• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش کی باقیات سونے کے دینار

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرا خیال ہے عمومی طور پر اسلامی شریعت کا مزاج یہ ہے کہ اُس وقت تک پائی جانے والی جو جو باتیں انسانیت کے لیے کسی طور بھی (جسمانی، اخلاقی، روحانی وغیرہ) مضر تھیں تو انہیں تو اسلام نے قطعی طور پر منع کردیا.
اسی طرح جن کاموں میں معاملہ اصلاح طلب تھا، ان میں اصلاحات جاری کرکے انہیں انسانیت کے لیے کارآمد بنادیا گیا.
اور جن کاموں سے انسانوں کے جسمانی، اخلاقی، روحانی مفادات پر کوئی زد نہیں پڑتی تھی انہیں ویسے ہی رہنے دیا گیا.

اب باہمی لین دین والے معاملے میں اگر ہم دیکھیں تو "سود" جو انسانیت کے لیے تباہی کا سامان رکھتا تھا اس ختم کرنے کیلیے مختلف احکامات نازل ہوئے، حتٰی کہ اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ تک قرار دے دیا گیا اور اسی طرح اس وقت رائج لین دین کی مختلف اجناس میں بھی سود کے بارے میں احکامات ہمیں احادیث میں مل جاتے ہیں لیکن دوسری طرف "کرنسی" یا باہمی لین دین کی "دیگر اجناس" کے بارے میں کوئی احکامات نہیں ہیں یہاں تک کہ کسی "مخصوص جنس" کو ترجیح دینے کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی، جس سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ باہمی لین دین کیلیے جس کرنسی / جنس پر کسی دور کے انسانوں کا اتفاق ہو وہ بیشک جاری رہے لیکن اس میں سود وغیرہ کی صورت میں انسانوں پر ظلم نہ ہو. واللہ اعلم

یہاں ما شاء اللہ کافی اہلِ علم موجود ہیں، امید ہے کہ میری سوچ غلط ہونے کی صورت میں بہتر رہنمائی کریں گے. ان شاء اللہ


پیپر کرنسی کو رد کرتے ہوئے عموماً کاغذ کی ناپائیداری کا حوالہ دیا جاتا ہے لیکن میں نے تو کافی عرصہ پہلے ہمارے انگلش کے ایک استاد کے لیکچر میں یہ تک سنا ہے کہ کسی دور میں "نمک" تک "لین دین میں مرکزی جنس" رہا ہے اور انگریزی لفظ salary (تنخواہ) بھی لفظ salt (نمک) سے نکلا ہے. واللہ اعلم

درہم و دینار کے origin پر تو محترم @ابن داود بھائی نے روشنی ڈال دی ہے امید ہے وہ یا کوئی اور اس بات پر بھی تحقیق کرکے کچھ رہنمائی کریں گے.

@کنعان @یوسف ثانی



جزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام برادر!
میرا خیال تھا کہ آپ دیگر مراسلے بھی پڑھ رہے ہوں گے، جن میں آپ کے سوالات کے جوابات موجود ہیں۔ اس لئے بطور خاص آپ کے مراسلے کا جواب نہیں دیا، جس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔
پہلی بات تو یہ کہ کرنسی کے حوالہ سے یہاں حرام حلال زیر بحث نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہاں ”سود“ بھی زیر بحث نہیں ہے۔ بلا شبہ یہ حرام ہے۔ تیسری بات یہ کہ اس بات سے بھی کسی نے انکار نہیں کیا کہ مختلف ادوار مین مختلف ”اقسام کی کرنسیاں“ رائج رہی ہیں، جن میں نمک بھی شامل ہے۔ ”کرنسی“ کی ایجاد سے قبل تو ”بارٹر سسٹم“ رائج تھا اور چیز کے بدلے چیز یا محنت کے بدلے چیز اور چیز کے بدلے محنت کی طرز پر بھی لین دین ہوا کرتا تھا۔ گویا تب ہر ”چیز“ ہی ”کرنسی“ تھی۔ پیپر کرنسی کی آمد سے پہلے جتنی بھی کرنسیاں تھیں، ان سب ”کرنسی“ کی ”ذاتی ویلیو“ ہوا کرتی تھی۔ تانبے کا ایک پیسہ کا سکہ اپنی ”ذاتی ویلیو“ رکھتا تھا تو ایک روپیہ کی سونے کی اشرفی کی بھی ”ذاتی ویلیو“ تھی۔ اگر آپ ان سکوں کو پگھلا کر فروخت کریں تب بھی اس کی اتنی ہی مالیت ہوتی تھی۔ اس کے برعکس پیپر کرنسی میں ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ کا نوٹ پھٹ جائے، سیریل نمبر مٹ جائے تو یہ نوٹ زیرو روپے کا ہوجاتا ہے، خواہ یہ 5000 کا ہی کیون نہ ہو۔
پیپر کرنسی کے فراڈ پر اب دنیا بھر کے اسکالرز لکھ رہے ہیں۔ پاکستانی اخبارات نے بھی لکھنا شروع کردیا ہے۔ چند تحریریں اس احقر نے بھی نیٹ پر لکھی ہیں جو ادھر ادھر موجود ہیں۔ آپ پیپر کرنسی کی ”جعلسازی“ کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ اگر سمجھ آجائے تو دھاتی سکوں کی افادیت از خود سمجھ میں آجائے گی۔
والسلام
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562

معاملہ اس کے برعکس ہے۔ جب درہم و دینار کا نظام آجائے گا تو حکومتی خزانوں یں موجود ہمارا سونا ہمارے پاس آجائے گا۔ فرض کیجئے میرے پاس گھر یا بنک میں ایک کروڑ روپے (کی پیپر کرنسی) موجود ہے۔ حکومت جب اس پیپر کرنسی کو درہم و دینار سے ربدیل کرے گی تو مجھے ایک کروڑ روپے کا سونا (یا طلائی سکے) اپنے خزانے سے نکال کر مجھے دے گی۔ اب میری مرضی مین یہ سونا اپنی ذاتی تجوری میں رکھوں یا کسی بنک میں۔
جب کبھی ایسا ہوا (جس کا دور دور تک امکان نہیں ہے) تو حکومتوں کا فراڈ سب کو نظر آجائے گا، برادرم [USER=707]@ابن داود
کو بھی۔ پیپر کرنسی کئی گنا زیادہ مقدار میں موجود ہوگا اور حکومت اپنے وعدے کے مطابق جملہ ”حامل ھٰذا“ (کرنسی نوٹ) کو طلائی سکے یا سونا دینے سے قاصر ہوگی۔ چونکہ یہ فراڈ بین الاقوامی سطح پر ہے لہٰذا پیپر کرنسی کو تبدیل کرنا بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے مترادف ہے۔ لیکن کیا ہم اس ملکی اور بین الاقوامی فراڈ کے خلاف بولنا ہی بند کردیں، اس وجہ سے کہ اس عالمی فراڈ کے خاتمے کا امکان نہین ہے؟؟؟[/user]
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521

السلام علیکم:

سونے کا سکہ پر کچھ بھی کہنے سے پہلے ہم پہلے کچھ مطالعہ کر لیتے ہیں۔

درھم اور دینار قرآن سے

وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لاَّ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآئِمًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اور اہلِ کتاب میں ایسے بھی ہیں کہ اگر آپ اس کے پاس مال کا ڈھیر امانت رکھ دیں تو وہ آپ کو لوٹا دے گا اور انہی میں ایسے بھی ہیں کہ اگر اس کے پاس ایک دینار امانت رکھ دیں تو آپ کو وہ بھی نہیں لوٹائے گا سوائے اس کے کہ آپ اس کے سر پر کھڑے رہیں، یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ اَن پڑھوں کے معاملہ میں ہم پر کوئی مؤاخذہ نہیں، اور ﷲ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور انہیں خود (بھی) معلوم ہے
آل عمران: 75

وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُواْ فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ
اور (یوسف علیہ السلام) کے بھائیوں نے بہت کم قیمت گنتی کے چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا کیونکہ وہ راہ گیر اس کے بارے میں بے رغبت تھے
سورۃ یوسف: 20

دینار
یہ لفظ یونانی لاطینی لفظ Denarius کی تعریب ہے۔ عہد خلافت میں سونے کے سکے کا یونٹ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں دینار کی قیمت دس درہم تھی جو بعد میں بارہ درہم تک بڑھ گئی۔ وزن کے اعتبار سے سات دینار کا وزن دس درہم کے برابر ہوتا ہے۔
دینار سونے کا سکّہ تھا جبکہ درہم چاندی کا سکّہ تھا۔
دینار کا وزن 4.25 گرام ہوتا ہے اور یہ 22 قیراط یعنی % 91.7 سونے کا ہوتا ہے۔ ح

درہم

درہم خالص چاندی کا بنا ہوا سکّہ ہوتا ہے جسکا وزن 2.975 گرام ہوتا ہے۔ وزن کے اعتبار سے سات دینار کا وزن دس درہم کے برابر ہوتا ہے۔
ترکی کی سلطنت عثمانیہ میں درہم 3.207 گرام کا تھا۔
1895 میں مصر میں درہم 3.088 گرام کا تھا۔ ح

مثقال

مثقال دراصل وزن کی ایک اکائی ہے، اور اس کو اکثر طلائی دینار اور چاندی کے درہم کے وزن کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور ایک مثقال کا وزن 72 جَو (جو) کے دانوں کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔
ایک طلائی دینار کا وزن ایک مثقال ہوتا ہے ، جو کہ 25۔4 گرام ہوتا ہے۔
جبکہ ایک درہم کا وزن 7/10 مثقال ہوتا ہے یعنی 975۔2 گرام۔ ح

سونے اور چاندی کا ہر سکّہ دینار و درہم نہیں کھلائے گا بلکہ
وہ سکہّ جو کم از کم بائیس (22k) قرات سونے سے بنا ہو اور اس کا وزن 4.25 گرام ہو تو اُسے ہم ایک دینار کہیں گے اور
کم از کم 99% چاندی سے بنا سکہ جس کا وزن 2.975 گرام ہو اُسے ہم ایک درہم کہیں گے۔

دیںار حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلّم کے دور میں سونے اور چاندی کے ساسانی اور یونانی سکّے استعمال ہوا کرتے تھے،
چاندی کے سکّے کا وزن 3 گرام سے لے کر 5۔3 گرام ہوا کرتا تھا۔
جبکہ سونے کے سکّے کا وزن 4.44 گرام سے لے کر 4.5 گرام ہوا کرتا تھا۔
اہل عرب اس کا تبادلہ وزن کے حساب سے کیا کرتے تھے لیکن محمد صلی اللہ عليہ وسلّم نے ایک دینار کا وزن ایک مثقال قرار دیا، جو کہ 72 "جو"(barley) کے دانوں کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔ اور جدید معیار وزن کے مطابق اس کا وزن تقریبا 4.25 گرام ہوتا ہے۔ حضرت عمر کے دور میں ان سکّوں کو کاٹھا گیا اور اس کے وزن کو ایک مثقال تک لایا گیا۔ کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک معیار قائم کیا کہ سات دینار کا وزن دس دراہم کے برابر ہو۔ لہذا ایک درہم کا وزن تقریبا 2.975 گرام (تقریبا 3 گرام) ہوتا ہے۔ اور حضرت عمر کے دور ہی میں اس پر بسم اللہ لکھا گیا۔ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت امیر معاویہ نے پہلی مرتبہ اپنے سکّے جاری کئے۔ بعد میں عبدالملک بن مروان نے مسلمانوں میں باقائدہ طور سے اپنے سکّے ڈھالنے شروع کئے۔ جس کا وزن نہایت احتیاط کے ساتھ 2.975 گرام (تقریبا 3 گرام) رکھا گیا۔

1 دینار : 1 مثقال: 72 جَو کے دانوں کا وزن

اسلامی زر

اسلامی زر یا اسلامی کرنسی دراصل اسلامی اصولوں کے مطابق زر یا پیسے کو کہا جاتا ہے۔ اسلام کی تیرہ سو سال تاریخ میں "کرنسی" یا "زر" ہمیشہ سونے اور چاندی سے بنے سکےّ ہوا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جب کرنسی کا ذکر قرآن میں کیا ہے تو سونے کے دینار اور چاندی سے بنے دراہم کا ذکر کیا ہے۔

سونے کے دینار اور چاندی کے دراہم کو "شرعی زر" اس لئے کہا جاتا ہے کہ شریعت نے اس کے ساتھ دین کے کئی معاملوں کا تعلق جوڑ دیا ہے ۔ مثلاً زکوٰۃ، مہر اور حدود وغیرہ میں۔ لہٰذا سونے اور چاندی کا ہر سکّہ دینار و درہم نہیں کھلائے گا بلکہ وہ سکہّ جو کم از کم بائیس (22k) قرات سونے سے بنا ہو اور اس کا وزن 4.25 گرام ہو تو اُسے ہم ایک دینار کہیں گے اور کم از کم 99%چاندی سے بنا سکہ جس کا وزن 2.975 گرام ہو اُسے ہم ایک درہم کہیں گے۔ اور ان دونوں کو شریعت نے ثمن قرار دیا ہے۔ اس لئے اسلامی معاشی نظام میں جدید ٹیکنالوجی کو معلومات کی جلد رسائی کے لئے استعمال کیا جائے گا ناکہ بطورِ "زر"۔
ح

اس دور میں دینار اور درہم کے حوالہ سے میں مزید کچھ بتانا چاہتا ہوں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو

1 الاماراتی
درہم میں 100 فلوس (100 پیسے) ہوتے ہیں۔
1 بحرینی
دینار میں 1000 فلوس (1000 پیسے) ہوتے ہیں۔
1 کویتی
دینار میں 1000 فلوس (1000 پیسے) ہوتے ہیں۔

1 عمانی ریال میں 1000 فلوس (1000 پیسے) ہوتے ہیں۔
1 سعودی ریال میں 100 فلوس (100 پیسے) ہوتے ہیں۔
1 قطری ریال میں 100 فلوس (100 پیسے) ہوتے ہیں۔

جب آپ ان ممالک میں لین دین کریں گے تو! 1 دینار، 10 درہم کا ھے، جبکہ صرافہ بازار والے روزانہ قیمت کے اتار چڑھاؤ پر چند فلوس کا فرق ھے، اور لیبر قوانین کے مطابق سعودی عرب، قطر اور الامارات میں اگر ایک مزدور کو 1000 درہم ماہانی تنخواہ ملتی ھے،
تو عمان، بحرین اور کویت میں ایک مزدور کو 100 دینار ماہانہ تنخواہ ملے ملتی ھے۔


ماضی کی کرنسیاں

ماضی میں بہت ساری مختلف اشیا رقم یا کرنسی کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں جن میں مختلف طرح کی سیپیاں، چاول، نمک، مصالحے، خوبصورت پتھر، اوزار، گھریلو جانور اور انسان (غلام، کنیز) شامل ہیں۔

حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے زمانے تک چین میں چاقو کرنسی کی حیثیت رکھتا تھا۔

افریقہ میں ہاتھی کے دانت کرنسی کا درجہ رکھتے تھے۔

پہلی جنگ عظیم تک نمک اور بندوق کے کارتوس امریکہ اور افریقہ کے بعض حصوں میں کرنسی کے طور پر استعمال ہوتے رہے۔

دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد آسٹریا میں فلیٹ کا ماہانہ کرایہ سگریٹ کے دو پیکٹ تھا۔

جزائر فجی میں انیسویں صدی تک سفید حوت کے دانت بطور کرنسی استعمال ہوتے تھے۔ ایک دانت کے بدلے ایک کشتی خریدی جا سکتی تھی یا خون بہا یا مہر ادا کیا جا سکتا تھا۔

انگولا کی خانہ جنگی (1975ء سے 2002ء) کے دوران بیئر کی بوتلیں بطور کرنسی استعمال ہوئیں۔

ایران میں کبھی کبھار ادائیگی زعفران کی شکل میں کی جاتی تھی۔

یہاں ایک بتاتا چلوں کہ گندم پر خریداری تو میں نے بھی کی ہوئی ھے، 45 سال پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ مربع 290 گ ب گاؤں کسی عزیزہ کے ساتھ ان کے گھر جانا ہوا، ان کا چھوٹا بھائی جسے میں نے پوچھا کہ یہاں کولڈ ڈرنک کی دکان کہاں ھے جس پر وہ پیچھے گودام میں گیا وہاں سے ایک چھوٹے تھیلے میں گندم بھری اور وہیں کسی گھر کے اندر ایک دکان بنی ہوئی تھے وہاں سے پیسی کولا کی بوتلیں لیں جس کی قیمت پر گندم بھرا تھیلہ دکاندار کے حوالہ کیا، اس نے میزان پر کچھ گندم تول کر نکال لی اور باقی تھیلہ سمیت ہمیں لوٹا دی، پھر اسی طرح مجھے کچھ بھی چاہئے ہوتا تھا تو ان کا بھائی گندم کا تھیلہ بھرتا تھا اور ہم خریداری کرتے تھے، یہ گندم "زر" کے طور پر اسعمال میں لائی جاتی تھی۔ اگر اس عمر کا کوئی دوست جس کا تعلق گاؤں سے ھے وہ جانتا ہو گا کہ گاؤں میں لین دین کس طرح ہوتا تھا اگر نہیں تو وہ اپنے والدین سے پوچھ کر اس کی تصدیق کر سکتا ھے۔

افراط زر

کاغذی کرنسی پہلے تو حکومت کے پاس موجود سونے چاندی کی مالیت کے برابر مقدار میں چھاپی جاتی تھی لیکن 1971 میں بریٹن ووڈ معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ایسی کوئی روک ٹوک باقی نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرنسی کنٹرول کرنے والے ادارے اور حکومتیں اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کرنسی زیادہ چھاپی جائے تو افراط زر کی وجہ سے اس کی قدر لامحالہ کم ہو جاتی ہے ( یعنی اس کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے) اس طرح لوگوں کا اور باقی دنیا کا اعتبار اس کرنسی پر کم ہونے لگتا ہے۔ جو کرنسی چھاپنے والے ادارے یا حکومت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ لوگ اب دوسری کرنسی کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں۔ اس لئے حکومتیں ایک حد سے زیادہ کرنسی نہیں چھاپ پاتیں۔ اسکی مثال سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی طرح ہے جسے ذبح نہ کرنا ہی سود مند رہتا ہے۔ لیکن تھوڑی تھوڑی مقدار میں بھی مسلسل کاغذی کرنسی چھپتے رہنے سے اس کرنسی کی قوت خرید کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے بر عکس دھاتی کرنسی کی قدر وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اسی لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اپنے رکن ممالک کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو سونے سے منسلک نہ کریں۔ اگر کوئی کرنسی سونے سے منسلک ہو گی تو آئی-ایم-ایف کے لئے اسکی شرح تبادلہ اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔
پچھلی دہائی میں زمبابوے کی حکومت نے اپنی بقا کے لئے بے تحاشہ کاغذی کرنسی چھاپ کر اپنی آمدنی میں اضافہ کیا۔ اس کے نتیجہ میں 2008 میں زمبابوے کے 1200 ارب ڈالر صرف ایک برطانوی پاونڈ کے برابر رہ گئے۔ اسقدر افراط زر کی وجہ سے زمبابوے میں شرح سود %800 تک جا پہنچی تھی۔

زمبابوے میں اتنے زیادہ نوٹ چھاپے گئے کہ سنہ 2008 میں 100 ارب ڈالر میں صرف تین انڈے خریدے جا سکتے تھے
ح

برٹش میوزیم میں موجود سلطان ال اشرف سیف الدین بارسبی (1438-1422 عیسوی) کے زمانے کی سونے کی اشرفی۔
ح

امریکی حکومت نے 1933 تک 15 ٹن سونے سے 20 ڈالر کے یہ سکے بناے مگر جاری نہیں کیے اور انہیں دوبارہ پگھلا کر سونے کی اینٹوں میں تبدیل کر دیا

کچھ بھائی درہم اور دینار کا اجراء چاہتے ہیں جن میں میں بھی شامل ہوں لیکن وہ اس کو کیسے ممکن بنا سکتے ہیں اس پر ان دوستوں کو اپنی کوشش سے بتانا ہو گا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ھے، جیسے کچھ بھائیوں نے کہا کہ بچوں کو ٹافی پر کونسا "زر" استعمال کریں گے؟ اس پر معقول جواب نہیں ملا۔

آج کے دن پاکستان میں 22 کیرات سونے کی 1 گرام پر قیمت 3598 روپے
آج کے دن پاکستان میں چاندی کی 1 گرام پر قیمت 54 روپے

وہ سکہّ جو کم از کم بائیس (22k) قرات سونے سے بنا ہو اور اس کا وزن 4.25 گرام ہو تو اُسے ہم ایک دینار کہیں گے اور
کم از کم 99%چاندی سے بنا سکہ جس کا وزن 2.975 گرام ہو اُسے ہم ایک درہم کہیں گے۔

1 دینار مساوی 25۔4 ضرب 3598 تقسیم 15291.5 روپے
1 درہم مساری 975۔2 ضرب 54 تقسیم 65۔160 روپے

ہم کیسے اس پر چھوٹی کرنسی بنائیں گے کہ جس کو ہر قسم کی ضرورت پر استعمال میں لایا جائے؟

پاکستان میں ہر چیز دستیاب نہیں اس لئے ہمیں درآمدات اور برآمدات دوسرے ممالک سے مل کر کرنی پڑتی ھے تو درہم اور دینار کو کیسے ان ممالک کے ساتھ استعمال میں لائیں گے؟

ابھی اس مراسلہ میں ایرر ہونے سے ڈیٹا غائب ہو گیا تھا بڑی مشکل سے واپس لایا ہوں اس لئے اسے ریلیز کر دیتے ہیں باقی دوسرے بھائیوں کی رائے کے ساتھ مل کر چلتے رہیں گے۔

والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک معاملہ تو واضح ہو ا کہ اس تھریڈ میں گفتگو کسی نظام کے شرعی یا غیر شرعی ہونے پر نہیں بلکہ اس کی افادیت، اور مضمرات پر ہے۔ ان شاء اللہ فرصت میں اس پر اپنا مدعا پیش کرتا ہوں!
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم وقت نکال کر تفصیلی جواب دینے پر شکریہ قبول فرمائیں۔ جزاک اللہ خیر

پیپر کرنسی کے فراڈ پر اب دنیا بھر کے اسکالرز لکھ رہے ہیں۔ پاکستانی اخبارات نے بھی لکھنا شروع کردیا ہے۔ چند تحریریں اس احقر نے بھی نیٹ پر لکھی ہیں جو ادھر ادھر موجود ہیں۔ آپ پیپر کرنسی کی ”جعلسازی“ کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ اگر سمجھ آجائے تو دھاتی سکوں کی افادیت از خود سمجھ میں آجائے گی۔
والسلام
تصور کی حد تک تو یہ باتیں بہت ہی دل لبھانے والی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا کا مسئلہ کرنسی نہیں بلکہ آج کا اقتصادی نظام ہے جو کہ غلط ہاتھوں میں چلا گیا ہوا ہے، اور جب تک یہ تبدیل نہیں ہوتا اس وقت تک کوئی اچھی امید رکھنا فضول ہے۔ "کسی بھی چیز کی ویلیو" بڑھانا یا گرانا اس نظام کی خصوصیت ہے۔ جس کی طرف محترم کنعان صاحب کی درج ذیل پوسٹ میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

افراط زر

کاغذی کرنسی پہلے تو حکومت کے پاس موجود سونے چاندی کی مالیت کے برابر مقدار میں چھاپی جاتی تھی لیکن 1971 میں بریٹن ووڈ معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ایسی کوئی روک ٹوک باقی نہیں رہی ہے۔
پیپر کرنسی کی آمد سے پہلے جتنی بھی کرنسیاں تھیں، ان سب ”کرنسی“ کی ”ذاتی ویلیو“ ہوا کرتی تھی۔ تانبے کا ایک پیسہ کا سکہ اپنی ”ذاتی ویلیو“ رکھتا تھا تو ایک روپیہ کی سونے کی اشرفی کی بھی ”ذاتی ویلیو“ تھی۔ اگر آپ ان سکوں کو پگھلا کر فروخت کریں تب بھی اس کی اتنی ہی مالیت ہوتی تھی۔ اس کے برعکس پیپر کرنسی میں ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ کا نوٹ پھٹ جائے، سیریل نمبر مٹ جائے تو یہ نوٹ زیرو روپے کا ہوجاتا ہے، خواہ یہ 5000 کا ہی کیون نہ ہو۔
کرنسی نوٹ اسی "ویلیو" کی رسید کے طور پر جاری کیا جاتا ہے اور آپ کو ان کے عوض مارکیٹ ریٹ کے مطابق "تانبہ یا سونا" آج بھی مل سکتا ہے۔
اور جہاں تک پھٹ جانے یا سیریل نمبر مٹ کر ضائع ہوجانے کی بات ہے تو اس کے حل کے طور پر پلاسٹک کرنسی وغیرہ بھی رائج ہے۔

اور "اگر" کا جہاں تک سوال ہے تو "آئی نُوں کون ٹال سکدا اے" ابتسامہ

ویسے بھی ایسے کئی "اگر" تو دھاتی سکوں کو بھی لاحق ہیں۔

معاملہ اس کے برعکس ہے۔ جب درہم و دینار کا نظام آجائے گا تو حکومتی خزانوں میں موجود ہمارا سونا ہمارے پاس آجائے گا۔ فرض کیجئے میرے پاس گھر یا بنک میں ایک کروڑ روپے (کی پیپر کرنسی) موجود ہے۔ حکومت جب اس پیپر کرنسی کو درہم و دینار سے تبدیل کرے گی تو مجھے ایک کروڑ روپے کا سونا (یا طلائی سکے) اپنے خزانے سے نکال کر مجھے دے گی۔ اب میری مرضی مین یہ سونا اپنی ذاتی تجوری میں رکھوں یا کسی بنک میں۔
کرنسی کا لین دین ایک دو طرفہ نظام ہوتا ہے، جو سونا آپ کے پاس آئے گا وہ واپس مارکیٹ میں بھی جائے گا اور اسی طرح جب وہ "آیا ہوا اور بچایا ہوا" سونا آپ اور آپ ہی کی طرح مارکیٹ میں موجود دوسرے لوگ، اپنی مرضی سے کسی بینک میں رکھ دیں گے تو عوام کے پاس "آج" کی طرح "ATM کارڈز اور چیک بُکس" کی صورت میں رسیدیں ہی پڑی ہونگی۔ اسی طرح لامحالہ درہم و دینار کے چھوٹے یونٹس کے لیے کم ویلیو والی دھاتوں "تانبہ، پیتل یا اسٹیل وغیرہ" کے دھاتی سکے بھی جاری کیے جائیں گے۔ اور یہ بھی کیا بعید ہے کہ "سونے" کی اسی "دو طرفہ چلت پھرت" کی صورت میں "لوگوں کے اپنا پنا سونا بچا کر ذاتی تجوریوں یا بینکس میں رکھنے کے بعد" آخر میں آپ کے پاس "منوں تانبہ، پیتل یا اسٹیل" پڑا ہو جس سے پھر "تین انڈے" بھی نا ملیں۔۔۔۔۔

جب کبھی ایسا ہوا (جس کا دور دور تک امکان نہیں ہے) تو حکومتوں کا فراڈ سب کو نظر آجائے گا، برادرم @ابن داود کو بھی۔ پیپر کرنسی کئی گنا زیادہ مقدار میں موجود ہوگا اور حکومت اپنے وعدے کے مطابق جملہ ”حامل ھٰذا“ (کرنسی نوٹ) کو طلائی سکے یا سونا دینے سے قاصر ہوگی۔ چونکہ یہ فراڈ بین الاقوامی سطح پر ہے لہٰذا پیپر کرنسی کو تبدیل کرنا بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے مترادف ہے۔ لیکن کیا ہم اس ملکی اور بین الاقوامی فراڈ کے خلاف بولنا ہی بند کردیں، اس وجہ سے کہ اس عالمی فراڈ کے خاتمے کا امکان نہین ہے؟؟؟
جیسا کہ میں نے اپنے پہلے کمنٹ میں عرض کیا تھا کہ اسلام نے ہمیں "کرنسی کی شکل" میں relaxation دے کر کچھ اصولوں کا پابند بنایا ہے جن کی پاسداری سے معاشرہ کسی بدنظمی کا شکار ہونے سے بچا رہے گا۔

پیپر کرنسی سے "جڑی بیماریاں" جن کا تذکرہ آپ نے یہاں نمر 2 اور 4 کے تحت کیا ہے علاوہ ازیں دیگر بیماریاں مثال کے طور پر کساد بازاری، افراط زر، سود، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، کرپشن، رشوت ستانی بھی حقیقتا اسلام کے زریں اصولوں سے حضرت انسان کی روگردانی ہی کا نتیجہ ہیں۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کمپیوٹر ، موبائل وغیرہ سے لوگوں کی دلچسپی اور پھر آئے دن ان کے مختصر ہونے کی رفتار کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ دور کبھی نہیں آئے گا جب لوگ سکوں کی تھیلیاں ساتھ اٹھایا کریں گے ۔
ہاں البتہ کوئی اور ایسا طریقہ ہوسکتا ہے کہ بطور کرنسی جو کچھ بھی آپ کے پاس ہو وہ اس کی ذاتی قیمت ہو ، کاغذی کاروائی نہ ہو ۔
لولی پاپ والا مسئلے کا حل بھی یہی ہے کہ کرنسی کے لیے ضروری نہیں کہ وہ سونے یا چاندی کے سکے ہی ہوں ، لیکن ہلکا پھلکا جو بھی ہو اس کی اپنی کوئی ذاتی قیمت ہو ۔
حجم اور وزن کا ’’ ویلیو ‘‘ میں کردار ہوسکتا ہے لیکن یہ دونوں لازم ملزوم نہیں ، وزن تو ریل گاڑی کی لائنوں کا بھی بہت زیادہ ہوتا ہے ، البتہ ان کی ویلیو اس قدر ہے کہ انہیں جنگل بیاباں میں نصب کیا ہوا ہے ، جب کہ دوسری طرف ہلکے پھلکے زیورات ہیں جنہیں تہ در تہ تالوں میں چھپا کر رکھا جاتا ہے ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

میں پہلے مراسلے کو ایک اردو خبر کی ابتدا سے شروع کرنا چاہتا تھا مگر وہ جس فورم پر لگائی تھی وہ کسی وجہ سے شائد کام نہیں کر رہا اس لئے کہیں سے تھوڑا سا میٹریل ملا ھے اسے بھی ساتھ شیئر کروں گا اور ایک انگلش خبر سے لنک کے ساتھ، مرحوم معمر قذافی نے بھی سونے کے دینار متعارف کروانے کے حوالہ سے کام شروع کیا تھا جس کے فوراً بعد اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور اسے ابدی نیند بھی سلا دیا گیا اس جیسے چند گزرے واقعات۔
---------

1997 میں ایک سازش کے تحت ملیشیا کے کرنسی رنگٹ کی قدر اچانک گر کر تقریباً آدھی رہ گئی۔ اس پر ملیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ سارے اسلامی ممالک سونے کا دینار خود بنائیں اور آپس کی لین دین کے لئے امریکی ڈالر کی بجائے سونے کا دینار استعمال کریں۔ مہاتیر محمد نے اعلان کیا تھا کہ 2003 کے وسط تک وہ یہ دینار جاری کر دیں گے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسی سونے کی کرنسی میں لین دین کا رواج آ گیا تو شرح تبادلہ کی ضرورت ختم ہو جائے گی جس پر مغربی ممالک کی ثروت کا انحصار ہے۔ اس لئے 2003 میں مہاتیر محمد کو 22 سالہ وزارتِ اعظمی سے ہٹا کر عبداللہ احمد بداوی کو وزیر اعظم بنایا گیا جس نے ملکی سطح پر دینار جاری ہونے رکوا دیئے۔ ملیشیا کی ایک اسٹیٹ کیلانتین نے پھر بھی 20 ستمبر 2006 کو سونے کے دینار جاری کیے جنکا وزن 4.25 گرام ہے اور یہ 22 قیراط سونے سے بنے ہوئے ہیں۔

صدام حسین نے بھی ایسی ہی جسارت کی تھی۔ اس نے یہ کوشش کی تھی کہ عراق کو تیل کا معاوضہ امریکی ڈالر کی بجائے کسی اور کرنسی میں دیا جائے۔ یہ امریکی ڈالر کی مقبولیت پر براہ راست وار تھا۔ اسکا یہ ناقابل معافی جرم آخر کار اسے لے ڈوبا۔

لیبیا کے معمر قذافی نے صدام حسین کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور افریقہ میں تجارت کے لئے سونے کا دینار نافذ کرنے کا ارادہ کیا اس لئے اسکا بھی وہی حشر کرنا پڑا۔

2007 سے ایران نے بھی اپنے تیل کی قیمت امریکی ڈالر میں وصول کرنا بند کر دی ہے ایران یہ واضح کر چکا ہے کہ ہم پر حملہ ہونے کی صورت میں اسرائیل بھی میدان جنگ بن جائے گا۔

اگر آج بھی کاغذی کرنسی کی جگہ سونے چاندی کو خرید و فروخت کے لیے کرنسی کی طرح استعمال کیا جائے تو ہندوستان، چین اور تیل پیدا کرنے والے ممالک شائید امیر ترین ممالک بن جائیں۔ اس لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اس بات کا سب سے بڑا مخالف ہے۔ خیال رہے کہ آئی-ایم-ایف (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ) ایک نجی ادارہ ہے اور کسی حکومت کے ماتحت نہیں ہے۔

پاکستان کے پاس لگ بھگ 65 ٹن سونا ہے اور پاکستان پر آئی- ایم- ایف کا شدید دباؤ ہے کہ یہ سونا بیچ کر کاغذی فورین ریزرو میں اضافہ کیا جائے جبکہ اسوقت زیادہ تر ممالک اپنے سونے کے ذخیرے میں اضافہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اب تک پاکستان اپنا سونا بیچنے پر آمادہ نہیں ہوا ہے۔

ہٹلر نے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ (اگر کرنسی آزاد ہو تو) کسی ملک کی دولت وہ سونا چاندی یا فورین ریزرو نہیں ہوتا جو مرکزی بینکوں کی تجوریوں میں بند پڑا ہوتا ہے یا مرکزی بینکوں کی ضمانت سے جاری ہوتا ہے۔کسی ملک کی اصل دولت اس ملک کی پیداواری صلاحیت ہے۔ ملکی کرنسی کی قوت خرید اس وقت بڑھتی ہے جب تک پیداوار میں اضافہ ہوتا رہے ۔ اور اس وقت گرتی ہے جب پیداوار میں کمی آتی ہے۔
بریٹن اوڈز سسٹم بنا کر ڈالر نے دوسری کرنسیوں کی آزادی چھین لی۔
ح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس وقت لیبیا کے معمر قذافی نے صیہونی بینکر کا یہ مطالبہ مسترد کر کہ وہ افریقین یونین بنانے سے باز آ جائے اور سنیٹرل افریقن بینک کے قیام کا منصوبہ ترک کر دے اور اپنے تیل کی قیمت کے طور پر سونا طلب کرنے سے رک جائے تو اسی قذافی کی ” انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں “ کا الزام لگا کر اسی کے عوام کے ہاتھوں مروا دیا گیا۔
یہ وہ قذافی تھا جو لیبیا میں ہر نئے شادی شدہ جوڑے کو نیا مکان دیتا تھا۔ یہاں تیل اور گیس کی قیمت نہ ہونے کے برابر تھی (پٹرول چودہ سینٹ پر گیلن)۔ لیبیا پر کوئی بیرونی قرضہ بھی نہیں تھا تعلیم اور طبی سہولتیں مفت تھیں۔ اس قدر معاشی استحکام صہیونی روتھ شائلڈ اور راکفلر بینکرز کو پسند نہیں تھا اور افریقن سینٹرل بینک ان کی براعظم میں کمر توڑ سکتا تھا۔۔۔
نتیجہ سب کے سامنے ہے۔۔۔
لیبیا ایک انتہائی منافع بخش خطہ ہونے ہونے کے باوجود صیہونی بینکرز کے کنٹرول میں نہیں تھا۔
عاقبت نا اندیش "مجاہدین" نے صیہونی بینکرز کے ہاتھ مضبوط کر دیئے۔
جن "مجاہدین" نے قذافی کی حکومت کے خلاف "علم جہاد" بلند کیا تھا وہ مجاہدین اب کہاں ہیں؟
ح
english ref
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خالص ترین سونا 24 قیراط ہوتا ہے۔ 10 قیراط سے کم سونا قانونی طور پر سونا نہیں کہلاتا۔

چودھویں صدی کی پہلی دہائی میں بر صغیر میں علائو الدین خلجی کے زمانے میں سونے کا بھاؤ 10 روپے فی تولہ تھا ۔

1925 میں ہندوستان میں سونے کی قیمت لگ بھگ 26 روپیہ فی تولہ تھی۔

دوسری جنگ عظیم سے قبل سونے کی قیمت 30 روپیہ فی تولہ تھی۔

1930 تک سونے کی قیمت تقریباً 20 ڈالر فی اونس تھی۔ یہ قیمت پچھلے ڈیڑھ سو سال سے برقرار تھی۔ اتنے لمبے عرصہ تک قیمت مستقل رہنے کی وجہ یہی تھی کہ ڈالر کاغذی نہیں بلکہ دھاتی تھا۔

1947 میں پاکستان میں ایک امریکی ڈالر لگ بھگ 3 روپے کا تھا جبکہ سونا 80 روپے تولہ تھا۔

1970 میں 125 روپے تولہ اور پھر اسکی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔
ح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلاشبہ اسلام کے ابتدائی ادوار میں مالیاتی لین دین سونے ، چاندی کے سکوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا اور سونے ، چاندی کی زری صلاحیت بھی مسلمہ ہے ، لیکن شریعت نے زر کے لیے سونے ، چاندی کے سکوں کی شرط نہیں لگائی بلکہ اس معاملے میں بڑی وسعت رکھی ہے۔

مشہور مؤرخ احمد بن یحییٰ بلاذری کے بقول حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں اونٹوں کی کھال سے درہم بنانے کا ارادہ کر لیا تھا مگر اس خدشے سے اِرادہ ترک کر دیا کہ اس طرح تو اونٹ ہی ختم ہو جائیں گے۔ جیسا کہ بلاذری نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے:

هممتُ أن أجعل الدراهم من جلود الإبل فقیل له إذا لابعیر فأمسك
” میں نے اونٹوں کے چمڑوں سے درہم بنانے کا ارادہ کیا۔ ان سے کہا گیا، تب تو اونٹ ختم ہو جائیں گے تو اس پر اُنہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا ۔”
----------

قتل کی دیت 100 اونٹ ہے، اگر کسی کے پاس اونٹ نہ ہوں تو وہ ان کی قیمت ادا کر دے جو آپ ﷺ کے دور میں 800 دینار مقرر تھی:

"کَانَتْ قِیمَةُ الدِّیَةِ عَلَی عَهدِ رَسُولِ ﷲِ ﷺ ثَمَانَ مِائَةِ دِینَارٍ"
"رسول اللہ ﷺ کے دور میں دیت کی قیمت 800 دینار تھی۔"

اس کا مطلب ہے کہ عہد ِرسالت میں ایک اونٹ کی قیمت 8 دینار تھی۔ جدید تحقیق کے مطابق شرعی دینار کا وزن 25۔4 گرام ہے۔
( دیکھئے الموسوعۃ الفقهیۃ: 21؍29 )

اس طرح آپ ﷺ کے دور میں ایک اونٹ کی قیمت 34 گرام سونا بنی ، آج بھی اتنے سونے کے عوض 1 اونٹ خریدا جا سکتا ہے۔ اگرچہ حضرت عمر ؓ نے اونٹ گراں ہونے پر دیت کی قیمت 8 سو سے بڑھا کر 1 ہزار دینار کر دی تھی ، مگر آج کل 100 اونٹ خریدنے کے لیے 800 دینار یعنی 3400 گرام سونا کافی ہے ۔

عہد ِنبوی ﷺ کی کرنسی

بعثت نبویؐ کے وقت عرب میں لین دین کا ذریعہ درہم و دینار تھے ، لیکن گنتی کی بجائے وزن کا اعتبار کیا جاتا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ درہم و دینار عرب کے مقامی سکے نہ تھے بلکہ ہمسایہ اقوام سے یہاں آتے تھے۔

٭ درہم ساسانی سکہ تھا جو عراق کے راستے عرب پہنچتا اور لوگ اس کی بنیاد پر باہم لین دین کرتے۔ نبی ﷺ نے بھی اس کو برقرار رکھا۔ یہ درہم چونکہ مختلف وزن کے ہوتے تھے، اس لیے جب نصابِ زکوة کے لیے درہم کا وزن مقرر کرنے کی نوبت آئی تو مسلمانوں نے ان میں سے متوسط کو معیار بنایا ، چنانچہ اسی کو شرعی درہم سمجھا گیا۔ ایک قول کے مطابق یہ کام حضرت عمرؓ کے دور میں جبکہ دوسرے قول کے مطابق بنو اُمیہ کے دور میں ہوا۔ جو صورت بھی ہو، تاہم آخر کار جس شرعی درہم پر اجماع ہوا وہ وہی ہے جو عبد الملک بن مروان کے دور میں بنایا گیا۔ لیکن فقہا اور مؤرخین نے ثابت کیا ہے کہ یہ درہم اپنی اصلی حالت پر نہیں رہا تھا بلکہ مختلف شہروں میں اس کے وزن اور معیار میں کافی تبدیلی آتی رہی ہے۔جدید تحقیق کی روشنی میں اس درہم کا وزن 975ء2 گرام چاندی ہے۔

٭ اسی طرح دینار رومیوں کی کرنسی تھی جو براستہ شام یہاں آتی۔ نبی ﷺ نے اس کو باقی رکھا حتی کہ خلفائے راشدین اور حضرت معاویہ کے دور میں بھی رومی دینار کو ہی کرنسی کی حیثیت حاصل رہی۔ جب مسند خلافت عبد الملک بن مروان کے پاس آئی تو اُنہوں نے زمانۂ جاہلیت کے دینار کے مطابق ایک دینار جاری کیا جس کو ” شرعی دینار ” کہا جاتا ہے ، کیونکہ اس کا وزن اس دینار کے برابر تھا جس کو رسول اللہ ﷺ نے برقرار رکھا تھا۔
ح

آخر میں سپائلر میں ایک تحریر اگر کبھی وقت ملے تو ضرور مطالعہ فرمائیں آپ جان جائیں گے کہ سونے کا دینار مارکیٹ میں لانا کیونکر مشکل ھے کہ جس نے بھی کوشش کی موت کی طرف دھکیل دیا گیا۔ اسے میں الگ سے بھی ایک دھاگہ میں لگا دیتا ہوں۔
ڈالر کو حتمی جھٹکا دینے کی تیاری؟

یوکرائن کے حالات پوٹن نے کنٹرول کئے لیکن پوٹن کو کون کنٹرول کر رہا ہے! پوٹن کے ذریعے امریکی اسٹاک مارکیٹ کی تباھی کے بعد امریکی ڈالر آخری ہچکی لے گا

محمد انیس الرحمن
تاریخ اشاعت: 2014-03-27

اس حوالے سے ہم پہلے بھی بات کر چکے ہیں کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ


” تم ( مسلمان) روم سے اتحاد کرو گئے“۔

اس حوالے سے امت مسلمہ کے جید عالم بھی مغالطے میں رہے ہیں کہ یہ کون سا روم ہے؟
کیا اٹلی کا موجودہ شہر روم ؟ جو رومن کیتھولک کلیسا کا مرکز ہے یا
وہ روم جو قرآن کریم کی سورة روم میں مرکوز تھا؟

امت مسلمہ کے علما کو اس بات سے اچھی طرح واقفیت ہونی چاہیے کہ زمانی لحاظ سے جس جغرافیائی خطے کی جانب اشارہ کیا جائے۔ بعد کی تاریخ میں اس سے مراد وہی خطہ ہوتا ہے نہ کہ اس کے نام کا اطلاق بعد میں کسی اور جغرافیائی خطے پر ہونے لگے۔ ہمیں اس بات کا پوری طرح ادراک ہونا ضروری ہے کہ آج سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے جس وقت قرآن کریم میں سورة روم کے نام سے ایک عظیم الشان سورت نازل ہوئی یا اسی دور میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ

” تم روم کے ساتھ ایک اتحاد کرو گے“

تو اس کا اطلاق اس وقت باز نطینی (رومن) سلطنت جو فکری بنیاد پر مشرقی کلیسا پر استوار تھی پر ہوتا تھا اور اس کا مرکز قسطنطنیہ (استنبول) تھا اور جس وقت یہ سلطنت ذوال پذیر ہوئی اور قسطنطنیہ پر قبضہ ہوا تو مشرقی کلیسا باقی رہا جس نے مغربی یورپ کی جانب سفر نہیں کیا بلکہ قسطنطنیہ سے آج کے ماسکو منتقل ہو گئی اس لئے قرآن اور حدیث میں مذکور روم آج کا روس ہے لیکن اس کا ادراک صرف تاریخ کے علم سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان سکالر ” فلسفہ تاریخ“ سے استفادہ کریں کیونکہ اس علم اور دیگر علوم کے بغیر قرآ ن اور حدیث میں موجودہ آج کے دور سے متعلق حیرت انگیز انکشافات کھولے نہیں جا سکتے۔

اس ساری تمہید کا بڑا مقصد یہ ہے کہ آج دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ وقوع پذیر ہونے والی جوہری تبدیلیوں کا بڑا مرکز روس بن چکا ہے جس نے امریکہ اور مغربی یورپ میں گاڑے ہوئے صہیونی بینکروں کو دیس نکالا دینے کا پورا عزم کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں نئی کشمکش کا بڑا مرکز یر کرین بن چکا ہے اور عالمی سطح پر روس اور صہیونیت کا حالیہ یوکرین میں جاری کشمکش کو روسی صدر ولا دیمیر پوٹن کنٹرول کر رہے ہیں لیکن پوٹن کو کون کنٹررل کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔؟

عرب صحافی ذرائع کے مطابق اس وقت پورٹن شخصی طور پر تنہا روتھ شائلڈ۔ روکفلر صہیونی بینکنگ کی عالمی کارٹیل کے ساتھ نبرد آزماہیں اورروس میں اس وقت ان کے بینکوں کے لئے کوئی جگہ نہیں بچی۔ یہ وہ صہیونی بینکرز ہیں جن کے فرنٹ مینوں نے مغربی میڈیا کو کنٹرول کر رکھا ہے اور انہیں دجالی بینکروں کی اقتصادی پالیسی کے تحت دنیا بھر میں سیاسی بحرانوں کی روہ ہموار کر کے دجالی مقاصد حصل کئے جاتے ہیں اس لئے ان شیطانی بینکروں کے دجالی ورلڈ آرڈر کے خلاف دنیا بھر کے حلقے روسی صدر پوٹن کو ” جنگ آزادی “ کا ہیرو قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ واقعی صحیح ہے کہ پوٹن نے اپنے ملک اور اردگر د کی ریاستوں کو اس دجالی بینکنگ نظام سے نجات دلانے کا تہیہ کر رکھا ہے تو پھر ممکن ہے کہ پوٹن کی سیاسی اور طبعی زندگی کم ہو جائے ۔۔!!

کیونکہ ماضی میں جس لیڈر نے بھی ان صہیونی بینکروں کا مقابلہ کیا اسے راستے ہٹا دیا گیا۔

اس کی جدید تاریخ میں پہلی مثال امریکی صدر ابراہام لنکن ہیں جنہوں نے روتھ شائلڈ بیکنگ نظام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا اور ” پر اسرار قاتل“ کے ہاتھوں قتل کر دیئے گئے۔

جس وقت امریکی صدر میکنلے نے امریکہ اسپین جنگ کا ٹھیکہ صہیونی بینکروں کو دینے سے انکار کیا اور امریکہ میں پرائیوٹ صہیونی بینک” فیڈرل ریزرو“ کے قیام کی مخالفت کی تو اسے راستے سے ہٹا دیا گیا۔

جس وقت جان ایف کینیڈی نے صہیونی بینک فیڈرل ریزرو بینک کی پول یہ کہہ کر کھولی کہ اس نجی بینک نے حکومت کو قرضہ دے کر کئی گنا اور کئی مرتبہ سود حاصل کیا ہے اس نجی صیہونی بینک کی امریکہ میں اجارہ داری ختم کرنے کے لئے کانگریس میں بل پاس کروایا تو اسے تمام دنیا کے سامنے قتل کر دیا گیا یہ بل آج بھی پاس ہے اور ” کینیڈی ڈالر“ کے نام سے موسوم ہے لیکن کسی بعد میں امریکی صدر میں اسکونافذ کرنے کی ہمت نہ رہی۔

جس وقت امریکہ صدر رونالڈ ریگن نے سرد جنگ کے بدل کے طور پر مشرق و سطی میں دہشت گردی کو ہوا دینے سے انکار کیا تو اسلحے کی فروخت سے متعد دبار کئی ٹریلین ڈالر منافع کمانے والے بینکروں نے ان پر قاتلانہ حملہ کروایا جس میں وہ بال بال بچے۔

عراقی صدر صدام حسین نے انے ملک میں کئی بات انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں لیکن جس وقت صدام نے ڈالر کی بجائے یورو میں اپنا تیل فروخت کرنے کا اعلان کیا تو انہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بنیاد بنا کر صدام اور عراق کو تباہ کر دیا گیا۔

جس وقت لیبیا کے معمرقذافی نے صیہونی بینکر کا یہ مطالبہ مسترد کر کہ وہ افریقین یونین بنانے سے باز آجائے اور سنیٹرل افریقن بینک کے قیام کا منصوبہ ترک کر دے اور اپنے تیل کی قیمت کے طور پر سونا طلب کرنے سے رک جائے تو اسی قذافی کی ” انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں“ کا الزام لگا کر اسی کے عوام کے ہاتھوں مروا دیا گیا۔ یہ وہ قذافی تھ اجو لیبیا میں ہر نئے شادی شدہ جوڑے کو نیا مکان دیتا تھا۔ یہاں تیل اور گیس کی قیمت نہ ہونے کے برابر تھی(پٹرول چودہ سینٹ پر گیلن)۔ لیبیا پر کوئی بیرونی قرضہ بھی نہیں تھا تعلیم اورطبی سہولتیں مفت تھیں۔ اس قدر معاشی استحکام صہیونی روتھ شائلڈ اور راکفلر بینکرز کو پسند نہیں تھا اور افریقن سینٹرل بینک ان کی براعظم میں کمر توڑ سکتا تھا۔۔۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔۔۔ لیبیا ایک انتہائی منافع بخش خطہ ہونے ہونے کے باوجود صیہونی بینکرز کے کنٹرول میں نہیں تھا۔ عاقبت نا اندیش” مجاہدین“ نے صیہونی بینکرز کے ہاتھ مضبوط کر دیئے۔۔۔۔۔

یہی کام پاکستان میں پاک فوج کے خلاف کیا گیا ہے اور طالبان کے نام سے ایسے گروہ تشکیل دیئے گئے جنہوں نے پاک فوج کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ یہ انتہائی خوفناک منصوبہ ہے کیونکہ پاکستان نے مستقبل قریب میں جو عالمی حالات رونما ہونے والے ہیں ان میں اہم کردارادا کرنا ہے اور یہاں پاکستان سے مراد پاک فوج ہے جو مسلم دنیا کی جانب سے سب سے زیادہ ررعمل دے گئی۔ اس ردعمل کو قبل از وقت ہی کمزور کرنے کے لئے نائن الیون کے بعد مشرف سے ایسے اقدامات کرائے گئے جس سے قبائلی علاقوں میں رد عمل کی تحریک پیدا ہو گئی پھر ان دجالی صیہونی قوتوں نے افغانستان میں بیٹھ کر یہاں ایسی گروں بندیاں کیں جنہیوں نے انتقام کے نام پر پاک فوج پر حملے شروع کئے اور پاکستان کی عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کر کے درحقیقت وہ اسلام قوتوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ ایک بھی پاکستانی فوجی کا نقصان درحقیقت پاکستان اور عالم اسلام کا نقصان ہے جو جو اس قم کی کاروائیوں میں ملوث ہیں وہ لیبیا کے حالات سے سبق سیکھ لیں۔ جن "مجاہدین" نے قذافی کی حکومت کے خلاف "علم جہاد" بلند کیا تھا وہ مجاہدین اب کہاں ہیں؟ کیا انہیں مجاہدین کہا جا سکتا ہے جن کی مدد نیٹو کرے؟ اب لیبیا کے تیل اور معاشیات پر صہیونی بینکروں کا قبضہ ہے اور جغرافیہ پر نیٹو کا۔۔۔ کہا ں گئے وہ ” مجاہدین“ جو اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے سرکاری تنصیبات اور فوجوں پر حملہ کرتے تھے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پوٹن ان سابقہ لیڈروں سے مختلف کیوں ہیں جو صہیونی بینکروں کے سامنے دیوار بنتے رہے اور جنہوں نے دجالی نیو ورلڈ آرڈر کو تسلیم کرنے سے انکار کیا؟؟
اگر واقعی پوٹن صہیونی بینکروں کے خلاف ہے تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ روس اس وقت امریکہ کے ساتھ حالت جنگ میں آچکا ہے؟
اگر آج کے حالات میں آپ پوٹن کے حمایتی ہیں تو کیا س کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خود کش بمبار ہیں۔۔۔۔؟
ایسے سوالات آخر کیوں اٹھ رہے ہیں؟
کیونکہ ایک طرف دیکھا جائے تو پوٹن کا روس اس وقت یورپ کو انرجی سپلائی کرنے والا سب سے بڑ املک ہے۔
کیا ہمیں معلوم ہے کہ روس اس وقت جرمنی کی 36 فیصد گیس کی ضرورت پوری کرتا ہے؟
اٹلی کی 27 فیصد گیس کی ضرورت روس سے پوری ہوتی ہیں ۔
فرانس کی گیس کی مجموعی ضروریات کا 27 فیصد روس سے لیا جاتا ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ان صہیونی بینکروں کی اجازت کے بغیر روس یور پ کی توانائی کی ضروریات کو پورا کر سکتا ؟
کیا یہ عالمی صہیونی ساہو کار اس میں سے اپنی کمیشن نہیں لیتے ہوں گئے؟
کیا روتھ شائلڈ بینکرز یورپ کیلئے روسی توانائی کی اس سپلائی پر پابندی عائد کر سکتے ہیں؟
جبکہ اس کی خرید و فروخت کی تمام مالیاتی ٹرانزکشن انہیں بینکوں کے ذریعے ہوتی ہے اور یورپ کو کہہ سکتے ہیں کہ اس سے کئی گنا زیادہ قیمت پر توانائی اور کہیں سے حاصل کی جائے؟
صہیونی بینکروں کے چنگل سے آزادی کی اس روسی جن گ کا پھرکیا مقصد ہو سکتا ہے؟

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی انہی صہیونی دجالی بینکروں کا وضع کردہ منصوبہ ہے جس میں پوٹن کو ایک غیر محسوس طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ کیونکہ صہیونی بینکرز نے ہمیشہ دونوں طرف کنٹرول رکھا ہے اور یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جی بی کے سابق آفیسر ہونے کے باوجود اسے یہ کھیل کیوں سمجھ نہیں آرہا کہ جہاں یورپ کو روسی گیس کی ضرورت ہے وہاں روس کو بھی یورپ سے اس کی قیمت کی ضرورت ہے جبکہ صہیونی بینکرز ان دونوں جانب کے بیچ میں بیٹھے ہیں اور جو کچھ یورکرائن میں ہو رہا ہے اور اس کی اجازت بھی دے دیں۔۔۔۔ جبکہ وہ دونوں جانب سے بھارت منافع کماتے ہیں۔

کیا تاریخ ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ صہیونی بینکرز نے ہمیشہ ” دونوں جانب“ اپنی پوزیشن مستحکم رکھی وہ کھیل کا کوئی پہلو اپنے خلاف جاتا دیکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ امریکہ میں سیاسی معاملات کیلئے دو جماعتیں ہیں کیا ہمیں معلوم نہیں کہ ان دونوں جماعتوں( ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن) صہیونی بینکرز ہی اپنی میڈیا اور ملٹی نیشنل کمپنیز فرنٹ مینوں کے ذریعے کنٹرول کرتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بنی عیسی امعبد سیلمانی کے مدخل پر بیٹھے” منی چینجرز “ اور کاہنوں کے گٹھ جوڑ سے سخت نالاں تھے جو مل کر بھی اسرائیل کو لوٹ رہے تھے آپ سے انہیں بزور قوت وہاں سے نکالنے کی کوشش کی ۔۔۔ لیکن ایسا صرف ایک بار ہی ہو سکا۔۔۔۔ بعد میں کیا ہوا؟ انجیل اور قرآن کریم میں اس کی وضاحت موجود ہے۔

پہلی جنگ عظیم 27 ملکوں کے درمیان لڑی گئی۔ اس میں شمولیت کرنے والوں کی مجموعی تعداد 66 ملین تھی۔ سات ملین سے زیادہ افراد اس جنگ میں مارے گئے 30 ملین کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ اس جنگ پر خرچ ہونے والے بلا واسطہ اخراجات کا تخمینہ 150 ٹریلین ڈالر کے قریب تھا جبکہ براہ راست تخمینہ 210 ٹریلن ڈالر لگایا گیا ہے جبکہ صیہونی بینکوں کو ادا کیا جانے والا کئی بلین ڈالر کا سود اور اضافی اخراجات اس میں شامل نہیں ہیں۔ یہ جنگ شاید 1915 میں ختم ہ وجاتی لیکن روتھ شائلڈ اور راکفلر بینکرز نے اسے مزید تین سال کیلئے طویل کیا تاکہ امریکہ میں نجی صہیونی فیڈرل ریزرو بینک جو 1913 میں قائم کیا گیا تھا اس سے مزید رقم جنگی قرضوں کی شکل میں نکالی جا سکے۔ یہ ہے ان صیہونی بینکروں کا کام کہ وہ کس طرح جنگوں کے امکان پیدا کرتے ہیں پھر اسے طوالت بخشتے ہیں اور دونوں جانب کی قوتوں کو کاغذ کی فراڈ کرنسی کے ذریعے کنٹرول کر کے اصل زر (سونا) اپنے قبضے میں لاتے ہیں۔

اسٹینڈرڈ آئل کمپنی کی جانب سے دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے خلاف اتحادیوں کو بھاری سود پر قرضے دیئے گئے تھے دوسری جانب اسی کمپنی کے مالکان صہیونی بینکرز نازیوں کو سرمایہ مہیا کر رہے تھے اس کی مزید وضاحت چارلس ہگہام کی کلاسک کتاب (Trading With the Enemy (1983 میں موجود ہے اس نے صاف بیا ن کیا ہے کہ راکفلر کی اسٹینڈرڈ آئل کمپنی نازیوں کو بھی تیل مہیا کر رہی تھی۔ بڑے بش کا باپ پریسکوٹ بش اس الزام کی زد میں آیا تھا کہ وہ دشمن کو مدد فراہم کر کے جنگی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ لیکن جلد ہی پریسکوٹ بش پر یہ الزام دبا دیا گیا کیوں کہ یو ایس او کا انچارج تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران دونوں طرف آئی بی ایم کی مصنوعات اور کوئلے کی سپلائی جاری رہی۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ روسی صدر پوٹن ان تمام معاملات سے بالا تر ہو۔۔۔؟

اس سارے کھیل کا اگلا فیز دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے جہنم میں جھونکنے جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کھیل میں عالمی صہیونی ساہو کاروں کا بڑا مقصد ڈالر کو آخری اور حتمی جھٹکا دینا ہے۔ پوٹن چاہے یہ نہ چاہے وہ عالمی ساہوکاروں کے اس مکروہ کھیل کا بڑا حصہ بن چکا جس کی منصوبہ بندی سوئٹزر لینڈ کے شہر بازل میں کی گئی تھی اور جو اس پر یقین نہیں رکھتے تاریخ کے سبق اور موجودہ حقائق سے آنکھیں بند کر لینا چاہئیں!!

اب صورتحال یہ ہے کہ بڑے عالمی بینکوں کے مراکز تاحال امریکہ اور مغربی یورپ میں ہی ہیں لیکن یہ اب زیادہ تر بڑی بڑی عمارتوں اور انتظامیہ کی شکل میں ہیں کیونکہ ان کے حقیقی مراکز گزشتہ کئی عشروں سے انتہائی خاموشی کے ساتھ اسرائیل منتقل کئے جاتے رہے ہیں۔ اصل زر یعنی سونا جس کی بنیاد پر یہ دجالی بینک کاغذ کی فراڈ کرنسی ڈالر اور دیگر ناموں سے کرنسی جاری کرتے ہیں اس سونے کی بڑی تعداد بہت پہلے امریکہ سے پہلے یورپ منتقل کی گئی اور اباس کا بڑا حصہ تیزی کے ساتھ اسرائیل منتقل کیا جا رہا ہے۔۔ ایسا کیوں ہے ؟
بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کو مستقبل میں روسی عسکری ردعمل سے بچانے کے لئے پولینڈ پھر جارجیا اور اس کے بعد یورکرائن میں میزائل شیلڈ نصب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا وہ فی الحال ناکام ہو چکا ہے اسی لئے یوکرین میں سیاسی بحران کی شکل میں نیا منصوبہ شروع کیا گیا اب جبکہ کریمیا کے عوام نے روس میں ادغام کے حق میں ووٹ دے دیا ہے تو حالات پہلے سے زیادہ خراب کئے جائیں گئے اور اس سیاسی بحران کو روس اور امریکہ کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بنایا جائے گا امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کے ذریعے روس کی معاشی ناکہ بندی کرنے کی پہلے ہی دھمکیاں دے رہا ہے لیکن اس کی اپنی اقتصادی صورتحال بہت پتلی ہے جس دن روس کے ذریعے امریکہ اور مغربی ملکوں کی اسٹاک کمپنیوں پر دھاوا بولا جائے گا اس وقت ڈالر اپنی آخری ہچکی لے گا اور دنیا بھر میں کاغذی کرنسی ختم کرنے کا اعلان کر دیا جائے گا جن جن ملکوں کی اقتصادی سورتحال ڈالر سے منسلک ہو گئی ان کا بھی دھڑن تختہ ہو جائے گا سب سے زیادہ نقصان تیل پیدا کرنے والے عرب ملکوں کا ہو گا جنہوں نے اپنے تیل کی قیمتوں کو ڈالر سے منسلک کر رکھا ہے اور یہ ڈالر امریکی بینکوں میں پڑے ہیں۔ ڈالر کے زوال کے ساتھ ہی یہ دولت کاغذ کے بے معنی ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گی اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل آگے بڑھ کر انتہائی جدید ہتھیاروں کی بنیاد پر خطے کے توانائی کے ذخائر اپنی تحویل میں لے لے گا عربوں کی دولت پہلے ہی کاغذ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہو گئی اور اب ان کے تیل پر قبضہ جما کر رہی سہی کسر نکالی جائے گی جس کی وجہ سے یہ خطہ انتہائی خونریزی کا شکار ہو گا اور عرب کا خون بہے گا۔۔۔

ابراہیم علیہ السلام کی وہ چھری جو ابوالعرب اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر رکھی گئی تھی درحقیقت اب عربوں پر چلے گی۔۔۔۔
کیونکہ اسرائیل اس قوم کے جدید ہتھیاروں سے لیس ہے کہ امریکہ بھی اس کا تصور نہیں کر سکتا۔۔۔۔
یہی سب کچھ عالمی صہیونی بینکروں کا منصوبہ ہے کیونکہ جتنی تعداد میں صہیونی بینکوں نے ڈالر چھاپ کر عالمی مارکیٹ میں پھینک رکھے ہیں اس کا اصل زر یعنی سونا ان بینکوں میں موجود ہی نہیں ہے یہ سونا نائن الیون کے بعد سے ہی امریکہ سے یورپ اور وہاں سے اسرائیل منتقل کیا جاتا رہا ہے ۔ ایسا کرنے سے صہیونی بینکروں کا اصل مقصد کیا ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ڈالر کے زوال کے فوراً بعد دنیا کے کاروبار چلانے کے لئے ایک نئی کرنسی کی ضرورت ہو گی لیکن اسے رائج کرنے کا اختیار اس قوت کے پاس ہو گا جس کے پاس سب سے زیادہ مقدار میں سونا ہوگا۔ یقینی سی بات ہے کہ ان ملکوں میں سر فہرست اسرائیل ہو گا اسی لئے امریکہ اور مغربی ملکوں کی حمایت سے کاروبار دنیا چلانے کے لئے ای کرنسی کا اجرا عمل میں لایا جائے گا کوئی اور ملک اس الیکٹرانک کرنسی کی مخالف اس لئے نہیں کر سکے گا کہ دنیا میں درآمدات اور برآمدات کے لئے کسی نہ کسی بین الاقوامی کرنسی کا سہار ا لینا پڑتا ہے اس لئے اپنے آپ کو عالمی کاروبار کی مارکیٹ میں شامل رکھنے کے لئے نہ چاہتے ہوئے بھی مخالف ملکوں کو یہ معاشی سامرا جیت قبول کرنا پڑے گی جس کا سب سے بڑا مرکز اسرائیل میں ہوگا۔ اس طرح اسرائیل سیا سی طور پر بھی امریکہ کے بعد دنیا کی عالمی سیادت رکھنے والا ” سپر پاور“ ملک بن جائے گا اور یہی عالمی دجالی صہیونیت کا سب بڑا مطمع نظر ہے اور اس ایک مقصد کی بار آوری کے لیے اس وقت تمام دنیا میں مختلف ناموں سے جنگوں کی آگ بھڑکائی گئی ہے جس میں سب سے زیادہ نشانہ مسلمان کا بنا یا جا رہا ہے کیونکہ مسلمان ہی اس مرحلے میں سب سے بڑی مزاحمتی قوت کے طرز پر سامنے آئیں گے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی صیہونیت کو ایسی کرنسی کا کیا فائدہ ہو گا تو اس کا جواب ہے کہ یہ ایسی کرنسی ہو گئی جسے بینکوں کے ذریعے کنٹرول کیا جائے گا یعنی اسے آپ نہ ہاتھ سے چھو سکیں گے اور نہ ہی کرنسی نوٹوں کی طرح اسے جیب یا گھر میں رکھ سکیں گئے۔ آپ کی دولت تنخواہ کی شکل میں یا کاروباری سرمایہ کی شکل میں بینک میں موجود ہو گی جس طرح کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کسی بی شے کی مالیت مشتری سے بائع کے کھاتے میں منتقل ہو جاتی ہے اسی طرح سے آپ بینک کو اپنے پیسے کا مصرف بتائیں گے اس طرح مطلوبہ مقدار خود بخود مطلوبہ جگہ پہنچ جائے گئی لیکن جیب میں رکھی ہوئی کرنسی کو ہم جیسے چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ ان جگہوں پر بھی خرچ کر سکتے ہیں جو اسلام دشمن قوتوں کو نا پسند ہیں لیکن ای کرنسی کے استعمال کا سارا ریکارڈ بینک میں محفوظ ہو گا اورصرف انہی جگہ پر اسے استعمال کیا جا سکے گا جس کی مقامی حکومت اجازت دے گی اور مقامی حکومت کس کے کنٹرول میں ہوگی اس کا اندازہ آپ خود لگالیں، یوں دجالی صہیونیت کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک کا معاشی بائیکاٹ کے ذریعے گلا گھونٹنے کی کوشش کی جائے گی۔ سونے اور چاندی کو پاس رکھنا جرم ہوگا بالکل ایسے ہی جس طرح 1924ء میں امریکہ میں صہیونی ساہوکاروں نے کاغذ کی کرنسی کو رائج کرنے لئے سونے کی ملکیت کا عام آدمی کے لئے جرم قرار دلوا دیا تھا اورسستے داموں سونا عام آدمی سے خرید کر اسے بینکوں میں محفوظ کر لیا تھا۔ جو امیر لوگ اس پر آمادہ نہ تھے انہوں نے سونا فوراََ یورپ بھیجنا شروع کر دیا تاکہ وہ وہاں محفوظ رہے اس وجہ سے 1924ء کے بعد سوئٹزر لینڈ کے بینکوں کا وجود عمل میں لایا گیا تاکہ اس سونے کی بھاری مقدار کو سنبھالا جاسکے یہ بینک آ ج بھی یہی کام کر رہے ہیں۔ جب صہیونی بینکوں نے سونے کی بھاری مقدار سستے داموں امریکی عوام سے خرید لی تو اس کے چار برس بعد یہ پابندی ہٹا دی گئی اور اب وہ سونا جو آٹھ ڈالر فی اونس کے حساب سے خریدا تھا وہی سونا 24ڈالر فی اونس کے حساب سے امریکی عوام کو فروخت کیا جائے گا۔ اس تناظر میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ الیکٹرانک کرنسی کو رائج کرنے لئے عالمی صہیونی ساہوکار سونے کی تجارت پر پابندی عائد کر دیں کیونکہ دنیا میں اصل زر صرف سونا اور چاندی ہی رہ جائیں گے۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث شریف ہے کہ
آخری زمانے میں دینار(سونا) اور درہم (چاندی) کے سوا ہر چیز اپنی وقعت کھو دے گی

یہ حدیث شریف اس زمانے کے لئے ہے مگر افسوس کہ اسلامی دنیا کے علماء نے اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی اور دجالی کاغذ کی کرنسی جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معاشی بغاوت کا اعلان تھا سے سمجھوتہ کر لیا اور امت کو بے مقصد فروہی جھگڑوں میں الجھا دیا ۔

یوکرائن سے شروع ہونے والے اب سے نئے عالمی کھیل کا ڈراپ سین انتہائی خوفناک ہے جو صہیونیت کے جھنڈے تلے امریکہ اور روس کی بڑی جنگ کا سبب بنے گی۔ یہ اسی تیسری عالمگیر جنگ کا ایک تسلسل ہے جس کی ابتدا نائن الیون کے ڈارمے سے کی گئی ہے۔ اس جنگ کے دو بڑے فیز ہیں پہلے فیز میں اسرائیل کے صہیونی جھنڈے تلے امریکہ اور مغربی یورپ ہے اور دوسرے جانب روس اور اس کے اتحادی، چین اور وسطی ایشیا ریاستیں ہیں۔ یہ جنگ اس قدر خوفناک ہے کہ اس جنگ میں ہر قسم کی ٹیکنالوجی ختم ہو جائے گی اور کرہ ارض پر انسانوں کو اس سے بڑی تباہی کا پہلے کبھی سامنا نہیں رہا ہوگا یہی وہ مرحلہ ہے جس کے بارے میں ہم نے شروع میں ایک حدیث شریف کا حوالہ دیا ہے کہ

تم (مسلمان ) روم (یعنی ماسکو) سے ایک اتحاد کرو گے“۔

اس کے بعد دوسرا فیز ہے جسے کنونشنل وار فیز کہا جا سکے گا اس میں قوت ان کے پاس ہو گی جن کی نشاندہی ڈیڑھ ہزار برس پہلے کر دی گئی اسے دیکھنے اور سمجھنے کے لئے بصارت نہی بلکہ بصیرت کی ضرورت ہے۔

ح

والسلام


 
Top