• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دار سے کیا مراد ہے ؟ اور دار کی کتنی اقسام ہیں ؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
بسم الله الرحمن الرحیم

دار سے کیا مراد ہے ؟

عربی میں لفظ ’’دار ‘‘دو معنوں کے لئے مستعمل ہے ایک معنی خاص ہے دوسرا عام خاص معنی فقہاء نے یہ بیان کیا ہے کہ ’’دار‘‘ ایک ایسے حصہ زمین کو کہتے ہیں جس کی حدود متعین ہوں اس میں گھر ہوں۔ اصطبل ہو صحن ہو بغیر چھت کے صحن ہو ہوا میں ٹھنڈک اور سکون کے لیے رہتے ہوں اور چھت والے حصے کے اندر اکثر اوقات میں رہا جاتا ہو۔ (رد المختار علی الدررالمختار)

عام معنی ایک ایسی جگہ جس میں عمارت ہو اور ساتھ ہی بغیر دیواروں کے خالی جگہ یعنی صحن وغیرہ ہو، شہر ہو، کو بھی کہا جاتا ہے معجم میں اس کا معنی لکھا ہے کہ دار کہتے ہیں گھر اور اس کے آس پاس متعلقہ جگہ کو جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

{فَجَاسُوْاخِلٰلَ الدِّیَارِوَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا} (اسراء: ۵)
’’وہ شہر کے اندر گھس کر دور تک پھیل گئے اور یہ وعدہ تھا پورا ہونے والا۔‘‘


دوسری آیت میں ہے :

{اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ} (البقرہ:۲۴۳)
’’کیا آپ نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو اپنے اپنے گھروں سے نکلے ؟۔‘‘


ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ دار سے مراد شہر، بستی، ملک ہے یعنی ایسا علاقہ جس میں انسان اکھٹے رہتے ہوں اور وہ آپس کے معاملات وتنازعات نمٹاتے ہوں چاہے ان کے ہاں رائج نظام شرعی ہو یا غیر شرعی دار سے مراد ملک بھی ہوسکتا ہے جو متعدد صوبوں پر مشتمل ہو۔

موجودہ دور میں دار سے مراد ریاست ہے۔ یعنی ایسی آبادی جس میں ایک نظام رائج ہو اور اس ریاست میں جتنے صوبے ہیں ان کے حدود مقرر ہوں ان کے باشندوں کے حقوق متعین ہوں اس ریاست میں ایک حکمران ہو یا خلیفہ یا امیر المؤمنین ہو جو اس پورے ریاست کا انتظام چلاتا ہو۔ ایسی علاقے اور آبادی کو ریاست کہا جاتا ہے۔ سیاست شرعیہ سے متعلق بحث کرنے والے فقہاء بھی اسی کو ریاست یا الاحکام السلطانیہ کہتے ہیں ۔

خلاصہ کلام یہ ہے ۔ ریاست کے لئے تین ارکان کا ہونا لازمی ہے :
  • ۱۔علاقہ
  • ۲۔عوام
  • ۳۔دفاع
ایک ملک کو یا مختلف ریاستوں کے مجموعے کو بھی کہا جاتا ہے کہ جس میں ہر ریاست اپنی متعین کردہ ذمہ داری مرکزی حکومت کے ماتحت پوری کرتی ہے ۔ اور تمام ریاستیں مل کر عوام کے مفاد کے لئے کام کرتی ہیں عوام کے دینی ودنیاوی مقاصد کی تکمیل کے لئے کوشش کرتی ہیں (اگر ملک اسلامی ہو) تو پھر اس کی تعریف یوں ہوگی جو ماوردی نے کی ہے کہ ’’امامت خلافت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے مقرر کی گئی ہے تاکہ دین اور سیاست کا تحفظ کیا جاسکے امام کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی تمام ریاستیں اس کے ماتحت کام کرتی رہیں۔‘‘

امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ اپنی کتاب السیاست الشرعیۃ میں لکھتے ہیں ’’ریاستوں کا مقصد ہے عوام کے دین (یعنی دینی معاملات) کی اصلاح اگر دین نہیں ہوگا تو عوام نقصان وخسارے میں رہیں گے اور دنیاوی خوشحالی انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی ۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کے دنیاوی امور کی بھی اصلاح کرنی ہے ‘‘۔

ابن الأرزق بدائع السلک میں لکھتے ہیں’’امام مقرر کرنے کا شرعی مقصد ہے کہ وہ شارع صلی اﷲ علیہ وسلم کا نائب ہوتا ہے دین اور دنیاوی سیاست کی حفاظت کرتا ہے اس نیابت کی بناء پر ہی اسے خلیفہ یا امام کہتے ہیں ۔ اصل مقصد دین ہے نہ کہ صرف دنیا ‘‘۔

دار کی کتنی اقسام ہیں ؟

۱۔ دار الاسلام :
ہر وہ علاقہ وخطہ جس میں اسلامی احکام وقوانین غالب ہوں۔ امام شافعی رحمہ اﷲ کہتے ہیں دارالاسلام ہے زمین کا وہ خطہ جس میں اسلامی احکام نافذ ہوں ۔ بعض لوگوں نے یہ تعریف کی ہے کہ دار الاسلام وہ ہے جس میں کوئی کفریہ خصلت نہ ہو جیسا کہ نبی کی تکذیب یا کتب سماویہ میں سے کسی کتاب کو جھٹلانا یا انہیں حقیر ومعمولی سمجھنا یا لادینیت وغیرہ ۔

کچھ لوگ دار الاسلام کی تعریف اس طرح کرتے ہیں ۔ جس خطے وعلاقے میں اسلام کی دعوت اس علاقے کے لوگوں میں سے ہی اٹھی ہو نہ تو وہ ذمی ہوں نہ جزیہ دے کر رہنے والے ہوں نہ مسلمانوں کے ساتھ کسی عہد کی وجہ سے اسلام کی دعوت اٹھی ہو، اور اگر وہاں ذمی آباد ہیں تو ان پر اہل اسلام کے احکام نافذ ہوں اور اہل بدعت اہل سنت پر غالب نہ ہوں (اہل بدعت اکثریت میں اور اہل سنت اقلیت میں نہ ہوں)۔

یہ بھی تعریف کی گئی ہے کہ جس علاقے میں مسلمان آباد ہوں اگرچہ ان کے ساتھ دیگر مذاہب کے پیروکار بھی رہتے ہوں یا جس خطے میں اسلامی احکام غالب ہوں اسے دارالاسلام کہا جائے گا ۔

خلاصہ یہ ہے کہ دار الاسلام ان ممالک کو کہا جائے گا جس میں متعدد صوبے ہوں اور وہ سب مسلمانوں (شرعی) حکومت کے ماتحت ہوں چاہے۔ وہ لوگ مسلمان ہوں یا ذمی ، حکمرانی اسلام کے غلبہ ونفاذ کے ساتھ ہو۔

۲۔ دار الکفرکیا ہے ؟ : ہر وہ علاقہ وخطہ زمین جہاں کفر کے احکام غالب ہوں اور اس علاقے اور مسلمانوں کے درمیان جنگ نہ ہو ۔

اس میں وہ ملک بھی شامل ہیں جن سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی ہو مگر اب حالات امن کے ہوں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہر دار الحرب دار الکفر ہے مگر ہر دار الکفر دار الحرب نہیں ہے۔

۳۔ دار المرکبۃ : یہ دونوں خصوصیات کا حامل ہوتا ہے نہ تو یہ دار الاسلام ہے کہ اس میں اسلام کے احکام جاری ہوں۔ اس بنا پر کہ اس کی فوج مسلمان ہے اور نہ ہی وہ دار الحرب ہے کہ اس میں باشندے کافر ہوں بلکہ یہ ایک تیسری قسم ہے اس میں مسلم کے ساتھ اس کی حیثیت کے مطابق سلوک ہوتا ہے اور شریعت سے خارج ہونے والے کے ساتھ اس کی حیثیت کے مطابق جنگ کی جاتی ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ نے اپنے فتاویٰ میں اس کا تذکرہ کیا ہے ۔( فتاوی الکبری ج ۴ ص ۳۳۱ و الفتاوی ج ۲۸ ص ۱۴۲)

۴۔ دار الحرب :
ہر وہ خطہ وعلاقہ جہاں مومنوں اور کافروں کے درمیان جنگ ہو یعنی کفار کا وہ ملک جو مسلمانوں سے برسر پیکا رہو۔

۵۔ دار العہد : اسے دار الصلح بھی کہتے ہیں ۔ وہ علاقہ وہ خطہ جس نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر رکھا ہو اس بات پر کہ جو لوگ جس جگہ آباد ہیں وہ علاقہ انہیں کا ہوگا (یعنی عدم مداخلت کا معاہدہ)۔

۶۔ دار البغی :وہ علاقہ جہاں مسلم حکمران سے بغاوت کرکے کچھ مسلمان جمع ہوگئے ہوں اور وہاں طاقت حاصل کرلی ہو۔
یہ اقسام کتب فقہ میں مذکور ہیں وہاں سے لی گئی ہیں بعض فقہاء نے دار کی تین اقسام ذکر کی ہیں بعض نے چار ، تفصیلات کے لئے کتب فقہ ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

دار الاسلام سے مراد وہ ملک جہاں مسلمانوں کے احکام غالب ونافذ ہوں ۔ یا وہ علاقہ جہاں مسلمان آباد کثرت میں ہوں اگرچہ وہاں دیگر ادیان ومذاہب کے افراد بھی بستے ہوں یا جس ملک میں اسلامی احکامات غالب ہوں ۔

یا اسلامی ممالک جس کے تمام صوبوں میں مسلمانوں کی حکومت ہو اور وہاں کے باشندے جو کہ اس حکومت کے ماتحت ہیں وہ مسلمان یا ذمی ہوں اور اقتدار اعلیٰ کا مقصود اسلام کے احکام کا نفاذ وغلبہ ہو۔

اس کے برعکس جہاں کفر کے احکام غالب ہوں وہ دار الکفر ہے دار المحاربین (جو کافر مسلمانوں سے جنگ کرتے ہیں ان کا علاقہ) حالت امن میں بھی دار الکفر شمار ہوگا۔ ہر دارالحرب دار الکفر ہے مگر ہر دار الکفر دار الحرب نہیں ہے۔

یہاں پر ایک اور بات کی وضاحت بھی مناسب ہے اور وہ یہ کہ کچھ ایسے کفریہ کام ہیں جنہیں صرف علماء ہی پہچان سکتے ہیں عام مسلمان انہیں نہیں جان سکتے اس لئے وہ خفی اور دقیق امور ہیں عام مسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آتے اس لیے کہ وہ کفر بواح بظاہر نظر نہیں آتے جیسا کہ تحکیم بغیر ما انزل اﷲ شیخ محمد ابراہیم رحمہ اﷲ نے بعض مسائل میں بغیر ما انزل پر تحکیم کو کفر بالاتفاق ثابت کیا ہے لیکن چونکہ عوام کو سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے لہٰذا ان مخفی کفریہ امور کی وجہ سے ہم نہ تو عام مسلمانوں پر ہجرت لازم کرسکتے ہیں نہ ہی وہاں پر رہنے والوں کو گناہ گار کہہ سکتے ہیں اس لئے اسلام میں ایک اصطلاح کفر بواح کی بھی ہے یعنی ایسا صریح اور واضح کفر کہ جس کی دلیل جو اﷲ نے نازل کی ہے وہ ہر خاص وعام مسلمان کی سمجھ میں آئے تاکہ وہ اس عمل کے کفر ہونے کو سمجھ سکے اب اگر اس طرح کے واضح کفر کرنے والے کے خلاف کوئی شخص خروج کرتا ہے بغاوت کرتا ہے او ر بقیہ لوگ اس سے جنگ کرتے ہیں تو یہ شخص حق پر ہوگا لیکن جب کسی حکمران میں واضح کفر نہ ہو تو پھر ایسے میں اس کے خلاف خروج وبغاوت اس لیے مناسب نہیں کہ عام مسلمان خلفشار کا شکار ہوں گے افراتفری پھیلے گی ۔

جب کفر بواح واضح کفر نظر آجائے تو اس حاکم کے خلاف خروج یا اس کو تبدیل کرنا جائز ہے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو پھر مسلمانوں پر ہجرت لازم ہے ۔ کسی مرتد حاکم کو بچانا اور اس کی حفاظت اور حمایت کسی بھی لحاظ سے جائز نہیں ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسے حکمران کو کچھ نہ کہا جائے ہمار امقصد یہ ہے کہ جب تک حکمران کا کفر واضح نہ ہو تو اس کے خلاف بغاوت مسلمانوں میں اختلاف کا سبب بنے گا اس لیے کہ عام مسلمانوں کو معلوم ہی نہ ہوگا کہ حکمران میں کیا خرابی ہے کو ن سا عمل اس کا کفریہ ہے یا اس کے خلاف بغاوت جائز ہے یا نہیں ؟ البتہ ایک مومن اگر کسی حکمران میں کوئی کفریہ عمل دیکھتا ہے اور وہ وہاں سے ہجرت کرتا ہے تو یہ حق پر ہے اس کی ہجرت اﷲ کی راہ میں شمار ہوگی ۔

اور اگر یہ کوئی کفریہ عمل دیکھتا ہے مگر وہ کھلا کفر نہیں ہے اور حکمران تاویل کے ذریعے اس عمل کے جواز کی بھی دلیل دیتا ہے چاہے وہ تاویل شرعی ہو یا لغوی اس صور ت میں اور دوسری وجہ یہ ہو کہ مسلمانوں میں خون خرابہ نہ چاہتے ہوئے یہ اس ملک میں رہنا چاہے تو اس پر کوئی حرج نہیں۔
 
Top