عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
درندے
از قلم طاہر نقاش
اندھیری رات کا راج تھا۔ تھوڑی دیر بعد فجر کی اذانیں بلند ہونے والی تھیں۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا… ماحول پر سکون، سحر زدہ تھا۔ شب زندہ دار اپنی ہی دھن میں مگن محبوب حقیقی کو منانے کے لئے سجدہ ریزیاں، آہ و زاریاں، دلفگاریاں اور دلداریاں اپنائے ہوئے تھے… جبکہ ساکنان ارض نیند کی وادی میں سرگرداں میٹھے و شیریں خوابوں میں مگن تھے۔
گویا صفحہ ارضی پر عارضی طور پر بسنے والے پنچھی دنیا و مافیہا سے بے خبر خواب و خیال کے میٹھے چشموں سے سیراب ہوتے ہوئے پرسکون نیند کے شبستانوں میں آوارہ بادلوں کی طرح اڑتے پھر رہے تھے… لیکن اس پرسکون ماحول کو گلی میں اکٹھے ہو جانے والے آوارہ کتوں کے غول نے تباہ و برباد کر چھوڑا تھا، بھونک بھونک کر اور غرا غرا کر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ کبھی ایک دوسرے پر غرا رہے تھے تو کبھی جھپٹ جھپٹ کر حملہ آور ہوتے ہوئے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔
کتوں کی اس خوفناک جنگ کی بازگشت سننے کے بعد اماں جان کی نیند اڑ گئی اور وہ گھر کے صحن سے ہوتی ہوئی گلی میں آ گئی… اس تجسس میں گرفتار ہو کر کہ دیکھوں باہر ماجرا کیا ہے جو کتوں نے بھونک بھونک کر اور خونخوار انداز میں غرا غرا کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ گلی میں آتے ہی اس بیچاری بوڑھی اماں کے خوف سے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
کیا دیکھتی ہے کہ ایک شاپنگ بیگ (شاپر) سڑک پر پڑا ہے… تمام خونخوار کتے اس کے اردگرد کھڑے ہیں… ایک شاپر کو منہ ڈالتا ہے تو دوسرا اس پر پل پڑتا ہے… اور… کوشش کرتا ہے کہ ’’شاپر‘‘ وہ اکیلا اٹھا کر لے جائے… شاید کتے کسی گھر سے پڑا ہوا گوشت اٹھا لائے ہیں اور اب اس کو کھانے یا تقسیم کے مسئلہ پر چیر پھاڑنے پر اتر آئے ہیں… اماں وہیں کھڑی کھڑی شاپر کو دیکھنے لگتی ہے… اوہ یہ کیا!!؟ … شاپر ہل رہا تھا… اور تیزی سے ادھر ادھر ہو رہا تھا… مزید غور کیا تو وہ لرز گئی… کپکپا گئی… شاپر میں کوئی زندہ چیز تھی… جو مسلسل حرکت کر رہی تھی… شاید کتے اسی زندہ جان کو پھاڑ کھانے کے لئے بیقرار ہو رہے تھے… اوہ شاید کسی کی مرغی ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔