• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درود وسلام کا جواب دینے کے لئےقبرنبوی میں روح کا لوٹایا جانا۔

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,798
پوائنٹ
1,069
کیا نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے قبر میں درود سننے اور روح لوٹائی جانے کی حدیث صحیح ہے؟


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص بھی مجھے سلام کہتا ہے تو اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔"۔ (ابوداؤد :2041)
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص بھی مجھے سلام کہتا ہے تو اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔"[سنن أبي داود 2/ 218 رقم 2041]۔
ہمارے ناقص مطالعہ کی روشنی میں یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ اسے روایت کرنے میں ’’أبو صخر حميد بن زياد‘‘ منفرد ہے ۔

اور یہ مختلف فیہ راوی ہے ۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
مختلف فيه
یہ مختلف فیہ راوی ہے[الكاشف للذهبي: 1/ 353]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 222 واسنادہ صحیح]۔

نیز کہا:
ضَعِيفُ الْحَدِيثِ
یہ ضعیف الحدیث ہے[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 3/ 68 واسنادہ صحیح]۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے[الضعفاء الكبير للعقيلي: 1/ 270 واسنادہ صحیح]۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
لَيْسَ بِالْقَوِيّ
یہ قوی نہیں ہے[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 33]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
حميد بن زياد، أبو صخر: ضعفه ابن معين مرة، وقواه أخرى
حمیدبن زیاد ابوصخر ، اسے امام ابن معین نے ایک مقام پر ضعیف قرار دیا اور دوسرے مقام پر اسے قوی کہا[ديوان الضعفاء ص: 105]

اس کے برخلاف بعض دیگر محدثین نے اسے ثقہ کہاہے۔
تمام اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے بارے میں راجح موقف یہ ہے کہ یہ صدوق یھم ہے جیساکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے خلاصہ کیاہے چنانچہ:

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق يهم
یہ صدوق ہیں اور وہم کا شکارہوتے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم1546]

تنبیہ بلیغ:
حميد بن زياد اور حميد بن صخر دونوں ایک ہی ہیں جیساکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے چنانچہ:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
حميد بن زياد أبو صخر الخراط من أهل المدينة مولى بنى هاشم يروي عن نافع ومحمد بن كعب روى عنه حيوة بن شريح وهو الذي يروي عنه حاتم بن إسماعيل ويقول حميد بن صخر وإنما هو حميد بن زياد أبو صخر لا حميد بن صخر
حمیدبن زیاد ابوصخر ۔۔۔۔۔یہ وہی ہیں جن سے حاتم بن اسماعیل روایت کرتے ہیں اور اسے حمیدبن صخر بتلاتے ہیں ، جو کہ اصل میں حمیدبن زیاد ابوصخر ہیں نہ کہ حمیدبن صخر [الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 6/ 189]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف معلوم ہوتا ہے دیکھئے: [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم1546]

اورامام ذہبی رحمہ اللہ(المتوفى748) نے جو یہ کہا:
وأظن أن حميد بن صخر المدني آخر، روى عن سعيد بن أبي سعيد المقبري وهو الذي قال فيه أحمد بن حنبل: ضعيف.[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 9/ 117]۔

تو عرض ہے کہ امام ابن حبان کے بالمقابل امام ذہبی رحمہ اللہ کی بات غیر مقبول ہے کیونکہ امام ابن حبان بہت پہلے کے ہیں اور ان کا مقام بھی بڑا ہے ۔
علاوہ بریں امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بالجزم اوربغیر کسے شک وشبہ کے ساتھ یہ بات کہی ہے ۔جبکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے محض اپنا گمان پیش کیاہے۔

بلکہ خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر اپنی مذکورہ بات کے برعکس کہا:
حميد بن زياد أبو صخر المدني سمع المقبري ضعفه أحمد وابن معين في قول ووثقه جماعة [المغني في الضعفاء للذهبي: ص: 92]۔

حتی کی ایک مقام پر امام ابن حبان رحمہ اللہ کی موافقت کرتے ہوئے کہا:
حميد بن زياد أبو صخر المدني الخراط، صاحب العباء، وكان حاتم بن إسماعيل يسميه حميد بن صخر. [ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 612]

لہذا امام ابن حبان رحمہ اللہ کا موقف ہی درست اور یہ دونوں ایک ہی راوی کے نام ہیں۔
رہا بعض اہل نقد کی طرف سے ناموں میں اختلاف تو تعدد اشخاص کی دلیل نہیں بلکہ ایک ہی شخص کے مختلف حالت کی دلیل ہے ۔یعنی زیربحث راوی صدوق وحسن الحدیث تو ہے لیکن ساتھ ساتھ اس میں ضعف بھی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
صدوق متکلم فیہ راوی کا تفرد

اس طرح کا راوی اگر کسی حدیث کو بیان کرنے میں منفرد ہو اور قبولیت کے اضافی قرائن موجود نہ ہوں بلکہ اس کے برعکس رد کے قرائن موجود ہیں ، تو ایسی صورت ایسے راوی کی بیان کردہ منفرد روایت مردود ہوتی ہے ، اس بارے میں چندائمہ فن کے اقوال ملاحظہ ہوں:

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
وإن تفرد الثقة المتقن يعد صحيحا غريبا. وإن تفرد الصدوق ومن دونه يعد منكراً. وإن إكثار الراوي من الأحاديث التي لا يوافق عليها لفظا أو إسنادا يصيره متروك الحديث
اگر ثقہ و مضبوط حافظہ والا راوی کسی روایت میں منفرد ہو تو اس کی روایت صحیح غریب ہوگی ، اور اگر صدوق یا اس سے کمتر راوی کسی روایت میں منفرد ہو تو اس کی روایت منکر شمار ہوگی اور جب کوئی راوی بکثرت ایسی روایات بیان کرنے لگے جس کی لفطی یا معنوی متابعت نہ ملے تو ایسا راوی متروک قرار پائے گا [ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 141]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
واحتج من قبل الزيادة من الثقة مطلقا بأن الراوي إذا كان ثقة وانفرد بالحديث من أصله كان مقبولا، فكذلك انفراده بالزيادة وهو احتجاج مردود، لأنه ليس كل حديث تفرد به أي ثقة كان يكون مقبولا
جولوگ ثقہ کی زیادتی مطلق قبول کرتے ہیں وہ ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ ''جب ثقہ کوئی منفرد روایت بیان کرتے تو وہ مقبول ہوتی ہے تو اسی طرح جب ثقہ کسی زیادتی کو بیان کرنے میں منفر د ہو تو وہ بھی مقبول ہونی چاہئے''۔ (حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ ) لیکن یہ دلیل مردود ہے کیونکہ ہر ایسی حدیث مقبول نہیں ہوتی جسے بیان کرنے میں ثقہ منفرد ہو[النكت على ابن الصلاح لابن حجر: 2/ 690]۔
امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795) اکثر متقدمین محدثین کے موقف کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأما أكثر الحفاظ المتقدمين فإنهم يقولون في الحديث - إذا تفرد به واحد - وإن لم يرو الثقات خلافه -: ((إنه لا يتابع عليه، ويجعلون ذلك علة فيه، اللهم إلا أن يكون ممن كثر حفظه واشتهرت عدالته وحديثه كالزهري ونحوه، وربما يستنكرون بعض تفردات الثقات الكبار أيضاً، ولهم في كل حديث نقد خاص، وليس عندهم لذلك ضابط يضبطه
متقدمین حفاظ حدیث و ائمہ کی اکثریت کا موقف یہ ہے کہ جب کوئی راوی ایک حدیث کو بیان کرنے میں منفردہوتاہے گرچہ وہ روایت ثقہ کی روایت کے خلاف نہ ہو تو ایسی حدیث کے بارے میں متقدمین حفاظ ''لایتابع علیہ '' (اس کی تائیدنہیں ملتی) کہتے ہیں، اوراس چیزکو متعلقہ حدیث میں علت شمار کرتے ہیں ، الایہ کہ اس طرح کا تفرد ایسے رواۃ سے ہو جن بہت بڑے حافظ ہوں ، جن کی عدالت و احادیث بہت زیادہ مشہور ہوں مثلا امام زہری وغیرہ ۔ اور بسااوقات متقدمین حفاظ حدیث وائمہ بڑے بڑے ثقہ راوۃ کے تفردات کو بھی منکر قرار دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے پاس کوئی خاص قاعدہ نہیں ہے جس کی وہ پابندی کرتے ہوں بلکہ ہر حدیث سے متعلق ان خاص نقد ہوتا ہے[شرح علل الترمذي لابن رجب ص: 216]۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے ایک مجلس میں فرمایا:
ومن هنا لا يجوز هدم أو إهدام حديث الصدوق مطلقا، لكن لا بد من الدقة في الاعتماد أو الثقة بحديث هذا النوع من الصدوق أو عدم الاعتماد عليه. فقال أبو عبد الله: دقة النظر؟فقال الشيخ: هو في متن الحديث أو رواة آخرين أو يدخل في الحديث الشاذ، والحديث المنكر، كل هذا يدخل في هذا المجال.فقال أبو الحسن: إلى القرائن؟ فأجاب الشيخ: نعم.
اس بنیادپر صدوق کی حدیث کو علی الاطلاق رد کرنا درست نہیں لیکن اس طرح کے صدوق کی حدیث پر اعتماد اورعدم اعتماد کے وقت دقت نظر سے کام لینا بھی ضروری ہے۔ ابوعبداللہ (علامہ البانی کے شاگرد) نے پوچھا: دقت نظر سے آپ کی کیامرادہے ؟ علامہ البانی رحمہ اللہ نے جواب دیا : متن حدیث کو دیکھاجائے یا دیگر رواۃ کو دیکھاجائے ، یا اسے شاذ و منکر حدیث کی قبیل سے سمجھا جائے یہ تمام باتیں دقت نظر میں شامل ہیں۔ابوالحسن (علامہ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد) نے پوچھا : یعنی اس معاملہ میں قرائن کو دیکھاجائے گا ؟ علامہ البانی رحمہ اللہ نے جواب دیا: جی ہاں[سؤالات ابن أبي العينين للشيخ الألباني ص: 88]۔
واضح رہے کہ اصول بیانی اور اصول کی تطبیق میں ایک ہی عالم سے اختلاف ہوسکتا ہے ، یعنی یہ ممکن ہے کہ ایک عالم ایک اصول کو صحیح مانتے ہوئے بھی اس کی تطبیق میں اجتہادی غلطی کا شکار ہوجائے ، یعنی اصول کو ایسی جگہ منطبق کردے جہاں یہ اصول منطبق نہیں ہوتا ، یاجہاں یہ اصول منطبق ہوتا ہے وہاں اس کی تطبیق نہ کرسکے۔
اہل فن کے اقوال بالخصوص امام ابن رجب رحمہ اللہ کی تصریح سے معلوم ہوا کہ صدوق راوی کی منفرد روایت نہ تو علی الاطلاق قبول کی جائے گی اورنہ ہی علی الاطلاق رد کی جائے گی بلکہ قرائن کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا کہ کہاں اس کی روایت مقبول ہوگی اورکہاں مردود ۔

مزید تفصیل کے لئے دیکھیں۔
افراد الثقات بین القبول والرد ۔ متعب بن خلف السلمی۔
التفرد في رواية الحديث ومنهج المحدثين في قبوله أو رده ۔ عبدالجواد حمام۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
قرائن رد


مذکورہ تفصیل کے بعد زیر نظر سند پر ہم نظر کرتے ہیں تو اس میں صدوق متکلم فیہ راوی ’’أبو صخر حميد بن زياد‘‘ اس حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہے نیز یہاں اس کے تفرد کی قبولیت کے لئے کوئی اضافی قرینہ نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اس تفرد کے مردو ہونے پر متعدد قرائن ہیں ملاحظہ ہو:


پہلاقرینہ:
’’يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، ‘‘کے ’’أبو صخر حميد بن زياد‘‘ سمیت بہت سارے شاگرد ہیں لیکن ’’أبو صخر حميد بن زياد‘‘ کے علاوہ کوئی بھی اپنے اس استاذ سے یہ روایت نقل نہیں کررہا ہے، اس قرینہ کے سبب متعدد ائمہ نے بعض رواۃ کی منفرد روایت کو رد کردیا ہے چنانچہ:

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) ایک مقام پر ایک راوی کی منفرد حدیث کی بابت فرماتے ہیں:
لا نعلم أحدا يرويه إلا يحيى بن آدم وهذا وهم لو كان هذا هكذا لحدث به الناس جميعا عن سفيان ولكنه حديث منكر
ہمیں نہیں معلوم کہ اسے یحیی بن آدم کے علاوہ بھی کوئی روایت کرتاہے اور یہ وہم ہے اگر یہ حدیث اس طرح ہوتی تو اسی طرح تمام لوگ سفیان ثوری سے نقل کرتے ، لیکن (ایسا نہیں ہوا لہٰذا) یہ حدیث منکر ہے[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 346]۔
اسی طرح امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)ایک مقام پر ایک راوی کی منفرد حدیث کی بابت فرماتے ہیں:
لم يروِ هذا الحدِيث عن أيمن إِلاَّ قِرانٌ، ولا أراهُ محفُوظًا، أين كان أصحابُ أيمن بنِ نابِلٍ، عن هذا الحدِيثِ؟.
اس حدیث کو ایمن سے قران کے علاوہ کسی نے بھی روایت نہیں کیا ! ایمن کے دیگرشاگرد اس حدیث کے بیان کے وقت کہاں تھے ؟؟؟ [علل الحديث 1/ 296]
دوسراقرینہ:
ابوصخر حمادبن زید صدوق متکلم فیہ ہے اور اس روایت کے بیان میں اسے اضطراب ہوا ہے کبھی اس نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پہلے ایک مزید واسطہ کا ذکرکیا[المعجم الأوسط 3/ 262] اورکبھی ذکر نہیں کیا ہے۔
لہذا صدوق کی جس روایت کے بارے میں پتہ چل جائے اس کے حافظہ نے کوتاہی کی ہے ، صدوق کی وہ خاص روایت ضعیف ہوگی۔ لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔


تیسراقرینہ:
اس حدیث کے متن میں شدید نکارت ہے کیونکہ اس میں دنیاوی جسم میں روح لوٹائے جانے کی بات ہےاور یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے۔جیساکہ ترمذی کی حدیث میں ہے:

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: «يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا»؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتُشْهِدَ أَبِي، وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، قَالَ: «أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ»؟ قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: " مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا. فَقَالَ: يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ. [ص:231] قَالَ: يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً. قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ " قَالَ: وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا} [آل عمران: 169].
صحابی رسول جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کی میری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر کیا بات ہے۔ میں تمہیں شکستہ حال کیوں دیکھ رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد شہید ہوگئے اور قرض عیال چھوڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ سناؤں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ تمہارے والد سے ملاقات کی عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے علاوہ ہر شخص سے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی لیکن تمہارے والد کو زندہ کر کے ان سے بالمشافہ گفتگو کی اور فرمایا اے میرے بندے تمنا کر۔ تو جس چیز کی تمنا کرے گا میں تجھے عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں قتل ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا کہ دینا چھوڑنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جائے گا۔ راوی کہتے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوئی (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَا ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ) ( آل عمران : 169) (یعنی تم ان لوگوں کو مردہ نہ سمجھو جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے ہیں۔ بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ الخ) [سنن الترمذي ت شاكر 5/ 230]
اس حدیث میں اللہ تعالی نے اپنا یہ قانون پیش کیا ہے کہ دنیا چھوڑنے کے بعد کوئی بھی شخص دنیا میں نہیں آسکتا ۔

اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث میں بھی شہداء نے اللہ کے سامنے یہ خواہش ظاہر کی:
يَا رَبِّ، نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى
اے رب ! ہماری خواہش ہے کہ تو ہماری روحوں کوہمارے جسموں میں لوٹا دے تاکہ ہم تیری راہ میں دوبارہ شہید ہوں [صحيح مسلم 3/ 1502]
لیکن اللہ تعالی نے ان کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔

معلوم ہوا کہ دنیاوی قبر میں موجود جسم میں روح کو لوٹانا اللہ کے قانون کے خلاف ہے ۔
اب طویل زندگی کے لئے روح لوٹائی جائے یا محض سلام کا جواب دینے کے لئے روح لوٹائی جائے بہرصورت یہ چیز اللہ کے قانون کے خلاف ہے ۔ لہٰذا اس کے برعکس کسی کمزور سند والی روایت میں کوئی بات ملتی ہے تو وہ منکر شمار ہوگی۔

نوٹ:
واضح رہے کہ حدیث براء رضی اللہ عنہ جس میں برزخ میں روح لوٹائے جانے کی بات ہے وہ صحیح ہے ۔
لیکن اس حدیث میں روح لوٹائے جانے کا جو معاملہ ہے وہ برزخی ہے کیونکہ برزخ میں سوال وجواب وغیرہ کے لئے یہ روح لوٹائی جاتی ہے ۔اورقران وحدیث میں اس کے خلاف کوئی چیز نہیں ہے۔

رہی قبررسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرتے وقت جواب دینے کے لئے روح کا لوٹایاجانا تو روح لوٹائے جانے کی یہ شکل پہلی شکل سے مختلف ہے کیونکہ یہاں دنیا میں موجود ایک زندہ شخص کے سلام کا جواب دینے کے لئے روح لوٹانے کی بات ہے ۔

ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ حدیث میں یہ بھی آتاہے کہ مردہ تدفین کرکے جانے والوں کے قدموں کی آواز سنتاہے۔
توعرض ہے کہ اس چیز کا اعادہ روح سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حدیث میں یہ آتاہے کہ مردہ کو قبرستان لے جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے مجھے کہاں لے جارہے ہو۔ظاہرہے کہ اس چیز کا تعلق اعادہ روح سے نہیں ہے۔یہ سب برزخی معاملات ہیں دنیاوی زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

لیکن دنیامیں موجودشخص کے سلام کے جواب کے لئے روح کا لوٹایا جانا یہ ایک الگ طرح کا معاملہ ہے ۔ اس اعادہ روح کے نتیجے میں زندہ اور فوت شدہ کے مابین مخاطبہ کی شکل پیداہوتی ہے جو بالکل دنیاوی معاملہ ہے اور مردوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ اللہ کے عام قانون کے خلاف ہے۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کلیب بدر کے واقعہ میں جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ مشرکین سے خطاب کیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ مانا۔کیونکہ یہاں مردہ مشرکین نے دنیا میں باحیات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کوسنا۔اوریہ اللہ کے عام قانون کے خلاف ہے اس لئے ایک معجزہ ہے۔

واضح رہے کہ دنیاوی شخص کے سلام کا جواب دینے کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح لوٹائی جانے والی روایت اگرفن حدیث کے اصولوں سے ثابت ہوجائے توہم اس حدیث کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے اسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص معاملہ تسلیم کریں گے۔
لیکن چونکہ یہ روایت فن حدیث کے اصولوں سے صحیح ثابت نہیں ہورہی ہے اورقران وحدیث کے عمومی بیان سے متصادم ہے ۔اس لئے ہم اس تصادم کو بھی بطور تائید پیش کرتے ہیں ۔واللہ اعلم بالصواب۔
 
Last edited:
Top