• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داڑھی کٹوانا

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

داڑھى منڈوانے كا حكم !!!

داڑھى منڈوانے يا كٹوانے كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:

صحيح احاديث اور صريح سنت نبويہ ميں وارد شدہ اخبار اور كفار كى عدم مشابہت كے عمومى دلائل كى بنا پر داڑھى منڈوانا حرام ہے، ان احاديث ميں درج ذيل حديث بھى شامل ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مشركوں كى مخالفت كرو، اور داڑھياں بڑھاؤ اور مونچھيں چھوٹى كرو "

اور ايك روايت ميں ہے:

" مونچھيں پست كرو، اور داڑھيوں كوم عاف كر دو "

اور اس موضوع ميں ان كے علاوہ بھى بہت سارى احاديث ہيں اور اعفاء اللحيۃ كا معنى يہ ہے داڑھى كو اپنى حالت پر چھوڑ ديا جائے اور داڑھى كى توفير يہ ہے كہ اسے بغير كاٹے اور اكھاڑے يا كچھ كاٹے اصل حالت ميں ہى باقى ركھا جائے.

ابن حزم رحمہ اللہ نے اجماع نقل كيا ہے كہ مونچھيں كاٹنا، اور داڑھى پورى ركھنا فرض ہے، اور انہوں نے كئى ايك احاديث سے استدلال كيا ہے جن ميں مندرجہ بالا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث بھى شامل ہے، اور زيد بن ارق مرضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث بھى:

زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو اپنے مونچھيں نہيں كاٹتا وہ ہم ميں سے نہيں ہے "

امام ترمذى رحمہ اللہ نے اسے صحيح كہا ہے.

الفروع ميں كہتے ہيں: اور يہ صيغہ ہمارے اصحاب كے ہاں ـ يعنى حنابلہ كے ہاں ـ تحريم كا متقاضى ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كتاب و سنت اور اجماع اس پر دلالت كرتا ہے كہ كفار كى مخالفت كا حكم ہے، اور اجمالا ان كى مشابہت اختيار كرنا منع ہے؛ كيونكہ ظاہر ميں ان كى مشابہت اخلاق اور افعال مذمہ ميں كفار كى مشابہت كا سبب ہے، بلكہ نفس الاعتقادات ميں بھى، چنانچہ يہ مشابہت باطن ميں ان سے محبت و مودت اور دوستى پيدا كرتى ہے، جس طرح باطن ميں محبت ہو تو وہ ظاہر ميں مشابہت پيدا كرتى ہے.

ترمذى رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو ہمارے علاوہ دوسروں سے مشابہت كرتا ہے وہ ہم ميں سے نہيں، يہود و نصارى سے مشابہت مت اختيار كرو " الحديث.

اور ايك روايت كےالفاظ يہ ہيں:

" جو كوئى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرتا ہے، وہ انہى ميں سے ہے "

اسے امام احمد نے روايت كيا ہے.

اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے تو داڑھى كے بال اكھيڑنے والے شخص كى گواہى ہى رد كر دى تھى.

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ " التمھيد " ميں كہتے ہيں:

" داڑھى منڈوانا حرام ہے، اور ايسا كام تو صرف ہيجڑے ہى كرتے ہيں "

يعنى جو مرد عورتوں سے مشابہت اختيار كرتے ہوں وہى يہ كام كرتے ہيں.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خود بھى گھنى داڑھى كے مالك تھے "

اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.


اور ايك روايت ميں كثيف اللحيۃ كے لفظ ہيں، يعنى بہت زيادہ بال تھے.

اور ايك روايت ميں " كث اللحيۃ " كے لفظ ہيں جن سب كا معنى ايك ہى ہے.

عمومى نہى كے دلائل كى بنا پر داڑھى كا كوئى بال بھى كاٹنا جائز نہيں ہے.

واللہ اعلم .

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 133 ).

http://islamqa.info/ur/1189
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اسلام علیکم ورحمة الله وبركاته
داڑھی کٹوانا کبیرہ گناہ ہے یا صغیرہ؟
کیا اسلام میں داڑھی کٹوانے کی کوئی شرعی سزا بھی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
داڑھی کٹوانا حرام ہے جیساکہ اوپر گزر چکا۔
داڑھی کٹوانا ایسا گناہ نہیں جس کی اسلام میں کوئی خاص سزا بیان کی گئی ہو جیساکہ ’’ چوری ، قتل ‘‘ وغیرہ کی سزا ہے ۔
لیکن حاکم وقت اپنی رعیت پر تادیبا کوئی سزا مقرر کرسکتا ہے ، سنا ہے سعودیہ میں ایک زمانے میں داڑھی کٹوانے پر (200 ریال) جرمانہ ہوا کرتا تھا (بات سنی سنائی ہے ، کلاس میں ہمارے استاد محترم جو کہ سعودیہ کے رہنے والے ہیں اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی ، اگر کوئی بھائی اس سلسلے میں معلومات فراہم کرسکے تو بیشگی شکریہ )
اسی طرح امی ابو بھی داڑھی کٹوانے پر پٹائی کرنے کا پورا پورا حق رکھتے ہیں ۔
باقی داڑھی کٹوانا کبیرہ گناہ ہے یا صغیرہ ، اس بارے میں کوئی پتہ نہیں ۔ شاید @اسحاق سلفی صاحب یا دیگر ساتھی کوئی اضافہ فرمائیں ۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ‌ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ
اوربڑے بڑے گناہوں اور فحش باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب غصّہ آجاتا ہے تو معاف کردیتے ہیں۔ شوریٰ 37
نبی علیہ السلام کا دو مجوسیوں سے نفرت کا اس وجہ سے اظہار کرکے منہ پھیرنا کہ وہ داڑھی نہیں رکھتے تھے ۔
دوسری بات یہ کہ بنی علیہ السلام ہی نے یہ کہا ہے کہ مجھے اللہ ج نے داڑھی رکھنے کا حکم دیا ہے ۔یہ دواشارے ہمارے لیے کافی ہیں ۔
پھربھی اگر ہم ایسی باتوں کی تلاش میں پھرتے رہیں گے کہ بھئی اس پر کوئی سزا کی دلیل نہیں ہے ۔تو یہ شیطان کا ایک چال ہے ۔فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (نساٗ 65 ’’پس (اے بنی!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں‘‘۔ )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم :
داڑھی رکھنا ،بڑھانا ، اسلام میں فرض ہے ۔
اکثر لوگ داڑھی کے متعلق ’‘ سنت ’‘ کا لفظ سن کر اس کو ضروری اور فرض نہیں سمجھتے ۔
حالانکہ یہ نری لاعلمی ہے ۔ کیونکہ لفظ ’‘سنت ’‘ ہر وقت ’‘ فرض ’‘ کے مقابل استعمال نہیں ہوتا بلکہ کئی دیگر معانی کے لئے بھی آتا ہے ۔
لفظ ’‘ سنت ’‘کبھی بدعت کے مقابل استعمال کیا جاتا ہے ۔یہ بتانے کےلئے کہ یہ عمل شریعت سے ثابت ہے ،
اور کبھی اس امر کی وضاحت کےلئے لایا جاتا ہے ،کہ یہ عمل قرآن سے نہیں بلکہ حدیث نبوی علی صاحبھا الصلاۃ والسلام سے ثابت ہے
اور کسی وقت لفظ سنت سے مراد غیر فرض عمل ہوتا ہے ۔
اور کبھی اس کے برعکس فرض کام کو بھی سنت سے تعبیر کرتے ہیں : مثلاً صحیح بخاری میں ہے ؛
قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «وَقَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتْرُكَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا» ،
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو پہاڑوں کے درمیان سعی کی سنت جاری کی ہے۔ اس لیے کسی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اسے ترک کر دے۔
اس کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
قَوْلُ عَائِشَةَ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ أَيْ فَرَضَهُ بِالسُّنَّةِ وَلَيْسَ مُرَادُهَا نَفْيَ فَرْضِيَّتِهَا وَيُؤَيِّدُهُ قَوْلُهَا لَمْ يُتِمَّ اللَّهُ حَجَّ أَحَدِكُمْ وَلَا عُمْرَتَهُ مَا لَمْ يَطُفْ بَيْنَهُمَا،، کہ سیدہ کا طواف کو سنت کہنا ۔اس کے فرض ہونے کی نفی نہیں ۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت سے طواف کو فرض قرار دیا ہے ۔اس کی فرضیت پر ان کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ کسی کا حج اور عمرہ ، طواف کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔
اس تمہید کے بعد واضح ہو کہ داڑھی فرض ، واجب ہے ۔محقق علماء کا یہی تحقیق ہے ،دلائل شرعیہ اسی پر دلالت کرتے ہیں ۔
ذیل میں حافظ عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ کے فتوی سے اقتباس پیش خدمت ہے ۔​

داڑھی ۴۴.jpg

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ملتقى أهل الحديث > منتدى أصول الفقه
فجمعت هذه العجالة مستعينة بالله تعالى
|بعض الأحاديث الواردة في وجوب إعفاء اللحية
أ ـ عن عبد الله بن عمرقال : قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-( خالفوا المشركين ،أحْفُوا الشَّوارب وأَوفوا اللِّحى ). متفق عليه.
ب ـ عن أبى هريرة قال : قال رسول الله- -صلى الله عليه وسلم-(جُزُّوا الشوارب وأرخوا اللحى ، خالفوا المجوس ). رواه مسلم.
ج ـ عن أبي أمامة قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-(قُصُّوا سِبَالكم, َوَوفِّرُوا عثانينكم, وخالفوا أهل الكتاب ). (السلسلة الصحيحة/1245)
|أقوال العلماء ورثةالأنبياء في حكم حلق اللحية|
1 ـ قال العلامةُ ابنُ حَزْمٍ الأندلسىُّ-رحمه الله- (واتفقوا ـ أي الأئمة ـ على أنَّ حَلْقَ اللحيةِ مُثْلَةٌ ـ أي : تَشْوِيه ـ لا تجوز) مراتب الإجماع ( 157 ), وانظر : المحلى ( 2 / 189 ) .

2 ـ قال ابنُ عَبْدِ البَرِّ:في التمهيد( ويحرم حلق اللحية ، ولا يفعله إلا المخنثون من الرجال )
3 ـ قال الغزالي(إن نتف الفنيكين بدعة, وهما: جانبا العنفقة. وقال: وبها يتميزالرجال من النساء ) الإحياء (2/257)
4ـقال أبو شامة المقدسي(وقد حدث قوم يحلقون لحاهم, وهو أشد مما نقل عن المجوس من أنهم كانوايقصونها ).
5 ـ قال النووي ( والمختار تركهاعلى حالها, وألا يتعرض لها بتقصير شيء أصلاً ) شرح مسلم (2/154)
6 ـ قال القرطبي ( لا يجوز حلقها ولا نتفها ولا قصها ) تحريم حلق اللحى (ص5)
7 ـقال شيخُ الإسلامابنُ تَيْمِيَّةَ( ويَحْرُم حلقُ اللحيةِ ) الاختيارات العلمية ( ص 6 ) .
8 ـ قال الحافظ العراقي( واستدل الجمهور على أن الأولى ترك اللحية على حالها, وأن لا يقطع منها شيء, وهو قول الشافعي وأصحابه ) طرح التثريب (2/83)
9 ـقال العدويُّ المالكي( نُقِلَ عن مالك كراهة حلق ما تحت الحنك ، حتى قال : إنه مِنْ فِعْلِ المجوس . . . كما يحرم إزالة شعر اللحية)حاشية العدوي على شرح رسالة ابن أبي زيد ( 2 / 411 ) ، وانظر : حكم اللحية في الإسلام لمحمد الحامد ( ص 17 ) .
10 ـ قال السَّفَّارِينيُّ الحنبلي ( المعتمد في المذهب ، حُرمَةُ حَلْقِ اللحية ) غذاء الألباب ( 1 / 376 ).
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791


داڑھی رکھنا بڑھانا فرض ہے فرض کا تارک کیا ہوگا؟

شروع از M Aamir بتاریخ : 01 July 2013 08:30 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
أحکام و مسائل ،ص: ۱۶۱ میں لکھا ہے کہ داڑھی رکھنا بڑھانا فرض ہے! فرض کا تارک کیا ہوگا؟ ص: ۳۸۹ میں لکھا ہے کہ داڑھی کٹوانا حرام ہے۔ (صوبیدار محمد رشید)​
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ لکھتے ہیں: ’’ احکام و مسائل ص: ۱۶۱ میں لکھا ہے کہ داڑھی رکھنا بڑھانا فرض ہے۔ فرض کا تارک کیا ہوگا؟ ‘‘ فرض کا تارک مجرم اور گناہ گار ہوگا۔ پھر آپ لکھتے ہیں: ’’ ص: ۳۸۹ میں لکھا ہے کہ داڑھی کٹوانا حرام ہے۔ ‘‘ تو ٹھیک ہے داڑھی کٹوانا واقعی حرام ہے اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ یہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے حکم (( أعفوا اللحی۔))1 کی خلاف ورزی ہے اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے حکم اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی حرام ہوتی ہے الا کہ کوئی قرینہ صارفہ ہو اور وہ اس مقام پر نہیں۔ ۲۴، ۱۱، ۱۴۲۳ھ
ؒ1 بخاری،کتاب اللباس،باب اعفاء اللحیٰ۔ مسلم،کتاب الطہارۃ،باب خصائل الفطرۃ

جلد 02 ص 755​

محدث فتویٰ​

 

paharishikra

مبتدی
شمولیت
اگست 27، 2014
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
13
يہی سوال ميں بھی بہت دنوں سے کرنا چاہتا تھا
 
Top