کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
داعش کی باقیات سونے کے دینار
کالم: عبدالرحمان الراشدبدھ 2 ستمبر 2015م
جو کوئی بھی دولتِ اسلامیہ عراق وشام (داعش) کے جاری کردہ دینار خرید کرے گا اور انھیں اپنے پاس سنبھال کر رکھے گا، وہ ان کی بدولت مالا مال ہو جائے گا کیونکہ اس گروپ کو بالآخر اپنے انجام کو پہنچنا ہے اور یہ دینار ہی معاصر تاریخ کا ثبوت باقی رہ جائیں گے۔ آج داعش کے ایک دینار کی قیمت ایک سو تیس امریکی ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ اس کی تاریخی قدر مارکیٹ میں شاید اس سے دگنا ہو جائے کیونکہ یہ جدید دور کی سب سے خطرناک تنظیم کی سب سے اہم یادگار ہو گی۔
داعش کے لیے دینار کرنسی نہیں ہے بلکہ ایک پیغام ہے کیونکہ کرنسی کا اجراء ایک ریاست کی خود مختاری کا مظہرہے۔ یہ ایک ایسی پروپیگنڈا جنگ کا حصہ ہے جس کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ داعش برسرزمین موجود ہے اور وہ اپنی متحارب تنظیموں سے مختلف ہے۔
شام کی جیش الحر (فری سیرین آرمی) اپنے کنٹرول والے علاقوں میں ترک لیرا کو کرنسی کے طور استعمال کر رہی ہے جبکہ شامی صدر بشارالاسد کی حکومت اپنی کرنسی روس سے چھپوا رہی ہے کیونکہ یورپ میں چھاپہ خانوں نے اس کی چھپائی روک دی تھی۔
تاہم داعش کا دینار ایک کرنسی سے زیادہ ایک یادگاری شے ہے اور ریاستیں خصوصی مواقع پر ایسی یادگار اشیاء کا اجراء کرتی رہتی ہیں۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ داعش نے شام سے کتنی عورتوں کو اغوا کیا ہے، اس نے عراق سے کتنا سونا چُرایا ہے اور اس نے تیل کی کتنی مقدار فروخت کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ اس وقت تک اتنی مقدار میں خالص سونا حاصل نہیں کر سکے گی جب تک کہ وہ اپنے عمل داری والے شہروں میں موجود بنکوں میں پڑے سونے کے ذخائر کو لوٹ نہ لے۔ سونے کی اتنی زیادہ مقدار دستیاب ہونے کی صورت ہی میں وہ اس کو کرنسی کے طور پر استعمال کر سکتی ہے اور اس سے مارکیٹ میں دوسری اشیاء کی تجارت کر سکتی ہے۔
داعش کے حامی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سونے کے دینار اس کے نظم ونسق کے استحکام کی علامت ہیں اور اس کے ریاست کی تعمیر کے منصوبے کی صلاحیت کے بھی مظہر ہیں لیکن یہ بہت بڑی مبالغہ آرائی ہے۔ داعش کو اپنے ظہور کے بعد اس وقت سب سے خطرناک بحران کا سامنا ہے اور اس کے دینار بھی اس کو بچا نہیں سکیں گے۔ داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد میں شامل فریقوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے اور وہ اب اس دہشت گرد تنظیم کا قلع قمع کرنے کی زیادہ صلاحیت کا حامل ہے۔
ترکی کی داعش مخالف جنگ میں شمولیت کے بعد یہ اتحاد اب مکمل ہوچکا ہے۔ ترکی کی جانب سے داعش کے ٹھکانوں پر گولہ باری تو شاید زیادہ اہمیت کی حامل نہ ہو لیکن اس کی داعش مخالف اتحاد میں شمولیت کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ اب اس دہشت گرد گروپ کا حقیقی معنوں میں محاصرہ کر لیا گیا ہے اور اس کے خلاف بہت سی فوجی کارروائیاں اب ترکی سے کی جا رہی ہیں۔
-----------------------------------------------
(عبدالرحمان الراشد العربیہ نیوز چینل کے سابق جنرل مینجر ہیں۔ ان کے نقطہ نظر سے العربیہ ڈاٹ نیٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں)