• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعاء میں ہاتھ اٹھانا ۔۔اور دعاء کے بعد ہاتھ چہرہ پر پھیرنا

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تحقیق حدیث کے متعلق سوالات کے زمرہ میں محترم بھائی @خان سلفي صاحب نے درج ذیل امیج میں موجود حدیث کی صحت کے متعلق سوال کیا ہے :

دعاء کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرنا.jpg

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس روایت اور اس مضمون کی دیگر روایات کیلئے حافظ عبد المنان نور پوری رحمۃ اللہ علیہ کے فتاوی میں ایک مفید علمی مضمون شائع ہے ۔آپ کے سوال کے جواب میں پیش خدمت ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہﷺسے ثابت نہیں منہ پر ہاتھ پھیرنے والی روایت میں اہل علم کے دو قول ہیں : (۱) ضعیف۔ (۲)حسن لغیرہ ہے ۔ اس بارہ میں محترم دوست مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ایک مضمون ہفت روزہ جریدہ الاعتصام جلد ۴۸ شمارہ ۶میں شائع ہوا تھا تحقیق کی خاطر اس کا مطالعہ فرما لیں۔
کیا دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنا بدعت ہے ؟

الاعتصام کے شمارہ نمبر۴۱ جلد ۴۷ ۔ ۳ جمادی الثانیہ بمطابق ۲۷ اکتوبر ۱۹۹۵ء میں مولانا جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب کا ایک مضمون ’’دعا کرنے کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ جس میں انہوں نے اس موضوع سے متعلقہ دو احادیث پر تنقید کی ہے ۔ ایک حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی جو ابن ماجہ اور ابوداود وغیرہ میں مروی ہے اور دوسری حضرت عمر فاروق ﷜ کی جو جامع ترمذی وغیرہ میں منقول ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بلوغ المرام میں حضرت عمر﷜ کی روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :
«اخرجه الترمذی وله شواهد منها عند ابی داود من حديث ابن عباس وغيره ومجموعها يقتضی بانه حديث حسن»
کہ اسے ترمذی نے نکالا ہے اور اس کے اور شواہد ہیں۔ ان میں سے ایک ابوداود کے ہاں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے اور ان شواہد کا مجموعہ اس بات کا مقتضی ہے کہ یہ حدیث حسن ہے،
مولانا جاوید اقبال صاحب فرماتے ہیں کہ اس باب کی تمام احادیث حسن لغیرہ تک بھی نہیں پہنچتیں ۔ اس لیے یہ شواہد بننے کے قابل نہیں ۔
نیز لکھتے ہیں کہ’’اس طرح کی حدیث ابوداود میں سائب بن یزید سے آتی ہے وہ بھی ضعیف ہے‘‘ یہی نہیں بلکہ انہوں نے علامہ عز بن عبدالسلام سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : ’’دعا کے بعد منہ پر ہاتھ جاہل ہی پھیرتا ہے‘‘ ۔
انہوں نے اپنی اس تحقیق کا تمام تر مدار علامہ البانی حفظہ اللہ کی تحقیق پر رکھا ہے چنانچہ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ ج ۲ ص ۱۴۶ میں یہ بحث دیکھی جا سکتی ہے ۔ اسی طرح علامہ البانی نے ان احادیث کو ضعیف الترمذی، ضعیف ابی داود ، ضعیف ابن ماجہ میں ذکر کیا ہے ۔ جن کا حوالہ خود مولانا جاوید صاحب نے بھی دیا ہے ۔
ان کی معلومات میں اضافہ کے لیے عرض ہے کہ علامہ البانی نے ارواء الغلیل ج۲ ص۱۷۸ سے ص ۱۸۲ تک میں انہی روایات پر تفصیلاً نقد کیا ہے۔ نیز ابوداود میں ’’سائب بن یزید‘‘ سے نہیں بلکہ سائب بن یزید عن ابیہ یعنی یزید بن سعید الکندی سے روایت ہے ۔ حضرت عمر ﷜ کی حدیث کے بارے میں جامع ترمذی کے نسخے امام ترمذی کا کلام نقل کرنے میں مختلف ہیں ۔ علامہ البانی حفظہ اللہ نے الارواء میں ’’حدیث صحیح غریب‘‘ اسی طرح علامہ قرطبی نے تفسیر ج۷ص۲۲۵ اور حافظ عبدالحق نے بھی ان کا قول ’’صحیح غریب‘‘ نقل کیا ہے ۔ بعض میں ’’حسن صحیح غریب‘‘ ہے ۔ اور اکثر وبیشتر نسخوں میں صرف ’’غریب‘‘ ہے ۔(1) اس کی سند میں حماد بن عیسیٰ الجہنی ضعیف ہے ۔ متروک یا کذاب نہیں ۔ البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں صالح بن حسان متروک ہے جیسا کہ تقریب میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے ۔ مگراس کا متابع ’’عیسیٰ بن میمون‘‘ ہے ۔ جیسا کہ امام محمد بن نصر نے قیام اللیل ص ۲۳۶ میں ذکر کیا ہے اور علامہ البانی نے بھی ’’الاروائ‘‘ میں اسے نقل کیا ہے مگر وہ بھی ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب ص ۴۱۱ میں کہا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ایک اور سند سے سنن ابی داود میں مروی ہے جسے امام ابوداود نے عبداللہ بن یعقوب عن من حدثہ عن محمد بن کعب سے روایت کیا ہے مگر اس کی سند میں عبدالملک بن محمد بن ایمن مجہول ہے ۔ (تہذیب،ج6ص419تقریب ص334) اور عبداللہ بن یعقوب کے استاد کا نام ہی نہیں کہ وہ کون ہے ؟ علامہ البانی نے سلسلۃ الصحیحہ ، ج ۲ ص ۱۴۶میں کہا ہے کہ :

«علته الرجل الذی لم يسم وقد سماه ابن ماجة وغيره صالح بن حسان کما بينته فی تعليقی علی المشکاة ۲۲۴۳ وهو ضعيف جدا»
’’اس کی علت یہ ہے کہ راوی کا نام نہیں لیا گیا ۔ ابن ماجہ وغیرہ نے اس کا نام صالح بن حسان لیا ہے ۔ جیسا کہ میں نے مشکوٰۃ کی تعلیقات میں حدیث نمبر ۲۲۴۳ میں بیان کیا ہے ، اور وہ سخت ضعیف ہے ‘‘ ۔
مگر حیرت کی بات ہے کہ علامہ البانی نے مشکوٰۃ کی اس محولہ روایت کے بارے میں کچھ بھی نہیں کیا ۔ البتہ حدیث نمبر ۲۲۵۵ کے تحت ’’سائب بن یزید عن ابیه‘‘ کی جو روایت ہے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ابوداود میں ہے اور اس کی سند ضعیف ہے ۔ اور ارواء الغلیل میں لکھتے ہیں :

«هذا سند ضعيف عبدالملک هذا ضعفه ابوداود وفيه شيخ عبداﷲ بن يعقوب الذی لم يسم فهو مجهول ويحتمل ان يکون هو ابن حسان … او ابن ميمون» الخ (الارواه: ج 2 ص 180)
یہ سند ضعیف ہے عبدالملک کو ابوداود نے ضعیف کہا ہے اور عبداللہ بن یعقوب کے استاد کا نام نہیں لیا گیا پس وہ مجہول ہے ۔ احتمال ہے کہ وہ صالح بن حسان ہے یا عیسیٰ بن میمون ہے۔ غور فرمائیے یہاں انہوں نے دونوں کا احتمال ظاہر کیا ہے ۔ سلسلۃ الصحیحہ جیسا وثوق یہاں نہیں ۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ مراد ابوالمقدام ہشام بن زیاد ہو ۔ کیونکہ سلو اﷲ ببطون اکفکم الخ کے علاوہ باقی الفاظ یعقوب نے اسی کے واسطہ سے بیان کیے ہیں ۔ جیسا کہ علامہ المزی نے (تہذیب الکمال ج22ص257،258) میں کہا ہے ۔ بہرحال یہ مبہم راوی صالح بن حسان ہو یا عیسی بن میمون یا ابوالمقدام ، ضعیف ہے ، بلکہ صالح اور ابوالمقدام متروک ہیں ۔ لیکن عبدالملک کے بارے میں علامہ البانی کا کہنا ’’ضعفه ابوداود‘‘ (امام ابوداودؒ نے اسے ضعیف کہا ہے ) قطعاً درست نہیں ۔ امام ابوداود رحمہ اللہ نے تو فرمایا ہے ’’ وهذا الطريق امثلها وهو ضعيف‘‘ کہ محمد بن کعب سے اس روایت کے جتنے طرق مروی ہیں وہ سب کمزور ہیں ۔ اور یہ طریق سب سے امثل ہے حالانکہ وہ بھی ضعیف ہے ۔ امام ابن قطان رحمہ اللہ نے اسے مجہول کہا ہے ۔ تہذیب ج۶ ص ۴۱۹ اور تقریب میں بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے مجہول ہی قرار دیا ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت ایک اور سند سے مستدرک حاکم ، ج۴ ص ۲۷۰ میں مذکور ہے مگر محمد بن معاویہ اس کا راوی متروک ہے ۔ امام دار قطنی وغیرہ نے کذاب کہا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت مختلف طرق سے مروی ہے اور وہ سب ضعیف ہیں۔ مگر ان میں دو کا ضعف شدید ہے کہ ان کے راوی متروک ہیں اور دو کا ضعف بوجہ مجہول اور ضعیف راوی کے ہے۔
تیسری حد یث : یہی روایت حضرت یزید ﷜ بن سعید بھی بیان کرتے ہیں ۔ جیسے امام ابوداود ، ج ۱ص۵۵۴ ۔ اور امام محمد بن خلف الوکیع نے اخبار القضاء ج۱ ص ۱۰۷ میں ذکر کیا ہے مگر یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ ابن لہیعۃ ضعیف اور اس کا استاد حفص بن ہاشم مجہول ہے ۔
یہ ہیں وہ شواہد ومتابعات جن کی بناء پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مجموعی طور پر اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔ مگر ہمارے مولانا جاوید صاحب علامہ البانی کی اتباع میں ان سے متفق نہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس پر حسن حدیث کی تعریف صادق آتی ہے یا نہیں ۔ یہ بات تو کسی صاحب علم پر مخفی نہیں کہ حسن لغیرہ کی تعریف میں یہی کہا گیا ہے کہ اس کے راوی مہتم بالکذب نہ ہوں ۔ وہ روایت شاذ نہ ہو اور اگر ضعف راوی کے مجہول ہونے یا ضعیف ہونے کی بناء پر ہو اور وہ متعدد اسانید سے مروی ہو یا اس کے اسی درجہ کے شواہد ہوں تو وہ روایت حسن لغیرہ ہوگی ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی حسن کی تعریف میں انہی شرائط کا ذکر کیا ہے ۔ بنا بریں جب حضرت عمر t ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دو سندوں سے مروی حدیث اور حضرت یزید ﷜ بن سعید کی حدیث جو بوجہ ضعف راوی فرداً فرداً ضعیف ہیں مگر ان کے راوی کذاب اور متروک نہیں، نہ ہی وہ شاذ ہیں تو ان کے مجموعہ کو حسن نہیں کہیں گے تو اورکیا کہیں گے ؟

عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہماکا عمل

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«حدّثنا ابراهيم بن المنذر قال حدثنا محمد بن فليح قال اخبرنی ابی عن ابی نعيم وهو وهب قال رايت ابن عمرو ابن الزبير يدعو ان يديران بالراحتين علی الوجه‘‘(الادب المفرد ص 159 حديث 609)
کہ وہب بن کیسان فرماتے ہیں ، میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابن الزبیر رضی اللہ عنہما کو دیکھا وہ دعاء کرتے اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنے منہ پر ملتے تھے ۔ یہ اثر سنداً حسن ہے بلکہ حافظ ابن حجر﷫نے ’’الامالی‘‘ میں اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس کے سب راوی صحیح بخاری کے ہیں ۔

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا عمل

امام محمد بن نصر مروزی معتمر سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوکعب عبدربہ بن عبید الازدی صاحب التحریر کو دیکھا کہ وہ ہاتھ اٹھا کر دعاء کرتے جب دعاء سے فارغ ہوتے تو اپنے ہاتھوں کو منہ پر ملتے ۔ میں نے ان سے پوچھا آپ نے ایسا کرتے ہوئے کسے دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : حسن بصری رحمہ اللہ اسی طرح کرتے تھے ۔(قیام اللیل ص236)امام احمد رحمہ اللہ نے بھی حضرت حسن رحمہ اللہ بصری کے اسی اثر کا ذکر کیا ہے ۔ چنانچہ جب ان سے قنوت وتر میں منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :
«الحسن يروی عنه انه کان يمسح بها وجهه فی دعائه اذا دعا»( مسائل الامام احمد روایت ابن عبد اﷲ ، ج۲ ص۳۰۰) کہ«حسن بصری رحمه الله »سے اس کے بارے میں مروی ہے کہ وہ جب دعا کرتے ، ہاتھوں کو منہ پر پھیرتے تھے ‘‘ ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الامالی میں حضرت یزید بن سعید﷜ کی روایت نقل کرنے کے بعد کہا ہے ۔

«لکن للحديث شاهد الموصولين (كذا فى الاصل)والمرسل ومجموع ذلک يدل علی ان للحديث اصلا ويؤيده ايضا ما جاء عن الحسن البصری باسناد حسن وفيه رد علی من زعم ان هذا العمل بدعة وأخرج البخاری فی الادب المفرد عن وهب بن کيسان قال رايت ابن عمر وابن الزبير يدعوان فيديران الراحتين علی الوجهين هذا موقوف صحيح يقوی به الرد علی من کره ذلک» (انتهی ملخص)
لیکن اس حدیث کے دو موصول اور ایک مرسل شاہد ہیں ۔ اور ان کا مجموعہ اس پر دال ہے کہ اس حدیث کی اصل ہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حسن بصری سے یہ عمل منقول ہے اور اس سے اس شخص کی تردید ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ یہ عمل بدعت ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’الادب المفرد‘‘ میں وہب بن کیسان سے نقل کیا ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہماکو دیکھا کہ وہ دعاء کرتے اور اپنے ہاتھوں کو منہ پر ملتے تھے یہ موقوف صحیح ہے اور اس سے اس کی سخت تردید ہوتی ہے ۔ جو اسے مکروہ سمجھتا ہے ۔

مرسل حدیث

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’الامالی‘‘ میں جس مرسل روایت کااشارہ کیا ہے غالباً اس سے مراد امام زہری رحمہ اللہ کی مرسل روایت ہے جسے امام عبدالرزاق نے ذکر کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ۔
«کان رسول اﷲ يرفع يديه بحذاء صدره اذا دعا ثم يمسح بهما وجهه»مصنف عبدالرزاق,ج 3ص 123


رسول اللہ r جب دعا کرتے تو سینے کے برابر ہاتھ اٹھاتے پھر ان کو منہ پر ملتے ۔ یہ روایت گو مرسل ہے مگر دیگر روایات اس کی مؤید ہیں ۔ جیسا کہ پہلے تفصیل گزر چکی ہے بلکہ امام عبدالرزاق نے یہ روایت معمر رحمہ اللہ کے واسطہ سے نقل کی ہے ۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’ رأيت معمراً يفعله‘‘ (میں نے معمر کو دیکھا وہ اسی طرح دعا کے آخر میں منہ پر ہاتھ پھیرتے تھے) امام زہریؒ کی اس مرسل پہ راوی کا یہ عمل اس کا مزید مؤید ہے ۔ امام اسحاق بن راہویہ کا شمار عظیم فقہائے محدثین میں ہوتا ہے ۔ وہ بھی اس کے قائل تھے ۔ چنانچہ امام محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’رأيت اسحاق يستحسن العمل بهذه الاحاديث‘‘ قيام الليل ص 232

کہ میں نے دیکھا امام اسحاق رحمہ اللہ ان روایات پر عمل مستحسن سمجھتے تھے ۔ امام احمد رحمہ اللہ بن حنبل سے بھی اسی بارے میں دو قول منقول ہیں ۔ ایک تو یہ کہ دعائے وتر کے بعد منہ پر ہاتھ نہ پھیرے جائیں جیسا کہ امام ابوداود رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اور دوسرا یہ کہ منہ پر ہاتھ پھیرنا مستحب ہے جیسا کہ علامہ ابن قدامہ نے المغنی ج۱ ص۷۸۶ ، اورعلامہ شمس الدین ابن قدامہ نے الشرح الکبیر ج۱ ص۷۲۴ میں ذکر کیا ہے ۔ نیز دیکھیں قلع(ج۱ص۱۸۵) جبکہ علامہ المروزی نے کہا ہے منہ پر ہاتھ پھیرے جائیں ۔ ’’ وهو المذهب فعله الامام احمد‘‘ (یہی مذہب ہے امام احمد رحمہ اللہ نے ایسا کیا ہے ) صاحب مجمع البحرین نے کہا ہے کہ یہی روایت زیادہ قوی ہے ۔ الکافی میں ہے کہ یہ اولیٰ ہے الخ ۔(الانصاف ,ج3 ص173)
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ منہ پر ہاتھ پھیرنے چاہیں تو انہوں نے فرمایا :

«ارجو ان لا يکون به بأس وکان الحسن اذا دعا مسح وجهه وقال سئل ابی عن رفع الايدی فی القنوت يمسح بهما وجهه قال لا بأس به يمسح بهما وجهه قال عبداﷲ ولم أرابی يمسح بهما وجهه»بدائع الفوائد,ج4 ص 113
مجھے امید ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ حسن بصری رحمہ اللہ جب دعا کرتے منہ پر ہاتھ پھیرتے تھے ۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد (امام احمد) سے سوال ہوا کہ قنوت میں دعاء کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرنے چاہیں ؟ انہوں نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں ۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو منہ پر ہاتھ پھیرتے نہیں دیکھا ۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اسی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
«فقد سهل ابو عبداﷲ فی ذلک وجعل بمنزلة مسح الوجه فی غیر الصلوة لانه عمل قليل ومنسوب الی الطاعة واختيار ابی عبداﷲ ترکه»بدائع,ج 4 ص 113
یعنی امام ابو عبداللہ احمد رحمہ اللہ نے اس میں آسانی پیدا کی ہے اور اسے نماز کے علاوہ منہ پر ہاتھ پھیرنے کے برابر قرار دیا ہے کیونکہ یہ عمل قلیل ہے اور اطاعت (وعبادت) کی طرف منسوب ہے ۔ البتہ امام احمد رحمہ اللہ نے منہ پر ہاتھ نہ پھیرنے کو پسند کیا ہے ۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے اس بیان سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کے علاوہ دعاء کے اختتام پر منہ پر ہاتھ پھیرنے میں امام احمد رحمہ اللہ کا انکار نہیں ۔ البتہ نماز میں منہ پر ہاتھ پھیرنے میں ان کا انکار ہے اور اس پر ان کا عمل نہیں لیکن اگر نماز میں بھی منہ پر ہاتھ پھیر لیا جائے تو اسے ’’لا بأس به‘‘ کہتے ہیں ۔ بلاشبہ علامہ عز بن عبدالسلام نے دعاء کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں سخت ترین موقف اختیار کیا ہے کہ ایسا کرنے والا جاہل ہے مگر علامہ مناوی رحمہ اللہ نے فیض القدیر ج۱ ص۳۶۹ میں کہا ہے کہ یہ ان کی بہت بڑی لغزش ہے ۔ علامہ البانی بلاشبہ علامہ مناوی سے متفق نہیں مگر ان سے پہلے یہی بات علامہ الغزی رحمہ اللہ نے السلاح میں بھی کہی ہے ۔ چنانچہ علامہ ابن علان کہتے ہیں ۔
«قال فی السلاح وقول بعض العلماء فی فتاويه ولا يمسح وجهه بيديه عقب الدعاء الا جاهل محمول علی انه لم يطلع علی هذه الاحاديث»الفتوحات الربانية,ج 7 ص 258
یعنی ’’السلاح‘‘ میں کہا ہے کہ بعض علماء کا اپنے فتویٰ میں یہ کہنا کہ دعاء کے بعد منہ پر ہاتھ جاہل ہی پھیرتا ہے ۔ اس بات پر محمول ہے کہ انہیں ان احادیث کی خبر نہیں ہوئی ۔ ظاہر بات ہے کہ اگر اس باب کی تمام مرفوع روایات اگر علامہ ابن عبدالسلام کے نزدیک ضعیف ہیں تو کیا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہماکا عمل بھی ضعیف ہے ؟ پھر کیا جس پر امام حسن بصری رحمہ اللہ کا عمل ہو ۔ امام معمر رحمہ اللہ ۔ امام احمد رحمہ اللہ اور امام اسحاق بن راہویہ بھی اس کے قائل ہوں اس پر عمل کرنے والے کو جاہل کہا جا سکتا ہے ؟
حیرت ہے کہ علامہ البانی فرماتے ہیں کہ المجموع میں علامہ النووی رحمہ اللہ نے علامہ ابن عبدالسلام رحمہ اللہ کی موافقت کی ہے اور منہ پر ہاتھ پھیرنے کو غیر مندوب قرار دیا ہے (الارواء ج2 ص182) حالانکہ علامہ النووی رحمہ اللہ نے شرح المہذب (ج۳ ص۵۰۵-۵۰۱) میں دعائے وتر کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں کہا ہے صحیح یہ ہے کہ منہ پر ہاتھ نہ پھیرے جائیں اور لکھا ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ علامہ الرافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے یوں نہیں کہ دوسرے اوقات میں بھی دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کو انہوں نے غیر صحیح کہا ہے بلکہ انہوں نے کتاب الاذکار کے آخر میں آداب دعا کو ذکر کرتے ہوئے تیسرا ادب یہ بیان کیا ہے ’’ استقبال القبلة ورفع اليدين ويمسح بهما وجهه فی اخره‘‘ کہ دعا قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اٹھا کر کی جائے اور آخر میں دونوں ہاتھوں کو منہ پر پھیرا جائے ۔ اس لیے امام نووی رحمہ اللہ کو علامہ ابن عبدالسلام رحمہ اللہ کا ہمنوا کہنا قطعاً صحیح نہیں ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی دعائے قنوت میں اس عمل کا انکار کیا ہے ۔ نماز سے خارج اوقات میں نہیں چنانچہ ان کے الفاظ ہیں ۔

« فاما مسح اليدين بالوجه عند الفراغ من الدعاء فلست احفظ عن احد من السلف فی دعاء قنوت وان کان يروی عن بعضهم فی الدعاء خارج الصلوة» الخ –السنن الكبرى ج2 ص 212
’’ کہ قنوت میں دعاء کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں مجھے سلف سے کوئی چیز معلوم نہیں ، اگرچہ ان میں سے بعض سے نماز کے علاوہ دعا کے بعد ہاتھ پھیرنا مروی ہے مگر نماز میں یہ عمل نہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے نہ کسی اثر سے اور نہ قیاس سے ، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ نماز میں یہ نہ کیا جائے ‘‘ ۔
جب امام بیہقی رحمہ اللہ بھی نماز کے علاوہ دعاء کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں بعض سلف کا عمل ذکر کرتے ہیں تو مطلقاً اس عمل کو بدعت یا مکروہ قرار دینا قطعاً درست نہیں بلکہ امام احمد رحمہ اللہ کے قول سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ وتروں میں دعائے قنوت کے اختتام پر بھی منہ پر ہاتھ پھیرتے تھے اور اسی بناء پر انہوں نے اسے بھی ’’لا بأس به‘‘ کہا ہے حنابلہ کا عموماً مذہب بھی یہی ہے اور شوافع میں بھی قاضی ابو الطیب ، امام الحرمین ابو محمد الجوینی ، ابن الصباغ ، المتولی ، شیخ نصر ، امام غزالی رحمہم اللہ اور ابوالخیر مصنف البیان اسے مستحب قرار دیتے ہیں ۔ ان حضرات کا استدلال انہی عام روایات اور آثار سے ہے ۔ اہل علم کو ان سے اختلاف کا حق ہے اور اختلاف کیا بھی گیا ہے ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی بالآخر یہی فرمایا ہے کہ ’’فالاولی ان لا يفعله‘‘ (بہتر یہ ہے نماز میں منہ پر ہاتھ نہ پھیرے جائیں ) امام احمد رحمہ اللہ نے بھی ’’لا بأس بہ‘‘ کہنے کے باوجود خود اس پر عمل نہیں کیا ۔ لہٰذا اسے بدعت قرار دینا بہت بڑی جسارت (2)ہے۔ فقہاء اور ائمہ مجتہدین کے مابین یہ اختلاف افضل اور غیر افضل میں ہے ۔ بدعت یا سنت ہونے میں نہیں ۔ ہمارے نزدیک اسی مسئلہ میں محتاط قول وعمل امام احمد رحمہ اللہ کا ہے کہ عموماً دعاء کے بعد تو منہ پر ہاتھ پھیرے جائیں گے لیکن دعائے قنوت میں احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے کیونکہ اس کے متعلق کوئی صحیح اور صریح روایت نہیں جیسا کہ امام بیہقی نے فرمایا ہے لیکن اگر کوئی اس باب کی احادیث وآثار کے عموم سے وتروں میں بھی دعاء کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرتا ہے تو ہم اسے بدعت نہیں کہتے ۔

وباللہ التوفیق

حاشیہ

(1)ملاحظہ ہو الاذکار للنووی مع الفتوحات الربانیۃ ج۷ ص۲۵۸
(2)مولانا جاوید سیالکوٹی کے مضمون مطبوع الاعتصام میں دعاء کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کو بدعت نہیں کہا گیا تھا ۔ البتہ ہفت روزہ اہل حدیث جلد ۲۶ میں دعا کے موضوع پر مطبوعہ ایک مضمون میں یہ الفاظ آئے تھے ۔ جواب لکھتے وقت غالباً یہ مضمون بھی مولانا اثری صاحب کے پیش نظر رہا ہے ۔ (ن۔ح۔ن)


 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
دعامانگتے وقت منہ پر ہاتھ پھیرنا
شروع از بتاریخ : 06 December 2011 09:29 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دعا مانگنے سے پہلے منہ پر ہاتھ پھیرنا اور دعا کے بعد بھی منہ پر ہاتھ پھیرنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ نہیں ۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سعودی عرب کی مستقل کمیٹی کا فتوی یہ ہے کہ دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کے بارے سنن ابن ماجہ اور سنن ترمذی میں جو روایات مروی ہیں ، وہ ضعیف ہیں لہذا یہ کوئی قولی یا فعلی سنت نہیں ہے ۔ پس ایسا نہ کرنا افضل اور اولی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
محدث فتوی

فتوی کمیٹی
 
شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
207
پوائنٹ
82
جزاک اللہ شیخ ،، اللہ پاک ٓپ کے علم میں برکت اور اضافہ کرے
 
شمولیت
اگست 31، 2016
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
40
منہ پر ہاتھ پھیرنا مستحسن عمل ہے اس میں کوئی حرج اسے بدعت کہنا درست نہیں
 
Top