محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,785
- پوائنٹ
- 1,069
بسم الله الرحمن الرحيم
فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 21 ربیع الاول 1437 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "دعا،،، اہمیت، فوائد، شرائط اور آداب" ارشاد فرمایا
جس کے اہم نکات یہ تھے:
٭کامیابی و ناکامی کی بنیاد
٭ دعا کی اہمیت و فضائل
٭ دورِ حاضر میں دعاؤں کی ضرورت
٭ مشکل حالات میں دعا کرنے والوں کی مدح سرائی اور نہ کرنے والوں کی مذمت
٭ نوح، ابراہیم، ایوب، عیسی علیہم السلام اور محمد ﷺ کی دعائیں٭
تاریخ ساز دعائیں
٭ دعا کی شرائط اور آداب
٭ قبولیتِ دعا کے اسباب
٭ قبولیت والے اوقات کی جستجو
٭ دعا کی وجہ سے مشرک بننے والے لوگ
٭ مقرب ترین شخصیت سے بھی دعا نہیں مانگی جا سکتی
٭ گمراہی کا سبب اندھی تقلید
٭ مانگنے کی چیز ہے ہزار بار مانگو
٭ جامع ترین دعائیں۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے، وہ دعائیں سننے والا ہے، نعمتیں اور رحمتیں عطا کرتا ہے ، وہی مشکل کشائی فرماتا ہے، اپنے رب کی تعریف اور شکر گزاری کرتے ہوئے اسی کی جانب رجوع کرتا ہوں اور گناہوں کی معافی چاہتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے، وہی عزت و کبریائی والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، آپ کو کامل و روشن شریعت دے کر بھیجا گیا، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد ، ان کی آل اور نیکیوں کیلیے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہی کما حقُّہ اختیار کرو، تقوی حاصل کرنے والے کیلیے اللہ تعالی دنیا و آخرت کی خیر یکجا فرما دے گا، جب کہ تقوی سے رو گردانی کرنے والا اپنے انجام میں بد بخت ٹھہرے گا چاہے اسے دنیا کتنی ہی مل جائے۔
مسلمانو!
اللہ تعالی نے دنیا و آخرت کیلیے خیر و سعادت کے اسباب مقرر کر دیے ہیں ، اسی طرح دونوں جہانوں میں شر کے اسباب بھی مقرر فرما دیے ہیں، لہذا خیر و فلاح کے اسباب اپنانے والے کیلیے اللہ تعالی نے دنیاوی کامیابی کی ضمانت دے دی ہے، اور آخرت میں اسی کیلیے اچھا انجام ہو گا وہ ہمیشہ نعمتوں والی جنت میں رہے گا، اور ربِ رحیم کی رضا پائے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ}بھلائی کا بدلہ صرف بھلائی ہی ہے۔ [الرحمن : 60]
اور برائی کے اسباب اپنانے والے کو زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی برا انجام ہی ملے گا،
فرمانِ باری تعالی ہے:
{لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا}
[جنت میں داخلہ] نہ تمہاری آرزوؤں پر [موقوف]ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر، جو بھی برے کام کرے گا اس کی سزا پائے گا اور اللہ کے سوا کسی کو اپنا دوست و مدد گار نہ پائے گا [النساء : 123]
یاد رکھیں! اپنی اور دوسروں کی اصلاح و فلاح اور دائمی خیر و بھلائی، مصیبتوں اور عقوبتوں سے تحفظ، اور موجودہ مصائب و آلام کے ازالہ کا اہم طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی سے اخلاص، دلی توجہ اور گڑگڑا کر دعا کی جائے، کیونکہ اللہ تعالی دعا کو پسند فرماتا ہے، دعا مانگنے کا حکم دیتا ہے، دعا موجودہ اور پیش آمدہ مصائب کیلیے بہترین اِکسیر ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ}
آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے: "مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں جلد ہی ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے" [غافر : 60]
حقیقت میں دعا ہی عبادت ہے، جیسے کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
(دعا ہی عبادت ہے)
ابو داود، ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(اللہ تعالی کے ہاں کوئی چیز بھی دعا سے بڑھ کر معزز نہیں ہے)
ترمذی، ابن حبان، اور حاکم نے اسے روایت کیا ہے، نیز حاکم نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
ہر وقت دعا کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے، دعا کرنے پر اللہ تعالی عظیم ترین ثواب سے نوازتا ہے، دعا کے ذریعے خاص اور عام تمام قسم کے مطالبات پورے کروائے جا سکتے ہیں، چاہے ان کا تعلق دین سے ہو یا دنیا سے، زندگی سے ہو یا موت کے بعد سے۔
دعا کے فوائد کی وجہ سے اللہ تعالی نے فرض عبادات میں بھی دعا کو فرض یا مستحب قرار دیا ہے، یہ ہمارے رب کا ہم پر رحم و کرم اور فضل ہے، صرف اس لیے کہ ہم بھی اس پر اسی طرح عمل کریں جیسے اللہ تعالی نے ہمیں سکھایا ہے، اگر اللہ تعالی ہمیں نہ سکھاتا تو ہم خود سے یہ نہیں کر سکتے تھے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ }
اور تمھیں وہ کچھ سکھایا گیا جو تم اور تمہارے آبا بھی نہیں جانتے تھے[الأنعام : 91]
اس عظیم نعمت پر ہمہ قسم کی ڈھیروں، پاکیزہ اور برکتوں والی تعریفیں اللہ تعالی کیلیے ہی ہے، جیسے ہمارا رب پسند فرمائے اور راضی ہو۔
دعا کی ضرورت ہر وقت ہوتی ہے لیکن آج کل کے پر فتن دور ، تباہ کن حادثات اور مسلمانوں کی زبوں حالی کی وجہ سے دعا کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے والے بدعتی فرقے پھل پھول رہے ہیں جو کہ معصوم لوگوں کی جان و مال حلال سمجھتے ہیں، علم و علما کیساتھ جفا کرتے ہیں اور جہالت و گمراہی کیساتھ فتوی دیتے ہیں ، اسلام دشمن قوتیں ان کے ساتھ ہیں اور اہل ایمان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں سر گرم ہیں، مسلمانوں میں پھوٹ، اختلاف اور تصادم پیدا کرنے کے در پے ہیں، ان حالات میں دعا کی ضرورت مزید دو چند ہو جاتی ہے۔
مسلمانوں کو پہنچنے والے نقصانات کے باوجود انہیں ظلم و بربریت کیساتھ بے گھر کیا گیا ، ضروریات زندگی میسر آنا مشکل ہو گئیں کہ زمین اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہونے لگی، ایسے سنگین اور سخت حالات میں دعا کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے ، ان حالات کی آگ میں مسلمان ایسے خطوں میں جل رہے ہیں جہاں فتنوں کی بھر مار ہے۔
اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کی تعریف بیان کی ہے جو مشکل حالات میں اللہ تعالی سے دعائیں کرتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالی نے پوری انسانیت کے والدین آدم و حوا علیہما السلام کے متعلق فرمایا:
{قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ}
ان دونوں نے کہا: "ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے" [الأعراف : 23]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ}
اور ہم ضرور تمھیں خوف اور فاقہ میں مبتلا کر کے، جان و مال اور پھلوں کے خسارے سے آزمائیں گے، اور ایسے صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیجئے [156] جنہیں کوئی مصیبت آئے تو فوراً کہہ اٹھتے ہیں کہ : ہم بھی اللہ ہی کی ملکیت ہیں ، اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے [157] ایسے ہی لوگوں پر ان کے رب کی طرف سے عنایات اور رحمتیں برستی ہیں ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوتے ہیں ۔[البقرة : 155 - 157]
اسی طرح اللہ تعالی یونس علیہ السلام کے بارے فرمایا:
{ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ}
انہوں نے اندھیروں میں پکارا: تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے، تو پاک ہے، میں ہی ظالموں میں سے تھا۔[الأنبياء : 87]
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(جو بھی مسلمان کسی بھی چیز کیلیے مچھلی والے [یونس علیہ السلام] کی دعا مانگے تو اللہ تعالی اس کی دعا قبول فرماتا ہے)
اسے احمد، ترمذی، اور حاکم نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
اسی طرح جب نبی ﷺ نے ثقیف قبیلے کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور انہوں نے آپ ﷺ کی دعوت قبول کرنے سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ اتنے پتھر بھی مارے جن سے آپ کی ایڑھیاں خون میں لت پت ہو گئیں تو آپ ﷺ نے یہ کہتے ہوئے دعا فرمائی:
(اَللَّهُمَّ أَشْكُو إلَيْكَ ضَعْفَ قُوّتِي ، وَقِلّةَ حِيلَتِي ، وَهَوَانِي عَلَى النّاسِ، يَا أَرْحَمَ الرّاحِمِينَ ! إلَى مَنْ تَكِلُنِي ؟ إلَى بَعِيْدٍ يَتَجَهّمُنِي ؟ أَمْ إلَى عَدُوٍّ مَلّكْتَهُ أَمْرِي ؟ إنْ لَمْ يَكُنْ بِك غَضَبٌ عَلَيّ فَلَا أُبَالِي ، وَلَكِنّ عَافِيَتَك أَوْسَعُ لِي ، أَعُوذُ بِنُورِ وَجْهِك الّذِي أَشْرَقَتْ لَهُ الظّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَيْهِ أَمْرُ الدّنْيَا وَالْآخِرَةِ أَنْ يَحِلّ بِي غَضَبُك ، أَوْ يَنْزِلَ بِي سُخْطُكَ، لَك الْعُتْبَى حَتّى تَرْضَى ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوّةَ إلّا بِك
[یا اللہ! میں اپنی کمزوری، تدبیر کی کمی، اور لوگوں کی نظروں میں ہلکا ہونے کی شکایت تجھ سے کرتا ہوں، یا ارحم الرحمین! تو مجھے کس کے سپرد کرنے والا ہے؟ کسی (تیوڑی چڑھا کر ملنے والے) سخت دشمن کے ؟ یا کسی ایسے دشمن کے سپرد کرنے لگا ہے جسے تو نے میرے معاملہ کا مالک بنا دیا ہے؟ اگر تو مجھ پر غضبناک نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے، لیکن تیری طرف سے عافیت میرے لیے زیادہ بہتر ہے، میں تیرے چہرے کے نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے اندھیرے بھی روشن ہو گئے ہیں اور دنیا و آخرت کے معاملات درست ہو گئے ہیں، کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو، یا مجھ پر تیری ناراضی اترے ، میں تجھے مناتا رہوں گا حتی کہ تو راضی ہو جائے، نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت تیرے بغیر ممکن نہیں ہے])
اگر انسان کسی مشکل یا مصیبت کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوں تو دعا کے ذریعے اس کا مقابلہ کریں ، چنانچہ ثوبان رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ :
(تقدیر کو دعا ہی ٹال سکتی ہے، عمر میں نیکی ہی اضافہ کر سکتی ہے، اور انسان کو گناہ کا ارتکاب کرنے پر رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے)
ابن حبان اور حاکم نے اسے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(دعا موجودہ اور پیش آمدہ ہر قسم کی مصیبت میں فائدہ دیتی ہے، اس لیے اللہ کے بندو! دعا لازمی کیا کرو)
ترمذی، حاکم
اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(اللہ تعالی فرماتا ہے: میں بندے کے گمان کے مطابق اپنے بندے کیساتھ ہوتا ہوں، جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں)
بخاری و مسلم،
یہ بات مسلمان کیلیے کسی شرف سے کم نہیں ۔
اسی طرح اللہ تعالی نے مصیبت اور پر فتن وقت میں دعا نہ کرنے والے لوگوں کی مذمت فرمائی، چنانچہ فرمایا:
{وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ}
اور ہم نے انہیں عذاب میں مبتلا کیا تب بھی وہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی گڑگڑائے۔[المؤمنون : 76]
اسی طرح فرمایا:
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [42] فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}
آپ سے پہلے ہم نے بہت سی قوموں کی طرف رسول بھیجے ، پھر ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تاکہ وہ گڑگڑا کر دعا کریں [42] پھر جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ کیوں نہ گڑگڑائے؟ مگر ان کے دل تو اور سخت ہو گئے اور جو کام وہ کر رہے تھے شیطان نے انہیں وہی کام خوبصورت بنا کر دکھائے۔[الأنعام :42- 43]
اسی طرح فرمایا:
{وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ}
اور ہم نے جب بھی کسی بستی میں نبی بھیجا تو وہاں کے رہنے والوں کو سختی و تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ گڑگڑا کر دعا کریں [الأعراف : 94]
سنگین حالات میں بھی دعائیں نہ کرنا گناہوں پر اصرار میں شامل ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالی کی سخت پکڑ کو معمولی سمجھنے کی مانند ہے، حالانکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ}
بیشک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔[البروج : 12]
خیر و برکت کے نزول اور مشکل کشائی یا بلاؤں کے ٹالنے کیلیے دعا بہت عظیم ذریعہ ہے، دعا در پیش مصیبت و تکلیف سے نکلنے کیلیے قوی ترین سبب بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (83) فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَذِكْرَى لِلْعَابِدِينَ }
ایوب نے اپنے پروردگار کو پکارا : "مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے" [83] چنانچہ ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کی بیماری کو دور کر دیا، نیز ہم نے اُنہیں صرف اہل و عیال ہی نہ دیئے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیئے اور یہ ہماری طرف سے خاص رحمت تھی اور [اس میں] عبادت گزاروں کے لئے سبق ہے۔ [الأنبياء : 83 - 84]
اسی طرح فرمایا:
{أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ}
کون ہے جو لاچار کے پکارنے پر اس کی مدد کرتا ہے اور مشکل کشائی فرماتا ہے؟ [النمل : 62] یعنی : اللہ کے سوا کوئی لاچار کی پکار نہیں سنتا۔
اسی طرح فرمایا:
{قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ }
آپ ان سے پوچھئے کہ: بحر و بر کی تاریکیوں میں پیش آنے والے خطرات سے تمھیں کون نجات دیتا ہے؟ جسے تم عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے پکارتے ہو کہ: "اگر اس نے ہمیں [اس مصیبت سے] نجات دے دی تو ہم ضرور اس کے شکر گزار ہوں گے [الأنعام : 63]
جاری ہے ----
Last edited: