- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
ایک دفعہ راقم نے اس سوچ سے اپنے اکابر اہل علم کی سوانح کا مطالعہ کیا کہ معلوم کیا جائے کہ ان کو بڑا بنانے میں کس چیز کا اہم کردار تھا؟ یا وہ کون سا ایسا عمل کرتے تھے جس نے انہیں علم وفضل میں ایسے مقام پر پہنچا دیا کہ بعد میں آنے والے لوگ اس پر رشک کرنے لگے۔ میں نے جو چیز ان کی حیات زندگی سے اخذ کی وہ ان کا لمبی دعا کرنے کو اپنا معمول بنانا تھا۔ معلوم نہیں میں نے جو چیز اخذ کی، اس کا ان کے بڑا بننے میں کیا کردار تھا لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ شے ان سب کی زندگیوں میں مشترک طور نظر آئی۔
ہمارے اکثر اکابر علماء تین اوقات میں دعا کا اہتمام کرتے تھے۔ بعض اہل علم تہجد کے وقت بیدار ہو کر لمبی چوڑی دعا فرماتے جبکہ بعض کا معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز کے بعد مسجد میں ہی بیٹھے رہتے اور اشراق تک دعا کیا کرتے۔ اسی طرح عصر کی نماز کے بعد مغرب تک مسجد میں بیٹھ کر دعا کا اہتمام کرنا بھی بعض کے معمولات میں سے تھا۔ راقم کو تہجد میں تو موقع نہیں ملا لیکن تقریبا ایک سال تک فجر سے اشراق اور عصر سے مغرب کے دوران لمبی دعا کرنے کی توفیق ملی تو اس سے بہت سی ایسی کیفیات میسر ہوئیں کہ جن کی یادیں آج بھی دل ودماغ میں تازہ ہیں۔
دعا میں زیادہ تاثیر اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ دعا مسنون اور لمبی ہو۔ دعا کی تاثیر دو قسم کی ہے: ایک دنیوی اور دوسری دینی۔ دنیوی تاثیر سے مراد اس کا قبول ہونا ہے اور لمبی اور کثرت سے دعا کرنا ایک ایسا عمل ہے جو اسے مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دینی تاثیر سے مراد یہ ہے کہ دعا اگر قبول نہ بھی ہو تو کم از کم ایک یقینی فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ دعا کرنے والے نے جس دنیاوی مسئلے میں دعا کی، اللہ تعالی دعا کرنے کے بعد نہ صرف اس بارے میں فوری دلی سکون میسر کر دیتے ہیں بلکہ اس کی یہ دعا قرب الہی کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔ اللہ کی ذات پر ایمان اور توکل بڑھ جاتا ہے۔
لمبی دعائیں کرنے میں مجھے استاذ محترم جناب مولانا عبد الرحمن مدنی کے عمل سے بہت ترغیب وتشویق ملی۔ مولانا کی شخصیت میں دو پہلو نمایاں ہیں جن کا اظہار وہ خود بھی بعض اوقات کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ عز وجل نے مجھ سے دین کی جو تھوڑی بہت خدمت لی ہے، اس میں دو چیزیں اہم ہیں ایک دنیوی اور ایک دینی یعنی ذہانت اور دعا۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ نے نہ تو مجھے خطابت دی کہ لوگوں کو متاثر کر سکوں اور نہ ہی تحریر کی صلاحیت میرے پاس ہے، اگر کچھ ہے تو وہ ذہانت ہے جسے راقم اسے فقاہت کا نام دے رہا ہے۔ اور جو لوگ مولانا سے شرف تلمذ یا دوستی کا تعلق رکھتے ہیں، بلکہ ان کے فکری مخالفین بھی ان کی شخصیت کے اس پہلو سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا دوسرا پہلو ان کا کثرت سے لمبی دعائیں کرنا ہے۔ صفا و مروہ کی سعی کے دوران صفا اور مروہ دونوں مقامات پر ہر چکر میں تقریبا آدھ آدھ گھنٹہ لمبی دعائیں کرنا یا سجدے میں یا تہجد میں آدھے گھنٹے تک کی دعا کرنا یہ ان کے عام معمولات میں سے ہے۔ وہ خود اپنے جملہ دینی کام کو اپنی دعاؤں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اور انہوں نے لمبی دعاؤں کا یہ مزاج اپنے بڑوں خصوصا اپنے استاذ حضرت العلام عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ سے لیا۔
لمبی دعا سے ہماری مراد آدھ سے پون گھنٹے کی دعا ہے۔ اور دعا صرف اس لیے نہیں ہے کہ ہمیں کوئی آزمائش پیش آئے یا کوئی نعمت چاہیے تو اللہ سے دعا کریں۔ عموما ہمارے ہاں دعا انہی دو مقاصد میں سے کسی ایک کے لیے کی جاتی ہے اور اگر ان دو میں سے کوئی مقصد پیش نظر نہ ہو تو انسان دعا کو ایک اضافی کام سمجھتا ہے۔ دعا در اصل ایک ایسی مستقل عبادت ہے جو اللہ کو راضی کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا اسی طرح کا ذریعہ ہے جیسا کہ نماز، صدقہ اور دیگر عبادات ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے دعا کی دو قسمیں بیان کی ہیں: ایک دعائے مسئلہ اور دوسری دعائے عبادت۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
فعن النعمان بن بشير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (أن الدعاء هو العبادة فثم قراء (وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (سنن الترمذي)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا ہی عبادت ہے اور آپ نے اس کے بعد قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت کی: اور تمہارے رب نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو کہ میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں تو وہ جہنم میں ذلیل وخوار ہوتے ہوئے داخل ہوں گے۔
اس آیت مبارکہ میں دعا کو عبادت قرار دیا گیا ہے اور جو لوگ دعا نہیں کرتے انہیں متکبر قرار دیا گیا ہے۔ دعا کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ انسان میں عاجزی کی کیفیات پیدا کرتی ہے۔ جس قدر انسان کی زندگی میں دعا کی عبادت ہو گی، اسی قدر اسے عاجزی کے احوال میسر ہوں گے۔ ہمارے اہل حدیث طبقات میں نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کے انکار یا اسے بدعت قرار دینے کے عمل کا ایک منفی نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ لوگوں کی زندگی سے دعا سرے ہی سے نکل گئی ہے۔ تو ایک طرف تو وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے دعا کو ایک رسم بنا دیا ہے جیسا کہ کسی کی فوتیدگی پر رسما دعائیں کی جاتی ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے ان رسموں کا انکار کرتے کرتے دعا ہی کو اپنی زندگی سے نکال دیا ہے۔ تو دعا تزکیہ نفس کے عمل میں یا سالک کے راہ سلوک میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس کا التزام کرنا بہت ضروری ہے۔
بعض لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہوتی۔ تو اس بارے ہم ایک بات تو یہ کر چکے ہیں کہ ایک دعائے مسئلہ ہے جو کسی مسئلے میں کی جاتی ہے اور ایک دعائے عبادت ہے یعنی وہ دعا جو اللہ کا تقرب اور رضا حاصل کرنے کے لیے ایک عبادت سمجھ کر کی جائے۔ یہ سوال پہلی قسم کی دعا کے بارے پیدا ہو سکتا ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کا وہ مفہوم ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا ہے۔ اس سے ان شاء اللہ دعا کرنے کے بعد کبھی مایوسی نہ ہو گی۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
((إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا))
أبو داؤد
بے شک تمہارا رب بہت ہی کریم اور حیا والا ہے۔ وہ اپنے بندے سے اس بارے حیا محسوس کرتا ہے کہ وہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور یہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے۔
اللہ عز وجل کسی بندے کے ہاتھوں کو خالی نہیں لوٹاتے تو اس سے کیا مراد ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
((مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ، وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا))، قَالُوا: إِذًا نُكْثِرُ؟، قَالَ: ((اللَّهُ أَكْثَرُ))
جب بھی کوئی مسلمان اللہ سے دعا کرتا ہے بشرطیکہ اس کی دعا گناہ کے بارے نہ ہو یا قطع رحمی کے بارے نہ ہو تو اللہ تعالی اس دعا کے بدلے میں اسے تین میں سے ایک انعام دیتے ہیں: یا تو اس کی دعا فورا قبول کر لیتے ہیں یا پھر اس کو آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیتے ہیں یا اس دعا کے بدلے میں اپنے بندے سے کوئی دوسری آزمائش ٹال دیتے ہیں۔ اس پر صحابہ نے کہا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو ہم کثرت سے دعا کریں؟ تو آپ نے کہا: اللہ بھی کثرت سے ان تین میں سے کوئی ایک انعام دینے والا ہے۔
تو انسان کی دعا کبھی ضائع بھی نہیں جاتی یا تو دنیا میں قبول ہو جاتی ہے۔ اور اگر دنیا میں قبول نہ ہو تو آخرت میں اس سے بہتر چیز اسے ملے گی جس کے لیے اس نے دعا کی۔ یا پھر اللہ تعالی انسان سے کوئی دوسری آزمائش اس دعا کے بدلے دور کر دیتے ہیں جو اسے لاحق ہے یا مستقبل میں لاحق ہونے والی ہے اور بعض اوقات اسے علم بھی نہیں ہوتا کہ یہ آزمائش فلاں دعا کے بدلے ٹل گئی ہے۔ بعض لوگوں کا یہ سوال ہوتا ہے کہ آدھا یا پون گھنٹہ دعا میں مانگیں کیا، ہمیں اتنی دعائیں نہیں آتی۔ تو اس کا حل یہ ہے کہ ڈاکٹر سعید بن علی القحطانی کا ایک کتابچہ الدعاء من الکتاب والسنۃ یعنی کتاب وسنت کی دعائیں، اگر پاکٹ سائز میں مل جائے تو زیادہ بہتر ہے، کو سامنے رکھ کر صبح وشام لمبی دعا مانگ لیا کریں۔ اور کچھ نہیں یہ بھی تو دعا ہی ہے کہ پروردگار فلاں نیکی کی طرف طبیعت آمادہ نہیں ہوتی، آپ کروا لیں یا اے مالک، دین کا خدمت گزار بنا دیں یا اے خالق، دین کا کام لے لیں وغیرہ ذلک کثیر۔
ہمارے اکثر اکابر علماء تین اوقات میں دعا کا اہتمام کرتے تھے۔ بعض اہل علم تہجد کے وقت بیدار ہو کر لمبی چوڑی دعا فرماتے جبکہ بعض کا معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز کے بعد مسجد میں ہی بیٹھے رہتے اور اشراق تک دعا کیا کرتے۔ اسی طرح عصر کی نماز کے بعد مغرب تک مسجد میں بیٹھ کر دعا کا اہتمام کرنا بھی بعض کے معمولات میں سے تھا۔ راقم کو تہجد میں تو موقع نہیں ملا لیکن تقریبا ایک سال تک فجر سے اشراق اور عصر سے مغرب کے دوران لمبی دعا کرنے کی توفیق ملی تو اس سے بہت سی ایسی کیفیات میسر ہوئیں کہ جن کی یادیں آج بھی دل ودماغ میں تازہ ہیں۔
دعا میں زیادہ تاثیر اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ دعا مسنون اور لمبی ہو۔ دعا کی تاثیر دو قسم کی ہے: ایک دنیوی اور دوسری دینی۔ دنیوی تاثیر سے مراد اس کا قبول ہونا ہے اور لمبی اور کثرت سے دعا کرنا ایک ایسا عمل ہے جو اسے مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دینی تاثیر سے مراد یہ ہے کہ دعا اگر قبول نہ بھی ہو تو کم از کم ایک یقینی فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ دعا کرنے والے نے جس دنیاوی مسئلے میں دعا کی، اللہ تعالی دعا کرنے کے بعد نہ صرف اس بارے میں فوری دلی سکون میسر کر دیتے ہیں بلکہ اس کی یہ دعا قرب الہی کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔ اللہ کی ذات پر ایمان اور توکل بڑھ جاتا ہے۔
لمبی دعائیں کرنے میں مجھے استاذ محترم جناب مولانا عبد الرحمن مدنی کے عمل سے بہت ترغیب وتشویق ملی۔ مولانا کی شخصیت میں دو پہلو نمایاں ہیں جن کا اظہار وہ خود بھی بعض اوقات کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ عز وجل نے مجھ سے دین کی جو تھوڑی بہت خدمت لی ہے، اس میں دو چیزیں اہم ہیں ایک دنیوی اور ایک دینی یعنی ذہانت اور دعا۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ نے نہ تو مجھے خطابت دی کہ لوگوں کو متاثر کر سکوں اور نہ ہی تحریر کی صلاحیت میرے پاس ہے، اگر کچھ ہے تو وہ ذہانت ہے جسے راقم اسے فقاہت کا نام دے رہا ہے۔ اور جو لوگ مولانا سے شرف تلمذ یا دوستی کا تعلق رکھتے ہیں، بلکہ ان کے فکری مخالفین بھی ان کی شخصیت کے اس پہلو سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا دوسرا پہلو ان کا کثرت سے لمبی دعائیں کرنا ہے۔ صفا و مروہ کی سعی کے دوران صفا اور مروہ دونوں مقامات پر ہر چکر میں تقریبا آدھ آدھ گھنٹہ لمبی دعائیں کرنا یا سجدے میں یا تہجد میں آدھے گھنٹے تک کی دعا کرنا یہ ان کے عام معمولات میں سے ہے۔ وہ خود اپنے جملہ دینی کام کو اپنی دعاؤں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اور انہوں نے لمبی دعاؤں کا یہ مزاج اپنے بڑوں خصوصا اپنے استاذ حضرت العلام عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ سے لیا۔
لمبی دعا سے ہماری مراد آدھ سے پون گھنٹے کی دعا ہے۔ اور دعا صرف اس لیے نہیں ہے کہ ہمیں کوئی آزمائش پیش آئے یا کوئی نعمت چاہیے تو اللہ سے دعا کریں۔ عموما ہمارے ہاں دعا انہی دو مقاصد میں سے کسی ایک کے لیے کی جاتی ہے اور اگر ان دو میں سے کوئی مقصد پیش نظر نہ ہو تو انسان دعا کو ایک اضافی کام سمجھتا ہے۔ دعا در اصل ایک ایسی مستقل عبادت ہے جو اللہ کو راضی کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا اسی طرح کا ذریعہ ہے جیسا کہ نماز، صدقہ اور دیگر عبادات ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے دعا کی دو قسمیں بیان کی ہیں: ایک دعائے مسئلہ اور دوسری دعائے عبادت۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
فعن النعمان بن بشير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (أن الدعاء هو العبادة فثم قراء (وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (سنن الترمذي)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا ہی عبادت ہے اور آپ نے اس کے بعد قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت کی: اور تمہارے رب نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو کہ میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں تو وہ جہنم میں ذلیل وخوار ہوتے ہوئے داخل ہوں گے۔
اس آیت مبارکہ میں دعا کو عبادت قرار دیا گیا ہے اور جو لوگ دعا نہیں کرتے انہیں متکبر قرار دیا گیا ہے۔ دعا کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ انسان میں عاجزی کی کیفیات پیدا کرتی ہے۔ جس قدر انسان کی زندگی میں دعا کی عبادت ہو گی، اسی قدر اسے عاجزی کے احوال میسر ہوں گے۔ ہمارے اہل حدیث طبقات میں نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کے انکار یا اسے بدعت قرار دینے کے عمل کا ایک منفی نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ لوگوں کی زندگی سے دعا سرے ہی سے نکل گئی ہے۔ تو ایک طرف تو وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے دعا کو ایک رسم بنا دیا ہے جیسا کہ کسی کی فوتیدگی پر رسما دعائیں کی جاتی ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے ان رسموں کا انکار کرتے کرتے دعا ہی کو اپنی زندگی سے نکال دیا ہے۔ تو دعا تزکیہ نفس کے عمل میں یا سالک کے راہ سلوک میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس کا التزام کرنا بہت ضروری ہے۔
بعض لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہوتی۔ تو اس بارے ہم ایک بات تو یہ کر چکے ہیں کہ ایک دعائے مسئلہ ہے جو کسی مسئلے میں کی جاتی ہے اور ایک دعائے عبادت ہے یعنی وہ دعا جو اللہ کا تقرب اور رضا حاصل کرنے کے لیے ایک عبادت سمجھ کر کی جائے۔ یہ سوال پہلی قسم کی دعا کے بارے پیدا ہو سکتا ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کا وہ مفہوم ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا ہے۔ اس سے ان شاء اللہ دعا کرنے کے بعد کبھی مایوسی نہ ہو گی۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
((إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا))
أبو داؤد
بے شک تمہارا رب بہت ہی کریم اور حیا والا ہے۔ وہ اپنے بندے سے اس بارے حیا محسوس کرتا ہے کہ وہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور یہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے۔
اللہ عز وجل کسی بندے کے ہاتھوں کو خالی نہیں لوٹاتے تو اس سے کیا مراد ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
((مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ، وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا))، قَالُوا: إِذًا نُكْثِرُ؟، قَالَ: ((اللَّهُ أَكْثَرُ))
جب بھی کوئی مسلمان اللہ سے دعا کرتا ہے بشرطیکہ اس کی دعا گناہ کے بارے نہ ہو یا قطع رحمی کے بارے نہ ہو تو اللہ تعالی اس دعا کے بدلے میں اسے تین میں سے ایک انعام دیتے ہیں: یا تو اس کی دعا فورا قبول کر لیتے ہیں یا پھر اس کو آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیتے ہیں یا اس دعا کے بدلے میں اپنے بندے سے کوئی دوسری آزمائش ٹال دیتے ہیں۔ اس پر صحابہ نے کہا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو ہم کثرت سے دعا کریں؟ تو آپ نے کہا: اللہ بھی کثرت سے ان تین میں سے کوئی ایک انعام دینے والا ہے۔
تو انسان کی دعا کبھی ضائع بھی نہیں جاتی یا تو دنیا میں قبول ہو جاتی ہے۔ اور اگر دنیا میں قبول نہ ہو تو آخرت میں اس سے بہتر چیز اسے ملے گی جس کے لیے اس نے دعا کی۔ یا پھر اللہ تعالی انسان سے کوئی دوسری آزمائش اس دعا کے بدلے دور کر دیتے ہیں جو اسے لاحق ہے یا مستقبل میں لاحق ہونے والی ہے اور بعض اوقات اسے علم بھی نہیں ہوتا کہ یہ آزمائش فلاں دعا کے بدلے ٹل گئی ہے۔ بعض لوگوں کا یہ سوال ہوتا ہے کہ آدھا یا پون گھنٹہ دعا میں مانگیں کیا، ہمیں اتنی دعائیں نہیں آتی۔ تو اس کا حل یہ ہے کہ ڈاکٹر سعید بن علی القحطانی کا ایک کتابچہ الدعاء من الکتاب والسنۃ یعنی کتاب وسنت کی دعائیں، اگر پاکٹ سائز میں مل جائے تو زیادہ بہتر ہے، کو سامنے رکھ کر صبح وشام لمبی دعا مانگ لیا کریں۔ اور کچھ نہیں یہ بھی تو دعا ہی ہے کہ پروردگار فلاں نیکی کی طرف طبیعت آمادہ نہیں ہوتی، آپ کروا لیں یا اے مالک، دین کا خدمت گزار بنا دیں یا اے خالق، دین کا کام لے لیں وغیرہ ذلک کثیر۔
Last edited: