• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درویشوں کی اندھی تقلید موجب عذاب ِ آخرت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
درویشوں کی اندھی تقلید موجب عذاب ِ آخرت


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور ایسے شخص کی موافقت آدمی کو پہلے تو بدعت اور گمراہی کی طرف اور پھر کفر و نفاق کی طرف گھسیٹ لے جاتی ہے
اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا مصداق بن جاتا ہے۔
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَالَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا ﴿٢٧﴾ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْأَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا ﴿٢٨﴾ لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْجَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا﴿٢٩﴾الفرقان
’’اور جس دن نافرمان اپنے ہاتھ کاٹے گا اور کہے گا، اے کاش میں بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دین کے رستے لگ جاتا، ہائے میری کم بختی! کاش میں فلاں شخص کو دوست نہ بناتا، اس نے تو نصیحت کے آجانے کے بعد بھی مجھے اس سے بہکا دیا اور شیطان کا تو قاعدہ ہے کہ وقت پڑنے پر انسان کو چھوڑ کر الگ ہوجاتا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَوْمَ تُقَلَّبُوُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّـهَ وَأَطَعْنَاالرَّسُولَا ﴿٦٦﴾ وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَافَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا ﴿٦٧﴾ رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِوَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا ﴿٦٨﴾ الاحزاب
’’یہ وہ دن ہوگا جب کہ ان کے منہ آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے اور افسوس کے طور پر کہیں گے کہ اے کاش! ہم نے دنیا میں اللہ کا حکم مانا ہوتا اور یہ بھی کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہنا مانا اور انہوں نے ہی ہم کو گمراہ کیا تو اے ہمارے پروردگار ان کو دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی سے بڑی لعنت کر۔‘‘
اور فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّـهِ أَندَادًايُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّـهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّـهِ ۗوَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَلِلَّـهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ ﴿١٦٥﴾ إِذْ تَبَرَّأَالَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَوَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ ﴿١٦٦﴾ وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّلَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ كَذَٰلِكَيُرِيهِمُ اللَّـهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ ۖ وَمَا هُم بِخَارِجِينَمِنَ النَّارِ ﴿١٦٧﴾ البقرہ
’’اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا اوروں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور جیسی محبت اللہ تعالیٰ سے رکھنی چاہیے۔ ویسی محبت ان سے رکھتے ہیں اور جو ایمان والے ہیں، ان کو تو سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے اور جو بات ان ظالموں کو عذاب دیکھنے پر سوجھ پڑے گی۔ اے کاش! اب سوجھ پڑتی کہ ہر طرح کی قوت اللہ ہی کو ہے اور نیز یہ کہ اللہ کا عذاب بھی سخت ہے (یہ ایسا ٹیڑھا وقت ہوگا) کہ اس وقت گرو اپنے چیلے چانٹوں سے دست بردار ہوجائیں گے اور عذاب آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور ان کے آپس کے تعلقات سب ٹوٹ ٹاٹ جائیں گے اور چیلے بول اٹھیں گے کہ اے کاش! ہم کو ایک دفعہ دنیا میں پھر لوٹ کر جانا ملے تو جیسے یہ لوگ آج ہم سے دست بردار ہوگئے، اسی طرح ہم بھی ان سے دست بردار ہوجائیں یوں اللہ ان کے اعمال ان کے آگے لائے گا کہ ان کو اعمال سرتا سرموجب ِ حسرت دکھائی دیں گے اور ان کو دوزخ سے نکلنا نصیب نہیں ہوگا۔‘‘


درویشوں کی اندھی تقلید۔ طریقِ نصاریٰ


درویشوں اور اپنے پیشواؤں کی اندھی تقلید کرنے والے ان نصاریٰ سے مشابہت رکھتے ہیں
جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّندُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُواإِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴿٣١﴾ التوبۃ
’’کہ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ پروردگار بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ وہ مامور اس کے تھے کہ ایک اللہ تعالیٰ کی پرستش کرتے، جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے، وہ جو شرک کرتے ہیں، اس سے وہ پاک ہے۔ ‘‘
مسند میں ہے اور ترمذی نے بھی اس کی تصحیح کی ہے کہ
عدی ابن حاتم نے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ انہوں نے ان لوگوں کی بندگی تو نہیں کی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے ان کے لیے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دیا، تو انہوں نے ان کی یہ بات مان لی تو ان کا یہ عمل ہی ان کی عبادت تھا۔
(ترمذی کتاب التفسیر،فی تفسیرسورۃبراءۃ، رقم:۳۰۹۵۔ الدر المنثور ج۳ ص۲۳۰ وغیرہ۔)
اس لیے اس قسم کے لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اصول کو ضائع کرنے کی پاداش میں وصول سے محروم ہوگئے کیونکہ اصل الاصول اس چیز پر حقیقی ایمان لانا ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔ اللہ تعالیٰ پر، رسول پر اور اس کی شریعت پر ایمان لانا لابدی ہے نیز اس پر ایمان لانا بھی ضروری ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں، جنوں، عربوں، عجمیوں، عالموں، عابدوں، بادشاہوں اور رعیتوں الغرض ساری خلقت کے لیے مبعوث کئے گئے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ عزوجل کی راہ کسی مخلوق پر اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک وہ ظاہراً و باطناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع نہ کرے حتیٰ کہ موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیاء بھی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پالیتے تو ان پر جناب محمد رسول اللہ کا اتباع واجب ہوتا
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُمِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْرَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَأَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚقَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ ﴿٨١﴾ فَمَن تَوَلَّىٰبَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٨٢﴾ آلعمران
’’اور اے پیغمبر! ان کو وہ وقت یاد دلائو جب کہ اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ ہم جو تم کو اپنی کتاب اور حکمت عطا کریں اور پھر کوئی پیغمبر تمہارے پاس آئے اور جو کتاب تمہارے پاس ہے اس کی تصدیق بھی کرے تو دیکھو! ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا اور فرمایا کہ کیا تم نے اقرار کر لیا اور ان باتوں پر جو ہم نے تم سے عہدوپیمان لیا ہے، اس کو تسلیم کیا؟ پیغمبروں نے عرض کیا کہ ہاں ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا اچھا! تو آج کے قول وا قرار کے گواہ رہو اور تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ایک گواہ ہم بھی ہیں تو بات کے اس قدر پکے ہونے کے بعد جو کوئی قول سے منحرف ہو تو وہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘
ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
اللہ نے کوئی نبی ایسا نہیں پیدا کیا، جن سے یہ عہد نہ لیا ہو کہ اگر اس کی زندگی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوجائیں تو اس پر لازم ہو گا کہ وہ ان پر ایمان لائے اور ان کی مدد کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی اُمت سے یہ عہد لے لے کہ اس امت کی زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوجائیں تو ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
أَلَمْ تَرَ إِلَىالَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِنقَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنيَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿٦٠﴾وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّسُولِرَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا ﴿٦١﴾ فَكَيْفَ إِذَاأَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَبِاللَّـهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا ﴿٦٢﴾ أُولَـٰئِكَالَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّـهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْوَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا ﴿٦٣﴾ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنرَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواأَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُلَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ﴿٦٤﴾ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَحَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْحَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾ النسآء
’’(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا تم نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جو منہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ وہ قرآن پر ایمان رکھتے ہیں، جو تم پر اتارا گیا ہے اور ان آسمانی کتابوں پر بھی جو تم سے پہلے اتاری گئی ہیں اور چاہتے ہیں یہ کہ اپنا مقدمہ ایک شریر کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم دیا جاچکا ہے کہ اس کے ساتھ کفر کریں اور شیطان چاہتا ہے کہ ان کو بھٹکا کر راہ راست سے بڑی دور لے جائے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اللہ نے جو حکم اتارا، اس کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کریں تو تم ان منافقوں کو دیکھتے ہو کہ وہ تمہارے پاس آنے سے رکتے ہیں تو اس وقت ان کی کیسی کچھ رسوائی ہوگی، جب ان ہی کے اپنے کرتوت کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت آپڑے تو تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے دوڑے آئیں کہ بخدا ہماری غرض تو سلوک اور میل ملاپ کی تھی، یہ ایسے آدمی ہیں، جو فساد ان کے دلوں میں ہے بس اللہ ہی کو خوب معلوم ہے تو اے پیغمبران سے منہ موڑ لو اور ان کو سمجھائو اور ان سے ایسی موثر گفتگو کرو جو ان کے ذہن نشین ہوجائے۔ اور جو بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے بھیجا، اس کے بھیجنے سے ہمارا مقصود یہی رہا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور جب ان لوگوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا اگر اس وقت یہ لوگ تمہارے پاس آتے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے استغفار کرتے تو یہ لوگ دیکھ لیتے کہ اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ پس اے پیغمبر! تمہارے ہی پروردگار کی قسم ہے کہ جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑے تم سے ہی فیصلہ نہ کرائیں اور صرف فیصلہ ہی نہیں بلکہ جو کچھ تم فیصلہ کر دو، اس سے کسی طرح دلگیر بھی نہ ہوں بلکہ دل سے قبول کر لیں۔ جب تک ایسا نہ کریں یہ مومن نہیں ہوسکتے۔‘‘
غرض جب تک یہ سب کچھ نہ کریں۔ اس وقت تک وہ کو ایمان سے بہرہ ور نہیں ہو سکتے اور جس نے ذرا بھی رسول کی شریعت کی مخالفت کی اور جسے وہ ولی اللہ سمجھتا رہا۔ اس کا مقلد بنا رہا، اس نے اپنی اس بات کی بنا، اس پر رکھی کہ وہ ولی اللہ ہے اور ولی اللہ کی کسی بات کی مخالفت نہ کی جائے حالانکہ اگر یہ شخص سب سے بڑے اولیاء اللہ میں سے ہو جیسے کہ صحابہ کرام اور تابعین تھے تو جب بھی اس کی وہ بات نہ مانی جائے گی جو کتاب و سنت کے خلاف ہو، چہ جائیکہ ان سے کم درجے کے اولیاء کی باتیں مانی جائیں۔


الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 
Top