ام اویس
رکن
- شمولیت
- جون 29، 2016
- پیغامات
- 171
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 64
کافر
إِنَّ ۔ الَّذِينَ ۔ كَفَرُوا ۔ سَوَاءٌ ۔ عَلَيْهِمْ ۔ أَ ۔ أَنذَرْتَهُمْ ۔ أَمْ ۔ لَمْ ۔ تُنذِرْهُمْ۔ لَا ۔ يُؤْمِنُونَ
بے شک ۔ جو لوگ ۔ کافر ہیں ۔ برابر ہے ۔ اُن پر ۔ کیا ۔ آپ ڈرائیں اُن کو ۔ یا ۔ نہ ۔ آپ ڈرائیں اُن کو ۔ نہیں ۔ وہ ایمان لائیں گے
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
بےشک جن لوگوں نے کفر کیا ۔ برابر ہے اُن کے لئے آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ نہیں ایمان لائیں گے ۔
۔۔۔
کفروا ۔۔۔ جو انکار کرتے ہیں ۔ یہ لفظ کفر سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چھپانا ۔ نا شُکری کو بھی کفر اس لئے کہتے ہیں ۔ کہ محسن کے احسان کو چھپانا ہے ۔ شریعت میں جن چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے ۔ ان میں سے کسی کا انکار کرنا کفر کہلاتا ہے ۔ کافر اسے کہتے ہیں جو حق کا منکر اور مخالف ہو ۔ اور الله جل شانہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو نہ مانتا ہو ۔
سورہ بقرہ کی پہلی پانچ آیتوں میں قرآن مجید کا کتاب ہدایت اور ہر شک و شبہ سے پاک ہونے کابیان ہے ۔ اور ساتھ ہی اُن خوش نصیب لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے اس کتاب کی ہدایت سے پورا فائدہ اُٹھایا ۔ جنہیں الله جل شانہ نے مؤمنین اور متقین کا لقب دیا ۔ اور اُن کی خاص خاص صفتیں اور علامتیں بھی بیان کر دیں ۔
الله تعالی نے جب فلاح حاصل کرنے والے متقیوں کا حال اور اُن کی کامیابیوں کا ذکر فرمایا ہے ۔ تو ضروری ہے کہ منکروں اور کافروں کا حال اور انجام بھی بیان کیا جائے ۔ تاکہ دونوں کا فرق واضح ہو جائے ۔ اور پرہیز گاروں اور نیکو کاروں کا مرتبہ روشن ہو جائے ۔
اس آیت سے ایسے لوگوں کا ذکر شروع ہوا جو ایمان والوں کی بالکل ضد واقع ہوئے ہیں ۔ دل سے بھی اسلام کے دشمن ہیں اور اپنا وقت ، قوت ، دولت غرض ہر چیز اسلام کی مخالفت میں لگاتے ہیں ۔ ایسے لوگ دلیلیں سامنے آنے کے باوجود کفر پر آڑے رہتے ہیں ۔ حق قبول کرنے کی صلاحیت مسلسل انکار اور مخالفت کی وجہ سے کمزور ہوتی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ بالکل ختم ہو جاتی ہے ۔ اس حالت میں نبی کریم صلی الله علیہ وسم کا انہیں ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے ۔
اِنْذار ۔۔۔ ایسی خبر دینا جس سے خوف پیدا ہو ۔ اردو زبان میں اس کا ترجمہ " ڈرانے " سے کیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت میں مطلقاً ڈرانے کو انذار نہیں کہتے ۔ بلکہ ایسا ڈرانا جو شفقت اور رحمت کی وجہ سے ہو ۔ جیسے بچوں کو سانپ ، بچھو یا جانور وغیرہ سے ڈراتے ہیں ۔ اسی لئے جو چور ، ڈاکو یا ظالم کسی انسان کو ڈراتے ہیں اسے انذار نہیں کہا جاتا ۔ نہ ایسے لوگوں کو نذیر کہتے ہیں ۔
صرف انبیاء علیھم السلام کو نذیر کا لقب دیا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ شفقت ومحبت کی وجہ سے آئندہ آنے والی تکلیفوں سے ڈراتے ہیں ۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ سب لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہو جائیں ۔ اس آیت میں آلله جل شانہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم تسلی دینے کے لئے یہ حقیقت بتائی کہ آپ خواہ کچھ کریں ۔ یہ حق کو ماننے کی صلاحیت کھو چکے ہیں ۔
یہ جو کہا گیا ہے کہ " رسول الله صلی الله علیہ وسلم آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔ " یہ خبر فیصلے کی صورت میں نہیں ہے ۔ بلکہ اُن کے مسلسل انکار اور مخالفت کے نتیجے کا اظہار اور اعلان ہے ۔ الله تعالی نے ہر شخص میں حق قبول کرنے کی صلاحیت رکھی ہے ۔ لیکن جو لوگ ذاتی فائدوں ، کوہ تانظری ، غلط تعلیم یا بُری صحبت کی وجہ سے سچائی کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اُن میں حق قبول کرنے کی قوت آہستہ آہستہ باقی نہیں رہتی ۔ یہ برابری کفار کے لئے ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو تو تبلیغ و تعلیم اور اصلاحِ انسانیت کی کوشش کا ثواب ہر حال میں ملے گا ۔ اسی لئے پورے قرآن مجید میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایسے لوگوں کو ایمان کی دعوت دینے سے روکا نہیں گیا ۔ اس سے معلوم ہوا جو شخص دعوت وتبلیغ کا کام کرتا ہے ۔ اُس کا اثر ہو یا نہ ہو ۔ اس شخص کو ہر حا ل میں اپنے عمل کا ثواب ملتا ہے ۔
اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ تلاش حق کی جو قوت ہمارے اندر فطری طور پر موجود ہے ۔اس کو ضائع نہ ہونے دیں ۔ ہمیشہ حق اور صداقت کی جستجو میں لگے رہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ حق کی تعلیم عام کریں ۔ اور اس خوش اسلوبی اور حکمت سے الله تعالی کا پیغام بندوں تک پہنچائیں ۔ کہ ان کے دلوں میں نرمی اور الله تعالی کا خوف پیدا ہو ۔
مأخذ
درس قرآن
معارف القرآن