• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دجال کتنے دن خروج کرے گا ؟

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
@محمد عامر یونس بھائی نے ایک تھریڈ میں یہ حدیث شئر کی

٭٭٭ دجال ٭٭٭




دجال زمین پر چالیس (40) دن تک رہے گا اس کا ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا ، اور ایک دن ایک مہینہ کے ، اور ایک دن ایک ہفتہ کے برابر ، اور باقی (37 ) دن عام دنوں کی طرح

(فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)
اس پر ایک بھائی نے تحقیق کی ہے -

دجال کتنے دن خروج کرے گا ؟

جواب

اس پر متضاد روایات ہیں

عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو رضی الله عنہ کی روایت : چالیس – مجھے نہیں معلوم چالیس دن یا چالیس ماہ یا چالیس سال


صحیح مسلم اور صحیح ابن حبان کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْقُوبَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو، وَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: مَا هَذَا الْحَدِيثُ الَّذِي تُحَدِّثُ بِهِ؟ تَقُولُ: إِنَّ السَّاعَةَ تَقُومُ إِلَى كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللهِ أَوْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ – أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهُمَا – لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُحَدِّثَ أَحَدًا شَيْئًا أَبَدًا، إِنَّمَا قُلْتُ: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدَ قَلِيلٍ أَمْرًا عَظِيمًا، يُحَرَّقُ الْبَيْتُ، وَيَكُونُ وَيَكُونُ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ – لَا أَدْرِي: أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا، أَوْ أَرْبَعِينَ عَامًا [ص:2259] فَيَبْعَثُ اللهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ كَأَنَّهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ


نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: دجال میری امت میں نکلے گا چالیس – مجھے نہیں معلوم چالیس دن یا چالیس ماہ یا چالیس سال


صحیح ابن حبان میں ہے

أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْقُوبَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: إِنَّكَ تَقُولُ: إِنَّ السَّاعَةَ تَقُومُ إِلَى كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُحَدِّثَكُمْ بِشَيْءٍ، إِنَّمَا قُلْتُ: إِنَّكُمْ تَرَوْنَ بَعْدَ قَلِيلٍ أَمْرًا عَظِيمًا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي، فَيَمْكُثُ فِيهِمْ أَرْبَعِينَ، لَا أَدْرِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِينَ عَامًا، أَوْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا، فَيَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ


نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: دجال میری امت میں نکلے گا پس چالیس رہے گا – نہیں معلوم چالیس دن ، چالیس سال ، چالیس رات یا چالیس مہینے


ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی روایت : چالیس دن زمین پر ہو گا الله ان کی مقدار جانتا ہے


مسند البزار اور صحیح ابن حبان میں ہے

حَدَّثَنا علي بن المنذر , حَدَّثَنا مُحَمَّد بن فضيل , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , قال: سمعت من أبي القاسم الصادق المصدوق يقول يخرج الأعور الدجال مسيح الضلالة قبل المشرق في زمن اختلاف من الناس وفرقة فيبلغ ما شاء الله أن يبلغ من الأرض في أربعين يوما الله أعلم ما مقدارها؟ فيلقى المؤمنون شدة شديدة، ثم ينزل عيسى بن مريم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ من السماء فيقوم الناس فإذا رفع رأسه من ركعته قال: سمع الله لمن حمده قتل الله الدجال وظهر المؤمنون فأحلف أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أبا القاسم الصادق المصدوق صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: إنه لحق وأما قريب فكل ما هو آت قريب.

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: دجال چالیس دن زمین پر ہو گا الله ان کی مقدار جانتا ہے


النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ رضی الله عنہ کی روایت : ٤٣٤ دن

مستدرک حاکم اور صحیح مسلم میں ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

أَرْبَعِينَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ، وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ


چالیس دن جن میں ایک دن ایک سال جیسا ، ایک ماہ جیسا ، ایک هفتے جیسا اور باقی عام دنوں جیسے ہوں گے


بحث

یعنی ٣٦٠ + ٣٠ + ٧ + ٣٧ = ٤٣٤ دن دجال رہے گا

نواس رضی الله عنہ سے منسوب روایت میں يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ ، قَاضِي حِمْصَ المتوفی ١٢٦ ھ کا تفرد ہے جو باقی اصحاب رسول کی روایت کے خلاف بھی ہے- ان کا انتقال خِلَافَةِ الْوَلِيدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ کے دور میں ہوا یعنی بنو امیہ کے آخری دور میں – يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ کو ابو حاتم نے صالح الحدیث کہا ہے – ان سے امام بخاری نے صحیح میں کچھ بھی روایت نہیں کیا-

دو مسیحا اور ایک مخالف

یہود دو مسیح کے قائل ہیں

ایک کو حاکم مسیح کہتے ہیں اور دوسرے کو کاہن مسیح

یہ دونوں نیک ہوں گے

اور ان دونوں کا مخالف بھی ہے جس کو مسیح دجال کے الفاظ سے یاد نہیں کرتے بلکہ صرف مخالف کہتے ہیں

مسیح مخالف کا ذکر کتاب دانیال میں ہے جبکہ باقی دو کا دیگر کتب انبیاء میں

یہود کے ایک کشفی فلسفی دانیال کے مطابق ایک مخالف ( دجال) آئے گا جس کا ذکر کتاب دانیال میں کیا ہے – یہود اس کے انکاری ہیں کہ دانیال کوئی نبی تھا کیونکہ اس کی ان کے نزدیک دانیال کی ایک بھی پیشنگوئی پوری نہیں ہوئی- لیکن رومیوں کے دور میں اس کتاب کی آیات پر یہود مسیح ہونے کا دعوی کرتے اور رومیوں کے ہاتھوں مرتے رہے ہیں – یہود نے اس بنا پر دانیال کو اپنے انبیاء کی کتب سے نکال دیا ہے – عبرانی بائبل میں انبیاء کی کتب کو

Neviʾim

کہا جاتا ہے اس میں دانیال کی کتاب نکال دی گئی ہے – کتاب دانیال کو یہود

Ketuvim

میں شمار کرتے ہیں جو کشفی کتب ہیں لہذا کہا جاتا ہے ان تحاریر کا درجہ انبیاء کی کتب سے کم ہے

Neusner, Jacob, The Talmud Law, Theology, Narrative: A Sourcebook. University Press of America, 2005


دوسری طرف نصرانیوں کے نزدیک کتاب دانیال ثابت کتاب ہے- کتاب دانیال کی باب ٧ کی آیت ہے کہ دجال

And he shall speak words against the most High , and shall wear out the saints of the most High , and think to change times 2166 and laws 1882: and they shall be given into his hand until a time 5732 and times 5732 and the dividing 6387 of time 5732.


وہ الله تعالی کے خلاف کلام کرے گا اور اس کے مقدس لوگوں کے خلاف اور وقت اور قوانین کو بدلے گا – مقدس لوگ اس کے ہاتھوں میں جائیں گے عدان ، عدانوں اور عدان کی تقسیم میں


قوانین کا ترجمہ موسم بھی کیا جاتا ہے لہذا نصرانی اس کے قائل ہیں کہ دجال موسم تبدیل کر سکے گا

آرامی میں اصلی الفاظ ہیں عدان ، عدانوں اور عدان کی تقسیم

Gesenius’ Hebrew-Chaldee Lexicon


جس کا ترجمہ

Time

Times

Half time

سے کیا جاتا ہے – یاد رہے کہ یہود کا کلنڈر بھی قمری ہے

یعنی کتاب دانیال میں پہلے عدان سے مراد ایک سال ہے ، عدانوں سے مراد دو ماہ ہے اور عدان کی تقسیم سے مراد آدھا ماہ ہے یعنی ایک سال، ٢ ماہ اور ١٤ دن یا آدھا ماہ

اگر يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ کی روایت کے مطابق اپ ٤٣٤ دنوں کو اس طرح تقسیم کریں تو یہ بھی ایک سال (٣٦٠) + دو ماہ (٦٠ دن) +١٤ دن بنتے ہیں

اس طرح کتاب دانیال کا حساب کتاب، يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ کی روایت کے مطابق ہو جاتا ہے- يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ کی روایت منفرد ہونے کی بنا پر شاذ ہے

اس قول کو مزید تقویت کتاب دانیال کی مزید آیات سے ملتی ہے جن کے مطابق حاکم مسیح یروشلم تعمیر کرے گا

Dan. 9:25 Know therefore and understand that from the going out of the word to restore and build Jerusalem to the coming of an anointed one, a ruler, there shall be seven weeks. Then for sixty-two weeks it shall be built again with squares and moat, but in a troubled time.

Dan. 9:26 And after the sixty-two weeks, an anointed one shall be cut off and shall have nothing. And the people of the ruler who is to come shall destroy the city and the sanctuary. Its end shall come with a flood and to the end there shall be war. Desolations are decreed.

جان لو اور سمجھ لو کہ حکم ملنے اور یروشلم کی تعمیر اور حاکم مسیح کے ظہور میں سات ہفتے ہیں- اور
٦٢ ہفتوں میں مشکلات کے ساتھ ، اپنے محلوں اور بندوں کے ساتھ، یروشلم تعمیر ہو گا

اور ٦٢ ہفتوں کے بعد مسیح کٹ جائے گا اور کچھ نہ رہے گا اور حاکم موعود کے پیروکار شہر اور حرم کو تباہ کر دیں گے – اس کی تباہی پر سیلاب آنے گا اور اس کے آخر میں جنگ ہو گی ، بربادی کا حکم ہو گا

کتاب دانیال کے مطابق مسیح، حاکم موعود ٦٢ ہفتوں تک رہے گا جس میں وہ یروشلم دوبارہ تعمیر کرے گا اس کے بعد وہ کٹ جائے گا یعنی قتل ہو گا – باسٹھ ٦٢ ہفتے یعنی ٤٣٤ دن ہیں جو صحیح مسلم کی يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ کی روایت میں توڑ کر بیان کیے گئے ہیں

اس طرح حاکم مسیح اور اس کا مخالف دونوں ٤٣٤ دن رہیں گے – اس کتاب کو نصرانی علماء نے قبول کیا ہے – ان کے نزدیک عیسیٰ اپنی زندگی میں کاہن مسیح تھے اب نزول ثانی پر حاکم مسیح ہوں گے اور مخالف بھی ہو گا

شام میں نصرانیوں کی ایک بڑی تعداد بنو امیہ کے دور میں تھی اور اس طرح بعض اقوال کا ہماری روایات میں شامل ہونا بعید نہیں ہے جبکہ دیگر احادیث اس کی مخالفت میں ہیں – واضح رہے کہ قابل قبول سند کے ساتھ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الكِلَابِيّ رضی الله عنہ کی روایت مسند الشامیین از طبرانی میں بھی ہے جس کی سند میں يحيى بن جابر بن حسان بن عمرو الطائى نہیں ہیں اور اس کے متن میں دجال کی مدت کا ذکر بھی نہیں ہے

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ إِسْحَاقَ، ثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ نَصْرِ بْنِ خُزَيْمَةَ، أَنَّ أَبَاهُ، حَدَّثَهُ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ أَخِيهِ مَحْفُوظٍ، عَنِ ابْنِ عَائِذٍ، ثَنَا جُبَيْرُ بْنُ نُفَيْرٍ، أَنَّ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ [ص:388]: ” أُرِيتُ أَنَّ ابْنَ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَخْرُجُ مِنْ عِنْدِ [يَمْنَةِ] الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءَ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ وَاضِعٌ يَدَهُ عَلَى أَجْنِحَةِ الْمَلَكَيْنِ بَيْنَ رَيْطَتَيْنِ مُمَشَّقَتَيْنِ، إِذَا أَدْنَا رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ تَحَادَرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ، يَمْشِي عَلَيْهِ السَّكِينَةُ، وَالْأَرْضُ تَقْبِضُ لَهُ، مَا أَدْرَكَ نَفْسَهُ مِنْ كَافِرٍ مَاتَ، وَيُدْرِكُ نَفْسَهُ حَيْثُمَا أَدْرَكَ بَصَرَهُ حَتَّى يُدْرِكَ بَصَرَهُ فِي حُصُونِهِمْ وَقُرَايَاتِهِمْ، حَتَّى يُدْرِكَ الدَّجَّالَ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ فَيَمُوتُ، ثُمَّ يَعْمِدُ إِلَى عِصَابَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَصَمَهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِالْإِسْلَامِ، وَيَتْرُكَ الْكُفَّارَ يَنْتِفُونَ لِحَاهُمْ وَجُلُودَهُمْ، فَتَقُولُ النَّصَارَى: هَذَا الدَّجَّالُ الَّذِي أَنْذَرْنَاهُ، وَهَذِهِ الْآخِرَةُ، وَمَنْ مَسَّ ابْنَ مَرْيَمَ كَانَ مِنْ أَرْفَعِ النَّاسِ قَدْرًا وَيَعْظُمُ مَسُّهُ، [مَبِيتُهُ] ، وَيَمْسَحُ عَلَى وُجُوهِهِمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ مِنَ الْجَنَّةِ، فَبَيْنَا هُمْ فَرِحُونَ بِمَا هُمْ فِيهِ خَرَجَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ، فَيُوحَى إِلَى الْمَسِيحِ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَسْتَطِيعُ قَتْلَهُمْ إِلَّا أَنَا، فَأَخْرِجْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ، فَيَمُرُّ صَدْرُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ عَلَى بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ فَيَشْرَبُونَهَا، ثُمَّ يُقْبِلُ آخِرُهُمْ فَيُرْكِزُونَ رِمَاحَهُمْ، فَيَقُولُونَ لَقَدْ كَانَ هَاهُنَا مَرَّةً [مَاءٌ] ، حَتَّى إِذَا كَانُوا حِيَالَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالُوا: قَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِي الْأَرْضِ، فَهَلُمُّوا نَقْتُلُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، فَيَرْمُونَ نَبْلَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَرُدُّهَا اللَّهُ مَخْضُوبَةً بِالدَّمِ، فَيَقُولُونَ: قَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِي السَّمَاءِ، وَيَتَحَصَّنُ ابْنُ مَرْيَمَ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ وَرَأْسُ الْجَمَلِ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ ذَلِكَ الْيَوْمَ “


النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ رضی الله عنہ نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ابن مریم علیہ السلام کو دیکھا وہ سفید منار کے دائیں جانب سے نکلے دمشق کے مشرق میں فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے … جب وہ سر نیچے کرتے ان کے بالوں سے قطرے ٹپک رہے تھے اور جب اوپر تو موتی کی طرح چمکتے – ان کے ساتھ السکینہ چل رہی تھی (ایک ہوا نما فرشتہ) اور زمیں ان کے لئے قبضہ میں تھی – کسی کافر کے پاس ان کا سانس نہ جاتا لیکن وہ مر جاتا – دمشق کے قلعوں اور قریوں میں جہاں تک ان کی نگاہ جاتی وہاں تک ان کا سانس جاتا – یہاں تک کہ یہ دجال کو لد کے دروازہ پر پاتے ہیں – پھر وہ مدد کریں گے مسلمانوں کے ایک گروہ کی جس کو الله نے اسلام کی وجہ سے بچا لیا ہو گا اور کفار کو چھوڑ دیں گے کہ کفار کی داڑھی اور کھالوں کو مونڈھ دیں گا – النَّصَارَى کہیں گے یہ وہ شخص ہے جس سے ہمیں ڈرایا گیا تھا اور یہ آخرت ہے اور جو ابن مریم کو مس کرے گا وہ لوگوں میں اعلی ہو گا اور اس کی تعظیم ہو گی – وہ ابن مریم چہروں کو مسح کریں گے اور ان کے درجات بیان کریں گے جنت میں – پس مسلمان اس تفصیل پر خوش ہوں گے جو ان کے پاس ہو گی کہ یاجوج و ماجوج خروج کریں گے پس مسیح علیہ السلام کو الوحی کی جائے گی : (الله تعالی الوحی کریں گے) میں نے اپنے (یاجوج و ماجوج) بندے نکال دیے ہیں جن پر کوئی قادر نہیں کہ ان کو قتل کر سکے سوائے میرے ، پس میرے (مسلمان) بندوں کو طور پر لے جاؤ – پس یاجوج ماجوج کا صدر ، طبریہ پر سے گزرے گا وہ اس کو پی جائیں گے پھر آخری حصہ تو وہ ذکر کریں گے اس کی (تہہ میں موجود) نیزہ (نما چٹانوں) کا – پس کہیں گے یہاں کبھی پانی ہوا کرتا ہو گا یہاں تک کہ وہ بیت المقدس کے قرب میں پہنچیں گے – وہ کہیں گے جو زمیں کے باسی تھے ان کو ہم قتل کر چکے پس اب چلو آسمان کی طرف اور ان کو قتل کریں پس تیر آسمان پر پھینکیں گے اور الله ان تیروں کو خون میں لت پت کرکے آسمان سے لوٹا دے گا اور یاجوج و ماجوج بولیں گے ہم نے آسمان والوں کو قتل کر دیا – ابن مریم اور ان کے اصحاب ان (یاجوج و ماجوج) میں سوراخ کر دیں گے یہاں تک کہ ایک بیل کا سر اور ایک اونٹ کا سر سو دینار سے بھی زیادہ بہتر اس روز ہو گا


حوالہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مستدرک حاکم اور صحیح مسلم میں ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

أَرْبَعِينَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ، وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ


چالیس دن جن میں ایک دن ایک سال جیسا ، ایک ماہ جیسا ، ایک هفتے جیسا اور باقی عام دنوں جیسے ہوں گے
یعنی ٣٦٠ + ٣٠ + ٧ + ٣٧ = ٤٣٤ دن دجال رہے گا
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
اب چالیس دن کو کیا خوب 434دن بنادیا ہے!
حالانکہ یہاں چالیس دن میں ایام کی طوالت کا ذکر ہے نہ کہ اتنے دن ہونا!
دوم کہ اگر یہود و نصاری کا کسی بات کا قائل ہونے سے لازم آتا ہو کہ وہ بات باطل ہے، تو جناب یوں تو قرآن بھی باطل قرار پائے گا!
کہ یہود و نصاری اللہ کے وجود کے قائل ہیں، اور یہ تو قرآن بھی کہتا ہے!
اس منطق کی بنا پر تو کوئی منچلا قرآن اور اللہ کے وجود کا ہی انکار کردےکہ یہ یہودی و نصرانی عقیدہ ہے!
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!


حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
اب چالیس دن کو کیا خوب 434دن بنادیا ہے!
حالانکہ یہاں چالیس دن میں ایام کی طوالت کا ذکر ہے نہ کہ اتنے دن ہونا!
دوم کہ اگر یہود و نصاری کا کسی بات کا قائل ہونے سے لازم آتا ہو کہ وہ بات باطل ہے، تو جناب یوں تو قرآن بھی باطل قرار پائے گا!
کہ یہود و نصاری اللہ کے وجود کے قائل ہیں، اور یہ تو قرآن بھی کہتا ہے!
اس منطق کی بنا پر تو کوئی منچلا قرآن اور اللہ کے وجود کا ہی انکار کردےکہ یہ یہودی و نصرانی عقیدہ ہے!
بعض علماء کے مطابق صحیح مسلم کی روایت میں چالیس دن میں ایام کی طوالت کا ذکر ہے نہ کہ اتنے دن مراد ہونا ہے – اگر یہ بات صحیح ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پہلا دن ایک سال کی مدت کا ہو گا یعنی

٣٦٠ x ٢٤ =

٨٦٤٠ گھنٹوں کا ہوا

یہ علماء سائنس سے لا علم ہیں کیونکہ اس قدر طویل مدت میں تمام انسانیت ، شجر نباتات بھسم ہو جائیں گے اور سمندر بخارات میں تبدیل ہو جائیں گے لہذا یہاں دن ہی مراد ہیں نہ کہ گھنٹے

اللہ فہم دے

الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ فِي دِمَشْقَ ؟

قارئین یہ بات ملحوظ رکھیں کہ صحیح مسلم کی روایت باقی روایات سے میل نہیں کھاتی اور چونکہ یہ کتاب دانیال کا چربہ لگتی ہے اس کو قبول کرنا مشکل ہے لیکن یہ کرنے کی صورت میں ایک اور مسئلہ آئے گا اور وہ ہے کہ یہ انکار کرنا پڑے گا کہ عیسیٰ علیہ السلام دمشق میں سفید مینار کے پاس نازل ہوں گے کیونکہ یہ بات اس روایت میں ہے

صحیح مسلم ، مسند احمد ، سنن ابو داود ، سنن ترمذی ، مستدرک الحاکم، الإيمان لابن منده، مسند الشاميين
کی اس روایت کی سند يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ سے ہے

حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ، قَاضِي حِمْصَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ


اس میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ اور عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍکے درمیان یحییٰ بن جابر ہیں

اور ان سب میں ٤٣٤ دن کا ذکر ہے یعنی ایک سال ایک ماہ ایک ہفتہ اور باقی دن عام دنوں جیسے

لیکن ابن ماجہ کی اسی متن کی روایت میں يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ نہیں ہیں

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ


یعنی ابن ماجہ کی سند میں انقطاع ہے لہذا یہ بھی قبول نہیں کی جا سکتی

کتاب المعجم الكبير از طبرانی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمُعَلَّى الدِّمَشْقِيُّ الْقَاضِي، ثنا هِشَامُ بْنُ عُمَارَةَ، ح وَحَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، ثنا يَزِيدُ بْنُ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ»


أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنہ نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام مشرقی دمشق میں سفید مینار کے پاس نازل ہوں گے


طبرانی نے دو طرق پیش کیے ہیں پہلی میں هِشَامُ بْنُ عُمَارَةَ، مجھول ہے دوسرے طرق میں هشام بن خالد، أبو مروان الدِّمشقيُّ الأزرق ہے ان کا درجہ صدوق کا ہے اور ابن حبان نے ثقہ کہا ہے – اسی طرح يَزِيْدُ بنُ عَبِيْدَةَ السَّكُوْنِيُّ کا درجہ بھی صدوق کا ہے جو ثقاہت کا ادنی درجہ ہے لیکن راقم کو اس سند پر اطمینان نہیں ہے کیونکہ طبرانی ہی نے اپنی دیگر کتب میں أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، کی سند سے روایات نقل کی ہیں یعنی اس أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ اور أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ کے درمیان میں ایک راوی ابو أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ ہے

مثلا المعجم الكبير ح ٥٨٦ اور مسند الشاميين ح ٥٥٧ میں

لیکن روایت

يَزِيدُ بْنُ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ»


أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنہ نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام مشرقی دمشق میں سفید مینار کے پاس نازل ہوں گے


میں ابو اسماء کا نام نہیں لہذا یہ منقطع ہے

کتاب الآحاد والمثاني از ابن ابی عاصم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ، نا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِيهِ، كَيْسَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ»


كَيْسَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نے کہا میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو سنا فرمایا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام مشرقی دمشق میں سفید مینار کے پاس نازل ہوں گے


اس کی سند میں ربيعة بن ربيعة کے لئے امام الذھبی نے میزان میں کہا ہے میں اس کو نہیں جانتا اور ذيل ديوان الضعفاء والمتروكين میں اس کو مجھول قرار دیا ہے

اس طرح عیسیٰ علیہ السلام کا مشرقی دمشق میں نازل ہونے والی اور سفید مینار والی کوئی روایت صحیح نہیں ہے

شاید اسی وجہ سے یہ امام بخاری کی صحیح میں موجود نہیں ہے

ویسے بھی منار بنانا ایک عیسائی روایت تھی، جس میں راہب اس کے اوپر بیٹھتے اور عبادت کرتے اور باقی لوگوں کو اوپر انے کی اجازت نہیں ہوتی تھی – اس طرح کے ایک مینار کو مَنَارَةَ ذَاتِ الْأَكَارِعِ کہا جاتا تھا جو شام میں تھا اور اس میں راہب النوبی رہتا تھا – دمشق میں یحیی علیہ السلام کے سر کے مدفن سے منسوب مقام پر نصرانیوں نے ایک چرچ بنا رکھا تھا جس کو بعد میں ولید بن عبد الملک کے دور میں جامع بنی امیہ قرار دیا گیا- اس میں سفید مینار کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس عیسیٰ کا نزول ہو گا- واضح رہے کہ یحیی علیہ السلام کا قتل یروشلم میں ہوا تھا – لیکن نصرانیوں نے دمشق اور اس کے قرب و جوار کے بہت سے مقامات کو عیسائی مبلغ یسوبئوس کی دریافتوں کی بنیاد پر قبول کیا جس نے قیصر روم کونستینٹین کی فرماش پر ان مقامات کو گھڑا کیونکہ حکمران طبقہ نے راتوں رات متھرا دھرم چھوڑ نصرانی دھرم اپنا لیا تھا – یاد رہے کہ ان ہی مقامات کو مسجد بنانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض وفات میں منع کیا تھا تو ایسی مسجد پر عیسیٰ علیہ السلام کا نزول کیسے ہو سکتا ہے ؟ کیونکہ جامع دمشق کے لئے کہا جاتا ہے اس میں هود علیہ السلام کا مدفن ہے ، اس میں یحیی علیہ السلام کا سر ہے وغیرہ اور ایک دور میں یہ مقام بت الحداد کا مندر تھا

عرب نصرانیوں میں یعنی

Eastern Orthodox Church

میں یہ بات مشھور چلی آئی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نزول ثانی پر دمشق میں ظاہر ہوں گے ؟ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ صلیب کے بعد سینٹ پال کے بقول اس نے دمشق کے راستہ میں سب سے پہلے جی اٹھنے والے مسیح کو دیکھا تھا لہذا چند سال پہلے

Pope Benedict

نے جب دمشق کا دورہ کیا تو ویٹی کن کے ایک کارندے نے اخباری لوگوں کو اس کی یہی وجہ بتائی کہ یہ نصرانی روایات ہیں کہ عیسیٰ نزول ثانی پر دمشق میں ظاہر ہوں گے جس کو راقم نے خود ایک ڈوکومنٹری میں سنا

یہ سب قابل غور ہے

دجال کا لد پر قتل

صحیح مسلم کی زیر بحث روایت کے مطابق دجال کا قتل لد پر ہو گا – اس روایت کا انکار کرنے کی صورت میں یہ بات بھی ذہن میں رکھیں – دجال کا قتل لد پر ہو گا یہ قول ایک دوسری سند سے بھی ہے – مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَمِّعَ ابْنَ جَارِيَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: ” يَقْتُلُهُ ابْنُ مَرْيَمَ بِبَابِ لُدٍّ


مُجَمِّعَ ابْنَ جَارِيَةَ رضی الله عنہ نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ابن مریم ، ، لد پر دجال کو قتل کریں گے


اس سند کو شعیب نےمسند احمد پر تعلیق میں إسناد ضعيف قرار دیا ہے کیونکہ اس میں عبد الله بن عبيد الله بن ثعلبة الأنصاري، شیخ امام الزہری مجھول ہے – طبرانی میں یہ بهلول بن حكيم کی سند سے ہے لیکن یہ بھی مجھول ہے

مسند احمد میں یہ عائشہ رضی الله عنہا سے بھی مروی ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَضْرَمِيُّ بْنُ لَاحِقٍ، أَنَّ ذَكْوَانَ أَبَا صَالِحٍ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ لِي (1) : ” مَا يُبْكِيكِ؟ ” قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، ذَكَرْتُ الدَّجَّالَ فَبَكَيْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنْ يَخْرُجِ الدَّجَّالُ وَأَنَا حَيٌّ كَفَيْتُكُمُوهُ، وَإِنْ يَخْرُجْ بَعْدِي (2) ، فَإِنَّ رَبَّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، وَإِنَّهُ يَخْرُجُ فِي يَهُودِيَّةِ أَصْبَهَانَ، حَتَّى يَأْتِيَ الْمَدِينَةَ فَيَنْزِلَ نَاحِيَتَهَا، وَلَهَا يَوْمَئِذٍ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَكَانِ، فَيَخْرُجَ إِلَيْهِ شِرَارُ أَهْلِهَا حَتَّى الشَّامِ مَدِينَةٍ بِفِلَسْطِينَ بِبَابِ لُدٍّ، وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ مَرَّةً: حَتَّى يَأْتِيَ فِلَسْطِينَ بَابَ لُدٍّ، فَيَنْزِلَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ فَيَقْتُلَهُ


اس کی سند میں الحضرمي بن لاحق پر محدثین کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک یہ دو رجال ہیں ایک ہی نام کے اور ابو حاتم کہتے ہیں ایک ہی ہے – الحضرمي بن لاحق پر واضح نہیں کون ہے اس بنا پر شعیب نے اس کو حسن کہا ہے جس پر عقائد اور حلال و حرام کا فیصلہ نہیں ہوتا

یہ روایت اس سند سے بھی ہے

أخبرنا عبد الرزاق عن معمر عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنِ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيَّةِ


لیکن یہ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ کی وجہ سے ضعیف ہے اور قتادہ مدلس نے عن سے روایت کی ہے

عائشہ رضی الله عنہا سے منسوب روایت میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں دجال کے لئے کافی ہوں- دجال رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت میں قتل کریں گے تو رسول الله ایسا کیوں کہتے کہ اگر وہ میری زندگی میں نکلا – لہذا مسند احمد کی یہ منکر روایت ہے

چونکہ بحث یہودی دجال پر چل رہی ہے لہذا ایک اور روایت کا بھی ذکر ہونا چاہیے


الله کا دشمن درخت؟ الْغَرْقَدَ، فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ


قرآن و حدیث کے مطابق تمام اشجار الله کو سجدہ کرتے ہیں – الله تعالی نے بغیر استثنی اس کا ذکر کیا ہے

لیکن بعض روایات میں ہے کہ مسلمان یہود کو قتل کریں گے یہاں تک کہ غرقد کا درخت یہود سے مل جائے گا

الغرقد أو الغردق (لاطینی میں: Nitraria) نباتات میں سے ہے

فارسی میں دیوخار، گرگ تیغ

gharqad tree.png




صحیح مسلم کی حدیث میں ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُهَيْلٍ ( بْن أَبي صالح)، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ، فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ: يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي، فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ، إِلَّا الْغَرْقَدَ، فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ


ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں سے جنگ کریں اور مسلمان انہیں قتل کردیں یہاں تک کہ یہودی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپیں گے تو پتھر یا درخت کہے گا اے مسلمان اے عبداللہ یہ یہودی میرے پیچھے ہے آؤ اور اسے قتل کردو سوائے درخت غرقد کے کیونکہ
الْغَرْقَدَ یہ بے شک یہود کا درخت ہے

جنات اور انسان تو الله کے نافرمان ہو سکتے ہیں لیکن غرقد کا درخت کیسے ہو سکتا ہے؟

سندا یہ روایت يعقوب بْن عَبْد الرَّحْمَنِ بْن مُحَمَّد ابن عَبد الله بن عبد القاري المدني المتوفی ١٧١ ہجری اور سليمان بن بلال نے بیان کی ہے اور اس میں سهيل بن أبي صالح کا تفرد ہے – یہ لوگ ثقہ ہیں لیکن سهيل بن أبي صالح آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے

کتاب الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط از ابن العجمي (المتوفى: 841هـ) کے مطابق

ذكر الذهبي عن ابن القطان أنه هو وهشام بن عروة اختلطا وتغيرا وقد تعقبه في هشام ذكر ذلك في الميزان وأقره على سهيل


الذھبی نے ابن القطان کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ سهيل بن أبي صالح … آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوئے … اور میزان میں اس قول کو برقرار رکھا ہے


کتاب سير أعلام النبلاء از الذہبی کے مطابق

وَرَوَى: أَحْمَدُ بنُ زُهَيْرٍ، عَنْ يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ، قَالَ: لَمْ يَزَلْ أَصْحَابُ الحَدِيْثِ يَتَّقُوْنَ حَدِيْثَه. وَقَالَ مَرَّةً: ضَعِيْفٌ، وَمَرَّةً: لَيْسَ بِذَاكَ.


أَحْمَدُ بنُ زُهَيْرٍ نے امام ابن معین سے روایت کیا کہ محدثین نے ان کی روایات سے بچنا نہیں چھوڑا اور ایک بار کہا ضعیف اور ایک بار کہا کچھ نہیں ہے


امام بخاری نے مقرؤنا روایت لی ہے یعنی اصل کتاب میں اس سے دلیل نہیں لی امام مسلم نے دلیل لی ہے لیکن یہ راوی مختلف فیہ ہے اور اختلاط کا شکار بھی رہا ہے – غرقد الله کا درخت ہے لہذا اس کو یہود کا دوست قرار دینا عالم اختلاط کا قول لگتا ہے

یاد رہے کہ اسی درخت کی چھاؤں میں بَقِيعِ الْغَرْقَدِ میں خود اصحاب رسول کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے دفن کیا ہے اگر یہ درخت الله اور اس کے رسولوں کا دشمن ہوتا تو اس کو کاٹ دیا جاتا لیکن ایسا نظم عالم میں نہیں کہ شجر و ارض الله کے حکم کے خلاف جائیں

صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنا الحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «تُقَاتِلُكُمُ اليَهُودُ فَتُسَلَّطُونَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ يَقُولُ الحَجَرُ يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي، فَاقْتُلْهُ


عبد الله ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ اپ نے فرمایا تم یہود سے قتال کرو گے ان پر غالب ہو جاو گے پھر پتھر اور بولیں گے کہ اے مسلم میرے پیچھے یہودی ہے اس کو قتل کرو گے


یہ روایت امام الزہری کی سند سے ہے اس میں غرقد کا ذکر نہیں ہے

لب لباب یہ ہے کہ دجال ایک یہودی ہو گا صحیح اسناد سے ثابت نہیں ہے – وہ لد پر قتل ہو گا ثابت نہیں- نہ ہی ابن مریم علیہ السلام کا شام میں دمشق میں سفید مینار پر نزول ثابت ہے- یعنی صحیح مسلم کی یہ مخصوص روایات صحیح نہیں ہیں

لہذا ان روایات کو ملا کر متفق علیہ قرار دینا اور ملا کر بیان کرنا صحیح نہیں

دجال پر جو ثابت ہے وہ یہ کہ

يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ

دجال امت محمد میں نکلے گا یعنی مسلمان ہو گا لہذا وہ دجال کعبہ کا طواف کرے گا اور ابن مریم علیہ السلام اس کو قتل کریں گے اور یہودی اس کے ہمدرد ہوں گے – یہ المسیح ہونے کا دعوی کرے گا اور اس کی آنکھ پھولے انگور کی طرح ابلی پڑ رہی ہو گی – اس کے بال گھنگھریالے ہوں گے وہ چالیس کی مدت رہے گا جس کی طوالت کا علم الله کو ہے


یہ صحیح بخاری، صحیح ابن حبان اور صحیح مسلم کی ہی روایات میں ہے

و الله اعلم
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
دجال پر جو ثابت ہے وہ یہ کہ
يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ

دجال امت محمد میں نکلے گا یعنی مسلمان ہو گا لہذا وہ دجال کعبہ کا طواف کرے گا
جہالت کا نام تحقیق!
 
Top