- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
وعلیکم السلام برادر!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرا خیال ہے عمومی طور پر اسلامی شریعت کا مزاج یہ ہے کہ اُس وقت تک پائی جانے والی جو جو باتیں انسانیت کے لیے کسی طور بھی (جسمانی، اخلاقی، روحانی وغیرہ) مضر تھیں تو انہیں تو اسلام نے قطعی طور پر منع کردیا.
اسی طرح جن کاموں میں معاملہ اصلاح طلب تھا، ان میں اصلاحات جاری کرکے انہیں انسانیت کے لیے کارآمد بنادیا گیا.
اور جن کاموں سے انسانوں کے جسمانی، اخلاقی، روحانی مفادات پر کوئی زد نہیں پڑتی تھی انہیں ویسے ہی رہنے دیا گیا.
اب باہمی لین دین والے معاملے میں اگر ہم دیکھیں تو "سود" جو انسانیت کے لیے تباہی کا سامان رکھتا تھا اس ختم کرنے کیلیے مختلف احکامات نازل ہوئے، حتٰی کہ اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ تک قرار دے دیا گیا اور اسی طرح اس وقت رائج لین دین کی مختلف اجناس میں بھی سود کے بارے میں احکامات ہمیں احادیث میں مل جاتے ہیں لیکن دوسری طرف "کرنسی" یا باہمی لین دین کی "دیگر اجناس" کے بارے میں کوئی احکامات نہیں ہیں یہاں تک کہ کسی "مخصوص جنس" کو ترجیح دینے کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی، جس سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ باہمی لین دین کیلیے جس کرنسی / جنس پر کسی دور کے انسانوں کا اتفاق ہو وہ بیشک جاری رہے لیکن اس میں سود وغیرہ کی صورت میں انسانوں پر ظلم نہ ہو. واللہ اعلم
یہاں ما شاء اللہ کافی اہلِ علم موجود ہیں، امید ہے کہ میری سوچ غلط ہونے کی صورت میں بہتر رہنمائی کریں گے. ان شاء اللہ
پیپر کرنسی کو رد کرتے ہوئے عموماً کاغذ کی ناپائیداری کا حوالہ دیا جاتا ہے لیکن میں نے تو کافی عرصہ پہلے ہمارے انگلش کے ایک استاد کے لیکچر میں یہ تک سنا ہے کہ کسی دور میں "نمک" تک "لین دین میں مرکزی جنس" رہا ہے اور انگریزی لفظ salary (تنخواہ) بھی لفظ salt (نمک) سے نکلا ہے. واللہ اعلم
درہم و دینار کے origin پر تو محترم @ابن داود بھائی نے روشنی ڈال دی ہے امید ہے وہ یا کوئی اور اس بات پر بھی تحقیق کرکے کچھ رہنمائی کریں گے.
@کنعان @یوسف ثانی
جزاکم اللہ خیرا
میرا خیال تھا کہ آپ دیگر مراسلے بھی پڑھ رہے ہوں گے، جن میں آپ کے سوالات کے جوابات موجود ہیں۔ اس لئے بطور خاص آپ کے مراسلے کا جواب نہیں دیا، جس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔
پہلی بات تو یہ کہ کرنسی کے حوالہ سے یہاں حرام حلال زیر بحث نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہاں ”سود“ بھی زیر بحث نہیں ہے۔ بلا شبہ یہ حرام ہے۔ تیسری بات یہ کہ اس بات سے بھی کسی نے انکار نہیں کیا کہ مختلف ادوار مین مختلف ”اقسام کی کرنسیاں“ رائج رہی ہیں، جن میں نمک بھی شامل ہے۔ ”کرنسی“ کی ایجاد سے قبل تو ”بارٹر سسٹم“ رائج تھا اور چیز کے بدلے چیز یا محنت کے بدلے چیز اور چیز کے بدلے محنت کی طرز پر بھی لین دین ہوا کرتا تھا۔ گویا تب ہر ”چیز“ ہی ”کرنسی“ تھی۔ پیپر کرنسی کی آمد سے پہلے جتنی بھی کرنسیاں تھیں، ان سب ”کرنسی“ کی ”ذاتی ویلیو“ ہوا کرتی تھی۔ تانبے کا ایک پیسہ کا سکہ اپنی ”ذاتی ویلیو“ رکھتا تھا تو ایک روپیہ کی سونے کی اشرفی کی بھی ”ذاتی ویلیو“ تھی۔ اگر آپ ان سکوں کو پگھلا کر فروخت کریں تب بھی اس کی اتنی ہی مالیت ہوتی تھی۔ اس کے برعکس پیپر کرنسی میں ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ کا نوٹ پھٹ جائے، سیریل نمبر مٹ جائے تو یہ نوٹ زیرو روپے کا ہوجاتا ہے، خواہ یہ 5000 کا ہی کیون نہ ہو۔
پیپر کرنسی کے فراڈ پر اب دنیا بھر کے اسکالرز لکھ رہے ہیں۔ پاکستانی اخبارات نے بھی لکھنا شروع کردیا ہے۔ چند تحریریں اس احقر نے بھی نیٹ پر لکھی ہیں جو ادھر ادھر موجود ہیں۔ آپ پیپر کرنسی کی ”جعلسازی“ کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ اگر سمجھ آجائے تو دھاتی سکوں کی افادیت از خود سمجھ میں آجائے گی۔
والسلام