- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 305
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
بسم اللہ الرحمن اللہ الرحمان الرحیم
دعوت دین اور خلوص نیت
نوع انسانی کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے پیغام ربانی کو ہر ممکنہ طریقے سے آگے پہنچانا، نسل نو کو ہدایات ربانیہ سے روشناس کرنا، دعوت دین واحد راستہ ہے امت مسلمہ کی کامیابی کا، اسی سے امت کی بقا ہے اور اسی سے رب تعالیٰ کی مخلوق پر اس کی حکمرانی قائم کی جاسکتی ہے، معاشی احوال کی بہتری، معاشرتی امور کی اصلاح اور دین اسلام کے استحکام کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے دعوت وتبلیغ۔افراد سازی اور اخلاق کی درستگی بھی اسی طریق سے ممکن ہے۔
حقوق اللہ کی پاسداری اور حقوق العباد کا لحاظ بھی دین اسلام کا پیغام آگے پہنچاکرہو سکتا ہے۔اس عظیم مشن سے منسلک اہل ایمان کے کچھ اوصاف و خصائل ہیں جن کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ انہیں ملحوظ رکھنے کی صورت ہی میں دعوت دین کی ذمہ داری سے حقیقی معنوں میں عہدہ برآ ہوا جاسکتا ہے اور ان اوصاف کے ہوتے ہوئے ہی دعوت کے کامل ثمرات و فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
دعوت جیسے عظیم منصب سے منسلک اہل ایمان کے لیے اخلاص اسی قدر اہم ہے جس طرح زندگی کے لیے پانی ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر کوئی عمل بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہوتا، اخلاص خلوص اور خالص سے ہے۔ جس کا مطلب ہے ہر نیک عمل سے مقصود صرف رضائے الٰہی ہواور دعوت و تبلیغ کا مقصد صرف پروردگار عالم کی خوشنودی ہو۔ لوگوں کی رضا مندی مد نظر نہ ہو، شہرت مطلوب نہ ہو، مادی منفعت کا حصول ملحوظ خاطر نہ ہو، نیکی والے امور اور گناہ کے کاموں سے آگاہ کرتے ہوئے نمود و نمائش کا خیال تک بھی نہ ہو۔
قبول اسلام میں اخلاص نہ ہونا نفاق کہلاتا ہے اور امور اسلام بجا لانے میں اخلاص نہ ہونا ریاکاری ٹھہرتا ہے اور یہ دنوں ہی اعمال کی بربادی کا سبب ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے تمام امور میں خلوص ہی کا اہل ایمان کو پابند کیا ہے، اسی کااپنے حبیب کو حکم دیا ہے اور اسی کے ذریعہ شیطان کے شر سے بچا جاسکتا ہے۔ انبیاء ورسل جیسی پاکباز ہستیاں بھی اس وصف سے متصف تھیں۔
راہ خدا میں خرچ کرنے والے مالدار کو اور دن رات قرآن کریم کی تعلیم دینے والے کو قابل رشک ٹھہرایا گیا ہے۔(صحیح البخاری:۳۷)جبکہ شہادت جیسے عظیم منصب سے فائز ہونے کی خواہش خود رحمت دو جہاں نے بھی کی ہے۔(صحیح البخاری:۶۳)
لیکن انہی امور میں عدم خلوص اور ریاکاری کی وجہ سے ایسے عظیم عمل کرنے والوں کو بھی الٹا منہ گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم:۵۰۹۱)
اسی طرح جو بھی علم اس لیے حاصل کرتا ہے تاکہ اہل علم سے بحث و مباحثہ کیا کرے، نادانوں کو نیچا دکھایا جاسکے اور لوگوں کی توجہ حاصل کی جاسکے اسے بھی جہنم رسید کیا جائے گا۔ (سنن الترمذی:۴۵۶۲)
خلوص اور رضائے الٰہی کی خاطر کیے ہوئے عمل کی اثر پذیری اور افادیت کسی سے مخفی نہیں۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
حافظ محمد فیاض الیاس الاثری
رکن دالمعارف لاہور
دعوت دین اور خلوص نیت
نوع انسانی کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے پیغام ربانی کو ہر ممکنہ طریقے سے آگے پہنچانا، نسل نو کو ہدایات ربانیہ سے روشناس کرنا، دعوت دین واحد راستہ ہے امت مسلمہ کی کامیابی کا، اسی سے امت کی بقا ہے اور اسی سے رب تعالیٰ کی مخلوق پر اس کی حکمرانی قائم کی جاسکتی ہے، معاشی احوال کی بہتری، معاشرتی امور کی اصلاح اور دین اسلام کے استحکام کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے دعوت وتبلیغ۔افراد سازی اور اخلاق کی درستگی بھی اسی طریق سے ممکن ہے۔
حقوق اللہ کی پاسداری اور حقوق العباد کا لحاظ بھی دین اسلام کا پیغام آگے پہنچاکرہو سکتا ہے۔اس عظیم مشن سے منسلک اہل ایمان کے کچھ اوصاف و خصائل ہیں جن کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ انہیں ملحوظ رکھنے کی صورت ہی میں دعوت دین کی ذمہ داری سے حقیقی معنوں میں عہدہ برآ ہوا جاسکتا ہے اور ان اوصاف کے ہوتے ہوئے ہی دعوت کے کامل ثمرات و فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
دعوت جیسے عظیم منصب سے منسلک اہل ایمان کے لیے اخلاص اسی قدر اہم ہے جس طرح زندگی کے لیے پانی ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر کوئی عمل بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہوتا، اخلاص خلوص اور خالص سے ہے۔ جس کا مطلب ہے ہر نیک عمل سے مقصود صرف رضائے الٰہی ہواور دعوت و تبلیغ کا مقصد صرف پروردگار عالم کی خوشنودی ہو۔ لوگوں کی رضا مندی مد نظر نہ ہو، شہرت مطلوب نہ ہو، مادی منفعت کا حصول ملحوظ خاطر نہ ہو، نیکی والے امور اور گناہ کے کاموں سے آگاہ کرتے ہوئے نمود و نمائش کا خیال تک بھی نہ ہو۔
قبول اسلام میں اخلاص نہ ہونا نفاق کہلاتا ہے اور امور اسلام بجا لانے میں اخلاص نہ ہونا ریاکاری ٹھہرتا ہے اور یہ دنوں ہی اعمال کی بربادی کا سبب ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے تمام امور میں خلوص ہی کا اہل ایمان کو پابند کیا ہے، اسی کااپنے حبیب کو حکم دیا ہے اور اسی کے ذریعہ شیطان کے شر سے بچا جاسکتا ہے۔ انبیاء ورسل جیسی پاکباز ہستیاں بھی اس وصف سے متصف تھیں۔
راہ خدا میں خرچ کرنے والے مالدار کو اور دن رات قرآن کریم کی تعلیم دینے والے کو قابل رشک ٹھہرایا گیا ہے۔(صحیح البخاری:۳۷)جبکہ شہادت جیسے عظیم منصب سے فائز ہونے کی خواہش خود رحمت دو جہاں نے بھی کی ہے۔(صحیح البخاری:۶۳)
لیکن انہی امور میں عدم خلوص اور ریاکاری کی وجہ سے ایسے عظیم عمل کرنے والوں کو بھی الٹا منہ گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم:۵۰۹۱)
اسی طرح جو بھی علم اس لیے حاصل کرتا ہے تاکہ اہل علم سے بحث و مباحثہ کیا کرے، نادانوں کو نیچا دکھایا جاسکے اور لوگوں کی توجہ حاصل کی جاسکے اسے بھی جہنم رسید کیا جائے گا۔ (سنن الترمذی:۴۵۶۲)
خلوص اور رضائے الٰہی کی خاطر کیے ہوئے عمل کی اثر پذیری اور افادیت کسی سے مخفی نہیں۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
حافظ محمد فیاض الیاس الاثری
رکن دالمعارف لاہور