عبدالرءوف
مبتدی
- شمولیت
- جولائی 22، 2015
- پیغامات
- 23
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 4
2025ء میں قائم ھونے والے دجالی دور کی ایک جھلک سائنس نے دکھا دی
نیویارک (نیوز ڈیسک) پچھلی چند دہائیوں میں سائنس نے جس رفتار سے ترقی کی ہے وہ حیرت انگیز ہے اورامیدکی جاسکتی ہے کہ آنے والی دہائی میں یہ رفتار اس قدر تیز ہوگی کہ 2025ءمیں دنیا کی شکل بالکل تبدیل ہوچکی ہوگی۔ سائنسدانوں نے آج سے 10سال بعد کی دنیا کا نقشہ کچھ یوں پیش کیا ہے۔
-1 کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ 2025ءتک نیورو سائنس اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی اس قدر ترقی کرجائے گی کہ انسانی دماغ کی صلاحیت کئی گنا بڑھ جائے گی اور قدرتی اور مصنوعی اعضاءکے امتزاج والے انسان وجود میں آجائیں گے جنہیں ہیومن 2.2 اور ہیومن 3.0 کا نام دیا جارہا ہے۔
-2 آنے والے 10 سال میں دنیا کے تقریباً 25 ممالک تیز رفتار ترین ملک میں مدغم ہوجائیں گے اور دنیا پر بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا غلبہ ہوگا۔
-3 دنیا کا مالی نظام موجود کرنسی کی بجائے ڈیجیٹل کرنسی استعمال کی بجائے ڈیجیٹل کرنسی استعمال کرے گا اور عام افراد ملکی کی بجائے علاقائی اور بین الاقوامی سطح تک مالی نظام سے منسلک ہوجائیں گے۔
-4 دماغ کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے کی ٹیکنالوجی حقیقی شکل اختیار کرلے گی اور لوگ اپنی یادداشت اور دماغی ساخت کو انٹرنیٹ پر محفوظ کرسکیں گے تاکہ جسمانی موت کے بعد بھی زندہ رہ سکیں۔
-5 حقیقی زندگی اور ورچوئل رئیلٹی گڈمڈ ہوجائیں گی، مثلاً آپ کسی ریسٹورنٹ میں جانے سے پہلے ان کے کھانوں کی خوشبو اور ذائقے کو اپنے کمپیوٹر کے ذریعے محسوس کرسکیں گے۔
-6 روبوٹ عام زندگی کا حصہ بناجائیں گے اور ان کا استعمال سرجری، سیکیورٹی اور کاروبار میں کیا جائے گا جبکہ ڈرائیور کے بغیر چلنے والی کاریں بھی عام ہوجائیں گی۔
-7 کمپیوٹروں کی مصنوعی ذہانت اس قدر زیادہ ہوجائے گی کہ وہ ہماری پسند ناپسند سے آگاہ ہوجائیں گے اور اس کے مطابق میوزک، فلمیں اور معلومات خود ہی اکٹھی کرتے رہیں گے۔
-8 دس سال بعد انٹرنیٹ کی شکل بھی بدل چکی ہوگی اور کمپیوٹروں اور موبائل فونز کے علاوہ گاڑیاں، ٹی وی، فریج، سٹریٹ لائٹیں غرضیکہ ہر طرح کی مشینیں انٹرنیٹ سے منسلک ہوچکی ہوں گی۔
یہ
اب ہم ان احادیث کی روشنی میں دجال کی قوتوں کو ایک ایک کرکے دیکھتے ہیں:
(۱) اس کا قبضہ تمام زندگی بخش وسائل مثلاً پانی، آگ اور غذا پر ہوگا۔
(۲) اس کے پاس بے تحاشا دولت اور زمین کے خزانے ہوں گے۔
(۳) اس کی دسترس تمام قدرتی وسائل پر ہوگی۔ مثلاً: بارش، فصلیں، قحط اور خشک سالی و غیرہ۔
(۴) وہ زمین پر اس طرح چلے گا جیسے ہوا بادلوں کو اُڑالے جاتی ہے۔ اس کے گدھے (سواری) کے کانوں کے درمیان ۴۰ ہاتھوں کا فاصلہ ہوگا۔
(۵) وہ ایک نقلی جنت اور دوزخ اپنے ساتھ لائے گا۔
(۶) اس کی اعانت و مدد شیاطین کریں گے۔ وہ مردہ لوگوں کی شکل میں بھی ظاہر ہوں گے اور لوگوں سے گفتگو کریں گے۔
(۷) وہ زندگی اور موت پہ (ظاہری طور پر) قدرت رکھے گا۔
(۸) زندگی اور موت پر اس کا اختیار محدود ہوگا کیونکہ وہ اس مومن کو دوبارہ نہیں کرسکے گا۔
اب آئیے! اس موضوع کی سب سے اہم بحث شروع کرتے ہیں یعنی حدیث شریف میں بیان کردہ دجال کی قوتوں کو عصر حاضر کے تناظر میں تطبیق کی اپنی سی کوشش۔ آج سے پہلے حدیث شریف میں بیان کردہ اکثر حقائق پر ایمان بالغیب کے علاوہ چارہ نہ تھا مگر جوں جوں ہم دجال کے دور طرف بڑھ رہے ہیں یہ حقائق عالم غیب سے اُتر کر عالم شہود کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ دجال مادی قوتوں پر دسترس رکھتا ہوگا اور سائنس مادہ میں پوشیدہ قوتوں کو جاننے اور کام میں لانے کا دوسرا نام ہے، لہٰذا یہودی سرمایہ داروں کے پیسے اور یہودی سائنس دانوں کی محنت سے سائنسی ایجادات جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہیں، دجال کی قوتوں کو سمجھنا آسان ہوتا جارہاہے۔ آیئے! دجال کی قوتوں کو ایک ایک کرکے عصر حاضر کے تناظر میں دیکھتے ہیں:
دجال کی طاقت:
دجال کی معاون قوتوں اور اس کے پاس موجود شیطانی طاقتوں سے آگاہی ہمیں درج ذیل احادیث سے ملتی ہے:
حدیث شریف میں آتاہے:
’’دجال کے ساتھ اصفہان کے ستر ہزار یہودی ہوں گے جو ایرانی چادریں اوڑھے ہوئے ہوں گے۔‘‘ (صحیح المسلم)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے متعلق کہا: ’’اس کے پاس آگ اور پانی ہوں گے۔ (جو) آگ (نظر آئے گی وہ) ٹھنڈا پانی ہوگا اور (جو) پانی (نظر آئے گا وہ) آگ (ہوگی)۔‘‘ (صحیح البخاری)
’’اس (دجال) کے پاس روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کا دریا ہوگا (مطلب یہ کہ اس کے پاس پانی اور غذا وافر مقدار میں ہوں گے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان باتوں کے لئے وہ نہایت حقیر ہے لیکن اللہ اسے اس کی اجازت دے گا (تا کہ لوگوں کو آزمایا جاسکے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں یا دجال پر)۔‘‘ (صحیح البخاری)
’’اور پھر دجال اپنے ساتھ ایک دریا اور آگ لے کر آئے گا۔ جو اس کی آگ میں پڑے گا، اس کو یقیناًاس کا صلہ ملے گا اور اس کا بوجھ کم کردیا جائے گا۔ لیکن جو اس کے دریا میں اترے گا، اس کا بوجھ برقرار رہے گا اور اس کا صلہ اس سے چھین لیا جائے گا۔‘‘ (سنن ابوداؤد)
’’۔۔۔ ہم نے پوچھا: ’’اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! وہ اس زمین پر کتنی تیزی سے چلے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس طرح ہوا بادلوں کو اُڑالے جاتی ہے۔‘‘ (صحیح المسلم)
’’وہ (دجال) ایک گدھے پر سوار ہوگا۔ اس (گدھے) کے کانوں کے درمیان چالیس ہاتھوں کا فاصلہ ہوگا۔‘‘ (مسند احمد)
’’اللہ تعالی اس کے ساتھ شیاطین کو بھیجے گا جو لوگوں کے ساتھ باتیں کریں گے۔‘‘ (مسند احمد)
’’وہ ایک بدّو سے کہے گا۔ اگر میں تمہارے باپ اور ماں کو تمہارے لیے دوبارہ زندہ کروں تو تم کیا کہوگے؟ کیا تم شہادت دوگے کہ میں تمہارا خدا ہوں۔ بدو کہے گا: ہاں! چنانچہ دو شیاطین اس بدو کے ماں اور باپ کے روپ میں اس کے سامنے آجائیں گے اور کہیں گے: ہمارے بیٹے اس کا حکم مانو، یہ تمہارا خدا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
’’الدجال آئے گا لیکن اس کے لیے مدینہ میں داخل ہونا ممنوع ہوگا۔ وہ مدینہ کے مضافات میں کسی بنجر (سیم زدہ) علاقے میں خیمہ زن ہوگا۔ اس دن بہترین آدمی یا بہترین لوگوں میں سے ایک اس کے پاس آئے گا اور کہے گا: میں تصدیق کرتا ہوں کہ تم وہی دجال ہو جس کا حلیہ ہمیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ الدجال لوگوں سے کہے گا: اگر میں اسے قتل کردوں اور پھر زندہ کردوں تو کیا تمہیں میرے دعویٰ میں کوئی شبہ رہے گا؟ وہ کہیں گے: نہیں! پھر الدجال اسے قتل کردے گا اور پھر اسے دوبارہ زندہ کردے گا۔ وہ آدمی کہے گا: اب میں تمہاری حقیقت کو پہلے سے زیادہ بہتر جان گیا ہوں۔ الدجال کہے گا: میں اسے قتل کرنا چاہتا ہوں لیکن ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘ (صحیح بخاری)
دولت اور خزانے:
یہ تو بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ دنیا کی معیشت کو دو ادارے ’’ورلڈ بینک‘‘ اور ’’آئی ایم ایف‘‘ (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) چلا رہے ہیں۔ یہ بھی لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کو عالمی معیشت کی نبض کہا جاتا ہے اور دنیا کی معیشت کا انحصار ان دونوں اداروں پر مانا جاتا ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ یہ ادارے کس طرح مقروض ملکوں پر دباؤ ڈال کر وسائل پر تصرف اور مقاصد پر اپنی اجارہ داری قائم کرتے ہیں۔
لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دنیا کے چلانے والے ان اداروں کو کون چلاتا ہے؟ ان کو ’’انٹرنیشنل بینکرز‘‘ کا گروپ چلاتا ہے اور اس گروپ کو فری میسنری کے ’’بگ برادرز‘‘ چلاتے ہیں جو دجال کے عالمی اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے کی معیشت کو قابو میں رکھنے کے لیے سرگرم ہیں۔ کچھ عرصے پہلے ایک کتاب چھپی تھی: ’’کار پوریشنز کی حکومت‘‘ یہ ایک امریکی جوڑے نے لکھی ہے جو بیرونِ امریکا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی انسانیت سوز کار روائیوں کو قریب سے دیکھتے رہے اور آخر کار اس بات پر مجبور ہوئے کہ نوکری چھوڑ چھاڑ کر امریکا واپس جائیں اور اپنے ہم وطنوں کو ’’نادیدہ قوتوں‘‘ کی کارستانیوں سے آگاہ کریں۔ انہوں نے کرنسی نوٹ کے متعلق لکھا کہ آہستہ آہستہ یہ بھی ختم ہوجائے گا۔ اس کی جگہ کریڈیٹ کارڈ نے لے لی ہے۔ پھر کریڈیٹ کارڈ بھی ختم ہوجائے گا لوگ کمپیوٹر کے ذریعے اعداد و شمار برابر سرابر کریں گے اور بس! ہاتھ میں کچھ بھی نہ ہوگا۔ بندہ ایک عرصے تک اس جادوئی طلسم کے بارے میں سوچتا رہا کہ اگر نمبروں کا کھیل ہی چیزوں اور خدمات کے حصول کا ذریعہ بن جائے گا تو پھر یہ دنیا آسان ہوگی یا مشکل؟ نیز اس سے یہود کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں جو کرنسی کے پیچھے سونے کے خاتمے سے لے کر اسٹاک ایکسچینج میں سود اور جوئے کی ترویج تک ہر چیز میں ملوث ہیں۔
تفکر اور مطالعہ جاری تھا کہ ’’ماسٹرز‘‘ کا بنایا ہوا یہ منصوبہ ہاتھ لگا۔ آپ بھی سوچیے اور غور کیجیے کہ علمائے کرام جب غیرشرعی معاملات کے خطرناک نتائج یا مسلم دُشمن طاقتوں کی پالیسی سے آگاہ کریں اور اس کو نہ مانا جائے تو آنے والی دنیا کا منظرنامہ کیا ہوگا:
’’سینٹرل بینک، بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ اور ورلڈ بینک‘‘ کام کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ پرائیویٹ بینک غیر قانونی ہوں گے۔ بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ (BIS) منظر میں غالب ہیں۔ پرائیویٹ بینک، ’’بڑے دس بینکوں‘‘ کی تیاری میں تحلیل ہورہے ہیں۔ یہ بڑے بینک دنیا بھر میں بینکاری پر BIS اور آئی ایم ایف کی رہنمائی میں کنٹرول کریں گے۔ اجرتوں کے تنازعات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نہ ہی انحراف کی اجازت دی جائے گی۔ جو بھی قانون توڑے گا اسے سزائے موت دے دی جائے گی۔ طبقہ اشرفیہ کے علاوہ کسی کے ہاتھوں میں نقدی یا سکے نہیں دیے جائیں گے۔ تمام لین دین صرف اور صرف کریڈیٹ کارڈ کے ذریعے ہوگا (اور آخر اسے مائیکرو چپ پلانٹیشن کے ذریعے کیا جائے گا) ’’قانون توڑنے والوں‘‘ کے کریڈیٹ کارڈ معطل کردیے جائیں گے۔ جب ایسے لوگ خریداری کے لیے جائیں گے تو انہیں پتا چلے گا کہ ان کا کارڈ بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔ وہ خریداری یا خدمات حاصل نہیں کرسکیں گے۔ پرانے سکوں (یعنی موجودہ کرنسیوں) سے تجارت کو غیرمعمولی جرم قرار دیا جائے گا اور اس کی سزا موت ہوگی۔
ایسے قانون شکن عناصر جو خود کو مخصوص مدت کے دوران پولیس کے حوالے کرنے میں ناکام رہیں ان کی جگہ سزائے قید
نیویارک (نیوز ڈیسک) پچھلی چند دہائیوں میں سائنس نے جس رفتار سے ترقی کی ہے وہ حیرت انگیز ہے اورامیدکی جاسکتی ہے کہ آنے والی دہائی میں یہ رفتار اس قدر تیز ہوگی کہ 2025ءمیں دنیا کی شکل بالکل تبدیل ہوچکی ہوگی۔ سائنسدانوں نے آج سے 10سال بعد کی دنیا کا نقشہ کچھ یوں پیش کیا ہے۔
-1 کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ 2025ءتک نیورو سائنس اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی اس قدر ترقی کرجائے گی کہ انسانی دماغ کی صلاحیت کئی گنا بڑھ جائے گی اور قدرتی اور مصنوعی اعضاءکے امتزاج والے انسان وجود میں آجائیں گے جنہیں ہیومن 2.2 اور ہیومن 3.0 کا نام دیا جارہا ہے۔
-2 آنے والے 10 سال میں دنیا کے تقریباً 25 ممالک تیز رفتار ترین ملک میں مدغم ہوجائیں گے اور دنیا پر بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا غلبہ ہوگا۔
-3 دنیا کا مالی نظام موجود کرنسی کی بجائے ڈیجیٹل کرنسی استعمال کی بجائے ڈیجیٹل کرنسی استعمال کرے گا اور عام افراد ملکی کی بجائے علاقائی اور بین الاقوامی سطح تک مالی نظام سے منسلک ہوجائیں گے۔
-4 دماغ کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے کی ٹیکنالوجی حقیقی شکل اختیار کرلے گی اور لوگ اپنی یادداشت اور دماغی ساخت کو انٹرنیٹ پر محفوظ کرسکیں گے تاکہ جسمانی موت کے بعد بھی زندہ رہ سکیں۔
-5 حقیقی زندگی اور ورچوئل رئیلٹی گڈمڈ ہوجائیں گی، مثلاً آپ کسی ریسٹورنٹ میں جانے سے پہلے ان کے کھانوں کی خوشبو اور ذائقے کو اپنے کمپیوٹر کے ذریعے محسوس کرسکیں گے۔
-6 روبوٹ عام زندگی کا حصہ بناجائیں گے اور ان کا استعمال سرجری، سیکیورٹی اور کاروبار میں کیا جائے گا جبکہ ڈرائیور کے بغیر چلنے والی کاریں بھی عام ہوجائیں گی۔
-7 کمپیوٹروں کی مصنوعی ذہانت اس قدر زیادہ ہوجائے گی کہ وہ ہماری پسند ناپسند سے آگاہ ہوجائیں گے اور اس کے مطابق میوزک، فلمیں اور معلومات خود ہی اکٹھی کرتے رہیں گے۔
-8 دس سال بعد انٹرنیٹ کی شکل بھی بدل چکی ہوگی اور کمپیوٹروں اور موبائل فونز کے علاوہ گاڑیاں، ٹی وی، فریج، سٹریٹ لائٹیں غرضیکہ ہر طرح کی مشینیں انٹرنیٹ سے منسلک ہوچکی ہوں گی۔
یہ
اب ہم ان احادیث کی روشنی میں دجال کی قوتوں کو ایک ایک کرکے دیکھتے ہیں:
(۱) اس کا قبضہ تمام زندگی بخش وسائل مثلاً پانی، آگ اور غذا پر ہوگا۔
(۲) اس کے پاس بے تحاشا دولت اور زمین کے خزانے ہوں گے۔
(۳) اس کی دسترس تمام قدرتی وسائل پر ہوگی۔ مثلاً: بارش، فصلیں، قحط اور خشک سالی و غیرہ۔
(۴) وہ زمین پر اس طرح چلے گا جیسے ہوا بادلوں کو اُڑالے جاتی ہے۔ اس کے گدھے (سواری) کے کانوں کے درمیان ۴۰ ہاتھوں کا فاصلہ ہوگا۔
(۵) وہ ایک نقلی جنت اور دوزخ اپنے ساتھ لائے گا۔
(۶) اس کی اعانت و مدد شیاطین کریں گے۔ وہ مردہ لوگوں کی شکل میں بھی ظاہر ہوں گے اور لوگوں سے گفتگو کریں گے۔
(۷) وہ زندگی اور موت پہ (ظاہری طور پر) قدرت رکھے گا۔
(۸) زندگی اور موت پر اس کا اختیار محدود ہوگا کیونکہ وہ اس مومن کو دوبارہ نہیں کرسکے گا۔
اب آئیے! اس موضوع کی سب سے اہم بحث شروع کرتے ہیں یعنی حدیث شریف میں بیان کردہ دجال کی قوتوں کو عصر حاضر کے تناظر میں تطبیق کی اپنی سی کوشش۔ آج سے پہلے حدیث شریف میں بیان کردہ اکثر حقائق پر ایمان بالغیب کے علاوہ چارہ نہ تھا مگر جوں جوں ہم دجال کے دور طرف بڑھ رہے ہیں یہ حقائق عالم غیب سے اُتر کر عالم شہود کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ دجال مادی قوتوں پر دسترس رکھتا ہوگا اور سائنس مادہ میں پوشیدہ قوتوں کو جاننے اور کام میں لانے کا دوسرا نام ہے، لہٰذا یہودی سرمایہ داروں کے پیسے اور یہودی سائنس دانوں کی محنت سے سائنسی ایجادات جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہیں، دجال کی قوتوں کو سمجھنا آسان ہوتا جارہاہے۔ آیئے! دجال کی قوتوں کو ایک ایک کرکے عصر حاضر کے تناظر میں دیکھتے ہیں:
دجال کی طاقت:
دجال کی معاون قوتوں اور اس کے پاس موجود شیطانی طاقتوں سے آگاہی ہمیں درج ذیل احادیث سے ملتی ہے:
حدیث شریف میں آتاہے:
’’دجال کے ساتھ اصفہان کے ستر ہزار یہودی ہوں گے جو ایرانی چادریں اوڑھے ہوئے ہوں گے۔‘‘ (صحیح المسلم)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے متعلق کہا: ’’اس کے پاس آگ اور پانی ہوں گے۔ (جو) آگ (نظر آئے گی وہ) ٹھنڈا پانی ہوگا اور (جو) پانی (نظر آئے گا وہ) آگ (ہوگی)۔‘‘ (صحیح البخاری)
’’اس (دجال) کے پاس روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کا دریا ہوگا (مطلب یہ کہ اس کے پاس پانی اور غذا وافر مقدار میں ہوں گے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان باتوں کے لئے وہ نہایت حقیر ہے لیکن اللہ اسے اس کی اجازت دے گا (تا کہ لوگوں کو آزمایا جاسکے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں یا دجال پر)۔‘‘ (صحیح البخاری)
’’اور پھر دجال اپنے ساتھ ایک دریا اور آگ لے کر آئے گا۔ جو اس کی آگ میں پڑے گا، اس کو یقیناًاس کا صلہ ملے گا اور اس کا بوجھ کم کردیا جائے گا۔ لیکن جو اس کے دریا میں اترے گا، اس کا بوجھ برقرار رہے گا اور اس کا صلہ اس سے چھین لیا جائے گا۔‘‘ (سنن ابوداؤد)
’’۔۔۔ ہم نے پوچھا: ’’اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! وہ اس زمین پر کتنی تیزی سے چلے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس طرح ہوا بادلوں کو اُڑالے جاتی ہے۔‘‘ (صحیح المسلم)
’’وہ (دجال) ایک گدھے پر سوار ہوگا۔ اس (گدھے) کے کانوں کے درمیان چالیس ہاتھوں کا فاصلہ ہوگا۔‘‘ (مسند احمد)
’’اللہ تعالی اس کے ساتھ شیاطین کو بھیجے گا جو لوگوں کے ساتھ باتیں کریں گے۔‘‘ (مسند احمد)
’’وہ ایک بدّو سے کہے گا۔ اگر میں تمہارے باپ اور ماں کو تمہارے لیے دوبارہ زندہ کروں تو تم کیا کہوگے؟ کیا تم شہادت دوگے کہ میں تمہارا خدا ہوں۔ بدو کہے گا: ہاں! چنانچہ دو شیاطین اس بدو کے ماں اور باپ کے روپ میں اس کے سامنے آجائیں گے اور کہیں گے: ہمارے بیٹے اس کا حکم مانو، یہ تمہارا خدا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
’’الدجال آئے گا لیکن اس کے لیے مدینہ میں داخل ہونا ممنوع ہوگا۔ وہ مدینہ کے مضافات میں کسی بنجر (سیم زدہ) علاقے میں خیمہ زن ہوگا۔ اس دن بہترین آدمی یا بہترین لوگوں میں سے ایک اس کے پاس آئے گا اور کہے گا: میں تصدیق کرتا ہوں کہ تم وہی دجال ہو جس کا حلیہ ہمیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ الدجال لوگوں سے کہے گا: اگر میں اسے قتل کردوں اور پھر زندہ کردوں تو کیا تمہیں میرے دعویٰ میں کوئی شبہ رہے گا؟ وہ کہیں گے: نہیں! پھر الدجال اسے قتل کردے گا اور پھر اسے دوبارہ زندہ کردے گا۔ وہ آدمی کہے گا: اب میں تمہاری حقیقت کو پہلے سے زیادہ بہتر جان گیا ہوں۔ الدجال کہے گا: میں اسے قتل کرنا چاہتا ہوں لیکن ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘ (صحیح بخاری)
دولت اور خزانے:
یہ تو بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ دنیا کی معیشت کو دو ادارے ’’ورلڈ بینک‘‘ اور ’’آئی ایم ایف‘‘ (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) چلا رہے ہیں۔ یہ بھی لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کو عالمی معیشت کی نبض کہا جاتا ہے اور دنیا کی معیشت کا انحصار ان دونوں اداروں پر مانا جاتا ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ یہ ادارے کس طرح مقروض ملکوں پر دباؤ ڈال کر وسائل پر تصرف اور مقاصد پر اپنی اجارہ داری قائم کرتے ہیں۔
لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دنیا کے چلانے والے ان اداروں کو کون چلاتا ہے؟ ان کو ’’انٹرنیشنل بینکرز‘‘ کا گروپ چلاتا ہے اور اس گروپ کو فری میسنری کے ’’بگ برادرز‘‘ چلاتے ہیں جو دجال کے عالمی اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے کی معیشت کو قابو میں رکھنے کے لیے سرگرم ہیں۔ کچھ عرصے پہلے ایک کتاب چھپی تھی: ’’کار پوریشنز کی حکومت‘‘ یہ ایک امریکی جوڑے نے لکھی ہے جو بیرونِ امریکا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی انسانیت سوز کار روائیوں کو قریب سے دیکھتے رہے اور آخر کار اس بات پر مجبور ہوئے کہ نوکری چھوڑ چھاڑ کر امریکا واپس جائیں اور اپنے ہم وطنوں کو ’’نادیدہ قوتوں‘‘ کی کارستانیوں سے آگاہ کریں۔ انہوں نے کرنسی نوٹ کے متعلق لکھا کہ آہستہ آہستہ یہ بھی ختم ہوجائے گا۔ اس کی جگہ کریڈیٹ کارڈ نے لے لی ہے۔ پھر کریڈیٹ کارڈ بھی ختم ہوجائے گا لوگ کمپیوٹر کے ذریعے اعداد و شمار برابر سرابر کریں گے اور بس! ہاتھ میں کچھ بھی نہ ہوگا۔ بندہ ایک عرصے تک اس جادوئی طلسم کے بارے میں سوچتا رہا کہ اگر نمبروں کا کھیل ہی چیزوں اور خدمات کے حصول کا ذریعہ بن جائے گا تو پھر یہ دنیا آسان ہوگی یا مشکل؟ نیز اس سے یہود کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں جو کرنسی کے پیچھے سونے کے خاتمے سے لے کر اسٹاک ایکسچینج میں سود اور جوئے کی ترویج تک ہر چیز میں ملوث ہیں۔
تفکر اور مطالعہ جاری تھا کہ ’’ماسٹرز‘‘ کا بنایا ہوا یہ منصوبہ ہاتھ لگا۔ آپ بھی سوچیے اور غور کیجیے کہ علمائے کرام جب غیرشرعی معاملات کے خطرناک نتائج یا مسلم دُشمن طاقتوں کی پالیسی سے آگاہ کریں اور اس کو نہ مانا جائے تو آنے والی دنیا کا منظرنامہ کیا ہوگا:
’’سینٹرل بینک، بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ اور ورلڈ بینک‘‘ کام کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ پرائیویٹ بینک غیر قانونی ہوں گے۔ بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ (BIS) منظر میں غالب ہیں۔ پرائیویٹ بینک، ’’بڑے دس بینکوں‘‘ کی تیاری میں تحلیل ہورہے ہیں۔ یہ بڑے بینک دنیا بھر میں بینکاری پر BIS اور آئی ایم ایف کی رہنمائی میں کنٹرول کریں گے۔ اجرتوں کے تنازعات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نہ ہی انحراف کی اجازت دی جائے گی۔ جو بھی قانون توڑے گا اسے سزائے موت دے دی جائے گی۔ طبقہ اشرفیہ کے علاوہ کسی کے ہاتھوں میں نقدی یا سکے نہیں دیے جائیں گے۔ تمام لین دین صرف اور صرف کریڈیٹ کارڈ کے ذریعے ہوگا (اور آخر اسے مائیکرو چپ پلانٹیشن کے ذریعے کیا جائے گا) ’’قانون توڑنے والوں‘‘ کے کریڈیٹ کارڈ معطل کردیے جائیں گے۔ جب ایسے لوگ خریداری کے لیے جائیں گے تو انہیں پتا چلے گا کہ ان کا کارڈ بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔ وہ خریداری یا خدمات حاصل نہیں کرسکیں گے۔ پرانے سکوں (یعنی موجودہ کرنسیوں) سے تجارت کو غیرمعمولی جرم قرار دیا جائے گا اور اس کی سزا موت ہوگی۔
ایسے قانون شکن عناصر جو خود کو مخصوص مدت کے دوران پولیس کے حوالے کرنے میں ناکام رہیں ان کی جگہ سزائے قید