السلام علیکم
محترم بھائی
قادیانی دعوے کا حوالہ بھی بتا دیں.
ویسے تو اس پوسٹ کا جواب کسی قادیانی مربی صاحب کو ہی دینا چاہیے تھا لیکن فی الوقت میں ان کا یہ دعویٰ ان کی اپنی ویب سائٹ سے ہی پیش کرتا ہوں یہ حوالہ مرزائیوں کی اپنی ویب سائٹ الاسلام کا ہے :
خرِّ دجّال
دجّال کے گدھے کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی سے کیا مراد ہے؟ جب ہم اس گدھے کی تفصیلی نشانیوں کے بارہ میں جستجو کرتے ہیں تو احادیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ’’
یخرج الدجال علی حمار اقمر ما بین اذنیہ سبعون باعاً ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح ۔ باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال ۔ الفصل الثالث ۔ مطبوعہ دینی کتب خانہ اردو بازار لاہور)
یعنی دجّال ایک ایسے گدھے پر سوا ر ، خروج کرے گا کہ جو روشن سفید رنگ والا ہو گا اور اس کے دونوں کانوں کے درمیان ستّر باع کا فاصلہ ہو گا۔اور ایک اور روایت میں ہے ’’
تحتہ حمار اقمر طول کل اذن من اذنیہ ثلاثون ذراعاً مابین حافر حمارہ الی الحافر مسیرۃ یوم ولیلۃ، تطوی لہٗ الارض منھلاً یتناول السحاب بیمینہ ویسبق الشمس الی مغیبھا یخوض البحر الی کعبیہ امامہ جبل دخان وخلفہ جبل اخضر ینادی بصوت لہ یسمع بہ مابین الخافقین الیّ اولیائی الیّ اولیائی، الیّ احبائی الیّ احبائی ‘‘ (منتخب کنزالعمال۔بر حاشیہ مسند احمد بن حنبل۔الجزء السادس ۔صفحہ ۵۳۔دارالذکر للطباعۃ والنشربیروت)
یعنی اس (دجّال) کی سواری ایک ایسا گدھا ہو گا جس کا رنگ سفید ہو گا اور اس کے ایک کان اور دوسرے کان کے درمیان تیس ہاتھ کا فاصلہ ہو گا اس کے ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں کے درمیان ایک رات اور ایک دن مسافت کا فاصلہ پڑے گا۔ اس کے لئے زمین سمیٹی جائے گی (یعنی وہ بڑی سرعت سے سفر کرے گا) وہ سورج کے غروب ہونے کے مقام پر اس سے پہلے پہنچ جائے گا۔ سمندر کا پانی اس کے ٹخنوں تک پہنچے گا۔ اس کے آگے سیاہ دھوئیں کا پہاڑ ہو گا تو پیچھے سبز رنگ (کے دھوئیں) کا ۔ وہ ایسی آواز دے کر بلائے گا کہ اس کو زمین وآسمان کے درمیان سب سنیں گے۔ وہ کہے گا اے میرے دوستو! براہ کرم آجاؤ۔ اے میرے پیارو ! براہ مہربانی آجاؤ۔
یہ اس گدھے کی نشانیوں میں سے ہیں جس پر دجّال سوار ہو گا اگر ہم یہ کہیں کہ ایسا گدھا ظاہر میں ہو گا اور یہ صفات اس میں پائی جائیں گی تو یہ بات بعید از عقل ہو گی۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ ایک ایسا گدھا پیدا ہو جس کے دونوں کانوں کے درمیان کا فاصلہ تیس ہاتھ ہو اورجو رات دن بغیر تھکاوٹ اور ماندگی کے چلتا رہے۔ وہ سواریوں کو اونچی آواز سے آواز بھی دیتا رہے۔ وہ سمندر میں چلے تو سمندر کا پانی اس کے ٹخنوں تک ہو ۔یعنی اس کی اونچائی کا اندازہ کریں کہ ایک عمیق سمندر کا پانی اگر صرف اس کے ٹخنوں تک پہنچے گا تو اس کی ٹانگوں کی اصل لمبائی کتنی ہو گی؟ اور وہ اتنی تیزی سے چلے کہ سورج سے بھی پہلے اس کے غروب ہونے کی جگہ پہنچ جائے۔ پھر یہ سوال بھی ہے کہ دنیا میں وہ گدھی کہاں سے آئے گی جو اس قسم کا عجیب وغریب اور طویل وعریض گدھا جنے گی؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں ایک نئی سواری کی طرف اشارہ تھا ۔جس نے آخری زمانہ میں ایجاد ہونا تھا اور اس کی وجہ سے سفر میں آسانی اور سرعت پیدا ہونی تھی۔ پیشگوئی کے مطابق اس سواری کی آواز بھی اس قدر بلند ہونی تھی کہ جو زمین وآسمان میں سنائی دینی تھی ۔اس پیشگوئی میں یہ واضح اشارہ بھی تھا کہ اس سواری کی تیز رفتاری اور اس پر سفر کی سہولت کی وجہ سے لوگ دوسری سواریوں سے بے نیازہوجائیں گے۔ یہاں تک کہ اونٹ جو کہ پہلے عموماً لمبے سفروں کے لئے استعمال ہوتے تھے ان کو بھی ترک کر دیا جائے گا۔چنانچہ اسی کی طرف خداتعالٰی نے اشارہ فرمایا ہے۔ کہ
’’ وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ ‘‘ (التکویر :۵)
ترجمہ : اور جب اونٹنیاں معطّل ہوں گی۔
اور فرمایا
وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْھَا وَزِیْنَۃً وَیَخْلُقُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ (النحل :۹)
ترجمہ: اور اس نے گھوڑوں ، خچروں اور گدھوں کو تمہاری سواری کے لئے اور زینت کے لئے (پیدا کیا ہے) اور وہ (تمہارے لئے سواری کا مزید سامان بھی) جسے تم جانتے نہیں پیدا کرے گا۔
یعنی اللہ تعالیٰ بعض ایسی سواریاں پیدا کرے گا جن کی حقیقت وماہیت کا ابھی علم نہیں ، وہ بعد میں ظاہر ہوں گی ۔اور حدیث میں بھی آیا ہے کہ
’’ لیترکنّ القلاص فلا یُسعٰی علیھا ‘‘(صحیح مسلم کتاب الفتن ۔ باب نزول عیسی بن مریم )
اس بارہ میں صاحب مرقاۃ شرح مشکوٰۃ نے لکھا ہے۔
’’والمعنی انہ یترک العمل علیھا استغناء عنھا لکثرۃ غیرھا ‘‘(مرقاۃ المفاتیح۔ الجزء الخامس صفحہ ۲۲۱۔مکتبہ میمنیہ مصر)
کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان سے کام لینا چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ اور بہت سی سواریاں پیدا ہو جائیں گی جو ان سے مستغنی کر دیں گی۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ پیشگوئیاں اس قدر حقیقت افروز اور سچّی ہیں کہ واقعۃً آج لوگ اونٹوں سے مستغنی ہو چکے ہیں۔ کیونکہ
یَخْلُقُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ کے مطابق قسما قسم کی نئی سواریاں ایجاد ہو چکی ہیں ، ریل گاڑیاں ، بحری جہاز ، ہوائی جہاز وغیرہ وغیرہ سواریوں نے ان کی جگہ لے لی ہے ۔ یہ سب سواریاں دن رات بڑی تیزی سے چلتی ہیں۔ دھواں اگلتی ہیں ، بڑی اونچی آواز سے اپنے مسافروں کو بلاتی ہیں ، نہ وہ تھکتی ہیں اور نہ ماندہ ہوتی ہیں ۔
رہا دجّال کے گدھے کا سمندر میں داخل ہونا اور پانی کا اس کے ٹخنوں تک پہنچنا تو یہ ہر شخص جانتا ہے کہ بحری جہاز جب سمندر میں چلتا ہے تو پانی میں ٹخنوں تک جاتا ہے باقی حصّہ اوپر رہتا ہے۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کی اس مذکورہ بالا پیشگوئی کی جو توجیہہ اور تفسیر بیان فرمائی ہے وہی اسے سچّا اور برحق ثابت کرتی ہے۔ وہی حقیقت افروز توجیہہ ہے۔ آپ ؑ فرماتے ہیں ۔
’’ از انجملہ ایک بڑی بھاری علامت دجّال کی، اس کا گدھا ہے جس کے بین الاذنین کا اندازہ سترّ باع کیا گیا ہے اور ریل کی گاڑیوں کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ طولانی ہوتا ہے اور اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ وہ دخان کے زور سے چلتی ہے جیسے بادل ہوا کے زور سے تیز حرکت کرتا ہے ۔ اس جگہ ہمارے نبی ﷺ نے کھلے کھلے طور پر ریل گاڑی کی طرف اشارہ فرمایا ہے چونکہ یہ عیسائی قوم کا ایجاد ہے جن کا امام ومقتدایہی دجّالی گروہ ہے اس لئے ان گاڑیوں کو دجّال کا گدھا قرار دیا گیا۔ اب اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو گا کہ علاماتِ خاصّہ دجّال کے انہیں لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ انہیں لوگوں نے مکروں اور فریبوں کا اپنے وجود پر خاتمہ کر دیا ہے اور دین اسلام کو وہ ضرر پہنچایا ہے جس کی نظیر دنیا کے ابتداء سے نہیں پائی جاتی اور انہیں لوگوں کے متبعین کے پاس وہ گدھا بھی ہے جو دخان کے زور سے چلتا ہے جیسے بادل ہوا کے زور سے۔ ‘‘(ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۹۳)