• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعا ختم قرآن کے وقت اجتماع

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
السلام عليكم ورحمة ألله و بركاته
اس روایت کی تحقیق چاہیے
سیدنا انس رضی للہ عنه سےروایت ہے کہ وہ ختم قرآن مجید کے موقع پر اپنے اہل خانہ کو جمع کرکے دعا فرمایا کرتے تھے۔ (سنن دارمی فضائل القرآن باب فی ختم القرآن حدیث:3468۔3468)ٰ
اور ایک سوال بھی ہے
ختم قرآن كے وقت إنسان اپنے اہل وعیال کو اکھٹا کر کے دعا کر سکتا ہی اجتماعی طورپر۔۔۔۔؟؟
@اسحاق سلفی @خضر حیات
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
لسلام عليكم ورحمة ألله و بركاته
اس روایت کی تحقیق چاہیے
سیدنا انس رضی للہ عنه سےروایت ہے کہ وہ ختم قرآن مجید کے موقع پر اپنے اہل خانہ کو جمع کرکے دعا فرمایا کرتے تھے۔ (سنن دارمی فضائل القرآن باب فی ختم القرآن حدیث:3468۔3468)ٰ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ :
محترم بھائی یہ روایت امام دارمی نے موقوفاً بسند صحیح نقل فرمائی ہے :
امام عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، (المتوفى: 255 ھ) فرماتے ہیں :
حدثنا عفان، حدثنا جعفر بن سليمان، حدثنا ثابت، قال: «كان أنس إذا ختم القرآن، جمع ولده وأهل بيته فدعا لهم»
یعنی سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب قرآن ختم کرتے تو اپنی اولاد اور گھر والوں کو جمع کرتے ،اور ان کیلئے دعاء کرتے ‘‘
اس روایت کی سند کے متعلق سنن دارمی کے محقق علامہ حسین سلیم اسد فرماتے ہیں :
’’ إسناده صحيح وهو موقوف على أنس ‘‘ اس کی سند صحیح ہے ،اور یہ جناب انس رضی اللہ عنہ کا عمل ہے ،،
اس روایت کو علامہ ابن ضریس نے فضائل قرآن میں اور امام سعید بن منصور نے (التفسير من سنن سعيد بن منصور ) میں اور امام طبرانی نے ’’ المعجم الكبير ‘‘میں
اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’ الجامع لشعب الایمان ‘‘ میں نقل فرمایا ہے ۔جو درج ذیل ہے :

دعاء ختم.jpg
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
بھائی اس سوال کے متعلق بھی جواب مطلوب ہے؟
اور ایک سوال بھی ہے
ختم قرآن كے وقت إنسان اپنے اہل وعیال کو اکھٹا کر کے دعا کر سکتا ہی اجتماعی طورپر۔۔۔۔؟؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
دعا ختم قرآن كى وقت اجتماع

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دعائے ختم قرآن کے وقت اجتماع کے بارے میں کیا حکم ہے مثلا یہ کہ انسان جب قرآن مجید ختم کر لے تو وہ اپنے اہل خانہ یادیگر لوگوں کو بلائےتاکہ وہ اجتماعی طور پر ختم قرآن کی دعاکرسکیں اور انہیں ختم قرآن کاوہ ثواب حاصل ہو سکے جو شیخ الاسلام احمد بن تیمیہ ﷫ سے وارد ہے یا دیگر دعاؤں کو پڑسکیں جو قرآن مجید میں لکھی ہو یا کسی اختتام پر ہو یاکسی اور موقع پر کیا اس اجتماع کو بدعت تو نہیں کہیں کہا جائے گا کیا رسول اللہ ﷺ سے ختم قرآن عظیم مخصوص دعا ثابت ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے علم کے مطابق ختم قرآن کے وقت کوئی مخصوص اور معین دعاثابت نہیں لہذا انسان کےلیے جائز ہےکہ وہ اس موقع پر جوچاہے دعا کرے لہذا اسے چاہیے کہ وہ ادعیہ نافعہ کو اختیار کرے مثلا اپنےگناہوں کی معافی مانگتے جنت کاسوال کرے جہنم کے عذاب سےپناہ مانگے فتنوں سے محفوظ رہنے کی دعاکرے اور اللہ تالی سے توفیق مانگے کہ وہ اسے قرآن کریم کا اس طرح فہم عطا فرمائے جس سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ راضی ہوجائے نیز اللہ تعالیٰ سے قرآن مجید کے حفظ کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق کے لیے بھی دعا کرے۔

سیدنا انس ﷜ سےروایت ہے کہ وہ ختم قرآن مجید کے موقع پر اپنےاہل خانہ کو جمع کرکے دعا فرمایا کرتےتھے۔(سنن دارمی فضائل القرآن باب فی ختم القرآن حدیث:3468۔3468)

لیکن ہمارے علم کی حد نبی اکرم ﷺ سے اس کے بار ےمیں کچھ ثابت نہیں ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷫ کی طرف منسوب ضروری ہے لیکن آپ کی کسی کتاب سے مجھے یہ دعا معلوم نہیں ہوسکی۔ (واللہ اعلم)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج4ص23

محدث فتویٰ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
رمضان المبارك ميں اكثر لوگ قرآن مجيد ختم كر كے دعا كرتے ہيں جسے ختم قرآن كى دعا كا نام ديا جاتا ہے، كيا يہ سنت ہے يا بدعت ؟
اس دعا كا طريقہ يہ ہے كہ كھانا پكا كر امام صاحب يہ دعا كرتے ہيں اور پھر كئى لوگوں ميں يہ كھانا تقسيم كيا جاتا ہے برائے مہربانى اس سوال كا جواب ديں، كيونكہ اكثر لوگ يہ دعا كرتے ہيں، اور اسى طرح ماتم اور ہر جمعرات بھى ايسا كيا جاتا ہے، اگر اس كے متعلق كوئى مخصوص حديث ہے تو برائے مہربانى بيان فرمائيں ؟


Published Date: 2009-09-15

الحمد للہ:
ختم قرآن كى دعا جس كيفيت ميں سائل نے بيان كى ہے يہ بدعت و برائى ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور سلف صالحين صحابہ رضى اللہ عنہ سے بھى يہ ثابت نہيں، اگر يہ خير و بھلائى ہوتى تو وہ لوگ ہم سے اس ميں سبقت لے جاتے.

سلف رحمہ اللہ سے قرآن مجيد ختم كرنے كے بعد بغير كسى دعا كى تعيين اور التزام كيے يا كسى مخصوص صيغہ كے بغير دعا ثابت ہے، اس ليے جب مسلمان شخص قرآن مجيد ختم كرے چاہے رمضان ميں ہو يا رمضان كے علاوہ كسى اور مہينہ ميں تو اس كے ليے ہاتھ اٹھا كر اللہ تعالى سے دنيا و آخرت كى بھلائى كى دعا كرنا جائز ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا ختم قرآن كى كوئى معين اور مخصوص دعا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

ہمارے علم كے مطابق تو اس كے متعلق كوئى مخصوص اور معين دعا ثابت نہيں، اس ليے انسان كے ليے كوئى بھى دعا كرنا جائز ہے، وہ كوئى نفع مند دعا اختيار كرے اور اپنے گناہوں كى بخشش اور جنت ميں داخلہ كى طلب اور آگ سے پناہ مانگے، اسى طرح فتنے و فساد سے پناہ طلب كرے، اور قرآن مجيد كو اس طرح سمجھنے كى توفيق طلب كرے جس طرح اللہ راضى ہوتا ہے اور اس پر عمل اور اسے حفظ كرنے كى توفيق مانگے.

كيونكہ انس رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ جب وہ قرآن مجيد ختم كرتے تو اپنے اہل و عيال كو جمع كر كے دعا مانگتے تھے "

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 11 / 358 ).

ليكن يہ دعا كھانے پر پڑھنى اور كھانا تقسيم كرنا، اور ماتم ميں يا جمعرات كى رات ايسا كرنا بدعت ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ہميں حكم ديا ہے كہ ہم آپ صلى اللہ عليہ وسلم اور آپ كے بعد خلفاء راشدين كے طريقہ پر چليں اور ہميں دين ميں بدعات ايجاد كرنے سے منع فرمايا ہے، اور يہ بتايا ہے كہ بدعت گمراہى ہے، اور ہر بدعت آگ ميں جانے كا باعث ہے، اور بدعت كا گناہ بدعت كرنے والے پر ہوتا ہے اور وہ بدعتى عمل اس پر واپس پلٹا ديا جاتا ہے، اسے كوئى ثواب حاصل نہيں ہوتا.

سنن ابو داود ميں عرباض بن ساريہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ميں سے جو كوئى بھى ميرے بعد زندہ رہے گا تو وہ عنقريب بہت سارا اختلاف ديكھےگا، اس ليے تم ميرى اور ميرے خلفاء راشدين مہديين كى سنت اور طريقہ كى پيروى كو لازم ركھنا، اس پر مضبوطى سے جمے رہنا، اور بدعات و نئے كام ايجاد كرنے سے گريز كرنا، كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3851 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).

واللہ اعلم .
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
ہمارى مسجد ميں دعاء اور اجتماع كے متعلق اختلاف پيدا ہو گيا وہ اس طرح كہ قرآن مجيد كے سپارے لوگوں ميں تقسيم كيے جاتے ہيں اور ہر شخص وہاں سپارہ پڑھتا ہے حتى كہ پورا قرآن ختم كيا جاتا ہے پھر وہ لوگ دعاء كسى معين مقصد اور غرض كى كاميابى كے ليے دعا كرتے ہيں مثلا امتحان وغيرہ ميں تو كيا يہ طريقہ صحيح ہے اور شريعت سے ثابت ہے ؟
برائے مہربانى كتاب و سنت اور سلف كے اجماع سے دلائل كے ساتھ جواب عنائت فرمائيں.


Published Date: 2009-01-18

الحمد للہ:
يہ سوال دو مسئلوں پر مشتمل ہے:

پہلا مسئلہ:
تلاوت قرآن كے ليے اجتماع كرنا وہ اس طرح كہ ہر شخص قرآن مجيد كا ايك سپارہ پڑے حتى كہ سارا قرآن ختم ہو اور ہر ايك كے پاس جو سپارہ ہے وہ مكمل كر لے.

اس كا جواب مستقل فتاوى كميٹى كے درج ذيل بيان ميں ہے:

" اول:

تلاوت قرآن كے ليے جمع ہونا اور اس طرح قرآن مجيد كى تلاوت كرنا كہ ايك شخص پڑھے اور دوسرے سنيں اور جو انہوں نے پڑھا ہے اسے ايك دوسرے كو سنائيں اور اس كے معانى پر سوچ و بچار كريں يہ مشروع اور اللہ كا قرب ہے جسے اللہ تعالى پسند فرماتا ہے.

اس كى دليل مسلم شريف كى درج ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو لوگ اللہ كے گھروں ( مساجد )ميں كسى گھر ( مسجد ) ميں جمع ہو كر كتاب اللہ كى تلاوت كرتے اور اسے آپس ميں پڑھتے پڑھاتے ہيں تو ان پر سكينت نازل ہوتى ہے، اور انہيں رحمت ڈھانپ ليتى ہے، اور فرشتے انہيں گھير ليتے ہيں، اور اللہ تعالى ان كا ذكر ان ميں كرتا ہے جو اس كے پاس ہيں "

اسے مسلم اور ابو داود نے روايت كيا ہے.

اور قرآن مجيد ختم كرنے كے بعد دعا كرنا بھى مشروع ہے ليكن پر ہميشگى نہيں كرنى چاہيے اور نہ ہى كسى معين صيغے اور كلمات كى پابندى كرنى چاہيے كہ يہ سنت محسوس ہو، كيونكہ ايسا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تو ثابت نہيں ليكن بعض صحابہ نے اس پر عمل كيا ہے.

اور اسى طرح اس تلاوت ميں حاضر افراد كو كھانے كى دعوت دينے ميں بھى كوئى حرج نہيں جبكہ اسے قرآت كے بعد عادت نہ بنا ليا جائے.

دوم:

اس اجتماع ميں حاضر افراد ميں سے ہر ايك شخص كو ايك پارہ پڑھنے كے ليے دينا اسے قرآن ختم ہونا شمار نہيں كيا جائيگا.

اور ان كا تبرك كے مقصد سے قرآن مجيد پڑھنا كمى و كوتاہى ہے، كيونكہ قرآت كا مقصد تو اللہ كا قرب اور حفظ قرآن اور اس كے معانى و احكام پر غور و فكر اور تدبر اور اس پر عمل ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ اجروثواب كا حصول اور زبان كو قرآن مجيد كى تلاوت كرنے پر تيار كرنا اور سكھنا ہے.... اس كے علاوہ بھى كئى ايك فوائد ہيں.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 480 ).

دوسرا مسئلہ:

يہ اعتقاد ركھنا كہ اس فعل ( تلاوت قرآن كے ليے سوال ميں مذكورہ طريقہ پر جمع ہونے ) ميں دعا كى قبوليت ميں كوئى اثر پايا جاتا ہے، اس اعتقاد كى كوئى دليل نہيں ملتى، اور يہ غير مشروع ہے جائز نہيں، اور دعا كى قبوليت كے بہت سارے اسباب ہيں جو معروف و معلوم ہيں، اور اسى طرح دعا كى عدم قبوليت يعنى دعا كى قبوليت ميں مانع كے اسباب بھى معروف ہيں.

اس ليے دعاء كرنے والے كو چاہيے كہ وہ دعاء كى قبوليت كے اسباب پيدا كرے اور دعاء كى عدم قبوليت كے اسباب سے اجتناب كرے، اور اپنے پروردگار كے ساتھ اچھا ظن و گمان ركھے اور بندے كا رب اس كے گمان كے مطابق ہے.

مزيد آپ سوال نمبر (5113 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

تبيہ:

دليل تو اس سے طلب كى جاتى ہے جو كوئى شرعى امور ميں سے شرعى امر ثابت كرتا ہے، وگرنہ عبادات ميں اصل ممانعت پائى جاتى ہے حتى كہ اس كى مشروعيت كى دليل مل جائے، اہل علم كا فيصلہ يہى ہے، اس بنا پر اس اعتقاد كے عدم مشروع ہونے كى دليل يہ ہے كہ اس كے جائز ہونے كى كوئى دليل نہيں پائى جاتى.

واللہ اعلم .
 
Top