- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
"القرآن: تدبر وعمل" کا اردو ترجمہ
عرض ناشر
اللہ رب العزت کا بے پایاں شکر و احسان ہے کہ آج جامعہ محمدیہ کی سرپرستی میں ہم ’’الدار السلفیہ‘‘ کے محترم قارئین کی خدمت میں ’’القرآن : تدبر و عمل ‘‘ کا اردو ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ یہ محض اللہ رب العزت کی توفیق اور اس کے بے شمار احسانات کا نتیجہ ہے کہ اس عظیم الشان اشاعت پر سرشار ہونے کا موقعہ نصیب ہورہا ہے ،میرے جسم کا رواں رواں رب کریم کے حضور سجدہ ریز ہے اور جذبات سے سرشار میرے دل کی ہر دھڑکن یہ پکار رہی ہے کہ : ’’الہی ! یہ سب تیری رحمتوں کی بارشیں ہیں‘‘۔
’’الدار السلفیہ‘‘ کی تاسیس کے پیچھے اس عظیم الشان ادارے کے عظیم المرتبت مؤسس حضرت والد رحمہ اللہ کا یہی عظیم مقصد تھا کہ ہم بھر پور آگہی اور مکمل عصر شناسی کے ذریعہ دین مبین کی تمام باتیں اپنے تمام قارئین تک نہایت ہی خوبصورت انداز اور سہل ترین زبان میں پیش کر سکیں ۔ اور ہوا بھی ایسے ہی ، ایک طویل عرصہ تک اس عظیم الشان ادارے نے اپنے قارئین کو لگ بھگ دو سو سے زائد عناوین پر مختصرو طویل تر کتابیں پیش کیں ، جن میں کچھ بیس اور پچیس جلدوں پر مشتمل تھیں تو کچھ محض بیس پچیس صفحات میں سموئی ہوئی تھیں ، لیکن سب کے پیچھے وہی ایک عظیم مقصد کار فرما تھا کہ’’ہم اللہ رب العزت کے بندوں کو اللہ کا پیغام ان کی اپنی زبان میں بالکل سیدھے سادھے انداز میں پیش کر سکیں‘‘۔
ایک لمبے عرصے تک اپنے قارئین کی خدمت کے بعد ۲۰۰۷ ء میں مؤسس رحمہ اللہ کی رحلت کے بعد اس ادارہ کی دھڑکنیں رک سی گئیں ۔ ’’الدار السلفیہ‘‘ کے رک جانے کو ہر سنجیدہ قاری نے شدت سے محسوس کیا ،اور کچھ ہی دنوں بعد علمی دنیا سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ جس طریقے سے حضرت مولانا رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد آپ کے قائم کردہ سارے ادارے اپنی مہم پر لگے ہیں، اور ایک طرف جامعہ محمدیہ اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے، تو دوسری طرف ملک کے ہر چہار جانب مسجدوں کی تعمیرات کا سلسلہ بھی بخیر و خوبی چل رہا ہے، ایسی صورت میں ’’الدار السلفیہ‘‘ ہی کیوں رکا رہے ۔ ادارے اور اس کی نشریات سے فیض پانے والوں کے مسلسل اصرارپر بارہا ’’الدار السلفیہ‘‘ کی نشأۃ ثانیہ پر غور کیا ، کمیٹیاں بنائیں ، خطے بنائے گئے ، لیکن افسوس کام شروع نہ ہو سکا ۔
غالباً ۲۰۱۶ ء کے وسط کی بات ہے ، ریاض میں ’’مرکز المنہاج للاشراف و التدریب التربوی‘‘ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، اور یہیں پہلی مرتبہ ’’ القرآن : تدبر و عمل ‘‘ کا نسخہ دیکھنے کو ملا ، مقدمہ اور اندر کے ایک دو صفحات دیکھنے کے بعد دل ایک عجیب جذبہ سے سر شار ہوا ، اور وہیں یہ طے کر لیا کہ ان شاء اللہ اس عظیم کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھال کر ہم ’’الدار السلفیہ‘‘ کی نشأۃ ثانیہ کا آغاز کریں گے ۔
وطن واپسی کے بعد جامعہ محمدیہ میں اس حوالے سے ایک میٹنگ منعقد ہوئی اور تمام ہی احباب نے بیک آواز اس منصوبہ کی تائید کی، اور اللہ رب العزت کا نام لے کر کام کا آغاز کردیا گیا ، باقاعدہ ایک علمی کمیٹی تشکیل دی گئی، مختلف اہل علم حضرات کے حصہ میں یہ سعادت آئی ، حالات و ظروف کا جس طرح تقاضہ ہوا مترجمین و مراجعین کی تعیین بدلتی رہی ، بعض نے صرف مراجعہ کیا ہے ، بعض نے صرف ترجمہ کیا ہے، بعض نے ترجمہ و مراجعہ دونوں کیا ہے ، اسی طرح بعض احباب نے اس کی ترتیب و تنسیق کا کام کیا ہے ، بعض شروع سے آخر تک اس مبارک عمل میں شریک رہے ، جبکہ کچھ اہل علم کچھ حصوں میں شریک نہ رہ سکے ، اللہ رب العزت سب کی کوششوں کو قبول فرمائے، اور ان کے اس عظیم عمل کو ان کے لئے صدقۂ جاریہ بنائے، آمین۔
تمام اہل علم کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
کاروان علم و فن اور نوعیت عمل:
راقم السطور (محترم جناب ارشد مختار حفظہ اللہ) (رئیس اللجنۃ)
محترم جناب ڈاکٹر وسیم المحمدي حفظہ اللہ (مشرف اللجنۃ)
محترم جناب ڈاکٹرمحمد امان اللہ مدنی حفظہ اللہ (عضو اللجنۃ)
محترم جناب ڈاکٹرمحمد اجمل منظور مدنی حفظہ اللہ (عضو اللجنۃ)
محترم جناب مولانا منصور الدین مدنی حفظہ اللہ (عضو اللجنۃ)
محترم جناب مولانا ابو رضوان محمدی حفظہ اللہ (عضو اللجنۃ)
محترم جناب مولانا اظہار الحق مدنی حفظہ اللہ (عضو اللجنۃ)
محترم جناب مولانا مصطفی بشیر مدنی حفظہ اللہ (عضو اللجنۃ)
محترم جناب مولانا شعبان بیدار صفاوی حفظہ اللہ (عضو اللجنۃ)
محترم جناب مولانا محمد شاہ نواز مدنی حفظہ اللہ (منتظم و منصرم)
محترم جناب محمد عامر فیضی حفظہ اللہ (ڈیزائنر)
حرف مسرت:
یقیناً ’’الدار السلفیہ‘‘ کی تاریخ کا یہ بے حد مسرت بخش موڑ ہے جہاں ہم تفسیر قرآن کے ذریعہ اس عظیم ادارے کی ایک نئی ابتداء کررہے ہیں ۔ یہ ابتدا ان شاء اللہ ایمان و یقین کے راستے روشن کرے گی، اور نئی نسلوں میں کتاب اللہ سے ٹوٹے رشتوں کو جوڑے گی ۔ گھروں میں مطالعہ کی مردہ ہو چلی روایات زندہ ہوں گی، اور عوام الناس کے لئے جس قسم کا لٹریچر مطلوب ہے وہ لٹریچر بھی فراہم کیا جائے گا ، فکر و فن اور علم و تحقیق کے وہ گوشے جو بوند بھر روشنائی کی امید میں ناپید ہوتے جارہے ہیں انہیں زندگی کا شعور و حوصلہ نصیب ہو گا ۔ نہ لکھنا برائے نام لکھنا ہوگا اور نہ اشاعت برائے نام اشاعت ہوگی ۔ ایک پر عزم اور بامقصد راستہ ’’الدار السلفیہ‘‘ کے لئے بڑا ہی فرحت آمیز ہے ۔ اللہ توفیق بخشے۔ آمین!۔
’’ القرآن تدبر و عمل‘‘ ہی کیوں؟
تلاوت وحفظ کے ساتھ تدبر وعمل کرنا قرآن مقدس کا بنیادی حق اور اس کے نزول کا اصل مقصد ہے ، اس حق کی ادائیگی اور اس مقصد کے حصول کے بغیر قرآن عزیز سے ہماری وابستگی ادھوری سمجھی جائے گی، یا پھر سرے سے جھوٹ قرار پائے گی ۔ قرآن پاک کی تفسیر و تاویل کے طلب جاوداں میں غرق رہنا، اس کا شوق پالنا ، اس کے گرد غور و فکر میں معتکف رہنا ، اس کے تدبر کی راہوں میں آنے والی مشکلات کو برداشت کرجانا اصحاب عظام اور علماء کرام کا شیوہ رہا ہے ۔ پھر اس پر عمل کی جو مثال انہوں نے چھوڑی ہے اگر اس کے چند قطرے ہی ہماری خشک طبیعتوں کو میسر آجائیں تو فصل زندگی میں وہ بہار آئے کہ ساری دنیا گل و گلزار ہو جائے ۔
قرآن پاک میں غور و فکر اور عملی نمونوں کا جو ذخیرہ ہماری دسترس میں ہے وہ بلا شبہ ہمارے ایمان و یقین میں اضافہ کے لئے کافی ہے، اور عمل کی راہوں میں تحریک پیدا کرنے کے لئے وہی اصل اور کل حاصل ہے ۔ مگر مذکورہ روشن ترین حقائق کے باوجود ہر عہد کی اپنی ایک خاص ضرورت ہوتی ہے ، اسی لئے اہداف و مقاصد کی پیکر تراشی کے لئے نئے نئے انداز و اسالیب اختیار کئے جاتے رہے ہیں ، اظہار معنی کے لئے محسوسات کے مختلف پیراہن وجود میں آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے اور یہ انسان کی فطرت بھی ہے ، کچھ یہی معاملہ ’’القرآن تدبر و عمل ‘‘ کا بھی ہے ۔
ایک خاص بات جو اس تفسیر کو دوسری کتابوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے اندر عوام الناس کے لئے تدبر کا ایک امکانی اور عملی خاکہ پیش کیا گیا ہے جس کے ذریعہ ایک عام قاری کی فکری دنیا میں قرآن مقدس کی جلوہ نمائی کا امکان آگے بڑھ جاتا ہے ۔ پھر فاضل اہل علم نے عمل آوری کے لئے ایک ایسا لائحۂ عمل ترتیب دیا ہے جو قاری کی زندگی کو احتساب کے دائرے میں پابند عمل بنا سکے ۔ انسان کی عام نفسیاتی کمزوری یہ ہے کہ وہ کسی بھی چیز کے لئے ایسا محرک اور سہارا چاہتا ہے جس کے ذریعہ وہ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کر سکے ۔ زندگی کے عام رویوں میں اس کی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں ، مثلا ایک بچہ اپنے باپ کی موجودگی میں درندے کو بھی منہ چڑھاتا ہے جب کہ تنہا ہونے کی صورت میں اس کا شعور کسی موہوم سائے کے سامنے بھی شکست سے دوچار ہوجاتا ہے ، گویا انسانی ادراک و شعور کے لئے مرئی وغیر مرئی سہارے کا احتیاج ایک جانی بوجھی حقیقت ہے ۔ ’’ القرآن تدبر و عمل ‘‘ دراصل قاری کی اسی نفسیاتی ضرورت کو پورا کرتا ہے ۔ چنانچہ قاری سب سے پہلے قرآن کی تلاوت ، ترجمہ اور تفسیری نکات سے فیضیاب ہوتا ہے ، پھر جیسے ہی وہ آگے بڑھتا ہے راہ میں کچھ سوالات آجاتے ہیں جن کا جواب ڈھونڈھے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتا، اور جیسے ہی وہ آگے چلتا ہے اس کے لا شعور میں ایک بجلی کڑک اٹھتی ہے ’’یہ چھوڑ چھوڑ کے پڑھنے کا کیا مطلب ہے ؟ ‘‘ اور پھر آگے ’’آیات پر عمل ‘‘ کی تعیین اسے بے چین ہی کردیتی ہے ۔ ’’اچھا تو میں بے عمل ٹھہروں ؟‘‘ اب اس کے دل کی سرزمین سے اگنے والے سوال کا یہ نازک سا پودا اس کے پورے وجود کو ہراکرنے کے لئے کافی ہوتا ہے ۔ یہ ہے ’’ القرآن تدبر و عمل ‘‘ کی وہ خاص تکنیک جس کے ذریعہ ان شاء الله قرآن پاک کے عام پڑھے لکھے قاری کے دل و دماغ میں قرآنی فکر کی آبیاری ممکن ہو گی ۔
کچھ ایسی ہی خصوصیات کی بنا پر ’’الدار السلفیہ‘‘ نے یہ عزم کیا کہ اس تفسیر کا اردو ترجمہ ہونا چاہئے ، تاکہ کلام الہی کا نور عام ہو اور قرآن مقدس سے جو یک گونہ بے اعتنائی کا ماحول عوام الناس میں پایا جارہا ہے اس کا خاتمہ ہو سکے ۔
یہ ترجمہ:
جس طرح ’’القرآن تدبر و عمل ‘‘ اپنے آپ میں متنوع خصوصیات کا مالک ہے اسی طرح اس کا ترجمہ مختلف صفات کا حامل ہے ۔ یہ ترجمہ متعدد اہل علم کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، اس لئے ایسا ممکن ہے کہ ترجمہ کا رنگ یکساں نہ ہو مگر مترجمین کے تعدد کے باوجود قرآن کے عام قاری کو جوآسانی میسر ہونی چاہئے وہ اس تفسیر کے پورے ترجمہ میں شروع سے آخر تک ضرور بالضرور ملے گی ، بایں ہمہ قارئین کرام کو کہیں کوئی دشواری محسوس ہوتو ہمیں مطلع فرمائیں، ہم ان شاء اللہ اگلے ایڈیشن میں اس کی ضرور اصلاح کریں گے ۔
ترجمہ کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس میں ترجمانی کے بیچ کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، یعنی نہ تو ایسا ہواہے کہ تفسیر کا لفظی ترجمہ پیش کردیا گیا ہو، اور نہ ہی ایسا ہوا ہے کہ صرف مفہوم کو اردو قالب میں ڈھال دیا گیا ہو، بلکہ مفہوم کے ساتھ کتاب کے الفاظ کی بھی ممکنہ رعایت برتی گئی ہے۔
اس کی ایک تیسری خصوصیت یہ ہے کہ ایک ترجمہ پر تقریباً چار لوگوں کا مراجمعہ ہوتا تھا ، پھر آخر میں ہر مراجعہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک فائنل صورت دی جاتی تھی ، چونکہ یہ طریقہ کافی وقت طلب اور بے حد مشکل تھا اس لئے مراجعہ کا عمل تو باقی رکھا گیا مگر مراجعین کی تعداد کم کردی گئی۔
سجدۂ شکر :
’’ القرآن تدبر و عمل ‘‘ کی پہلی جلد کی اشاعت پر اللہ کا بے پایاں شکر و احسان ہے کہ یہ اسی کی رحمت کا چھینٹا اور اسی کے کرم کی پھوار ہے۔ یہ محض اس کی مہربانی ہے کہ مجھ ناتواں کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ میں قرآن مقدس کی خدمت سے خود کو شرفیاب کر سکوں ۔ یقیناًیہ شرف زندگی کا عظیم ترین شرف ہے ، میں دربار خدا وندی میں اسے اپنے لئے ذریعہ نجات سمجھتا ہوں ، دعا ہے کہ مولا تو اس عمل کا ہر ہر گوشہ قبول فرمالے ۔ ’’ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم ‘‘۔
پھر شکر گزار ہوں علمی کمیٹی کے تمام اعضاء و ممبران کا کہ انہوں نے اس عظیم کام کے لئے اپنی خدمات فراہم کیں ۔ اگر ان کی جد و جہد نہ ہوتی تو اسباب کی اس دنیا میں یقیناًیہ کام پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتا ۔ اللہ تعالی تمام اعضاء و ممبران کو دین و دنیا کی سرخروئی عطا فرمائے ۔ ’’ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار‘‘ آمین ۔
آخر میں قارئین سے گزارش ہے کہ جب بھی قرآنِ مقدس کی یہ تفسیر پڑھیں، اور اس کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی ناچیز اور جملہ رفقاء کار کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالی سب کو دولت اخلاص سے مالامال کردے ، ہمیں خیر کی توفیق عنایت کرے ، ہمارے ٹوٹے پھوٹے اعمال اپنی مہربانی سے قبول فرمالے ، ہم سب کو قرآن و سنت کی راہ پر چلائے، اس پر قائم و دائم رکھے، اور جنت میں ہم سب کو جمع فرمائے، آمین ۔
و آخر دعوانا ان الحمد للہ ربِّ العالمین-