• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درس گاہوں سے رقص گاہوں تک ۔۔۔۔ نور الھدی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
درس گاہوں سے رقص گاہوں تک ”مُنّی کی بدنامی“....​
( از قلم )محمد نورالھدیٰ​

جب کوئی معاشرہ تہذیب و ثقافت اور میڈیا نسل نو کے اساسی تصور یا فکری ورثے کے فروغ کی بجائے عشق و محبت کے کردار اور بے راہروی کی جانب راہنمائی کرے تو پھر اس ملک و قوم کو اپنے تحفظ و بقا کے لئے طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔ آج ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ وہاں غیر تعمیری سرگرمیوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ۔ خصوصاً گرلز کالجز اور نجی تعلیمی اداروں میں غیر نصابی پروگرامات اور فن فیئرز کے نام پر اخلاقیات کی حدود پامال کی جاتی ہیں ۔ سالانہ تقریبات ، مقابلہ حسن ، فیشن شوز ، ملبوسات کی نمائش ، کیٹ واک اور کبھی ڈانس مقابلوں کے عنوان سے پروگرامات کے انعقاد سے ہماری ملی و دینی ، ثقافتی اور قومی غیرت وحمیت کا جنازہ نکالا جارہا ہے ۔ ملک بھر میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی اداروں میں ”روشن خیالی“ کے نام پر جو بیماری پیدا ہوگئی ہے وہ ہمارے معاشرے اور تمد ن کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ان تعلیمی اداروں سے محب وطن لوگ پیدا ہونے کی بجائے رومانوی داستانوں کے ہیروز اور مستقبل کے لالی وڈ اور ہالی وڈ کے ”ٹاپ سٹارز“ ابھر رہے ہےں ۔
تعلیمی اوقات میں کسی بڑے پارک ، یونیورسٹی کے سرسبز و شاداب لان یا کالج کے کوری ڈور میں بیٹھے طلبہ وطالبات کا ہیر رانجھا ،لیلیٰ مجنوں ،اور شیریں فرہاد ،کی رومانوی داستانوں کو دہرانا ، ساتھ جینے مرنے کا سبق پڑھنا اورایک دوسرے کے زانو پر سر ٹکائے محو گفتگو ہوناتو ایک الگ موضوع ہے لیکن سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوںکے ان طلبہ و طالبات کو سٹیج کرکے سینکڑوں لوگوں کے سامنے جس طرح ”منی کی بدنامی“ جیسے گانوں پر نچایا جاتا ہے، یہ فعل تعلیم کے مقاصد کی نفی کرتا ہے جو کہ قابل مذمت بھی ہے اور بے راہروی کی جانب مائل کرنے کا ذریعہ بھی .... قابل افسوس امر یہ ہے کہ والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کی اس پرفارمنس سے محظوظ اور مطمئن ہوتے ہیں کہ ان کی تربیت میں کوئی کمی نہیں رہ گئی اور انہوں نے اپنے حصے کا حق ادا کردیا ۔
آج ہمارے تعلیمی اداروں ، کلبوں ، ہوٹلوں اور تقریبات میں میوزیکل کنسرٹ،ڈانس،فیشن شوز،مقابلہ حسن،کیٹ واک، ،فن فیئرز، ڈانس پارٹیز و مقابلہ جات ، سالانہ تقریبات اور اسی طرز کے دیگر پروگرامات کے ذریعے ہماری تہذیبی و اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ مضحکہ کیا جارہا ہے ....ان پروگرامات میں جہاں بالخصوص لڑکیوں کو لباس کو تراش خراش کر پہننے کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے ، وہیں فحش گانوں پر انہیں بیہودہ انداز میں ناچنے کی ترغیب اور تربیت دے کر ان کا ”ٹیلنٹ اجاگر “ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
تعلیم جدید سے یہ امید ہے ضرور
ناچے دلہن خود اپنی ہی بارات میں
یہ ملک دس لاکھ سے زائد قربانیاں دے کر اس لئے نہیں بنایا گیا تھا کہ اسے یوں روشن خیالی ،معتدل مزاجی ، اور مغرب کی غلیظ عادات کی آماجگاہ بنا دیا جائے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب بگاڑ غالب آجائے تو معاشرہ،قوم ،مستقبل ، غرض ہرچیز خطرے میں پڑ جاتی ہے .... آج تعلیمی اداروں کی حالت زار یہ ہے کہ جن درس گاہوں کو محب وطن ڈاکٹر ، انجینئر اور سائنسدان تیار کرنے چاہیئں تھے وہ لالی وڈ اور ہالی وڈ کے ہیروز پیدا کررہے ہیں .... ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت درس گاہوں کو رقص گاہوں میں تبدیل کرنے کے لئے ناچ گانے کی ثقافت کو ملک کے ایک ایک کالج اور ایک ایک سکول پر مسلط کیا جارہا ہے .... آج بدقسمتی سے ہمیں جو تعلیم دی جارہی ہے ،اور جو تربیت ہماری ہورہی ہے وہ آج بھی ہمارے مقصد حیات سے متصادم ہے....آج ہمارا نظام تعلیم کانٹے بورہا ہے....تعلیم منفی ہو تو دامن خالی ہی رہتے ہیں....جس تعلیم کی کوئی سمت نہ ہو اور جو تعلیم کوئی مقصد ہی نہ رکھتی ہو وہ فرد کو کیا سنوارے گی ،اور معاشرے کو کیا دے گی....بحیثیت قوم ہم وہ نہیں رہے جو ہمیں ہونا چاہئے تھا....ہم اپنی نفی کے دور میں داخل ہوچکے ہیں،ہماری نمائندگی مسخ ہو چکی ہے جبکہ ہماری ترجمانی اجنبی زبانیں کررہی ہیں....آج ہماری تصویرہماری تاریخ کا منہ چڑا رہی ہے....اور ہم تماشائی بن کر اپنی اقدار کا قتل اور اپنی تہذیب کی تذلیل دیکھ رہے ہیں....ہم اپنے آپ کو اپنی ہی صدیوں سے محروم کررہے ہیں۔آج ہمارے ہاں سب سے بڑا ظلم تعلیم کے نام پر ہورہا ہے ۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا کردار ماضی جیسا نہیں رہا ۔ ہماری توقیر،ہماری تکریم اور ہمارا تحفظ ہمارے تشخص میں ہے....لیکن ہم اپنے ہی گھر میں اجنبی بننے والے خود کو بھی کھورہے ہیں اور اپنے گھر (پاکستان) کو بھی.... آج پاکستان کی نوجوان نسل جس تیزی سے بے راہروی کے سمندر میں ڈوب رہی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ، اور ہم اسی پر خوش ہیں کہ ہم ”ترقی“ کی منازل بہت ” تیزی“ سے طے کررہے ہیں ۔
پاکستان میں جگہ جگہ سکول ، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں مگر اخلاقی لحاظ سے معاشرہ پستی کی جانب لڑھک رہا ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس لئے کہ تعلیمی ادارے اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کررہے ۔ آج ہمارے دنیاوی تعلیم کے یہ ادارے جدید تحقیقات و ایجادات کی بجائے مغربی تہذیب سیکھنے سکھانے کے مستقل اڈے بن چکے ہیں ۔ جہاں صنعت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی طرف محنت اور توجہ کم اور مغربیت سیکھنے کا ذوق و شوق زیادہ ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ ہم پر مسلط تعلیمی نظام نے ہمارے نوجوانوں کی اسلامی سوچ کو زیادہ پروان نہیں چڑھنے دیا ۔ بلکہ نام نہاد ترقی کی آڑ میں انہیں آزاد اور آوارہ ماحول کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے اور ڈھٹائی کے ساتھ اسے ہماری ثقافت سے نتھی کیا جارہا ہے ۔
تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی رسوا کردیا
میں ہی تو ایک راز تھی سینئہ کائنات میں
بدقسمی سے پاکستانی قوم نے فرنگی ماحول کو امارت کے اظہار ، تہذیب ، فیشن ، فرینڈ شپ ، ماڈرن ازم ، اور انڈر سٹینڈنگ کا نام دے کر قبول کرلیا ہے ۔ تعلیمی اداروں میں روز بروز شدت سے پیدا ہونے والی اس روش کو اگر بدلا نہ گیا تو آنے والا وقت پاکستان کے تعلیمی اداروں کی تباہی کا پیغام لے کر آئے گا جو ہماری اسلامی ثقافت پر دھبے چھوڑ جائیں گی۔
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے گی صدا لاالہ الا اللہ
”منی کی بدنامی“ کا یہ سلسلہ تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ہماری شادی بیاہ کی رسومات ، تفریحی پروگرامات اور دیگر تقریبات تک بھی پھیلا ہوا ہے ۔ اور ماﺅں بہنوں کی ناموس سے بے نیاز اسے بدنام کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ کچھ عرصہ قبل ”پروین بڑی نمکین“ والے گانے نے بہت دھوم مچا رکھی تھی جس کی وجہ سے ”پروین“ نامی لڑکیوں کوشدید کوفت اور ذہنی اذیت کا سامناتھا ۔ ان کا گھر سے نکلنا عذاب بن چکا تھا ۔ پھر عدلیہ کے سوموٹو ایکشن کے بعد اس پر پابندی لگائی گئی تو انہیں اس اذیت سے نجات ملی ۔ اب تعلیمی اداروں ، گھروں ، دکانوں میں” منی“ کو بری طرح بدنام کیا جارہا ہے مگر عدلیہ نجانے کیوں خاموش ہے ۔منی نامی نجانے کتنی ہی بہنیں بیٹیاں مذکورہ طرز کے عذاب سے گزر رہی ہیں ۔ یہ تو اچھا ہی ہے کہ میڈیا پر ان کا چرچا نہیں ہورہا ورنہ ان کا جینا بھی محال ہوجاتا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نہ سہی مگر عدلیہ کو بہرحال اس گانے کے خلاف ایکشن لینا چاہئے اور اس پر فی الفور پابندی لگائی جانی چاہئے ۔ مزید یہ کہ حکومت اور عدلیہ کی جانب سے تعلیمی اداروں کو ایسی سرگرمیوں کے حوالے سے واضح ضابطہ اخلاق مرتب کرکے دیا جائے .... نیز تعلیمی اداروں کو بھی چاہئے کہ وہ ایسی سرگرمیوں کے انعقاد سے گریز کریں اور اپنے قیام کے مقاصد کو فراموش مت کریں ، اپنی حقیقی ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے ادا کریں اور ماضی کی طرح اب بھی دیانتداری کے ساتھ اپنا کردار نبھائیں ۔
میں خود غرض نہیں ہوں ، میرے آنسو پرکھ کر دیکھ
فکر چمن ہے مجھ کو غم ِآشیاں نہیں

یہ مضمون یہاں سے لیا گیا ہے ۔
 

siddique

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
170
ری ایکشن اسکور
900
پوائنٹ
104
السلام علیکم
حال ہی میں ہندوستان کے انجہمانی وزیراعظم راجیو گاندھی کی بیوی سونیا گاندھی کا یہ بیان قومی اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ بھارت نے ثقافتی محاذ پر پاکستان سے جنگ جیت لی ہے اور اب بھارتی تہذیب اور کلچر بھارتی فلموں اور ٹی وی کے ذریعہ پاکستانی معاشرے میں رچ بس گیا ہے اس طرح بھارت نے کوئی جنگ لڑے بغیر ایسی کامیابی حاصل کرلی ہے جو جنگ کے ذریعے ممکن نہ تھی
جہاد کے مسائل محمد اقبال کیلانی
 
Top