شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,010
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
دعوتی میدان میں مسلکی پہچان کے اظہار کی اہمیت وافادیت
جب کسی جماعت میں عملی کمزوری در آئے تو نت نئے نظریات اور حکمت عملیاں منصہ شہود پر آموجود ہوتی ہیں۔ان نئے نئے نظریات، خیالات، حکمت عملیوں کا اصل سبب توعمل میں کمزور ہوجاناہوتا ہے جس کا نتیجہ بزدلی کی شکل میں ظاہرہوتا ہے۔لیکن انہیں تقاضہ وقت، ضرورت وقت اور حکمت کے خوبصورت ناموں سے موسوم کرکے لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔اسی طرح کے نظریات میں سے جماعت اہل حدیث کے کچھ بیمار ذہنوں میں پیدا ہونے والا ایک نیا نظریہ، اپنی مسلکی اور جماعتی پہچان کو چھپا کردین کی دعوت پیش کرنے کا ہے۔اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر سامنے والے کو آغاز ہی میں یہ بتا دیا جائے کہ قرآن و حدیث کی دعوت پیش کرنے والا اہل حدیث ہے تو سامنے والا سرے سے کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا۔
اس اشکال کاایک بہترین جواب تو وہ ہے جسے عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے اپنی ایک آڈیو تقریر میں پیش کیا ہے۔خطبہ مسنونہ کے بعد آغاز تقریر میں مولانا موصوف فرماتے ہیں:
اس نشست کے لئے گفتگو کا موضوع آپ نے سن لیا ہے کہ کیا لفظ اہل حدیث دعوت دین میں روکاوٹ ہے۔اس سوال کا پہلے اجمالی جواب یہ ہے کہ روکاوٹ ہے بھی اور نہیں بھی ۔جواب ہاں میں بھی ہے اور ناں میں بھی۔روکاوٹ ہے اس شخص کے لئے جس کے لئے اللہ تعالیٰ روکاوٹ بنا دے جس کے دل پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دے۔(موضوع تقریر: کیا لفظ اہل حدیث دعوت دین میں روکاوٹ ہے؟)
پھر فرماتے ہیں:
بہت سے لوگ اس نام کو سننا گوارا نہیں کرتے یہ لفظ اگر روکاوٹ ہے تو یہ روکاوٹ اللہ نے بنائی ، ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے ہمارے اختیار میں نہیں ۔(موضوع تقریر: کیا لفظ اہل حدیث دعوت دین میں روکاوٹ ہے؟)
مزید فرماتے ہیں:
یہ لفظ روکاوٹ ہو سکتا ہے اس کے لئے جس کے دل پر اللہ کی مہر ہو ۔اور اگر اللہ کی طرف سے توفیق میسر ہو تو ہدایت کی توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے۔تو پھر یہ کوئی روکاوٹ نہیں۔(موضوع تقریر: کیا لفظ اہل حدیث دعوت دین میں روکاوٹ ہے؟)
سبحان اللہ ! یہ وہ بہترین کلا م ہے جس سے یہ اشکال جڑ سے ختم ہو جاتا ہے بشرطیکہ سمجھنے والا عقل سلیم سے کام لے اور ہٹ دھرمی اور ذاتی انا کو پس پشت ڈال دے۔جب ہدایت اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے تویہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنا مسلک چھپا کر کسی کوقرآن وحدیث کی دعوت پیش کرے اور و ہ شخص اس حکمت کی وجہ سے حق کو قبول کرلے جبکہ اللہ نے اس شخص کے بارے میں ہدایت سے محرومی کا فیصلہ فرما لیا ہو۔اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنی مسلکی پہچان ظاہر کرکے کسی کو دین کی دعوت دے اور وہ اس کا انکار کردے جبکہ اللہ نے اس کی ہدایت کا فیصلہ فرمالیا ہو۔
پس ثابت ہوا کہ یہ نئی حکمت عملی کچھ غیر صحت مند دماغوں کی اختراع ہے ورنہ در حقیقت مسلکی پہچان دعوت میں روکاوٹ کا باعث ہر گز نہیں بنتی۔اگرکوئی چیز روکاوٹ بنتی ہے تو وہ اللہ کا کسی شخص کے بارے میں ہدایت سے محرومی کا فیصلہ ہے۔لہذا کسی شخص کا دعوتی میدان میں حکمت عملی کا بہانہ بنا کر اپنی جماعتی پہچا ن کو چھپا لینا ایک عبث اور لایعنی فعل قرار پاتا ہے۔
اس اشکال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ماضی میں آج کی بنسبت اہل حدیث زیادہ بدنام تھے۔آج تو اللہ کے فضل و کرم سے لاتعداد لوگ اہل حدیث کے اصول و منہج سے واقف ہیں جبکہ ماضی میں ایسی صورتحال نہیں تھی۔جس حکمت عملی کو آج کا اہل حدیث پیش کر رہا ہے اس خود ساختہ حکمت عملی کی ضرورت سب سے زیادہ گزرے ہوئے کل کو تھی لیکن اس کے برعکس اہل حدیث علماء نے ڈنکے کی چوٹ پر اپنا مسلک اہل حدیث بھی بیان کیا اور بلا خوف و خطراس مسلک کی دعوت بھی دی اور انہیں اپنی مسلکی پہچان پوشیدہ رکھنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔
اہل عقل کو دعوت غور و فکرہے کہ جب مشکل حالات میں لفظ اہل حدیث کو چھپانے کی ضرورت اسلاف کو پیش نہ آئی تو آج کے نسبتاًآسان حالات میں اخلاف کو یہ ضرورت کیونکر پیش آگئی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلکی نام چھپانے کی ناقص اور شرمناک حکمت عملی کا سبب وہ بزدلی اور عملی کمزوری ہے جو موجودہ جماعت اہل حدیث کے اکثر لوگوں کو لاحق ہو چکی ہے۔موجودہ حالات میں چاہیے تو یہ تھا کہ ماضی کی طرح علمائے اہل حدیث کی ڈگر پر چلتے ہوئے اہل باطل کے اس منفی پروپیگنڈہ کا تقریر اور تحریر کے ذریعے تدارک کیا جاتا جس کے ذریعے وہ معاشرے میں جماعت اہل حدیث کو بدنام کر رہے ہیں۔ اور لوگوں کو اہل حدیث منہج، اصول و عقائد سے واقف اور روشناس کروایا جاتا۔لیکن اس مشکل اور صبر آزما راستے کو چھوڑ کر کچھ لوگوں کو یہ بات آسان لگی کہ اپنی مسلکی پہچان ہی چھپا لی جائے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
اگر مسلک چھپانے تک ہی بات محدود رہتی تو بھی اس قبیح فعل کو انتہائی مجبوری میں کسی حد تک گوارا کرنا ممکن تھا ۔ لیکن اس سلسلے کی بدترین بات یہ ہے جسے کسی طور پربھی گوارا کرنا ممکن نہیں کہ کچھ احساس کمتری میں مبتلا لوگ ضرورت پڑنے پربھی اپنی پہچان نہیں بتاتے اور اعلانیہ اپنے اہل حدیث ہونے کا انکار کردیتے ہیں لیکن دعویٰ فہم سلف صالحین کی روشنی میں قرآن وحدیث پر عمل کا ہی کرتے ہیں۔
دعوتی مصلحت اور حکمت کے نام پر منہج سلف سے انحراف کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی مصلحت کا شکار ہوجائے جس کا کوئی ثبوت سلف صالحین سے نہ ملتا ہو تو ایسی مصلحت ناقابل التفات اور قابل رد ہے اگر چہ وہ شخص اس مصلحت کو کیسا ہی عظیم ترین کیوں نہ تصور کرتا ہو۔
ابو محمد حسن بن علی البربھاری رحمہ اللہ بطور رضامندی ایک معاصرعالم کابہترین قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: دعاۃ (دعوت دین علی منہج السلف) پہچانے والے کی قاموس سے لفظ مصلحت نکال دوکیونکہ یہ جملہ گمراہ کرنے والا اور شیطان کو گھسنے کا موقع فراہم کرنے والا ہے، وہ( شیطان) ان کے پاس اس راستہ سے آتا ہے جو ان لوگوں کے ہاں بڑا قوی ہوتا ہے، وہ شخص کبھی مصلحت کا لبادہ اوڑھ کر آتا ہے.....اور اس وقت دعاۃ اس اصل منہج کو بھول جاتے ہیں جس منہج کی بنیاد قرآن وحدیث اور سلف صالحین رحمہم اللہ کی سوچ پر ہے، مختلف قسم کے دعاۃ (جن کی دعوت الگ الگ طرز پر ہے)پر لازم ہے کہ وہ اصل منہج کو تھامے رہیں، ان دعاۃ کو ہر دم ایک ہی خطرے سے بچتے رہنا چاہیے، وہ خطرہ منہج سلف سے ہٹ جانے کا ہے، چاہے منہج سلف سے انحراف کا سبب کچھ بھی ہو ، اور چاہے انحراف تھوڑا ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں وہ خطرناک ہے۔ واللہ اعلم
ان دعاۃ میں سے کچھ لوگ مصلحت کا شکار ہوجاتے ہیں، حالانکہ وہ اس کے مکلف نہیں ہیں، وہ ایک ہی بات کے مکلف ہیں کہ وہ منہج سلف صالحین سے انحراف نہ کریں اور ان کے طریقہ و راستہ کو نہ چھوڑیں۔(منھج سلف صالحین، صفحہ 122تا123)
اس فیصلہ کن حوالے سے معلوم ہوا کہ کسی ایسی نئی حکمت عملی کا اختیار کیا جانا جس کی ضرورت سابقہ ادوار میں بھی موجود تھی لیکن سلف صالحین نے نہ صرف اسے اپنانے سے احتراز کیابلکہ اسکے برخلاف عمل کیا۔ ایسی حکمت عملی کی حیثیت شیطانی وسوسے سے زیادہ کچھ نہیں۔ایسی ہی فاسد اور باطل مصلحتوں اور حکمت عملیوں پر عمل پیرا لوگوں کو بھی کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی موڑ پر اپنی مسلکی پہچان ظاہر کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس قدر ناقص حکمت عملی ہے جس پر یہ نادان لوگ عمل پیرا ہیں۔جب بعد میں جو اپنی پہچان ظاہر کرنی ہے تو دوسروں کو دھوکے میں رکھنے کے بجائے پہلے ہی یہ فریضہ کیوں سر انجام نہیں دے دیا جاتا؟
دعوت کی اثر پذیری میں داعی کا اپنا کردار و عمل بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن آج کا داعی جب دیکھتا ہے کہ اس کی دعوت موثر نتائج نہیں دے رہی تو بجائے اس کے کہ وہ خود اپنے کردار و عمل کا جائز ہ لے اوراپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی خامیوں کو دور کرکے اپنی دعوت میں اثر پیدا کرنے کی کوشش کرے۔اس کی توجہ دعوتی طریقہ کار میں تبدیلی کی جانب مرکوز ہوجاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دعوت کی غیر اثر پذیر ی کا تعلق موجودہ زمانے کے تقاضوں کو نہ سمجھنا ہے۔بس یہی وہ اصل سبب ہے جو نت نئی حکمت عملیوں کے ظہور کا سبب بنتا ہے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کسی حکمت عملی کا سلف کی جانب سے قبول یا اختیارنہ کیا جانا جبکہ ان کے زمانے میں بھی اس مصلحت پر عمل کے اسباب موجود تھے۔اس حکمت عملی کے ناقص اور نقصان دہ ہونے کی دلیل ہے۔اس کے علاوہ سلفی منہج سے وابستہ لوگوں کا کسی ایسی مصلحت کو اختیار کر لینا جس کے بر خلاف اور برعکس سلف صالحین کا عمل موجود ہو،انتہائی خطرناک ہے بلکہ سلف صالحین سے کھلی بغاوت کے مترادف ہے۔
چوتھی صدی ہجری کے محدث وامام ابومحمد حسن بن علی البربھاری رحمہ اللہ تقاضہ حالات اورضرورت زمانہ کے نتیجے میں وجود پانے والی نئی نئی حکمت عملیوں کا رد اور انہیں اختیار کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللہ کی طرف دعوت دینے کے لئے اس بات کا سہارا لیتے ہوئے کہ اب زمانہ بدل چکا ہے یا یہ بہانہ کریں کہ لوگ تکرار سے فائدہ اٹھا چکے یا یہ عذر پیش کریں کہ حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ اب دعوت کے طریقہ کار کو زمانے کے تقاضے کے مطابق بدلاجائے .....اس جیسے بہانے باز کی نیت کے صحیح ہونے کے باوجود یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت ہے، اور مومنین کے راستہ سے انحراف ہے.....دوسرا شبہ کہ زمانہ کے اور حالات کے تقاضے کے مطابق دعوت کے طریقہ کار میں تبدیلی لائی جائے، یہ بھی واضح طور پر باطل ہے۔(منھج سلف صالحین، صفحہ60)
ہمارا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ اگر اپنی منہجی پہچان صیغہ راز میں رکھ کر قرآن و حدیث کی دعوت کسی پر پیش کی جائے تو سامنے والا شخص کچھ زیادہ ہی اندیشوں اور تحفظات کا شکار ہوجاتا ہے اور اس بات پر فکر مند ہوتا ہے کہ نہ جانے اسے قرآن وحدیث کے نام پر کس مسلک و مذہب کی دعوت دی جارہی ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ دیگر گمراہ فرقے بھی اپنی دعوت کے لئے قرآن و حدیث کا ہی نام لیتے ہیں۔ پھر بالآخر اسے یہ بتانا ہی پڑتا ہے کہ ہم سلفی یا اہل حدیث ہیں۔چونکہ اس وقت پوری امت مسلمہ فرقوں یا جماعتوں میں بٹی ہوئی ہے اور ہر جماعت کا دعویٰ قرآن وسنت پر عمل کا ہے۔اس لئے عملاً یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص بغیر اپنی جماعتی پہچان بتائے دعوتی عمل کو موثر طریقے سے جاری رکھ سکے ۔ حکمتی پالیسی کے تحت اپنی جماعتی شناخت کو نہ ظاہر کرنے کا عمل تو دعوت کو مزید پیچیدہ بنانے کی کوشش ہے جس کا کوئی فائدہ ہو نہ ہو لیکن نقصان یقینی ہے۔
نئی حکمت عملی کے علمبردار لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اہل حدیث اور حق یا قرآن وسنت آپس میں جڑے ہوئے تو نہیں کہ لفظ اہل حدیث کا انکار حق یا قرآن وسنت کا انکار قرار پائے۔یہ بات جزوی طور پر تو درست ہو سکتی لیکن کلی طور پر نہیں ۔کیونکہ اس کا کیا کیا جائے کہ یہی سلف صالحین کی ہمیشہ سے سنت رہی ہے کہ جب بھی حق اور اہل حق کا ذکر آیا، قرآن وحدیث کو ماننے اور اس پر عمل کا ذکر آیا یا فہم سلف صالحین کی روشنی میں دین پر چلنے کا ذکر خیر آیا توسلف صالحین میں سے ہر ایک نے اسے لفظ اہل حدیث کے ساتھ ہی جوڑا۔
ْڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: اہل حق کے لئے ہر دور میں اہل العلم نے اہل الحدیث کے الفاظ استعمال کئے ہیں چناچہ ہم اس سلسلہ میں چند شہادتیں پیش کرتے ہیں تاکہ یہ مسئلہ پوری طرح کھل کر سامنے آجائے۔(الفرقۃ الجدیدۃ، صفحہ137 )
دلائل اور شہادتوں کی تفصیل کے لئے الفرقۃ الجدیدۃ کی مراجعت فرمائیں۔
ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ اپنی اسی کتاب کے ایک اور مقام پر اہل حدیث کو حق کی واحد علامت اور نشانی قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں: گمراہ فرقوں کے عالم وجود میں آجانے کے بعد اہل حق نے اپنے لئے اہل السنۃ والجماعۃ اور اہل الحدیث کے ناموں کو ہی استعمال کیا ہے اس لئے کہ یہ نام اہل حق کی علامت بن گیا تھا۔(الفرقۃ الجدیدۃ، صفحہ143)
قوام السنہ ابوالقاسم اسماعیل بن محمد الاصبہانی رحمہ اللہ بھی صرف اہل حدیث کو ہی اہل حق کہتے ہیں،چناچہ رقم فرماتے ہیں: اہل الحدیث ہی اہل الحق (حق والے) ہیں اور حق پر ہیں۔ (منھج سلف صالحین، صفحہ 76)
ماضی کی طرح آج بھی لفظ اہل حدیث گمراہ فرقوں کے مابین حق کی واحد علامت ہے۔ اب کسی کم فہم اور کم عقل کا اس سے انکار یا امت کے سلف کی اس سنت سے ہٹ کر اپنی پہچان کی کوئی اور کوشش سلف صالحین کی فکر و سوچ سے بغاوت ہی تصور کی جائیگی۔
جلیل القدر عالم ومحدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا ایک مباحثہ حاضر خدمت ہے جو ایک ایسے عالم دین کے ساتھ ہوا جو کسی خاص مسلکی پہچان کا قائل نہیں تھالیکن اصول و عقائد میں ناصر الدین البانی سے متفق تھایعنی قرآن و سنت کا داعی تھا۔یہ مباحثہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہمارے سلف بھی جماعتی پہچان کی اہمیت و افادیت سے خوب واقف تھے بلکہ اس کے اس قدر پرزورحامی تھے کہ اس خاص اور اہم ترین مسئلہ پرمخالفین سے مناقشہ بھی کرتے تھے۔
شیخ البانی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں: ایک مناقشہ (مباحثہ) میرے اور ایک اسلامی قلم کار کے مابین وقوع پذیر ہوا جو کتاب وسنت کی پیروی میں ہمار ے ساتھ متفق تھا (مگر سلفی کہلانے میں کچھ تذبذب کا شکار تھا)۔ اور میں طالب علم بھائیوں سے یہ تمنا رکھتا ہوں کہ وہ اس مباحثہ کو یاد کر لیں کیونکہ اس کے نتائج بہت اہم ترین ہیں۔
میں نے اس شخص سے کہا، اگر کوئی آپ سے سوال کرے کہ آپ کا مذہب کیاہے؟ تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟
اس نے جواب دیا: (میراجواب ہوگا کہ) میں مسلمان ہوں۔
شیخ البانی: یہ جواب غلط ہے، اس نے پوچھا کیوں غلط ہے! میں نے کہا اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ آپ کا دین کیا ہے؟ تب آپ کا کیا جواب ہوگا؟
سائل: (میں کہوں گا کہ) میں مسلمان ہوں۔
شیخ البانی: پہلی بات یہ کہ میں نے آپ سے آپ کا دین نہیں پوچھا تھا میں نے پوچھا تھا کہ آپ کا مذہب کیاہے، ایسا تھا کہ نہیں(صحیح)
دوسری بات کہ آپ جانتے ہیں کہ آج دنیا میں مسلمانوں کے کئی مذاہب ہیں، اور آپ ہمارے ساتھ موافق ہوں کہ ان میں سے بعض کا تو مطلقاً اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں، جیسے دروز، اسماعیلی، علوی اور جیسے دوسرے، مگر یہ سب اپنے آپ کو مسلمان کہلاواتے ہیں۔ اور ان کے علاوہ بھی کچھ فرقے ہیں جنہیں ہم سابقہ مذکورہ فرقوں کی طرح تو نہیں کہتے کہ وہ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں، لیکن بلاشبہ یہ ان گمراہ فرقوں میں تو شمار ہوں گے جو بہت سی باتوں میں کتاب وسنت سے خارج ہو چکے ہیں جیسے معتزلہ، خوارج، مرجیۂ، جبریہ اور ان جیسے دوسرے۔ تو آپ کا کیا کہنا ہے یہ سب آج موجود ہیں کہ نہیں؟
سائل: (جی) موجود ہیں۔
شیخ البانی: اگر ہم ان (مذکورہ بالا گمراہ فرقوں) سے پوچھیں کے آپ کا مذہب کیا ہے؟ تو وہ بھی محتاط روش اپناتے ہوئے آپ کے جواب کا سا جواب دیں گے کہ ہم مسلمان ہیں۔
سائل: میں کہوں گا کہ میرا مذہب کتاب و سنت ہے۔
شیخ البانی: میں کہتا ہوں یہ جواب بھی ناکافی ہے۔
سائل: کیوں!
شیخ البانی: کیونکہ جن جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا کہ وہ بھی (گمراہ ہونے کے باوجود) اپنے آپ کو مسلمان کہلاواتے ہیں، ساتھ ہی ان میں سے کوئی نہیں کہتا کہ میں کتاب و سنت پر نہیں (بلکہ سب کا یہی دعوی ہے کہ ہم کتاب وسنت پر عمل پیرا ہیں)۔تو ہمیں چاہیے کہ ہم ایک اور ضمیمے کا اس میں اضافہ کریں ، آپ کی کیا رائے ہے کہ ہم آج کتاب و سنت کی کسی نئے فہم پر اعتماد کریں گے یا پھر لازم ہے کہ ہم ان کے فہم کے سلسلے میں اس چیز پر اعتماد کریں گے جس پر سلف صالحین تھے؟
سائل: بالکل لازمی ہے(کہ ہم فہم سلف صالحین پر اعتماد کریں)
شیخ البانی: کیا آپ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ دوسرے مذاہب والے جو اسلام کے دعویدار ہیں مگر اسلام سے خارج ہیں یا پھر جو ابھی تک دائرہ اسلام میں تو ہیں مگر بعض اسلامی احکام میں گمراہ ہیں وہ آپ کے، میرے اور ہمارے ساتھ اس قول کے قائل ہوں کہ ہم کتاب و سنت اور منہج
سلف صالحین پر قائم ہیں؟
سائل: نہیں، وہ اس بات میں تو (ہرگز)ہمارے ساتھ نہیں۔
شیخ البانی: کیا عربی زبان میں ایسا کوئی کلمہ موجود نہیں جوان تمام باتوں یعنی ’’مسلم‘‘کتاب و سنت پر منہج سلف صالحین کے مطابق‘‘ کی طرف اشارے کو ہمارے لئے جمع کردے، کیا ایسا کوئی کلمہ موجود نہیں جو ہمیں ان تمام کلمات (کو دوہرانے) سے مستغنی کردے جیسا کہ ’’انا سلفی‘‘ (میں سلفی ہوں)
اس (سائل)نے کہا واقعی ایسا ہی ہے، اور وہ نادم ہوگیا۔پس یہ تھا جواب اگر کوئی آپ پر اعتراض کرے کہ سلفی نہیں کہلانا چاہیے، تو آپ کو چاہیے کہ یہ سارا مباحثہ اس کے ساتھ کر گزریں کہ وہ آپ سے کہے گا میں مسلمان ہوں پھر.......یہی سارا مباحثہ جاری رہے گا۔ ہر سوال کا جواب دیتے جائیں یہاں تک کہ وہ سلفی اسلامی کے درجہ تک پہنچ جائے۔(مسلمان کی فلاح ونشاۃ ثانیہ کا واحد راستہ سلفی منہج، صفحہ65 تا68)
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا یہ مناقشہ ان لوگوں کا بہترین رد ہے جو خود کو کسی جماعتی یا مسلکی نام سے موسوم کئے بغیر ہی قرآن و سنت کی دعوت پھیلانے کے متمنی ہیں۔مذکورہ بالا مباحثے سے کوئی شخص اس غلطی فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ یہ تو سلفی کہلاوانے کی دلیل ہے ناکہ اہل حدیث کہلاوانے کی۔ جماعت المسلمین کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے فرمایا: الحمداللہ میں سلفی اور اہل حدیث ہوں۔(الفرقۃ الجدیدۃ، صفحہ189)
تنبیہ: یاد رہے کہ اہل حدیث کو ہی اہل سنت، سلفی،محمدی، اثری اور طائفہ منصورہ وغیرہ کہا جاتا ہے اور یہ ایک ہی جماعت کے مختلف نام ہیں جو کہ ہم معنی ہیں۔تفصیل و دلائل ملاحظہ ہو:
مولانا عبدالغفار محمدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: لفظ اہل سنت کا مطلب ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو ماننے والا،گویا مسلم۔مسلمان۔محمدی۔اہل سنت۔اہل حدیث اسی طرح اثری(اثر حدیث رسول کو بھی کہا جاتا ہے یعنی حدیث نبوی کو ماننے والا) یہ سب ایک ہی مفہوم کے الفاظ ہیں۔(حنفیوں کے 350 سوالات اور ان کے مدلل جوابات، صفحہ 268)
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ مسلمین کے اور بھی صفاتی نام ہیں جن سے ان کو پکارا جاتا ہے۔مثلاً اہل السنۃ، اہل الحدیث، سنی، محمدی المذہب، حزب اللہ وغیرہ۔(مقدمہ الفرقۃ الجدیدۃ، صفحہ14)
جماعت اہل حدیث کے مختلف صفاتی ناموں میں سے چند کی تفصیل ملاحظہ ہو:
۱۔ اہل سنت:
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ ا للہ صرف اور صرف اہل حدیث کو ہی اہل سنت قرار دیتے ہیں،فرماتے ہیں: یہ تمام باتیں اہل سنت کے ساتھ ان کے تعصب اور ان کے غیظ و غضب کے باعث ہیں، حالانکہ ان کا تو صرف ایک نام اہل حدیث ہے۔(غنیۃ الطالبین، صفحہ 191، طبع پروگریسو بکس لاہور، پاکستان)
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال القاضی عیاض انما ار اداحمد اھل السنۃ والجماعۃ ومن یعتقد مذھب اھل الحدیث
یعنی قاضی عیاض نے کہا ہے کہ امام احمد بن حنبل کی مراد اہلسنت والجماعت سے وہ جماعت مراد ہے جو (عملی اور)اعتقادی طور پر مذہب اہل حدیث پر گامزن ہے۔(شرح صحیح مسلم،صفحہ 143، جلد2)
۲۔ سلفی:
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: اہل حدیث کے نزدیک دو شرطوں کے ساتھ جرابوں پر مسح جائز ہے....یہ شرائط قرآن و حدیث سے نہیں بلکہ بعض سلف صالحین سے ثابت ہیں اور ہم کتاب و سنت کو سلف صالحین کے فہم سے ہی سمجھتے ہیں لہٰذا ہمیں ان دونوں شرطوں کا اقرار ہے۔(فتاو ٰی علمیہ المعروف تو ضیح الاحکام،جلد1، صفحہ 682)
چونکہ لفظ سلفی بھی سلف صالحین کی طرف نسبت ہے جیسا کہ علامہ سمعانی نے لفظ سلفی کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ مذہب سلف کی طرف منسوب ہے۔(الانساب،جلد2، صفحہ 167)
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ سلفیوں کا منہج بھی بعینہ وہی ہے جو زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اہل حدیث کا بیان کیا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ سلفی اور اہل حدیث ایک ہی جماعت کے دو مختلف نام ہیں۔
رانا محمد شفیق خاں پسروری حفظہ اللہ لفظ اہل حدیث اور سلفی کو ایک ہی جماعت کے لقب قرار دیتے ہوئے رقم کرتے ہیں: اسی طرح ہر اہل حدیث کا اصل نام مسلمان مسلم ہی ہے مگر وہ کئی القاب سے ملقب ہے۔یعنی اہل حدیث، اہل السنۃ، اہل الاثر، سلفی ،محمدی وغیرہ۔(لقب اہل حدیث، صفحہ 89)
مولانا عبدالغفار محمدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: یہ صاف اور صریح دلیل ہے کہ اہل حدیث اور سلفی لوگوں کے لئے لقب محمدی کہاجانا تابعین،تبع تابعین کے دور میں تھا(حنفیوں کے350 سوالات اور ان کے مدلل جوابات، صفحہ317)
اس عبارت سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ سلفی اور اہل حدیث باہم مترادف الفاظ ہیں اور یہ دونوں الفاظ ایک ہی جماعت کے لئے بولے جاتے ہیں۔
۳۔ اثری:
امام سمعانی نے اپنی معروف تصنیف ’’کتاب الانساب‘‘ میں مادہ الاثری کے تحت لکھا ہے: ھذہ النسبۃ الی الاثر یعنی الحدیث واھلہ واتباعہ وانتسب بھذہ النسبۃ ابوبکر سعد بن عبداللہ بن علی الاثری الطوفی المولودسنہ 413ھ المتوفی 490ھ
یعنی امام ابوبکر المتوفی 490ھ اپنے کو مذہب اہل حدیث کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے اثری کہلاتے تھے، کیونکہ اثری کا مفہوم یہ ہے کہ حدیث کی پیروی و اتباع کرنے والا۔(الانساب سمعانی،ص 114، ج1)
۴۔ محمدی:
محمد بن عمر الداودی رحمہ اللہ امام الحافظ المفید محدث ابن شاہین رحمہ اللہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ: وکان ازاذکرلہ مذہب احد، یقول: انا محمدی المذہب۔(تذکرۃ الحفاظ،جلد 3، 988/923)
یعنی جب اس سے کسی کے مذہب کا ذکر ہوتا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ میں محمدی المذہب ہوں۔
مولانا عبدالغفار محمدی حفظہ اللہ بیان فرماتے ہیں: اثری۔سلفی ۔ محمدی۔اہل حدیث۔اہل سنت ایک ہی مفہوم کے مختلف الفاظ ہیں۔(حنفیوں کے350 سوالات اور ان کے مدلل جوابات، صفحہ 301)
مولانا ابویاسر حفظہ اللہ لکھتے ہیں: محمدی سے مراد اہل حدیث اور مقلد سے مراد حنفی ہے۔(حنفیوں کے350 سوالات اور ان کے مدلل جوابات، صفحہ 9)
مولانا عبدالغفار محمدی حفظہ اللہ مزید فرماتے ہیں: معلوم ہوا کہ دوسری صدی میں تمام اہل حدیث ائمہ اور عوام کو محمدی کہنے کا رواج عام تھا۔(حنفیوں کے350 سوالات اور ان کے مدلل جوابات، صفحہ 316)
۵۔ طائفہ منصورہ:
قاضی عیاض رحمہ اللہ سے جب لاتزال طائفۃ من امتی کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: یہ (طائفہ منصورہ) وہ لوگ ہیں جو اہل حدیث کے مسلک پر چلتے ہیں۔(شرف اصحاب الحدیث)
مذکورہ بالا مضبوط دلائل کے بعد کسی بھی ذی ہوش کے لئے لاتعداد گمراہ فرقوں کے درمیان اپنی پہچان کے لئے ایک صفاتی نام کی ضرورت اور اہمیت سے انکار ہر گز ممکن نہیں لیکن اس کے باوجود بھی موجودہ زمانے میں ایسے لوگوں کا ظاہر ہونا بلاشبہ حیرت کا باعث ہے جو نہ صرف کسی خاص صفاتی نام کی ضرورت کے سرے سے منکر ہیں بلکہ اس قبیح عمل کو ایک بہترین حکمت عملی کے طور پر فروغ دینے میں مصروف عمل ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بیمار خیالات کے رد میں علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کا ایک اور قیمتی حوالہ پیش خدمت ہے جس سے بھانت بھانت کے فرقوں کے درمیان ایک خاص صفاتی نام کے ذریعے اپنی پہچان اور تعارف کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی پڑتی ہے۔ اگرچہ ا س سے پہلے بھی ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا اسی مضمون پر مشتمل ایک مباحثہ نقل کیا گیا ہے ۔لیکن ہم نے ضروری سمجھا کہ ایک مرتبہ پھر اسی سے ملتا جلتا ایک اور اقتباس البانی رحمہ اللہ کے ایک اور مضمون بنام ’’سلفی‘‘ کیا اسلام میں نیا فرقہ ہے؟ سے پیش کیا جائے تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ یہ مسئلہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ علمائے سلف اس پر فکر مند رہتے تھے اور اسے اپنی تقریروں اور تحریروں میں بار بار بیان کرتے تھے۔
ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ضروری ہے کہ اس وقت ایسی خوبصورت اور پر کشش نسبت ہونی چاہیے جو ہمیں دوسروں سے ممتاز کردے فقط خود کو مسلم کہہ دیا یا میرا دین اسلام ہے کہہ دینا کافی نہیں کیونکہ تمام فرقے یہی دعویٰ کرتے ہیں مثلاً رافضی،رباضی، قادیانی اور دیگر فرقے پس تمہیں کون سی چیز ان سے ممتاز کرے گی؟
اگر آپ کہیں میں فقط کتاب و سنت کو ماننے والا مسلم ہوں تو یہ بھی کافی نہیں کیونکہ اشاعرۃ، ماتریدی اور بعض دیگر فرقے کے ماننے والے بھی انھی دو چیزوں کوماننے کادعویٰ کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ واضح،جلی اور ممتاز کردینے والا نام یہ ہے کہ بندہ خود کو کتاب وسنت علی منھاج السلف الصالح ماننے والا کہلاوائے اسی کا اختصار یہ ہے کہ میں سلفی ہوں۔(’’سلفی‘‘ کیا اسلام میں نیا فرقہ ہے؟ مترجم: مولاناعبدالوکیل ناصر، دو ماہی مجلہ الصراط کراچی،جولائی تا اگست 2005، صفحہ 44)
خیالی باتیں کرنا تو بہت آسان ہے لیکن عملی میدان میں کوئی شخص یہ کہکر ہر گز جان نہیں چھڑا سکتا کہ وہ مسلمان ہے یا قرآن وحدیث پر عمل کرنے والا ہے جب تک کہ وہ اپنا مسلک صحیح صحیح بیان نہ کردے۔ اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے اہل حدیث کے اکابر سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: میں آج کی بات آپ کو بتاتا ہوں ہم سے بسا اوقات پوچھا جاتا ہے کہ صاحب آپ کس مسلک کے ہیں؟ ہم ان کو یہی جواب دیتے ہیں کہ بھائی ہم مسلمان ہیں لیکن وہ پھر بول پڑتے ہیں کہ صاحب مسلمان تو ہم سب ہیں لیکن آپ کس مسلک کے پیرو ہیں؟ دو تین بار کے اس سوال و جواب کے بعد جب ان کو یہ جواب دیا جاتا ہے کہ ہم اہل حدیث ہیں تو وہ پھر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ انہیں ان کے سوال کا جواب مل گیا۔بس یہی وجہ تھی اور ہے کہ ہم اس لقب مبارک کو اپنائے ہوئے ہیں۔(لقب اہل حدیث، صفحہ212)
محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کی طرح ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف تھا جسے انہوں نے بارہا بیان فرمایاکہ آج کے دور میں یہ ہر گز کافی نہیں کہ کوئی شخص اپنی مسلکی پہچان کو ظاہر کئے بغیر صرف یہی بتانے پر اکتفاء کرے کہ وہ مسلمان ہے یا قرآن و حدیث پر عمل کرنے والا اور اس کی طرف دعوت دینے والا ہے۔چناچہ البانی رحمہ اللہ کا ارشاد ہے: آجکل محض یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ ہم صرف قرآن وسنت پر عمل پیرا ہیں اور اسکی طرف دعوت دیتے ہیں۔(مسلمان کی فلاح ونشاۃ ثانیہ کا واحد راستہ سلفی منہج، صفحہ 29)
بالفرض اگر احساس کمتری میں مبتلا کچھ لوگوں کی بات مان لی جائے اور دعوتی حکمت عملی کے طور پر اپنی مسلکی پہچان چھپانے کو جائز اور صحیح قرار دے دیا جائے صرف اس لئے کہ مخالفین اہل حدیث کا نام سننا نہیں چاہتے اور یہ نام دعوت میں روکاوٹ کا باعث بنتا ہے تو بات یہیں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ جس طرح آج اسلام اور مسلمانوں کو تسلسل کے ساتھ دنیا بھر میں بدنام کیا جارہا ہے اور کافی حد تک اہل کفر اس میں کامیابی بھی حاصل کر چکے ہیں۔ان نازک اور خراب حالات میں کوئی بدبخت یہ حکمت عملی بھی پیش کرے گا کہ کافروں کو اسلام کی دعوت تو دی جائے لیکن چونکہ وہ مسلمانوں کا نام سننا پسند نہیں کرتے اس لئے اپنا مسلمان ہونادعوتی حکمت عملی کے تحت ان پر ظاہر نہ کیا جائے۔ یہ اس قدر گھٹیا بات ہے کہ ایک عام مسلمان بھی اس کی قباحت اور شناعت کو محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس عمل کو کسی قیمت پر بھی گوارا نہیں کرسکتا۔
ایسے ہی فاسد خیالات کی مذمت کرتے ہوئے عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: اگر یہ حجت ہے تو آج عالم کفر اسلام کا نام سننا پسند نہیں کرتا ، یہ بھی روکاوٹ ہوگی اس سے بڑھکر اللہ پاک کا فرمان ہے: جب صرف ایک اللہ کا زکر کیا جائے صرف ایک اللہ کا نام لیا جائے تو ان لوگوں کے دل سکڑ جاتے ہیں ،تنگ ہوجاتے ہیں ۔یہ ایک اللہ کا نام سننا پسند نہیں کرتے اور جب ان کے بتوں کا زکر ہو ، لات و منات و عزیٰ کا زکر ہو تو پھر یہ خوش ہوتے ہیں ۔تو پھر کیا مصلحت دعوت کی خاطر یہ چاہو گے کہ اللہ کا نام بھی نہ لیں تاکہ لوگوں کو قریب کریں۔ یہ قریب کرنے کا کونسا طریقہ ہے کہ اللہ کا نام بھی نہ لیں۔ خودساختہ ایک بیمار عقل کی بیمار سوچ ہے۔ یہ دنیا اللہ کے پیارے پیغمبر کا نام سننا پسند نہیں کرتی تو کیا مصلحت دعوت کی خاطر اسلام کو اڑا دوگے؟ نہیں ! دعوت دین ایک ایسی چیز ہے جو کسی دینی قاعدہ سے تنازل کو برداشت نہیں کرتی ۔کچھ مان لو کچھ منوالو، کچھ لے لو کچھ دے دو۔یہ تمہارے سیاسی چکر ہیں تمہاری دکانداریاں چمکانے کے چکر ہونگے ہم اس طرح دعوت دین نہیں جانتے ۔یہاں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں نے میدان محشر میں جو اللہ نے مجھے منظر دکھایا تو ایسے انبیاء دیکھے کہ ان کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں تھا بلکہ اکیلے کھڑے تھے پوری زندگی گزار دی ایک شخص نے دعوت قبول نہیں کی ،میں پوچھتا ہوں یہ ناکامی ہے یا کامیابی ؟ لوگ کہیں گے ناکامی لیکن میرا دین یہ کہتا ہے کہ یہ کامیابی ہے۔اس نبی نے کوئی سودا نہیں کیا ۔یہ لوگوں کو اکھٹا کر نا لوگوں کو جمع کرنا یہ کمال نہیں ہے۔یہ دین کسی مداری کا کھیل نہیں ہے کہ ڈگڈگی دکھائیں اور لوگ جمع ہو جائیں۔ راہ حق پر چلنے والے تھوڑے ہوتے ہیں ان کی قلت کو دیکھ کر گھبرانا مت۔اور بربادی کی راہ پر چلنے والے بہت ہوتے ہیں۔ان کی کثرت کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھانا۔(موضوع تقریر: کیا لفظ اہل حدیث دعوت دین میں روکاوٹ ہے؟)
جب کافروں کواسلام کی دعوت دینے کی خاطر کسی بھی مسلمان کیلئے اپنی دینی و مذہبی شناخت چھپانا ایک ناقابل برداشت اور شرمناک فعل ہے تو اہل بدعت کو دعوت دینے کے لئے اپنی جماعتی اور مسلکی شناخت چھپانا کیونکر قابل برداشت ہے؟ جب پہلا عمل ناجائز ہے تو دوسرا اسی طرح کا عمل جائز کیوں؟ انتہائی قابل غور بات ہے کہ سلفی اور اہل حدیث جیسی نسبتوں کے انکار کوعلامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے براہ راست اسلام کا انکار قرار دیا ہے۔بات ہے بھی صحیح کیونکہ اسلام کی صحیح ترین شکل صرف اور صرف اہل حدیث کے پاس ہے پھر اس نسبت سے انکار اسلام کا انکار کیوں نہ قرار پائے!!! جبکہ دیگر فرقوں کے پاس اسلام کے نام پر جو کچھ ہے وہ ملاوٹ شدہ ہے جسے اسلام کے علاوہ اور کوئی بھی نام دیا جاسکتا ہے۔ناصر الدین البانی رحمہ اللہ رقطراز ہیں: مگر بہت سے مدعیان علم یہ گمان کرتے ہیں کہ اس کلمہ کی کوئی اصل و حقیقت نہیں ہے لہٰذا وہ اس نسبت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی بھی مسلم کے لئے جائز نہیں کہ وہ خود کو سلفی سلفی کہے تو گویا اس کا معنی یہ ہو اکہ مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ عقیدہ و عبادت اور سلوک میں خود کو سلف صالحین کا متبع کہے۔بے شک اس طرح کا بالقصد انکار کرنے سے اس صحیح ترین اسلام سے براء ت کا اظہار ہوتا ہے جو کہ سلف صالحین سے منقول ہے۔(’’سلفی‘‘ کیا اسلام میں نیا فرقہ ہے؟ مترجم: مولاناعبدالوکیل ناصر، دو ماہی مجلہ الصراط کراچی،جولائی تا اگست 2005، صفحہ 43)
یاد رہے کہ سابقہ سطور میں یہ بات بادلائل ثابت کی جاچکی ہے کہ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے نزدیک اہل حدیث اور سلفی مترادف الفاظ ہیں کیونکہ وہ خود اپنے اہل حدیث اور سلفی ہونے کا اعتراف کرتے تھے۔اسکے علاوہ انہوں نے اپنی کتاب سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ کی جلد اول صفحہ 539 تا 548 پر من ھی الطائفۃ الظاھرۃ المنصورۃ کے عنوان سے ’’اہل حدیث‘‘ کے لقب اور فضائل پر جامع بحث بھی کی ہے۔
رسول اللہ ﷺنے خبر دی کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح مسلمان بھی آپس میں مختلف فرقوں میں بٹ جائیں گے۔یہ ثابت شدہ بات ہے کہ یہ تمام فرقے بشمول فرقہ ناجیہ کے سب اپنی الگ شناخت اور نام رکھتے ہیں یہ ایسی روشن حقیقت ہے جس سے صرف وہی شخص انکار کرے گا جس کی دماغی حالت درست نہ ہو۔ جو شخص حق کے انکار کا پختہ ارادہ کر چکا ہو وہی گمراہ فرقوں کے درمیان مسلکی پہچان کی ضرورت کا انکار کرے گا وگرنہ مسلکی پہچان رکھنے کی ضرورت وہ اٹل حقیقت ہے جس پر امت مسلمہ شروع سے عمل پیرا ہے اور سلف صالحین کا عمل اس پر دال ہے۔اہل حق کی مسلکی پہچان لفظ اہل حدیث سے قائم ہے اور اہل حدیث نام پر امت مسلمہ کا اجماع ہے ۔ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: لہٰذا معلوم ہوا کہ ’’اہل حدیث‘‘ نام کے جائز و صحیح ہونے پر ائمہ مسلمین کا اجماع ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امت مسلمہ گمراہی پر اجماع نہیں کرسکتی۔(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، جلد دوم،صفحہ 29)
پس معلوم ہوا کہ بعض الناس کا اہل حدیث نسبت سے انکار دراصل اجماع کا انکار ہے۔سلف صالحین کا مسلکی پہچان کے لئے اہل حدیث نسبت اختیار کرنا اسکا اعلان کرنا اور اس خاص نسبت کے ساتھ لوگوں کو اپنے منہج و مسلک کی طرف دعوت دینا بلا انکار اور تواتر سے ثابت ہے۔ یہ اس بات کا روشن ثبوت بھی ہے کہ سلف صالحین نہ تو اپنی مسلکی شناخت کو چھپاتے تھے اور نہ ہی کسی مصلحت کے تحت ان سے اس مبارک نسبت کا انکار ثابت ہے بلکہ اس کے برعکس ثابت ہے، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سلف صالحین کا اہل حدیث نسبت نہ چھپانے اور اس نسبت سے انکار نہ کرنے پر اجماع و اتفاق تھا ۔ اجماع کی تعریف حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اس طرح فرماتے ہیں: جو مسئلہ یا بات سلف صالحین کی ایک جماعت سے ثابت ہو اور اس کے مقابلے میں اسکی مخالفت یا رد ثابت نہ ہوتو اسے اجماع سکوتی کہا جاتا ہے (وما کان ربک نسیا) اگر کوئی اختلاف ہوتا تو ہم تک ضرور پہنچتا۔ہمارے کلام میں اجماع کے حجت ہونے سے مراد یہی اجماع ہے۔ (مقالات،جلد دوم،صفحہ 113)
ضروریات دین کے انکار سے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے اور اس کے لئے کسی بھی صورت میں جائز نہیں کہ وہ مسلمان ہوکر ضروریات دین کو موضوع بحث بنائے ، بالکل اسی طرح امت کے وہ اجماعی مسائل جن کا تعلق ضروریات دین سے نہیں اس طرح کے مسائل میں بھی کسی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان مسائل میں بحث کرے چہ جائیکہ ان کا انکار ہی کر بیٹھے۔ حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جن مسائل پر امت کا اتفاق ہو مگر وہ ضروریات دین میں داخل نہیں ان کے انکار سے اس وقت تک ایک مسلمان معذور ہوسکتا ہے جب تک اس کو علم نہ ہو، علم کے بعد پہلی قسم (ضروریات دین) کی طرح ان کو بھی زیر بحث نہیں لایا جاسکتا ۔(مقالات محدث گوندلوی، صفحہ 62)
معلوم ہوا کہ امت کے اجماعی مسئلہ میں نہ تو بحث کرنا جائز ہے اور نہ اس کا انکار درست ہے اور سابقہ سطور میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ مسلکی نسبت رکھنا اور اس کا فخریہ اعتراف امت کے اجماعی مسائل میں سے ایک ہے۔ان لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے جو امت کے اس اتفاقی مسئلہ کو اپنی خود ساختہ حکمت عملی کی بھینٹ چڑھا کر اختلافی مسئلہ بنانے کی نامراد سعی کر رہے ہیں۔انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اپنا جماعتی و مسلکی نام چھپا کر یا اس کا انکار کرکے سلف صالحین کے اس اجماع کی کھلی اور صریح مخالفت کرنے والے لوگ منہج سلف سے وابستگی کے اپنے دعوے پر کاذب ہیں۔
اہل حدیث تو وہ شاندار لقب ہے کہ اس لقب سے نسبت پر مسلمان ہمیشہ سے بجا طور پر فخر کر تے رہے ہیں برخلاف موجودہ دور میں پیدا ہونے والے بیمار خیالا ت کے حامل اور احساس کمتری میں مبتلا کچھ افراد کے جو اپنی مسلکی شناخت چھپا کرعام مسلمانوں کو دھوکہ دینے میں مصروف ہیں۔ رانا محمد شفیق خاں پسروری حفظہ اللہ فرماتے ہیں: اصحاب رسول، تابعین، تبع تابعین،امامان دین تمام ملقب بہ اہل حدیث تھے۔اور اس لقب سے ملقب ہونا باعث فخر جانتے تھے۔(لقب اہل حدیث، صفحہ119)
اس قابل فخر نسبت سے انکار کچھ لوگوں کی بدنصیبی ہی کہی جاسکتی ہے۔
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ عظیم الشان لقب رکھنے والے مسلمانوں کا تعارف کرواتے ہوئے رقم طراز ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر دل سے ایمان لانے، قولاً و فعلاً تسلیم کرنے اور اس کی روایت و تبلیغ کرنے والوں کا عظیم الشان لقب اہل حدیث اور اہل سنت ہے۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 88، ستمبر 2011، صفحہ 8)
مولانا عبدالغفار محمدی حفظہ اللہ اپنے اہل حدیث ہونے پر فخر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اہل حدیث سچا مذہب ہے ہمیں فخر ہے کہ ہم اہل حدیث ہیں۔(حنفیوں کے 350 سوالات اور ان کے مدلل جوابات،صفحہ 331)
عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ ایک انوکھے انداز سے اہل حدیث کی مبارک نسبت سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر جائز ہوتا تو میں اپنی اولاد کو وصیت کر کے جاتا کہ میری قبر پر میرے کفن پر اہل الحدیث لکھنا۔(موضوع تقریر: کیا لفظ اہل حدیث دعوت دین میں روکاوٹ ہے؟)
تنبیہ:شیخ کے اس قول کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اہل حدیث لکھنا جائز نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ قبر اور کفن پر کچھ لکھنا جائز نہیں۔
بجائے فخر کے بعض لوگ مسلکی نسبتوں سے اتنے الرجک رہتے ہیں کہ اہل حدیث جیسی مبارک شناخت چھوڑ کر اپنا تعارف مسلم اور مسلمان کہہ کر کرواتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حافظ زبیر علی زئی رقم کرتے ہیں: بعض لوگ ’’اہل حدیث‘‘ نام سے بہت چڑتے ہیں اور عوام الناس میں یہ مشہور کرنے کی سعی نامراد کرتے ہیں کہ ’’یہ نام فرقہ وارانہ ہے چونکہ ہم مسلمان ہیں لہٰذا ہمیں مسلمان ہی کہلانا چاہیے‘‘ ۔(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام،جلد دوم،صفحہ 35)
اہل کفر کے بالمقابل مسلم لقب ہی ایک مسلمان کی اصل پہچان ہے اور کافروں کے سامنے جب بھی کسی مسلمان کو تعارف کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ خود کو مسلم کہہ کر ہی اپنا تعارف کرواتا ہے۔لہٰذااہل کفر کے مقابلے میں تولفظ مسلم یا مسلمان سے تعارف بالکل درست بلکہ ناگزیر ہے لیکن مسلمانوں کے مابین مسلم یا مسلمان کے نام سے اپنا تعارف کروانا انتہائی نامناسب حرکت ہے کیونکہ جب امت مسلمہ کا ہر شخص چاہے وہ کسی بھی گمراہ فرقے سے تعلق رکھتا ہو مسلم ہونے کا دعویدار ہے تو کسی شخص کا خود کو مسلم یا مسلمان کہہ کر اپنا تعارف پیش کرنے سے سامنے والے پر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ خود کو مسلمان کہنے والا اپنے علاوہ تمام لوگوں کو کافر سمجھتا ہے ظاہر ہے اس سے مسلمانوں کے مابین نفرت اور دشمنی فروغ پاتی ہے اس لئے اس سے اجتناب ضروری ہے۔
امت مسلمہ کے مابین مسلم ، مسلمان اور جماعت اسلامی جیسے عام ناموں کے استعمال کے بارے میں حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کسی گروہ کو یہ جائز نہیں کہ عام نام استعمال کرے ، صرف کفار کے مقابلہ میں اس نام کو استعمال کرنا چاہیے۔(مقالات محدث گوندلوی ، جلد اول، صفحہ 253)
ان عام ناموں سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت بھی خود محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے فرمائی ہے چناچہ لکھتے ہیں: یہ نام اسلامی جماعت، مسلم یا مسلمان وغیرہ عام ناموں سے جو اسلام کے ہم معنی ہیں الگ ہوگا۔(مقالات محدث گوندلوی ، جلد اول، صفحہ 252)
اگر کوئی اسلامی فرقہ یا فرد واحد مسلمانوں میں خودکو مسلم اور اپنے فرقہ کو اسلامی فرقہ کہتا ہے تو وہ گویا دوسرے مسلمانوں پر طعن اور تشنیع کرتا ہے اور اپنے سوا دوسرے لوگوں کے مسلمان ہونے کی نفی کرتا ہے۔محمد گوندلوی رحمہ اللہ اسی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: اب کوئی فرقہ اگر کسی خصوصیت کو لے کر اٹھتا ہے جو دوسرے فرقوں سے اس کو ممتاز کرے تو اس صورت میں عام نام سوائے منفی معنی کے کچھ مفہوم نہیں رکھتاہے۔ پس اس صورت میں کسی نئے فرقہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی جماعت کو اسلامی جماعت کے نام سے موسوم کرے، پس جو فرقہ اپنی جماعت کا نام اسلامی جماعت رکھتا ہے وہ دراصل اپنے سوا باقی فرقوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے۔(مقالات محدث گوندلوی ، جلد اول، صفحہ 256)
مزید فرماتے ہیں: پس کوئی فرقہ گروہ بندی کی حیثیت سے اپنے آپ کو نہ مسلم کہلاسکتا ہے، نہ اپنی جماعت کو اسلامی جماعت سے مشہور کر سکتا ہے۔(مقالات محدث گوندلوی ، جلد اول، صفحہ 253)
یہ بھی یاد رہے کہ امت مسلمہ میں کوئی مسلمان اسلامی فرقوں سے ہٹ کر اپنی انفرادی پہچان نہیں رکھتابلکہ چاہے وہ باطل پرست ہو یا حق پرست، لازمی طور پر اپنے مخصوص عقائدو اصول اور مخصوص منہج کی بنا پر کسی نہ کسی مسلک سے جڑا ہوتا ہے اگرچہ وہ زبانی کسی بھی فرقے سے نسبت یا تعلق پر انکار ہی کیوں نہ کرتا ہو لیکن اس کا مذہبی رجحان بذات خود اس کے مخصوص مسلک کا تعارف و ترجمان ہوتا ہے۔اس کی دلیل رسول اللہ ﷺ کی مشہور حدیث ہے جس میں آپ ﷺ نے امت مسلمہ کے 73 فرقوں میں تقسیم ہو جانے کی خبر دی۔پس اب اگر کوئی مسلمان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا تعلق کسی مخصوص مسلک ، مذہب ،فرقے ،،جماعت یا گروہ سے نہیں ہے تووہ صحیح حدیث کی روشنی میں خود کو امت مسلمہ سے خارج کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ کوئی مانے یہ نہ مانے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ چاہے کوئی مسلمان گمراہ ہو یا حق پر، وہ اسلامی فرقوں سے باہر نہیں ہوسکتا۔ محمد گوندلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: باوجود کفر کے کافر الگ امت نہیں بنتا جیسے بعض اجماعی مسائل جن میں شیعہ و سنی اور خوارج مختلف ہیں، اگر چہ یہ اختلاف اصولی اور شدید ہے مگر سب ایک ہی امت کے فرقے ہیں۔(مقالات محدث گوندلوی ، جلد اول، صفحہ 64)
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ فرقے افراد سے مل کر بنتے ہیں لہٰذا افرادکا تعلق براہ راست فرقوں سے ہوتا ہے چناچہ بات کو سمجھنا آسان ہے کہ تمام کے تمام مسلمان فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور کوئی بھی مسلمان اسلامی فرقوں سے الگ اپنی کوئی علیحدہ شناخت نہیں رکھتا۔
اہل حدیث کا منہج اور اہل حدیث کی نسبت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور ایک کا انکار لازمی طور پر دوسرے کا انکار ہے۔اس لئے کسی شخص کا نسبت اور منہج کو الگ الگ تصور کرنا اور نسبت سے صاف انکار کرکے منہج پر عمل پیرا ہوجانا درست نہیں ہے۔جیسے اگر کوئی مسلمان اعلانیہ کہتا ہے کہ میں مسلمان نہیں ہوں،تو کیا کوئی اس سے یہ سمجھے گا کہ یہ صرف مسلم کی نسبت سے انکار ہے اسلام سے انکار نہیں یا اگر وہ شخص خود یہ کہے کہ میں اسلام کا انکار نہیں کرتا بلکہ صرف مسلمان کی نسبت سے انکار کرتا ہوں تو کیا اس کا یہ اقرار درست ہوگا؟ ہرگز نہیں! بلکہ ہر سننے والایہی سمجھے گا کہ اس شخص کا مسلمان ہونے سے انکار دراصل اسلام کا انکار ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم یا مسلمان کا اسم یا نسبت لازمی طور پراسلام کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جسے کسی دلیل سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔نتیجہ یہ نکلا کہ اہل حدیث نسبت کاانکاراصل میں اہل حدیث کے منہج کا انکار اور نتیجتاً اس خالص اور صحیح ترین اسلام کا انکار ہے جس پر اہل حدیث گمراہ فرقوں کے درمیان گامزن ہیں۔اور یہی غیر ملاوٹ شدہ دین اہل حدیث کی ادیان باطلہ کے مابین امتیازی پہچان بھی ہے۔
مضمون کے آخر میں عرض ہے کہ یہ بات تواتر اور ناقابل تردید دلائل سے ثابت ہے کہ ہر زمانے اور ہر دور میں حق صرف اور صرف اہل حدیث کے پاس رہا ہے اور قرآن وسنت پر فہم سلف صالحین کی روشنی میں عمل کا اعزاز بھی ہمیشہ سے بلا شرکت غیرے جماعت اہل حدیث کوہی حاصل رہا ہے۔اب وہ لوگ جو سلف کے منہج سے ہٹ کراہل حدیث کے علاوہ کوئی اور پہچان یا شناخت یا تعارف یا نسبت رکھتے ہیں یقیناًگمراہ ہیں۔محدث زماں ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا عقیدہ تھا کہ جو شخص سلفی منہج پر نہیں وہ راہ حق سے ہٹا ہوا ہے، فرماتے ہیں: میرا اعتقاد ہے کہ جس شخص کا منہج سلفیت نہیں وہ حق سے منحرف ہے۔(الفرقۃ الجدیدۃ، صفحہ 189)
اور دور حاضر کے احساس کمتری کا شکار وہ کم عقل لوگ جو اہل حدیث کے منہج اور اصول و عقائد پر کاربند ہیں لیکن خود کو کسی خود ساختہ مصلحت کے تحت اہل حدیث نہیں کہتے اور جان بوجھ کر اپنی شناخت اور پہچان چھپاتے ہیں دھوکے باز ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ دغا بازی اور دھوکہ دہی کے ذریعے وہ دین و مسلک کی کوئی خدمت سر انجام نہیں دے رہے بلکہ الٹا مسلک اہل حدیث کے نقصان کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ بقول عبداللہ ناصر رحمانی: شر کے راستے کبھی خیر نہیں آسکتی۔