• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درسِ قرآن۔ سورة بقرہ: پہلی سو آیات

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
کافر


إِنَّ ۔ الَّذِينَ ۔ كَفَرُوا ۔ سَوَاءٌ ۔ عَلَيْهِمْ ۔ أَ ۔ أَنذَرْتَهُمْ ۔ أَمْ ۔ لَمْ ۔ تُنذِرْهُمْ۔ لَا ۔ يُؤْمِنُونَ 6️⃣

بے شک ۔ جو لوگ ۔ کافر ہیں ۔ برابر ہے ۔ اُن پر ۔ کیا ۔ آپ ڈرائیں اُن کو ۔ یا ۔ نہ ۔ آپ ڈرائیں اُن کو ۔ نہیں ۔ وہ ایمان لائیں گے

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ 6️⃣

بےشک جن لوگوں نے کفر کیا ۔ برابر ہے اُن کے لئے آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ نہیں ایمان لائیں گے ۔
۔۔۔
کفروا ۔۔۔ جو انکار کرتے ہیں ۔ یہ لفظ کفر سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چھپانا ۔ نا شُکری کو بھی کفر اس لئے کہتے ہیں ۔ کہ محسن کے احسان کو چھپانا ہے ۔ شریعت میں جن چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے ۔ ان میں سے کسی کا انکار کرنا کفر کہلاتا ہے ۔ کافر اسے کہتے ہیں جو حق کا منکر اور مخالف ہو ۔ اور الله جل شانہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو نہ مانتا ہو ۔
سورہ بقرہ کی پہلی پانچ آیتوں میں قرآن مجید کا کتاب ہدایت اور ہر شک و شبہ سے پاک ہونے کابیان ہے ۔ اور ساتھ ہی اُن خوش نصیب لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے اس کتاب کی ہدایت سے پورا فائدہ اُٹھایا ۔ جنہیں الله جل شانہ نے مؤمنین اور متقین کا لقب دیا ۔ اور اُن کی خاص خاص صفتیں اور علامتیں بھی بیان کر دیں ۔
الله تعالی نے جب فلاح حاصل کرنے والے متقیوں کا حال اور اُن کی کامیابیوں کا ذکر فرمایا ہے ۔ تو ضروری ہے کہ منکروں اور کافروں کا حال اور انجام بھی بیان کیا جائے ۔ تاکہ دونوں کا فرق واضح ہو جائے ۔ اور پرہیز گاروں اور نیکو کاروں کا مرتبہ روشن ہو جائے ۔
اس آیت سے ایسے لوگوں کا ذکر شروع ہوا جو ایمان والوں کی بالکل ضد واقع ہوئے ہیں ۔ دل سے بھی اسلام کے دشمن ہیں اور اپنا وقت ، قوت ، دولت غرض ہر چیز اسلام کی مخالفت میں لگاتے ہیں ۔ ایسے لوگ دلیلیں سامنے آنے کے باوجود کفر پر آڑے رہتے ہیں ۔ حق قبول کرنے کی صلاحیت مسلسل انکار اور مخالفت کی وجہ سے کمزور ہوتی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ بالکل ختم ہو جاتی ہے ۔ اس حالت میں نبی کریم صلی الله علیہ وسم کا انہیں ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے ۔
اِنْذار ۔۔۔ ایسی خبر دینا جس سے خوف پیدا ہو ۔ اردو زبان میں اس کا ترجمہ " ڈرانے " سے کیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت میں مطلقاً ڈرانے کو انذار نہیں کہتے ۔ بلکہ ایسا ڈرانا جو شفقت اور رحمت کی وجہ سے ہو ۔ جیسے بچوں کو سانپ ، بچھو یا جانور وغیرہ سے ڈراتے ہیں ۔ اسی لئے جو چور ، ڈاکو یا ظالم کسی انسان کو ڈراتے ہیں اسے انذار نہیں کہا جاتا ۔ نہ ایسے لوگوں کو نذیر کہتے ہیں ۔
صرف انبیاء علیھم السلام کو نذیر کا لقب دیا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ شفقت ومحبت کی وجہ سے آئندہ آنے والی تکلیفوں سے ڈراتے ہیں ۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ سب لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہو جائیں ۔ اس آیت میں آلله جل شانہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم تسلی دینے کے لئے یہ حقیقت بتائی کہ آپ خواہ کچھ کریں ۔ یہ حق کو ماننے کی صلاحیت کھو چکے ہیں ۔
یہ جو کہا گیا ہے کہ " رسول الله صلی الله علیہ وسلم آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔ " یہ خبر فیصلے کی صورت میں نہیں ہے ۔ بلکہ اُن کے مسلسل انکار اور مخالفت کے نتیجے کا اظہار اور اعلان ہے ۔ الله تعالی نے ہر شخص میں حق قبول کرنے کی صلاحیت رکھی ہے ۔ لیکن جو لوگ ذاتی فائدوں ، کوہ تانظری ، غلط تعلیم یا بُری صحبت کی وجہ سے سچائی کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اُن میں حق قبول کرنے کی قوت آہستہ آہستہ باقی نہیں رہتی ۔ یہ برابری کفار کے لئے ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو تو تبلیغ و تعلیم اور اصلاحِ انسانیت کی کوشش کا ثواب ہر حال میں ملے گا ۔ اسی لئے پورے قرآن مجید میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایسے لوگوں کو ایمان کی دعوت دینے سے روکا نہیں گیا ۔ اس سے معلوم ہوا جو شخص دعوت وتبلیغ کا کام کرتا ہے ۔ اُس کا اثر ہو یا نہ ہو ۔ اس شخص کو ہر حا ل میں اپنے عمل کا ثواب ملتا ہے ۔
اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ تلاش حق کی جو قوت ہمارے اندر فطری طور پر موجود ہے ۔اس کو ضائع نہ ہونے دیں ۔ ہمیشہ حق اور صداقت کی جستجو میں لگے رہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ حق کی تعلیم عام کریں ۔ اور اس خوش اسلوبی اور حکمت سے الله تعالی کا پیغام بندوں تک پہنچائیں ۔ کہ ان کے دلوں میں نرمی اور الله تعالی کا خوف پیدا ہو ۔

مأخذ

درس قرآن
معارف القرآن
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
کفر کا نتیجہ

خَتَمَ اللَّهُ۔ عَلَى۔ قُلُوبِهِمْ وَ۔ عَلَى سَمْعِهِمْ۔ وَعَلَى۔ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُم۔ عَذَابٌ۔ عَظِيمٌ7️⃣

مہر لگا دی ۔ الله تعالی نے ۔پر ۔ اُن کے دلوں اور ۔ پر ۔ اُن کے کان ۔ اور پر ۔ اُنکی آنکھیں ۔ پردہ ۔ اور ان کے لئے ۔ عذاب۔ بڑا

خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

الله تعالی نے اُن کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ۔ اور اُن کی آنکھوں پر پردہ ہے اور اُن کے لئے بہت بڑا عذاب ہے ۔
خَتَمَ ۔۔۔ مُہر لگا دی ۔ اس سے مراد وہ نتیجہ ہے جو مسلسل انکار اور مخالفت حق سے پیدا ہوتا ہے ۔ مہر لگانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس پر مہر لگائی گئی ہے ۔ باہر سے کوئی چیز اس کے اندر نہ جا سکے اور اندر سے کوئی چیز باہر نہ آسکے ۔ مثلا دل پر مہر لگ جائے تو نہ حق بات دل میں داخل ہو سکتی ہے ۔ اور نہ کسی اچھی بات کے اظہار کی جرأت رہتی ہے ۔
قُلُوبِھِم ۔ اُن کے دل ۔ یہ قلب کی جمع ہے ۔ یہاں قلب سے مراد گوشت کا ٹکرا نہیں بلکہ وہ قوّت ہے جو شعورِعقل اور ارادے کی بنیاد ہے ۔

سَمْعِھِم ۔۔۔ اُن کے کان ۔ سمع کے معنی سننے کی قوت ہے اور مراد ہے کان ۔

اَبْصارِھِمْ ۔۔۔ ان کی آنکھیں ۔ ابصار کا واحد بصر ہے اور اس سے مراد دیکھنے کی قوت ہے ۔

غِشَاوَہ ۔۔۔ پردہ ۔ یہ لفظ غَشِیٌّ سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ڈھانپنا ہیں ۔ یہاں مراد وہ پردۂ غفلت ہے جو حق کی نشانیاں دیکھ کر بھی حق کو ماننے کے درمیان میں آجاتا ہے ۔
دنیا میں ہر چیز کے لئے یہ قانون ہے ۔ کہ جب کوئی قوت مسلسل طور پر کام میں نہ لائی جائے تو آخرکار وہ اپنا عمل چھوڑ دیتی ہے ۔ یہی حال حق بات کو سمجھنے اور دیکھنے کی قوّتوں کا ہے ۔ اگر انہیں مسلسل بے کار رکھا جائے ۔ تو الله تعالی کا یہ فطری قانون یہاں بھی نافذ ہوتا ہے ۔ اسی قانون کے جاری ہونے کا ذکر اس آیہ میں کیا گیا ہے ۔
الله تعالی کی طرف سے مہر لگ جانے کا عمل انسان کے جان بوجھ کر کفر اختیار کرنے اور اس پر اصرار کرنے کے بعد ہوتا ہے
۔ ہر شخص کو الله تعالی کی طرف سے صحیح فطرت عطا ہوئی ہے ۔ اور اس میں الله تعالی کی نشانیوں پر غور کرنے کی قوّت بھی شامل ہے ۔ لیکن جب اپنی قوتوں کا غلط استعمال کرنے لگتا ہے ۔ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے منہ موڑ کر شیطان کے پیچھے چلنے کا ارادہ کر لیتا ہے ۔ تو وہ دینِ اسلام کے رحمت کے سلسلے سے نکل جاتا ہے ۔ اور الله تعالی کی مدد اُس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے ۔ اور اب وہ غلط راستے ہی کو سیدھا راستہ سمجھنے لگ جاتا ہے ۔
کفر اور ہر گناہ کی اصل سزا تو آخرت میں ملے گی ۔ لیکن بعض گناہوں کی کچھ سزا اس دُنیا میں بھی مل جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں اصلاح کی توفیق ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ انسان آخرت کے حساب و کتاب سے بے خبر ہو کر اپنی نافرمانیوں اور گناہوں میں بڑھتا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ بُرائی کا احساس بھی اس کے دل سے ختم ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ گناہ کی ایک سزایہ بھی ہوتی ہے کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کی طرف لے جاتا ہے ۔ جس طرح نیکی کا فوری بدلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نیکی دوسری نیکی کو کھینچ لاتی ہے ۔
حدیث مبارکہ ہے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مفہوم ۔ کہ انسان جب گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے ۔ پھر اگر وہ توبہ کر لے تو صاف ہو جاتا ہے ۔ ( ترمذی بروایت ابو ہریرہ رضی الله عنہ ) ۔
ظاہر ہے جس طرح زہر کھانے کا قدرتی نتیجہ موت ہے ۔ اسی طرح الله تعالی کے حکموں کی جان بوجھ کر نافرمانی روحانی موت کی وجہ بن جاتی ہے ۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں انسانی زندگی موت کے بعد ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے جو اس دنیا کی زندگی کا نتیجہ ہے ۔ اس دُنیا میں مسلسل نافرمانی سزا کے طور پر ایک بہت بڑے عذاب کی شکل میں ظاہر ہو گی ۔
اللہ تعالی ہمیں دنیا اور آخرت کے ہر طرح کے عذاب سے محفوظ رکھے
ماخذ ۔۔۔
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
معارف القرآن
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
منافقوں کا دعوٰی ایمانی

وَ ۔ مِنَ ۔النَّاسِ ۔ مَن ۔ يَقُولُ ۔ آمَنَّا ۔ بِاللَّهِ۔ ۔ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ ۔ وَمَا ۔ هُم ۔ بِمُؤْمِنِينَ۔ 8️⃣م

اور۔ سے ۔ لوگوں ۔ جو ۔ وہ کہتا ہے ۔ ہم ایمان لاتے ہیں ۔ الله تعالی پر ۔ اور آخرت کے دن پر ۔ اور نہیں ۔ وہ ۔ ایمان والے ۔

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ۔ 8️⃣م

اور کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہم الله تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں حالانکہ وہ ایما ن والے نہیں ہیں ۔

اب تک الله تعالی نے قرآن مجید میں دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے ۔ ایک الله جل شانہ کے قانون کے فرمانبردار مومن ۔ اور دوسرے قانونِ الٰہی کا انکار کرنے والے کافر ۔ اب تیسری قسم کے لوگوں کا ذکر شروع ہو رہا ہے ۔ یہ لوگ بھی اسلام کے مخالف اور دشمن ہی ہیں مگر یہ اپنے کفر اور دشمنی پر فریب کا پردہ ڈالے رکھتے ہیں ۔ زبان پر اسلام کا دعوٰی رکھتے ہیں لیکن دل میں کفر ۔ انہیں قرآن مجید کی اصطلاح میں مُنافق کہا گیا ہے ۔ نفاق یہ ہے کہ انسان اعلان تو نیکی اور اسلام کا کرتا پھرے لیکن دل میں بدی اور کفر چھپائے رکھے ۔
اسلام نے جب ایمان بالله اور ایمان بالاخرہ کے عقیدوں کا اعلان کیا ۔ تو جس کو مسلمان بننا منظور ہوتا اُس کے لئے ان دونوں عقیدوں کو ماننا ضروری تھا ۔ چنانچہ مدینہ طیبہ کے لوگوں کےایک خاص گروہ نے انہی دو عقیدوں کا اظہار کر کے چاہا کہ مسلمانوں میں شامل ہو جائیں ۔ وہ مسلمانوں میں شامل کر لئے گئے ۔ لیکن اُن کے دل صاف نہ تھے ۔ اُن کی چالوں سے بچنا ضروری تھا ۔ اس لئے الله تعالی نے قرآن مجید میں خبر دے دی کہ یہ لوگ ان عقیدوں کو دل سے نہیں مانتے ۔ اس لئے مسلمانوں کو ان سے خبردار رہنا چاہئے ۔
معلوم یہ ہوا کہ اس زمانے میں منافق کی علامت یہ تھی کہ وہ زبان سے اسلام کے ان دونوں عقیدوں پر اپنے ایمان کا دعوٰی کرتے تھے ۔ لیکن دل سے انہیں نہیں مانتے تھے ۔ اگر آج بھی کسی کا ظاہر اور باطن ایک نہ ہو ۔ تو اسے اپنے طور پر خود اپنا محاسبہ کر لینا چاہئے ۔ جب تک زبان اور دل ایک نہ ہوں ۔ اس وقت تک ایمان مکمل نہیں ہوتا ۔ بلکہ یہ حالت نفاق کی ہوتی ہے ۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضوان الله علیھم اپنی بزرگی اور کمال کے باوجود خود اپنا محاسبہ کیا کرتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ایمان اور اخلاص کے اعلٰی درجہ تک پہنچے ۔ الله تعالی نے انہیں بلند مقامات عطا کئے اور انہیں کامیابیوں سے نوازا ۔
درس قرآن ۔۔۔مرتبہ درس قرآن بورڈ
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
منافق

سورۃ بقرہ کے شروع میں قرآن کریم کا شک وشبہ سے پاک ہونا بیان کرنے کے بعد بیس آیات میں اُس کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ پہلی پانچ آیات میں ماننے والوں کا ذکر متقین کے عنوان سے ہے ۔ پھر دو آیتوں میں ایسے نا ماننے والوں کا ذکر ہے جو کُھلے طور پر قرآن مجید سے دشمنی رکھتے ہوئے انکار کرتے ہیں ۔ اب اگلی تیرہ آیتوں میں ایسے منکرین اور وکفار کا ذکر ہے جو ظاہر میں اپنے آپ کو مؤمن مسلمان کہتے ہیں لیکن حقیقت میں مومن نہ تھے ۔ اِن لوگوں کا نام قرآن مجید میں منافقین رکھا گیا ہے
یہ بات گزر چکی ہے۔ کہ ہر تحریک کی طرح اسلام کے آنے پر بھی تین گروہ پیدا ہوئے ۔ ایک اس کی سچائی پر ایمان لانے والے مؤمن ۔ دوسرے اس کا انکار اور مخالفت کرنے والے کافر ۔ تیسرا وہ گروہ جو بظاہر ساتھ ہو گیا ۔ مگر حقیقت میں دل سے ایمان نہ لایا ۔ یہ منافق تھے ۔ مؤمن اور کافر کا ذکر پہلے رکوع میں ہوا ۔ اب تیسرے گروہ منافقین کاذکر شروع ہوتا ہے ۔
منافق لفظ نفق سے نکلا ہے ۔ اس کے معنی ہیں سُرنگ لگانا ۔ جیسے جنگلی جانور زمین کے اندر اندر سُرنگیں بناتے ہیں ۔ تاکہ وقت آنے پر ان میں چھپ سکیں ۔ اور خفیہ راستوں سے بھاگ سکیں ۔اس لحاظ سے منافق اس بد بخت انسان کو کہا جاتا ہے ۔ جو بظاہر اسلام قبول کر لے ۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف خفیہ چالیں چلے اور دشمنی کے لئے وقت کا انتظار کرتا رہے ۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ میں خزرج قبیلے کے ایک شخص عبد الله بن ابی بن سلول کو شہر کا سردار بنانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں ۔ وہ بڑا چالاک اور جوڑ توڑ کرنے والا آدمی تھا ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی آمد پر اس کی تاج پوشی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ۔ اور سب کی توجہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف ہو گئی۔
عبد الله نے یہ دیکھا تو خاموش رہا ۔ اس نے مصلحت اسی میں سمجھی ۔ کہ اسلام اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف کوئی آواز نہ اُٹھائے ۔ لہذا وہ خود بھی مسلمان ہو گیا ۔ اور اس کے ساتھی بھی مسلمان ہو گئے ۔ لیکن اندرونی طور پر اس انتظار میں رہے کہ آئندہ جب موقعہ ملے گا اسلام چھوڑ دیں گے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف آٹھ کھڑے ہوں گے ۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا ۔ اسلام کا اثر بڑھتا گیا اور یہ لوگ دل ہی دل میں جلتے رہے ۔ دشمنی کی آگ اُن کے دلوں میں بڑھتی گئی ۔ چنانچہ جب بھی ان کا بس چلا انہوں نے اسلام کی مخالفت کی ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دھوکا دیا۔ یہ لوگ آستین کے سانپ ثابت ہوئے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھنے کے باوجود اُن لوگوں نے ہمیشہ وقت پڑنے پر اسلام کی مخالفت کی ۔ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ تعمیر کی ۔ جسے الله تعالی نے " مسجد ضرار" کا نام دیا ۔ غزوہ اُحد کے موقعہ پر عین مقابلہ کے وقت مسلمانوں کا ساتھ چھوڑا ۔ دوسرے رکوع میں ان ہی منافقین کی عادات اور خصائل بیان ہوں گی ۔
آج بھی اسلام کو سب سے بڑا خطرہ مسلمان جیسے کافروں سے ہے ۔ یعنی جو لوگ بظاہر اسلام کا کلمہ پڑھتے ہیں ۔ مسلمانوں جیسے نام رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں ان کے دل کفر سے بھرے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف انہیں کفّار سے ہمدردی ہے ۔ الله تعالی ہم سب کو ان خرابیوں سے بچائے اور ایمان کامل نصیب فرمائے ۔
ماخذ
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
معارف القرآن
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
منافقوں کا دھوکا

يُخَادِعُونَ ۔ اللَّهَ ۔ وَالَّذِينَ ۔ آمَنُوا ۔ وَمَا ۔ يَخْدَعُونَ ۔

وہ دھوکا دیتے ہیں ۔ الله تعالی ۔ اور وہ لوگ ۔ ایمان لائے ۔ اور نہیں ۔ وہ دھوکا دیتے

إِلَّا ۔ أَنفُسَهُمْ ۔ وَمَا ۔ يَشْعُرُونَ۔

مگر ۔ اپنی ذات کو ۔ اور نہیں ۔ وہ سمجھتے۔

يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ۔ 9️⃣ط

وہ الله اور مؤمنوں کو دھوکا دیتے ہیں ۔ اور نہیں وہ دھوکا دیتے مگر اپنے آپ کو اور وہ نہیں سمجھتے ۔

یُخٰدِعُوْنَ ۔۔۔ وہ دھوکا بازی کرتے ہیں ۔ یہ لفظ خَدَعَ سے بنا ہے ۔ اس کے معنی ہیں دل میں بُری بات چھپانا ۔ اور بظاہر اچھا بن کر دکھانا ۔ تاکہ دوسرے کو فریب میں رکھا جائے ۔ اور مغالطہ میں رکھا جائے ۔

اَنْفُسَھُمْ ۔۔۔ اُن کی جانیں ۔ اس سے مراد ہے اپنی ذات ۔

وَمَا یَشْعُرُونَ ۔۔۔ وہ نہیں سمجھتے ۔ یہ لفظ شعور سے بنا ہے ۔ شعور عربی زبان میں بوجھنے کو کہتے ہیں ۔ یہاں اس سے مراد اندرونی احساس ہے ۔ ۔ مقصد یہ ہے کہ وہ خود فریب میں مبتلا ہیں ۔ مگر اپنی حماقت کی انہیں خبر نہیں ۔

پچھلے سبق میں منافقوں کے بارے میں بتایا گیا کہ جو کچھ وہ زبان سے کہتے ہیں دل سے نہیں مانتے ۔ اور جو دل میں رکھتے ہیں زبان پر نہیں لاتے ۔ وہ صرف مسلمانوں سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے یا اُن کی پکڑ سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔ اس سبق میں اُن کے اس طرز عمل پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے ۔ وہ کفر کے علاوہ فریب اور دھوکے کا جُرم بھی کر رہے ہیں ۔ سچائی کی مخالفت کرتے کرتے اُن کی جرآت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اپنے خیال میں الله تعالی کو بھی دھوکا دینے لگتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں یہ لوگ مسلمانوں کی مجلسوں اور مشوروں میں شریک ہوتے ۔ اپنا اعتماد جماتے اور پوشیدہ طور پر کفار سے بھی ساز باز رکھتے ۔ اُنہیں مسلمانوں کی باتوں سے آگاہ کر دیتے ۔ اور دوست کی شکل میں دشمنی کرتے ۔
منافقوں کا یہ طرز عمل خاص طور پر قابل مذمت ہے کہ وہ اپنے طور طریقوں سے مسلمانوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مغالطہ میں ڈالنا اور دھوکا دینا ان کا مذھب ہوتا ہے ۔ الله کے نیک بندوں ہی کو نہیں بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ الله تعالی کو بھی دھوکا دے سکیں گے ۔ بھلا اس سے بڑی نادانی کیا ہو سکتی ہے کہ مخلوق اپنے خالق کو دھوکا دینے کا خیال اپنے دل میں لائے ۔ اس لئے الله تعالی نے فرمایا یہ نادان ہیں ۔ حقیقت کا شعور نہیں رکھتے ۔ نادانی کو دانائی اور بے وقوفی کو عقل مندی سمجھتے ہیں ۔ یہ بے وقوف اپنے سوا کسی اور سے چالبازی نہیں کر رہے ۔ کیونکہ الله جل شانہ تو ہر دھوکے اور فریب سے بالاتر ہیں اور الله تعالی کے رسول صلی الله علیہ وسلم اور مومنین بھی وحی الہی کی وجہ سے ہر دھوکے اور فریب سے محفوظ ہو جاتے ہیں ۔ البتہ ان کے دھوکے اور فریب کا وبال دُنیا اور آخرت میں خود انھیں پر پڑتا ہے ۔
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
معارف القرآن
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
منافقوں کا روگ

فِي ۔ قُلُوبِهِم ۔ مَّرَضٌ ۔ فَزَادَ ۔ هُمُ ۔ اللَّهُ ۔ مَرَضًا ۔ وَلَهُمْ ۔ عَذَابٌ ۔

میں ۔ اُن کے دل ۔ بیماری ۔ پس زیادہ کر دیا ۔ اُن کو ۔ الله تعالی ۔ بیماری ۔ اور ان کے لئے ۔ عذاب ۔

أَلِيمٌ ۔ بِمَا ۔ كَانُوا ۔ يَكْذِبُونَ. 10

درد ناک ۔ کیونکہ ۔ وہ تھے ۔ جھوٹ بولتے ۔

فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ۔ 10

اُن کے دلوں میں بیماری ہے ۔ سو الله تعالی نے اُن کی بیماری بڑھا دی ۔ اور اُن کے لئے درد ناک عذاب ہے کیونکہ وہ جھوٹ کہتے ہیں ۔

مَرَضٌ ۔۔۔ بیماری ۔ بیماریاں دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ جسمانی اور روحانی ۔ جسمانی بیماری سے بدن میں نقص ، خرابی یا درد پیدا ہوتا ہے ۔ اور روحانی بیماری سے اخلاق بگڑتے ہیں ۔ اور روح کو روگ لگ جاتا ہے ۔ یہاں کفر ونفاق کی روحانی بیماریوں کا ذکر ہے ۔ کیونکہ یہ انسان کے نیک کاموں اور اُخروی زندگی کے سنوارنے میں رُکاوٹ ڈالتی ہیں ۔ یہاں مرض کے معنی نفس کے ایسے روگ ہیں جو اس کے کمالات حاصل کرنے میں رُکاوٹ ڈالے ۔ مثلاً جہالت ، حسد ، کینہ ، دُنیا کی محبت اور جھوٹ وغیرہ ۔
فَ ۔۔۔ سو ۔ یہ حرف اشارہ کرتا ہے کہ آگے جو ذکر ہوگا ۔ وہ ان بیماریوں کا نتیجہ یا پھل ہوگا ۔
زَادَ ۔۔۔ بڑھا دیا ۔ یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اور زیادہ ترقی اور فتح دے کر ان کے حسد کو بڑھا دیا ۔ اُن کے دل میں اسلام سے دشمنی کا روگ اور زیادہ بڑھ گیا ۔
اَلِیْمٌ ۔۔۔ دردناک ۔ یہ لفظ الم۔ سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں درد ۔ کافروں کے لئے " عذابِ عظیم " کی سزا ہو گی ۔ لیکن مُنافق چونکہ کافر ہونے کے ساتھ ساتھ دھوکے باز اور جھوٹے بھی ہیں اس لئے اُن پر " عذاب ِ الیم " کی سزا ہو گی ۔
یَکْذِبُوْنَ ۔۔۔ جھوٹ کہتے ہیں ۔ یہ لفظ کذب سے بنا ہے ۔ اس کے معنی جھوٹ کے ہیں ۔ جھوٹ اس خبر کو کہتے ہیں جو حقیقت کے خلاف اور لوگوں کے لئے نقصان دہ ہو ۔
اس آیہ میں منافقوں کے طور طریقوں کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔ ان کے اندر کفر اور نفاق کی بیماری ہے ۔ جو انھوں نے خود اپنے ہاتھوں پیدا کر رکھی ہے ۔ اور جیسے جیسے اسلام اور مسلمانوں کو کامیابی اور ترقی حاصل ہوتی جاتی ہے ۔ ان کے حسد اور کینے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔
فَزَادَھُمُ اللهُ مَرَضاً ۔۔۔ ( سو الله نے ان کے مرض میں اضافہ کر دیا ) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ الله تعالی نے ازخود ان کے کفر و نفاق کو بڑھا دیا ۔ بلکہ اس سے مراد یہی ہے کہ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی سے جلتے ہیں ۔اور الله تعالی یہ ترقی دیتا جاتا ہے ۔ ہر وقت اس کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔ اور دن رات اس فکر میں بھی رہتے ہیں کہ ان کی جلن لوگوں پر ظاہر نہ ہو جائے ۔ اور اس جلن کا لازمی نتیجہ حسد ہے اور وہ اس حسد اور جلن کو ظاہر بھی نہیں کرسکتے اس وجہ سے جسمانی مرض میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ جس طرح جسمانی بیماریوں کا نتیجہ جسمانی قوت کا کم ہو جانا ہے ۔ اسی طرح روحانی بیماریوں کا نتیجہ دوسرے جہان میں دردناک عذاب ہے ۔
الله تعالی ہمیں ہرطرح کی جسمانی اور روحانی بیماریوں سے محفوظ رکھے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
منافقوں کی مفسدانہ چالیں

وَإِذَا ۔ قِيلَ ۔ لَهُمْ ۔ لَا ۔ تُفْسِدُوا ۔ فِي ۔ الْأَرْضِ ۔ قَالُوا ۔ إِنَّمَا ۔ نَحْنُ ۔ مُصْلِحُونَ 1️⃣1️⃣

اور جب ۔ کہا جاتا ہے ۔ اُن سے ۔ نہ ۔ تم فساد پھیلاؤ ۔ میں ۔ زمین ۔ وہ کہتے ہیں ۔ بے شک ۔ ہم ۔ اصلاح کرنے والے ہیں ۔

أَلَا ۔ إِنَّهُمْ ۔ هُمُ ۔ الْمُفْسِدُونَ ۔ وَلَكِن ۔ لَّا ۔ يَشْعُرُونَ. :12

خبر دار ۔ یہی لوگ ۔ وہ ۔ فساد کرنے والے ہیں ۔ ۔ اور لیکن ۔ نہیں ۔ سمجھ رکھتے

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ۔ 1️⃣1️⃣

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِن لَّا يَشْعُرُونَ۔ 12

اور جب اُن سے کہا جاتا ہے ۔ کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو کہتے ہیں بلا شبہ ہم اصلاح کر رہے ہیں ۔ سُن رکھو یہی لوگ فسادی ہیں لیکن وہ احساس نہیں رکھتے ۔

لا تُفْسِدُوْا ۔۔۔ مت فساد پھیلاؤ ۔ یہ لفظ فساد سے بنا ہے ۔ اس کا معنی ہے مزاج کا بگڑ جانا ۔ یہاں فساد سے مراد اسلامی نظام میں خلل ڈالنے والے گناہ ہیں ۔ جب یہ حالات عام ہو جاتے ہیں تو دُنیا کے امن اور کائنات کے نظام میں رُکاوٹ آجاتی ہے ۔ اسلام کی رُو سے فساد بہت بڑا جرم ہے ۔
مُصْلِحُوْنَ ۔۔۔ اصلاح کرنے والے ۔ یہ لفظ صلاح سے نکلا ہے ۔ یہ فساد کا اُلٹ ہے ۔ فساد میں اسلامی نظام بگڑتا ہے ۔ اصلاح سے اسلامی نظام سنورتا ہے ۔
اس آیہ میں منافقوں کی ایک اور بدترین چال کو واضح کیا گیا ہے ۔ قانونِ الٰہی کے علاوہ کسی اور غلط طریقے پر قائم رہنا اور اس کو پھیلانا کون سا کم جرم تھا کہ یہ منافق بد نظمی پیدا کرنے اور فساد پھیلانے میں بھی لگ گئے ۔ چھپ چھپ کر سازشیں کرنا ، دوست بن کر دشمنی کرنا اُن کی عادت ہوگئ ۔ منافقوں پر دلی بیماری اس قدر غالب آگئی کہ ان کو نیک اور بد میں تمیز نہ رہی ۔ جب ان سے کہا جاتا ہے اپنے ان طور طریقوں سے ملک میں فساد نہ پھیلاؤ ۔ تو وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح اور بھلائی کرتے ہیں ۔ حالانکہ وہ حقیقتاً مفسد ہیں ۔ بھلا اس سے بڑھ کر اور کیا فساد ہو سکتا ہے کہ ان کے منافقانہ طور طریقوں سے کافر تو یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اسلام میں کوئی خوبی نہیں ۔ کہ یہ منافق اسلام میں داخل ہو کر بھی گناہوں میں مبتلا ہیں ۔ دوسری طرف مسلمانوں کو دھوکا دے کر ورغلاتے ہیں ۔ اسلام کا دعوٰی کرتے ہوئے الله تعالی کاخوف دل میں نہیں رکھتے ۔ ان کی اس روش سے دوسروں کے دلوں سے بھی خوف مٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ ان کا فساد اصلاح ہے اور خود یہ مصلح ہیں ۔ الله تعالی صاف صاف فرما رہا ہے کہ فساد اور اصلاح زبانی دعووں سے نہیں ثابت ہوتے ۔ بلکہ اس کا دارومدار اس کام پر ہے جو کیا جا رہا ہے ۔ فساد کرنے والے کو فسادی ہی کہیں گے اگرچہ اس کی نیت فساد کی نہ ہو ۔ ورنہ تو چور ڈاکو بھی اپنے آپ کو فسادی کہنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔
خلاصہ یہ ہوا کہ سچائی سے لوگوں میں آپس میں سلوک پیدا ہوتا ہے جو دُنیا میں اصلاح کی وجہ بنتا ہے ۔ اور منافقت سے دنیا کے انتظام میں خرابی پیدا ہوتی ہے ۔ جب انسان اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے ۔ اور اپنی کمزوری کو نہیں سمجھتا تو تباہ ہو جاتا ہے اور اس کا شعور اور احساس ختم ہو جاتا ہے ۔
مأخذ
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
معارف القرآن
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
منافقوں کی بے عقلی

وَإِذَا ۔ قِيلَ ۔ لَهُمْ ۔ آمِنُوا ۔ كَمَا ۔ آمَنَ ۔ النَّاسُ ۔ قَالُوا ۔ أَ ۔ نُؤْمِنُ ۔

اور جب ۔ کہا جاتا ہے ۔ ان سے ۔ ایمان لاؤ ۔ جیسے ۔ ایمان لائے ۔ لوگ ۔ وہ کہتے ہیں ۔ کیا ۔ ہم ایمان لائیں ۔

كَمَا ۔ آمَنَ ۔ السُّفَهَاءُ ۔ أَلَا ۔ إِنَّهُمْ ۔ هُمُ ۔ السُّفَهَاءُ ۔ وَلَكِن ۔ لَّا ۔ يَعْلَمُونَ 13.

جیسے ۔ ایمان لائے ۔ بے وقوف ۔ خبردار ۔ بے شک وہ ۔ وہ ہی ۔ بےوقوف ۔ اور لیکن ۔ نہیں ۔ وہ علم رکھتے ۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِن لَّا يَعْلَمُونَ. 13

اور جب اُن سے کہا جاتا ہے ۔ کہ ایمان لے آؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں ۔تو کہتے ہیں کہ کیا ہم ایمان لے آئیں جیسے بےوقوف ایمان لائے ہیں ۔ سُن رکھو کہ خود وہی لوگ بے وقوف ہیں ۔ لیکن وہ نہیں جانتے ۔

اَلنَّاس : لوگ ۔ الف لام کے لگنے سے یہ لفظ خاص انسانوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ یعنی وہ لوگ جو دل سے صحیح معنوں میں ایمان لائے ۔ اور دو رُخی چال نہ چلے ۔
اس آیۃ میں منافقین کے سامنے صحیح ایمان کا ایک معیار رکھا گیا ہے ۔ " اٰمِنُوا کَمَا اٰمَنَ النَّاسُ " یعنی ایمان لاؤ جیسے ایمان لائے اور لوگ ۔ مفسرین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس میں لفظ ناس سے مراد صحابہ کرام ہیں ۔ کیونکہ وہی حضرات ہیں جو قرآن مجید نازل ہونے کے وقت ایمان لائے تھے ۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ الله تعالی کے نزدیک وہی ایمان معتبر ہے جو صحابہ کرام کے ایمان کی طرح ہو ۔ جن چیزوں میں جس کیفیت کے ساتھ ان کا ایمان ہے ۔ اسی طرح کا ایمان دوسروں کا ہو گا تو اسے ایمان کہا جائے گا ورنہ نہیں ۔ صحابہ کرام رضوان الله علیھم کا ایمان ایک کسوٹی ہے ۔ ایک پیمانہ ہے ۔ جس پر باقی ساری امت کے ایمان کو پرکھا جائے گا ۔ جو اس پیمانے پر پورا نہ اُترے اسے شرعاً مومن نہ کہا جائے گا ۔ اس بات کے خلاف کوئی عقیدہ اور عمل اگرچہ وہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اور کتنی ہی نیک نیتی سے کیا جائے الله تعالی کے نزدیک قابل اعتبار نہ ہو گا ۔
ان لوگوں نے اسلام قبول کرنے والے یعنی صحابہ کرام کو بے وقوف کہا ۔ اور یہی ہر زمانے کے گمراہوں کا طریقہ ہے ۔ کہ جو ان کو سیدھی راہ دکھلائے اسے بے وقوف اور جاہل قرار دے دیتے ہیں ۔ لیکن قرآن مجید میں الله تعالی نے بتا دیا کہ حقیقت میں یہ خود بے وقوف ہیں کہ اتنی کُھلی اور واضح نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے
السُّفَھَآءُ ۔ بے وقوف لوگ ۔ یہ سفیه کی جمع ہے ۔ جو لفظ سفه سے نکلا ہے اس کے معنی ہیں ہلکا پن چونکہ بے وقوفی عقل میں ہلکا پن اور کمی ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اس لئے لفظ کا استعمال بے وقوفی اور حماقت کے لئے ہوتا ہے
اس آیہ میں منافقوں کی ایک اور عادت کا ذکر ہے ۔ ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اسلام پر صدق وخلوص کے ساتھ سچے مسلمانوں کی طرح سے ایمان لاؤ ۔ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں ۔ گویا اُن کے خیال میں ایمان لانے والے بے وقوف ہیں ۔ کہ وہ کفر کے ایک طاقتور گروہ کے مقابلے میں حق بات کو غالب کرنا چاہتے ہیں ۔ جو منافقوں کے نزدیک بالکل نا ممکن ہے ۔ مدینہ منورہ کے کافر اپنی قوت اور طاقت کے بل بوتے پر بہت مغرور تھے ۔ انہیں یقین تھا کہ ان کے مقابلے میں اجنبی اور غریب الوطن مسلمان نہیں ٹھر سکیں گے ۔ وہ خیال کرتے تھے کہ اسلام چند روز کا کھیل ہے ۔جو خود بخود ختم ہو جائے گا ۔ اس لئے جو لوگ اس میں داخل ہورھے ہیں ۔ وہ انجام سے غافل اور اپنے نفع سے لاپرواہ ہیں ۔
اُن کے اس قول کے جواب میں الله تعالی فرماتا ہے کہ یہی لوگ احمق اور بے وقوف ہیں ۔ کیونکہ راستبازی اور سچائی آخر غالب آکر رہتی ہے ۔ اور دھوکا دینے والے منافق ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں ۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ۔ کہ منافقین کا آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ۔ اس لئے کہ آخرت پر ایمان رکھنے کے لئے بہت زیادہ دور اندیشی کی ضرورت ہے ۔ آخرت کو ماننے سے اس دنیا کے عیش وعشرت کو ہمیشہ کی زندگی کے آرام کے لئے کسی قدر چھوڑنا پڑتا ہے ۔ منافق عاقبت کا خیال نہیں کرتے ۔ وہ اپنے ابدی نفع ونقصان سے غافل رہتے ہیں ۔ اس لئے وہی بے وقوف اور احمق ہیں ۔
مأخذ
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
معارف القرآن
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
مُنافقوں کا ہنسی اُڑانا

وَإِذَا ۔ لَقُوا ۔ الَّذِينَ ۔ آمَنُوا ۔ قَالُوا ۔ آمَنَّا ۔ وَإِذَا ۔ خَلَوْا ۔ إِلَى ۔

اور جب ۔ وہ ملتے ہیں ۔ وہ لوگ ۔ ایمان لائے ۔ وہ کہتے ہیں ۔ ہم ایمان لائے ۔ اور جب ۔ وہ اکیلے ہوتے ہیں ۔ طرف ۔
شَيَاطِينِهِمْ ۔ قَالُوا ۔ إِنَّا ۔ مَعَكُمْ ۔ إِنَّمَا ۔ نَحْنُ ۔ مُسْتَهْزِئُونَ۔ 14.

ان کے شیطان ۔ وہ کہتے ہیں ۔ بے شک ہم ۔ تمھارے ساتھ ہیں ۔ بے شک ۔ ہم ۔ مذاق کرنے والے ہیں

اللَّهُ ۔ يَسْتَهْزِئُ ۔ بِهِمْ ۔ وَيَمُدُّ ۔ هُمْ ۔ فِي ۔ طُغْيَانِهِمْ ۔ يَعْمَهُونَ. 15.

الله تعالی ۔ وہ مذاق کرتا ہے ۔ ان کے ساتھ ۔ اور وہ ڈھیل دیتا ہے ۔ اُن کو ۔ میں ۔ اُن کی سرکشی ۔ اندھے ہو رھے ہیں

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ۔ 14.

اور جب وہ ایمان والے لوگوں سے ملتے ہیں ۔ تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے ۔ اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو بس مذاق کر رہے تھے ۔

اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ۔ 15.

الله تعالی اُن سے مذاق کرتا ہے ۔ اور انہیں ڈھیل دیتا ہے ۔ وہ اپنی سرکشی میں اندھے ہو رہے ہیں ۔

شَیَا طِیْنِھِمْ ۔۔۔ اُن کے شیطان ۔ شیطا ن کا لفظ عربی زبان میں بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ سرکش اور بھڑکانے والے کو شیطان کہتے ہیں ۔ انسانوں اور جنوں سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ یہاں " شَیٰطِیْنِھِمْ " سے مراد منافقین کے سردار ہیں ۔ جو اپنی سرکشی کی وجہ سے شیطان بنے ہوئے ہیں ۔
مُسْتَھْزِءُوْنَ ۔۔۔ مذاق کرتے ہیں ۔ یہ لفظ استھزاء سے بنا ہے ۔ جس کے معنی تمسخر کرنے اور ہنسی اُڑانے کے ہیں ۔
طُغْیَانِھِمْ ۔۔۔ اپنی سرکشی میں ۔ یہ لفظ طغٰی سے بنا ہے ۔ لفظ طغیانی کا ماخذ بھی یہی ہے ۔ اس کے معنی ہیں ایک مقررہ حد سے بڑھ جانا ۔ یہاں اس سے مراد سرکشی میں حد سے بڑھ جانا ہے ۔
یَعْمَھُوْنَ ۔۔۔ اندھے ہو رہے ہیں ۔ یہ لفظ عمه سے بنا ہے جس کے معنی ہیں اندھا پن ۔ یہاں ایسی کیفیت مراد ہے کہ انسان کو راستے کی سمجھ نہ آ رھی ہو اور وہ ادھر اُدھر اندھوں کی طرح ہاتھ پاؤں مارتا پھرے ۔

اس آیہ میں مُنافقین کے طرز عمل کی ایک اور خرابی بیان کی گئی ہے ۔ یعنی یہ کہ وہ دو رُخی چال چلتے ہیں ۔ جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو انہیں دھوکا دینے اور خوش کرنے کے لئے کہتے کہ ہم بھی مسلمان ہیں ۔ لیکن جب وہ اپنے سرداروں کے پاس تنہائی میں جاتے تو کہتے ہم تو تمہارے ہی ساتھ ہیں ۔ ہم تو مسلمانوں کو بے وقوف بناتے ہیں ۔ یہ مسلمان سیدھے سادے لوگ ہیں ۔ ہماری اس بات کو سچ مان کر ہمیں اپنے پوشیدہ راز بتا دیتے ہیں ۔ اور اپنے ارادوں اور تدبیروں سے مطلع کر دیتے ہیں ۔ اس کے جواب میں الله تعالی نے ان کے مذاق کو انہیں پر پلٹ دیا ۔ سزا اور بدلہ کے موقع پر عربی زبان میں یہ محاورہ عام ہے ۔ جیسے ہم کہتے ہیں ۔ بُرائی کا بدلہ بُرائی ہے ۔
الله تعالی نے انہیں ایسی خراب حالت میں چھوڑ رکھا ہے ۔ کہ وہ اپنی سرکشی اور حماقت میں سرگرداں پھر رھے ہیں ۔ اور قرآن مجید کی روشنی سے محروم اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارتے ہیں ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
48
nice one
 
Last edited by a moderator:
Top