ہیں اور وہ اپنے اصول جو کہ نت نئے زاویئے اور رنگوں میں پیش کرتے نظر آ رہے ہیں انہیں بخاری و مسلم کی صحت پر مقدم جان رہے ہیں۔۔۔
جہاں تک تعلق ہے تجربہ اور مشاہدہ کا تو ہم مان لیتے ہیں کہ آپ کے تجربہ اور مشاھدہ میں ایسی بات نہ آی ہو۔ لیکن الحمدللہ مجھ نا چیز اور حقیر کے مشاھدہ میں بھی اور تجربہ میں یہ کوئی انوکھی چیز نظر نہیں آئی، کیونکہ میں نے جب رسول اللہﷺ کا فعل مبارک صحیح سند سے پڑھا تو ایمان نے قبول کر لیا، پھر میں نے مشاھدہ کا کبھی تقاضہ نہ کیا، لیکن شانِ کریمی دیکھیں کہ نیت صاف تو منزل بھی آسان ہے۔ اللہ پاک نے مجھ حقیر کے مشاھدہ میں بھی اور اس کے علاوہ کئی ایک دلائل کتب رجال و حدیث میں میسّر آئے۔ الحمدللہ وما توفیق الا باللہ
صحیح بخاری کی یہ حدیث جس میں کاندھلوی صاحب تحقیق کے نام پر تلبیس برھان کے نام پر کتمان اور علم کے نام پر ضلالت کرتے دکھلائی دے رہے ہیں ، بخاری شریف کے علاوہ کئی اور کتب میں بھی ۹ سال کی عمر کے نکاح کا ذکر موجود ہے،جوکاندھلوی صاحب کی نگاہ سے اوجھل رہے۔ مثلاً:
‘‘اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں اگر تمہیں کچھ شبہ ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی کہ جنھیں ابھی حیض شروع نہ ہوا ہو’’۔ (الطلاق:۴)
مندرجہ بالا آیت میں اللہ رب العالمین عدت کے قوانین بیان کر رہا ہے کہ:
1 وہ عورتیں جنھیں حیض آنا بند ہو گیا ہو، ان کی عدت تین ماہ ہے۔
2 وہ عورتیں جنھیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ان کی عدت بھی تین ماہ ہے (یعنی جو ابھی بالغ نہیں ہوئیں)۔
قارئین کرام! عورت پر عدت کے احکام خاوند کے انتقال کے بعد اور یا جب طلاق مل جائے اور یا وہ خلع حاصل کرے اس وقت لاگو ہوتے ہیں۔
اب وہ لڑکی جس کو ابھی حیض نہیں آیا (یعنی بالغ نہیں ہوئی) نکاح کے بعد اس کی عدت کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور عدت منکوحہ کے لیے ہے، لہٰذا کم سن کا نکاح اور عدت کا بیان قرآن مجید میں موجود ہے، اب جو اعتراض حدیث پر ہے وہی قرآن پر بھی وارد ہوتا ہے۔
مزید برآں ہر ملک و علاقے کے ماحول کے مطابق لوگوں کے رنگ و روپ ، جسمانی و جنسی بناوٹ اور عادت و اطوار جس طرح باہم مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح سن بلوغت میں بھی کافی تفاوت و فرق ہوتا ہے۔ جن ممالک میں موسم سرد ہوتا ہے وہاں بلوغت کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور جہاں موسم گرم ہوتا ہے وہاں بلوغت جلد وقوع پذیر ہو جاتی ہے۔
مثلاً عرب ایک گرم ملک ہے ، وہاں کی خوراک بھی گرم ہوتی ہے جو کہ عموماً کھجور اور اونٹ کے گوشت پر مبنی ہوتی ہے، اس لیے ام المؤمنین عائشہ r کا ۹ سال کی عمر میں بالغ ہو جانا بعید از عقل نہیں۔ کیونکہ اسلاف نے ایسے بہت سے واقعات نقل فرمائے ہیں جو منکرین حدیث سے اوجھل ہیں، صرف امی عائشہ r کا قصہ ہی کیوں زیر بحث ہے۔ حالانکہ کئی حوالے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کوئی انوکھا معاملہ نہیں پہلے بھی اس قسم کے بہت سارے معاملات ہو چکے ہیں اور اب بھی اخباروں میں اس قسم کی خبریں موجود ہیں۔ عرب کے معاشرے میں نو (۹) سال کی عمر میں بچہ جنم دینا اور اس عمر میں نکاح کرنا رواج تھا پر ان لوگوں کے لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی، مثلاً:
ابو عاصم النبیل کہتے ہیں کہ میری والدہ ایک سو دس (۱۱۰) ہجری میں پیدا ہوئیں اور میں ایک سو بائیس (۱۲۲) ہجری میں پیدا ہوا۔ (سیر اعلام النبلاء، ج۷رقم۱۶۲۷)
یعنی بارہ سال کی عمر میں ان کا بیٹا پیدا ہوا تو ظاہر ہے کہ ان کی والدہ کی شادی دس سے گیارہ سال کی عمر میں ہوئی ہوگی۔
عبداللہ بن عمرو اپنے باپ عمرو بن عاص t سے صرف گیارہ سال چھوٹے تھے۔(تذکرۃ الحفاظ، ج۱،ص۹۳)
ہشام بن عروہ نے فاطمہ بنت منذر سے شادی کی اور بوقت زواج فاطمہ کی عمر نو سال تھی۔(الضعفاء للعقیلی، ج۴،رقم۱۵۸۳، تاریخ بغداد ۲۲۲/۱)
عبداللہ بن صالح کہتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں ایک عورت نو سال کی عمر میں حاملہ ہوئی اور اس روایت میں یہ بھی درج ہے کہ ایک آدمی نے ان کو بتایا کہ اس کی بیٹی دس سال کی عمر میں حاملہ ہوئی۔ (کامل لابن عدی ، ج۵، رقم ۱۰۱۵)
حضرت معاویہ t نے اپنی بیٹی کی شادی نو سال کی عمر میں عبداللہ بنع امر سے کرائی۔ (تاریخ ابن عساکر ،ج۷۰)
امام دارقطنی a نے ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ عباد بن عباد المہلبی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی نو سال کی عمر میں اس نے بیٹی کو جنم دیا اور اس کی بیٹی نے بھی نو سال کی عمر میں بچہ جنم دیا۔
(سنن دار قطنی، ج۳،کتاب النکاح، رقم ۳۸۳۶)
ان دلائل کے علاوہ اور بھی بے شمار دلائل موجود ہیں جو کہ طالب حق کے لیے کافی اور شافی ہوں گے۔ ان شاء اللہ(الحمدللہ میرے ایک پروگرام میں ایک منکرین حدیث نے اس مسئلہ پر مجھ سے سوال کیا اور جب اس کو اس سوال کا جواب تسلی بخش مل گیا تو الحمدللہ اسی وقت رجوع کر لیا۔)
ماضی قریب میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ رونما ہوا کہ ۸ سال کی بچی حاملہ ہوئی اور ۹ سال کی عمر میں بچہ جنا )روزنامہDAWN ۲۹ مارچ ۱۹۶۶(۔ دور حاضر کے نامور اسلامک اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں:
‘‘حدیث عائشہ r کے بارے میں میرے ذہن میں بھی کافی شکوک و شبہات تھے۔ بطور پیشہ میں ایک میڈیکل ڈاکٹر ہوں، ایک دن میرے پاس ایک مریضہ آئی جس کی عمر تقریباً ۹ سال تھی اور اسے حیض آ رہے تھے، تو مجھے اس روایت کی سچائی اور حقانیت پر یقین آ گیا’’[1]
علاوہ ازیں روزنامہ جنگ کراچی میں ۱۶ اپریل ۱۹۸۶ء کو ایک خبر مع تصویر کے شائع ہوئی تھی جس میں ایک نو سال کی بچی جس کا نام (ایلینس) تھا اور جو برازیل کی رہنے والی تھی بیس دن کی بچی کی ماں تھی اس لڑکی اور اس کی بچی کی تصویر مجلہ کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔) ARY پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ ایک نشست دیکھنے کے لیے ہماری ویب سائت وزت کریں (www.ismalicmsg.org