• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دادا دادی کا مقام

شمولیت
اپریل 25، 2016
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
36
السلام علیکم ..
ایک دوست ہے جو ہمیشہ سے اپنے ملک سے باہر رہی ہے اور اس کا اپنے کچھ رشتے داروں سے قلبی تعلق نہیں ہے .. اب اس کے دادا دادی اس کے پاس آئے ہیں وہ ان کی خدمت تو کرتی ہے لیکن بعض نظریاتی اختلافات اور سوچ کے فرق کی وجہ سے اور کچھ ان کے مزاج کی گرمی کی مابدولت وہ ان سے باتیں زیادہ نہیں کرتی اور نہ زیادہ ان کے پاس بیٹھتی ہے کیونکہ اس کو ڈر ہوتا ہے کہ کہیں کسی بات پر بحث نہ ہوجائے ...اور دوسرا بعض اوقات ان کا اسکی والدہ کے ساتھ رویہ جس کی وجہ سے وہ دل برداشتہ ہوجاتی ہے..
اب اس کی والدہ پرزور ہیں کے وہ اپنے دادا دادی کے ساتھ بیٹھا کرئے جبکہ وہ سمجھتی ہے کہ وہ باقی سارے کام جو اس کے دادا دادی کے ہوتے ہیں کر لیتی ہے اس سے اسکا خدمت کرنے کا فرض ادا ہوجاتا ہے...
کیا اس کا رویہ صحیح ہے؟
کیا دادا ،دادی، نانا ، نانی والدین کے برابر ہوتے ہیں ؟ یعنی ان کی نافرمانی بھی کبیرہ گناہ میں شمار ہو گی؟
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

بہت بڑا اور مشکل مرحلہ ہے اسے سمجھنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ جو بچے پاکستان میں یا اپنا کوئی بھی ملک ہو وہاں پرورش پاتے ہیں ان میں اور بیرون ممالک چاہے گلف ہو یا یورپ میں پرورش پانے والے بچوں کی عادات میں بہت فرق ہوتا ہے۔

پاکستان سے جس ماحول میں بچے پرورش پاتے ہیں بہت کھلا اور فری ہینڈ ہوتا ہے جیسے ان کے دادا جان دادی جان، چچا، چچی، خالہ، خالو ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھوپھی وغیرہ سب کے ساتھ ملنا جلنا ہوتا ہے، روزمرہ کی عادت میں شامل ہوتا ہے، پھر بڑے جب بھی مل بیٹھیں تو کسی نہ کسی کا موضوع سامنے ہوتا ہے فارغ یا خاموش نہیں ملیں گے اس لئے بچوں کو اگر کوئی بڑا کچھ کہہ بھی دے تو اس پر وہ پریشان نہیں ہوتے جانتے ہیں کہ ایسا ہونا کوئی بڑی یا بری بات نہیں۔

بیرون ممالک گلف ہو یا یورپ میں جو بچے پرورش پاتے ہیں ان کے پاس کوئی چوئس نہیں، ایک گھر ہے اس میں والدین اور بہن بھائی، سکول و کالج جانا ہے، والدین کار پر چھوڑیں اور لیں چاہے بس پر آئیں جائیں، پھر گھر ہے ہیی ہے، جس پر پڑھائی کر لی یا ٹی وی و انٹرنٹ وغیرہ، والدین نے اگر یہاں کسی فیملی سے ملنے جانا ہے تو بچے اپنے گھر میں رہنا ہی پسند کرتے ہیں، مارکیٹ، شاپنگ، یا کسی تفریحی سیرگاہ پر بچے ساتھ جانا پسند کرتے ہیں۔ جس وجہ سے بچے ہر وقت ریزرو رہتے ہیں۔

میرے اپنے بچے دو مرتبہ پاکستان گئے تھے مگر اب وہ وہاں جانا پسند نہیں کرتے وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں آنٹیوں کے پاس اور کوئی موضوع نہیں سوائے اس کے کہ ادھر ادھر کی باتیں کرنا اور بچوں کو بھی پوچھنا جبکہ بچوں کی اس کی عادت ہی نہیں اس لئے بچے اور بچیاں خود ہی ماں کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے ہر وقت اسی کے ساتھ رہنا۔

یہاں سے بہت سے فیملیاں کچھ سال تک پاکستان میں جا کر رہتی ہیں تاکہ بچوں کو اپنے ماحول کا پتہ چلے کہ جس سے وہ ہوشیار و چالاق ہوں۔

امید ہے آپکو سوال کا جواب مل گیا ہو گا باقی مزید جاننا ہے تو جاری رہیں ساتھ ساتھ معلومات فراہم ہوتی رہے گی، اگر دوسرے دوست بھی اس پر روشنی ڈالنا چاہیں تو معلومات میں اضافہ ہو گا۔

والسلام
 
شمولیت
اپریل 25، 2016
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
36
جزاک اللہ خیر
براہ مہربانی ان کے جوابات دے دیں....
کیا اس کا رویہ صحیح ہے؟کیا دادا ،دادی، نانا ، نانی والدین کے برابر ہوتے ہیں ؟ یعنی ان کی نافرمانی بھی کبیرہ گناہ میں شمار ہو گی؟


Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 
شمولیت
اپریل 25، 2016
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
36
السلام علیکم

بہت بڑا اور مشکل مرحلہ ہے اسے سمجھنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ جو بچے پاکستان میں یا اپنا کوئی بھی ملک ہو وہاں پرورش پاتے ہیں ان میں اور بیرون ممالک چاہے گلف ہو یا یورپ میں پرورش پانے والے بچوں کی عادات میں بہت فرق ہوتا ہے۔

پاکستان سے جس ماحول میں بچے پرورش پاتے ہیں بہت کھلا اور فری ہینڈ ہوتا ہے جیسے ان کے دادا جان دادی جان، چچا، چچی، خالہ، خالو ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھوپھی وغیرہ سب کے ساتھ ملنا جلنا ہوتا ہے، روزمرہ کی عادت میں شامل ہوتا ہے، پھر بڑے جب بھی مل بیٹھیں تو کسی نہ کسی کا موضوع سامنے ہوتا ہے فارغ یا خاموش نہیں ملیں گے اس لئے بچوں کو اگر کوئی بڑا کچھ کہہ بھی دے تو اس پر وہ پریشان نہیں ہوتے جانتے ہیں کہ ایسا ہونا کوئی بڑی یا بری بات نہیں۔

بیرون ممالک گلف ہو یا یورپ میں جو بچے پرورش پاتے ہیں ان کے پاس کوئی چوئس نہیں، ایک گھر ہے اس میں والدین اور بہن بھائی، سکول و کالج جانا ہے، والدین کار پر چھوڑیں اور لیں چاہے بس پر آئیں جائیں، پھر گھر ہے ہیی ہے، جس پر پڑھائی کر لی یا ٹی وی و انٹرنٹ وغیرہ، والدین نے اگر یہاں کسی فیملی سے ملنے جانا ہے تو بچے اپنے گھر میں رہنا ہی پسند کرتے ہیں، مارکیٹ، شاپنگ، یا کسی تفریحی سیرگاہ پر بچے ساتھ جانا پسند کرتے ہیں۔ جس وجہ سے بچے ہر وقت ریزرو رہتے ہیں۔

میرے اپنے بچے دو مرتبہ پاکستان گئے تھے مگر اب وہ وہاں جانا پسند نہیں کرتے وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں آنٹیوں کے پاس اور کوئی موضوع نہیں سوائے اس کے کہ ادھر ادھر کی باتیں کرنا اور بچوں کو بھی پوچھنا جبکہ بچوں کی اس کی عادت ہی نہیں اس لئے بچے اور بچیاں خود ہی ماں کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے ہر وقت اسی کے ساتھ رہنا۔

یہاں سے بہت سے فیملیاں کچھ سال تک پاکستان میں جا کر رہتی ہیں تاکہ بچوں کو اپنے ماحول کا پتہ چلے کہ جس سے وہ ہوشیار و چالاق ہوں۔

امید ہے آپکو سوال کا جواب مل گیا ہو گا باقی مزید جاننا ہے تو جاری رہیں ساتھ ساتھ معلومات فراہم ہوتی رہے گی، اگر دوسرے دوست بھی اس پر روشنی ڈالنا چاہیں تو معلومات میں اضافہ ہو گا۔

والسلام
اس میں بچوں کا کتنے فیصد قصور ہے؟ اور اگر کوئی بچہ/بچی خود اپنی اصلاح چاہ رہی ہو تو کیسے کرئے؟ کوئی لانحہ عمل بتا سکتے ہیں..


Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

یہ والدین کا کام ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بتائیں کہ جیسے ہم تمہارے والدین ہیں ویسے ہی یہ ہمارے والدین ہیں اس لئے ان سے محبت کرو، اور وہ اگر کچھ بھی کہیں تو اس پر کبھی برا نہیں ماننا، میں بھی اپنے والدین کو یہاں بلواتا رہتا ہوں بچے ان سے بہت محبت کرتے ہیں اور وہ بھی، دادا دادی جان نانا نانی جان نے ایسا کیا کہنا ہے جو بچے کے کچھ کرنے سے نافرمانی کہلائے گا یہ میں نہیں بتا سکتا کیونکہ میرے ہاں ایسا نہیں، اس پر کسی صاحب علم کے جواب کا آپکو انتظار کرنا ہو گا جب کسی کی اس پر نظر پڑی تو وہی جواب عنایت فرمائیں گے۔

والسلام
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اس میں بچوں کا کتنے فیصد قصور ہے؟ اور اگر کوئی بچہ/بچی خود اپنی اصلاح چاہ رہی ہو تو کیسے کرئے؟ کوئی لانحہ عمل بتا سکتے ہیں..
اس کے لئے بچوں اور ان کی ماں کی پاکستان میں رہنا ہو گا جس سے انہیں ہر رشتہ کی پہچان ہو گی اور آہستہ آہستہ وہ پاکستان سے اپنے ماحول کو سمجھیں گے۔

میری اہلیہ بحرین بورن ہے اور کالج ختم کر کے پاکستان آئی تھی، یونیورسٹی پاکستان سے چند سال شائد 4، پھر الامارات اور پھر یورپ، وہ جو چند سال پاکستان میں رہی رشتہ داروں کو نہ سمجھ پائی، بہت مشکل کام تھا۔ بچوں کا کوئی قصور نہیں ہوتا ایک آنٹی کچھ کہتی ہے کہ بچے سمجھتے ہیں یہی سب کچھ ہے تو دوسری آنٹی جو کہتی ہے وہ کچھ اور ہی ہوتا ہے، بچے اپنی جگہ درست ہوتے ہیں مگر نہ تو وہ موحول کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس طرح کچھ سمجھا جاتا ہے۔

والسلام
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
السلام علیکم ..
ایک دوست ہے جو ہمیشہ سے اپنے ملک سے باہر رہی ہے اور اس کا اپنے کچھ رشتے داروں سے قلبی تعلق نہیں ہے ..
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

اب اس کے دادا دادی اس کے پاس آئے ہیں وہ ان کی خدمت تو کرتی ہے لیکن بعض نظریاتی اختلافات اور سوچ کے فرق کی وجہ سے اور کچھ ان کے مزاج کی گرمی کی مابدولت وہ ان سے باتیں زیادہ نہیں کرتی اور نہ زیادہ ان کے پاس بیٹھتی ہے کیونکہ اس کو ڈر ہوتا ہے کہ کہیں کسی بات پر بحث نہ ہوجائے ...اور دوسرا بعض اوقات ان کا اسکی والدہ کے ساتھ رویہ جس کی وجہ سے وہ دل برداشتہ ہوجاتی ہے..
یہ بہت اچھا اور محتاط رویہ ہے کہ وہ ان کی خدمت بھی کرتی ہے اور ان سے بحث وغیرہ سے بچنے کے لئے زیادہ باتیں نہیں کرتی۔ یہ بچی کی دانشمندی کی دلیل ہے۔

اب اس کی والدہ پرزور ہیں کے وہ اپنے دادا دادی کے ساتھ بیٹھا کرئے جبکہ وہ سمجھتی ہے کہ وہ باقی سارے کام جو اس کے دادا دادی کے ہوتے ہیں کر لیتی ہے اس سے اسکا خدمت کرنے کا فرض ادا ہوجاتا ہے...کیا اس کا رویہ صحیح ہے؟
اس کی والدہ کا اصرار مناسب نہیں ہے۔ اگر بچی دادا دادی کی ضروریات کا خیال کرتے ہوئے اس کی خدمت کر رہی ہے اور ان کے کسی جائز حکم کی کھلم کھلا نافرمانی بھی نہیں کرتی تو میرے نزدیک بچی کا رویہ صحیح ہے۔

کیا دادا ،دادی، نانا ، نانی والدین کے برابر ہوتے ہیں ؟ یعنی ان کی نافرمانی بھی کبیرہ گناہ میں شمار ہو گی؟
جی ہاں۔ یہ والدین کے برابر ہوتے ہیں۔ کیونکہ والدین کے بھی والدین ہوتے ہیں۔ باپ کی عدم موجودگی میں تو دادا بچی کا ولی بھی بن جاتا ہے۔ لہٰذا ان کے جائز حکم کی نافرمانی بھی گناہ ہی کے زمرے میں آئے گی۔ الا یہ کہ وہ اپنے والدین کو اعتماد میں لے کر دادا دادی، نانا نانی کی کسی نا۔مناسب بات کو نہ مانے۔ ویسے بھی بچی کے گھر دادا دادی بطور ”مہمان“ آئے ہیں۔ ایک ایسے ملک سے آئے ہیں، جہاں کا کلچر، بچی کے ماحول سے الگ ہے۔ لہٰذا بچی کے ماں باپ کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں اور اپنے والدین کے درمیان پُل کا کردار ادا کریں۔

واللہ اعلم بالصواب
 
Top