محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
"داعش ،،، ہماری ذمہ داریاں اور حقائق"
٭گمراہ فرقوں کے عقائد ذکر کرنے کا مقصد :
٭ دولت اسلامیہ عراق و شام یا داعش :
٭ داعش کی سیاہ کاریاں :
٭ مسلم ممالک میں ان کے اہداف :
٭ نمازیوں اور مساجد کو دھماکوں سے اڑانے والے :
٭ شریعت نے مساجد کی صفائی ستھرائی کا حکم دیا لیکن داعش نے :
٭ شریعت نے نمازی کے آگے سے گزرنا حرام قرار دیا لیکن داعش نے :
٭ داعش کے روحانی آباء :
٭ داعش کس کی پیداوار ہے؟
٭ اولین خوارج کے ہاتھوں شہادت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ :
٭ مناقب عثمان رضی اللہ عنہ :
٭ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی مذمت بزبان حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ :
٭ جہاد کیا ہے؟
٭ اسلام کیا ہے؟
٭داعش کی مسلمان خواتین کے ساتھ زیادتیاں :
٭ خوارج کی علامت بزبان نبوت :
٭ مسلم نوجوانوں کیلئے خوارج اور ان کے خلیفہ سے متعلق نصیحت :
٭ داعش اور سلفیت کا کوئی تعلق نہیں :
٭ داعش جیسی تنظیموں کو نظریاتی تحفظ کہیں سے نہیں ملے گا :
٭ سعودی عرب کے خلاف اٹھنے والی ہر آنچ کا بھر پور جواب دیا جائے گا :
٭ نوجوان نسل کے متعلق اساتذہ، والدین، منبر و محراب اور قلم و قرطاس کے حاملین کی ذمہ داریاں :
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، اسی کے فضل و کرم کی ہمیشہ چاہت رہتی ہے، مشکل کشائی کیلئے اسی سے امید کی جاتی ہے، میں اس کی حمد بیان کرتا ہوں کہ وہی غنی کرنیوالا، وافر مقدار میں دینے والا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں ، یہ ایسے بندے کی گواہی ہے جو موحد ، شرک و بدعات سے بیزار، اور ہر قسم کی فرقہ واریت سے پاک ہے، اور یہ گواہی عظیم ترین عبادت ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اسکے بندے اور رسول ہیں ، آپ دین سے دور ہونے والے اور فرقہ واریت میں پڑے ہوئے لوگوں سے بالکل بری ہیں، اللہ تعالی ان پر، انکی اولاد ، اور صحابہ کرام پر دائمی و سرمدی رحمت و سلامتی نازل فرمائے ، ہم صحابہ کرام کے بارے میں رضائے الہی کی دعا کرتے ہیں، اور ان سے محبت بھی کرتے ہیں، نیز صحابہ کرام کی تکفیر، ان سے بغض ، ان پر تہمت لگانے والوں اور تبرّا کرنے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
مسلمانو!
اللہ سے ڈرو، کہ تقویٰ الہی افضل ترین نیکی ہے، اور اسکی اطاعت سے ہی قدرو منزلت بڑھتی ہے
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے، اور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔[آل عمران: 102[
مسلمانو!
بدعتی اور خواہش پرست لوگوں کی گمراہی عیاں کرنا، ان کی گفتگو، نظریات سے آگاہی دینا شرعی طور پر واجب ہے،
چنانچہ امام ابن بطہ رحمہ اللہ "ابانۃ الکبری" میں کہتے ہیں:
"میں نے گمراہ فرقوں کے اقوال اس لئے ذکر کئے ہیں کہ ہمارے بھائیوں کو ان کے نظریات کے بارے میں علم ہو کہ وہ جہمی اور مختلف گمراہ عقائد ، شرکیات اور بد اعتقادی پر مشتمل ہیں، نیز کچی عمر کے نابلد نوجوان ان گمراہ لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے پرہیز کریں، اور ان کی تحریر و تقریر پر کان مت دھریں" انتہی
عقیدہ، منہج، فکر، اور عمل کے اعتبار سے گمراہ فرقوں میں سے ایک ایسا فرقہ ہے جس نے کچھ جاہل، دھوکے باز، اور نو عمر جوانوں کی عقل سلب کر لی ہے، اس کیلئے جذبات بھڑکانے والے ولولہ انگیز نعرے استعمال کئے جن سے ان کی دانشمندی بالکل ختم ہو گئی ۔
اس فرقے نے اپنا ڈھانچہ قائم کر کے اس کا نام دولت اسلامیہ عراق و شام رکھا ہے، جو کہ لوگوں میں "داعش" کے نام سے مشہور و معروف ہے، اور حقیقت میں یہ صرف خبیث مرد و زن کا مرکب ہے۔
یہ لوگ انتہائی خراب، اور خفیہ کاروائیاں کرنے والے ہیں، ان میں مختلف قسم کے اوباش، بے عقل، شر و نفاق کے داعی اور فتنہ پرور شامل ہیں، وہ ابلیس کے چیلے اور سرکشی و بغاوت میں دور تک نکل چکے ہیں، اسلام مخالف اقدامات کیلئے مکمل بے لگام ہیں، انہوں نے اسلام سے لوگوں کو متنفر کرنے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
ان لوگوں نے اپنے تئیں تو علمِ جہاد بلند کیا لیکن ان کے ہاں قبیح اور بدترین انداز میں وحشیت، پاگل پن، تشدد کرنا، قیدی بنانا، لوگوں کو ذبح کرنا، قتل و غارت، بم دھماکے اور کفر کے فتوے صادر کرنا ہی جہاد ہے۔
ان کا ہدف یہ ہے کہ بے چینی پیدا کی جائے، اور بپا کئے جائیں، اتحاد و اتفاق کو سبوتاژ کیا جائے ، امن برباد اور اہل سنت و الجماعت سے جنگ رکھی جائے، مکار و عیار دین دشمن لوگوں کی مدد ان کا شیوہ ، اور دیندار افراد سے دشمنی ان کی خاصیت ہے۔
اسلام اور مسلمانوں سے ان کی دشمنی مساجد میں بم دھماکوں اور نمازیوں کے قتل عام سے مزید کھل کر سامنے آگئی ہے۔
انہوں نے اپنی تازہ ترین مجرمانہ کاروائی کرتے ہوئے ایمرجنسی فورس کی مسجد میں "عسیر" کے علاقے میں نمازیوں کو دھماکے سے اڑایا، اللہ تعالی مقتولین پر اپنا رحم فرمائے اور انہیں شہداء میں قبول فرمائے نیز زخمیوں کو شفا یاب فرمائے، بیشک وہی دعائیں قبول کرنے والا ہے، اللہ تعالی سوگوران کے غم کو آسان بنائے۔
مسلمانو!
حالانکہ شریعت میں مساجد کی صفائی ستھرائی اور ان کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، نیز مساجد کو آلودہ و نا پاک کرنا حرام قرار دیا ، لیکن داعش نے مساجد کو دھماکوں سے تباہ اور قرآن مجید کی توہین کو جائز قرار دیا۔
شریعت نے نمازی کے آگے سے گزرنے کو بھی حرام قرار دیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے شخص کو گناہ کا علم ہو جائے تو نمازی کے آگے سے گزرنے کی بجائے چالیس سال تک کھڑے رہنا اس کیلئے بہتر ہوگا)، شریعت نے نمازی کی نماز توڑنے کو حرام قرار دیا، لیکن داعش نے نمازی کو دھماکے سے اڑانا، اس کے اعضا ٹکڑے ٹکڑے کرنا جائز قرار دیا۔
جہاں بھی پائے جائیں اللہ تعالی انہیں تباہ و برباد فرمائے، انہوں نے کتنے ہی اسلام کے خلاف محاذ کھولے ، کتنے ہی محترم خون بہائے، اور کتنی ہی معصوم جانیں انہیں نے ذبح کیں۔
دین سے دور "داعش" سے بچو، یہ صفریہ، اور ازارقہ کی روحانی اولاد ہیں، موجودہ خوارج کی خلافت سے دور رہو، یہ راسبی، قطری، اور ذی الخویصرہ کی روحانی نسل ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ "داعش" علاقائی اور عالمی خفیہ اداروں کی پیداوار ہے، انہوں نے ہی اس کی قیادت کا انتظام کیا ہے، جو انہی کی سیاست و تعلیمات کے مطابق اس تنظیم کو چلا رہا ہے، نیز اس کیلئے تکفیری اور جہادی دھڑے بندیوں کے سربراہان، قیادت، اور افکار کو استعمال کرتے ہیں، مزید بر آں یہ بھی ہے کہ کم عقل اور بیوقوف لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں، نو عمر، اچھے برے کی تمیز سے عاری نوجوان ہی ان کی بھڑکائی ہوئی آگ کا ایندھن بنتے ہیں۔
پہلے ابن سوداء عبد اللہ بن سبا خبیث یہودی نے صنعا میں خلافت راشدہ اور مسلمانوں کی جماعت کے خلاف منصوبہ بندی کی ، اس کیلئے شور شرابا پیدا کیا اور کچھ اوچھے لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا، اور ان کے دلوں میں فتنے کی آگ بھڑکانے کے بعد سب کو لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کی جانب روانہ ہو گیا، یہاں آ کر انہوں نے امیر المؤمنین خلیفۂِ راشد ، سخی اور مجاہد، صادق و نیکو کار، شہیدالدار یعنی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دھمکیاں دینا شروع کیں، جنہوں نے جیش العسرہ کو ایسے تیار کیا کہ مجاہدین کو ایک لگام یا رسی کی کمی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا، بلکہ وہ اپنے کپڑے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ہزار دینار لے کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں ڈال دیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دیناروں کو ہاتھ میں لیکر فرمانے لگے:
(آج کے بعد عثمان کچھ بھی کرے اسے نقصان نہیں ہوگا، آج کے بعد عثمان کچھ بھی کرے اسے نقصان نہیں ہوگا) مسند احمد
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(بئر رومہ جو بھی کھدوائے اس کیلئے جنت ہے) تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی کھدائی کروائی اور مسافروں کیلئے وقف کر دیا، اور مسلمانوں کیلئے پانی لینا آسان ہو گیا، ان کے اور بھی بہت سے فضائل و مناقب ہیں۔
عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر میں محصور کر دیا جاتا ہے، اور انہیں مسجد میں نماز کی ادائیگی سے روک دیا جاتا ہے، اور باغی ان پر حملہ کر کے قتل کر دیتے ہیں، حالانکہ وہ اپنے سامنے قرآن مجید کھولے ہوئے تھے۔
اس لئے خوارج چاہے کسی بھی زمانے کے ہوں یہ بہت ہی خبیث لوگ ہیں، اسلام و مسلمانوں کے خلاف ان کی سیاہ کاریاں بہت ہی سنگین نوعیت کی ہیں۔
چنانچہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
أَتَرَكتُمُ غَزوَ الدُروبِ وَجِئتُمُ
لِقِتالِ قَومٍ عِندَ قَبرِ مُحَمَّدِ
کیا تم میدان جہاد چھوڑ کر محمد ﷺ کی قبر کے پاس لوگوں سے قتال کرنے آئے ہو!؟
فَلَبِئسَ هَديُ الصالِحينَ هُديتُمُ
وَلَبِئسَ فِعلُ الجاهِلِ المُتَعَمِّدِ
تم نے نیک لوگوں کی سیرت داغ دار کیا، اور جان بوجھ کر جہالت میں عمل کرنے والے کا عمل بہت برا ہوتا ہے۔
وَكَأَنَّ أَصحابَ النَبِيِّ عَشِيَّةً
بُدنٌ تُنَحَّرُ عِندَ بابِ المَسجِدِ
شام کے وقت ایسا لگتا تھا کہ نبی کے صحابہ کو مسجد کے دروازے پر اونٹوں کی طرح نحر کیا جا رہا ہے
مسلمانو! نوجوانو!
جہاد اسلام کی کوہان کی چوٹی ہے، اس لئے خود کش کاروائیوں کا نام جہاد نہیں ہے، معصوم جانوں کے قتل کیلئے دھماکے کرنا جہاد نہیں ہے، بغاوت و سر کشی پر مبنی تنظیموں کا نام جہاد نہیں ہے، مظاہرے، فضول تحریکیں جہاد نہیں ہیں۔
یہ کوئی جہاد نہیں ہے کہ انسان اپنے آپ کو ہلاک کرتے ہوئے فتنے کی آگ میں جھونک دے جس کا کوئی سر اور پاؤں نہ ہو، حقیقت میں جہاد ان تمام چیزوں سے بہت بلند ہے۔
اور نہ ہی اسلام مخصوص تنظیموں ، جماعتوں ، دھڑے بندیوں میں محصور ہے کہ انہیں دوستی و دشمنی کا معیار بنایا جائے۔
اسلام، جہاد، اور دعوت بہت ہی عظیم آسمانی پیغام ہیں، جو صرف اور صرف عادل، اور انسانیت کا خیر خواہ ہی آگے پہنچا سکتا ہے، لیکن دین دشمن طاقتوں نے داعش جیسے مجرم تنظیمی ڈھانچے قائم کر کے اسلام اور جہاد کا چہرہ مسخ کرنا شروع کر دیا ہے، نیز اسلامی ممالک میں بے چینی ، امن سبوتاژ اور استحکام بھی دگر گوں کر رہے ہیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی ممالک کو داخلی انتشار سے کمزور کیا جائے، ان تمام امور کیلئے روزِ روشن کی طرح واضح دلیل یہ ہے کہ ان تنظیموں کو صرف اسلامی ممالک میں ہی میدان جہاد! ملتا ہے، پھر وہیں پر قتل و غارت، جلاؤ گھراؤ، بم دھماکے، لوٹ مار کرتے ہیں، مسلم خواتین کو لونڈیاں اور مسلمانوں کے مال کو غنیمت کا مال قرار دیتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صفات ذکر کرتے ہوئے سچ فرمایا:
(مسلمانوں کو قتل کرینگے اور بت پرستوں کو چھوڑ دینگے)
مسلمان نوجوانو!
ان تکفیری جہادی تنظیموں سے بچنا، گروہ بندی اور دھڑی بندی سے گریز کرنا، ان تنظیموں سے وابستگی یا تعلق مت رکھنا، ان کے جھنڈے تلے مت جمع ہونا، اور نہ ہی ان کے سربراہان و رہنماؤں کی بیعت کرنا۔
نامعلوم خلیفہ کی بیعت سے دور رہنا، کیونکہ وہ مجہول و مشکوک ہے، اور اسکی بیعت انحراف اور گمراہی ہے، اور اس کی اطاعت گناہ و معصیت ہے۔
مسلمانو!
سچائی اور دین کے دشمن ان دہشت گرد جماعتوں کو سلفی دعوت سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں یا امام اوّاب محمد بن عبد الوہاب –اللہ تعالی انہیں وافر اجر و ثواب عطا فرمائے-کی پہنچائی ہوئی خالص دعوت توحید کیساتھ منسلک کرتے ہیں، یا پھر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ مملکت سعودی عرب و سعودی علمائے کرام سے ان کا تعلق بنایا جائے، اس کیلئے کچھ الفاظ: "جہادی سلفیت" یا "وہابی داعش" وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں ۔
اور بڑے افسوس کی بات ہے کہ ان کے ہم رکاب ہمارے ہی کچھ کالم نگار اور مفکرین بھی ہیں، حالانکہ ہمارا ملک سعودی عرب، ہمارے علمائے کرام، ہمارا منہج، اور تمام نوجوان ان دہشت گرد تنظیموں سے بالکل بری ہیں، چاہے کوئی بھی شذوذ اختیار کرے۔
ہمارے نصاب، یا علمائے کرام کے فتاوی میں ایسا کوئی ایک لفظ بھی نہیں ہے جو اس قسم کی خبیث اور مجرمانہ کاروائیوں کیلئے دلیل بن سکے، یا دہشت گرد تنظیموں کیلئے نظریاتی تعاون فراہم کرے۔
سعودی عرب ظلم و زیادتی کرنے والا ملک نہیں ہے، لیکن اگر کسی نے اس کے خلاف اعلان جنگ کیا یا اس کی سرزمین اور سرحدوں پر قبضہ کیلئے ہتھیار اٹھائے، یا کوئی اس ملک کے امن کیلئے خطرہ بننے والا فتوی یا عزائم بیان کرے ، یا اس ملک کے امن و استحکام میں دراڑیں ڈالنے کیلئے کوئی تنظیمی ڈھانچہ تیار کرے ، اور عقل و دانش ، سیاست و نصیحت کے سامنے کسی بھی انداز سے سر نگوں نہ ہوا تو پھر سعودی عرب کی عوام بحیثیت ایک قوم بڑے جنگ جو ثابت ہونگے، جن کے بارے میں کسی شاعر نے کہا تھا:
وَكُنْتُ امْرَءاً لَا أبْعثُ الْحَرْبَ ظَالِماً
فَلَمَّا أَبَوْا أَشْعَلْتُهَا كُلَّ جَانِبِ
میں کسی پر ظلم کرتے ہوئے جنگ مسلط نہیں کرتا تھا، لیکن جب انہوں نے میری انسانیت کا انکار کیا تو چار سو جنگ بھڑکا دی
أَرِبْتُ بِدَفْعِ الْحَرْبِ حَتَّى رَأَيْتُهَا
عَنِ الدَّفْعِ لَا تَزْدَادُ غَيْرَ تَقَارُبِ
جنگ ٹالنے کی بہت کوشش کی، حتی کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب جنگ دور ہونے کی بجائے قریب ہی آرہی ہے
فَلَمَّا رَأَيْتُ الْحَرْبَ حَرْباً تَجَرَّدَتْ
لَبِسْتُ مَعَ الْبُرْدَيْنِ ثَوْبَ الْمُحَارِبِ
چنانچہ جب میں نے جنگ کے حالات کو عیاں دیکھا تو میں نے بھی کفن کی چادروں پر جنگی لباس پہن لیا
یا اللہ! ہمیں شریروں کے شر سے محفوظ فرما، فاجر لوگوں کی مکاریوں سے بچا، دن یا رات کے وقت آنیوالے لوگوں کے شر سے تحفظ عنایت فرما، یا عزیز! یا غفار!
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو کہ بہت ہی طاقتور اور نعمتوں والا ہے، میں اس کی بے پناہ نعمتوں اور عیوب کی پردہ پوشی پر حمد خوانی کرتا ہوں، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ کی شفاعت قیامت کے دن قبول کی جائے گی، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور متقی و ایفائے عہد کرنے والے صحابہ کرام پر رحمتیں ، نازل فرمائے۔
حمدو صلاۃ کے بعد:
مسلمانو! تقوی الہی اختیار کرو، اللہ کو اپنا نگران سمجھو، اور اسی کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے بچو،
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ}
اے ایمان والو! تقوی الہی اختیار کرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔ [التوبہ : 119]
مسلمانو!
ہم سب پر لازمی ہے کہ ہم اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنے کیلئے کھڑے ہو جائیں، اور اپنی نوجوان نسل کو فوری طور پر سنگین مسائل، منشیات، بے روز گاری اور انحراف سے بچانے کیلئے ٹھوس اقدامات کریں، تا کہ ہم انہیں غلو، شذوذ، دہشت گردی، اور تکفیری و دہشت گرد تنظیموں کے خطرات سے بچا سکیں۔
کیونکہ ہماری نوجوان نسل کو ان کے ہاتھ سے پکڑ کر شفقت کیساتھ سمجھا نے کی ضرورت ہے، ان کے مسائل اور مشکلات حل کرنے میں ان کا تعاون ہماری ذمہ داری ہے، ان کی تعلیم و تربیت، بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل ہمارا فرض ہے، چنانچہ اس کیلئے صرف تقریر و تحریر ، یا خطابت و کتابت پر اکتفا کرنا بالکل درست نہیں ۔
والدین اور سر پرست حضرات پر لازمی ہے کہ وہ اپنے ماتحت افراد کی تعلیم و تربیت ، اور گفت و شنید کے ذریعے ان کے مسائل حل کرنے کی بھر پور کوشش کریں، کہیں یہ نہ ہو کہ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے اور کوئی گُر کار گر نہ رہے۔
احمد الہادی، شفیع الوری ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بار بار درود و سلام بھیجو، جس نے ایک بار درود پڑھا اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔
یا اللہ! ہمارے نبی سیدنا محمد پر درود نازل فرما، انہوں نے ہی رحمت کی خوشخبری دی اور عذاب و عقاب سے ڈرایا، روزِ قیامت آپ کی شفاعت قبول و منظور ہوگی، یا اللہ! یا وہّاب! تمام صحابہ کرام اور اہل بیت سے راضی ہو جا، یا توّاب! انکے نقش قدم پر چلنے والوں لوگوں کیساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! شرک اور مشرکین کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! دین کے دشمنوں کو تباہ و برباد فرما، یا اللہ! اس ملک اور دیگر تمام مسلم ممالک کو امن و امان کا گہوارہ بنا، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اور نیکی و تقوی کے کاموں کیلئے انکی رہنمائی فرما، یا اللہ! انہیں اور ان کے دونوں ولی عہد کو اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ کیلئے بہتر امور سر انجام دینے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! یا حیی! یا قیوم! تمام مسلم ممالک کو جنگوں ، فتنوں اور شر سے محفوظ فرما، اختلافات، جھگڑے، اور تنازعات کا خاتمہ فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! فوت شدگان پر رحم فرما، مریضوں کو شفا یاب فرما، مصیبت زدہ لوگوں کو عافیت سے نواز، قیدیوں کو رہائی نصیب فرما، اور ہم پر ظلم کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو شرف قبولیت سے نواز، یا عظیم! یا کریم! یا رحیم!آمین یارب..
والله اعلم. .
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 29-شوال- 1436 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی 14 اگست 2015
https://www.facebook.com/kmnurdu/photos/a.520124531357110.1073741827.476230782413152/895475663821993/?type=1&theater
Last edited: