• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعوت دین کے تقاضے - 03

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
السلام علیکم عزیز دوستو۔

عالم عرب کی کم ہی شخصیات ایسی ہیں جنہیں اردو دنیا میں بھی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ہو۔ ان میں سے ایک نام ڈاکٹر یوسف القرضاوی کا بھی ہے۔ ان کی تصنیفات کا ایک بڑا حصہ اردو میں بھی منتقل ہو کر قبولیت عامہ حاصل کر چکا ہے۔ دعوتِ دین کے موضوع ہر ڈاکٹر قرضاوی کی ایک دلچسپ اور قابل مطالعہ کتاب کا عنوان ہے :
ثقافۃ الداعیہ
اردو میں اس کا ترجمہ "دعوت دین کے علمی تقاضے" کے عنوان سے ہو چکا ہے۔
اس کتاب میں داعی کی علمی و فکری تیاری کے سلسلے میں ان اہم نکات کی نشاندہی کی گئی ہے جن کا لحاظ کئے بغیر دعوتِ دین کے کاز کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔
انہی نکات میں "نفسیات" بھی ایک اہم موضوع ہے۔
ڈاکٹر قرضاوی اس موضوع کے ذیل میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔
(ترتیب کی کچھ رد و بدل کے ساتھ ذیل میں اقتباس ملاحظہ فرمائیں)


***
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے :
لَا يَقْضِي الْقَاضِي بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ
کوئی قاضی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے جبکہ وہ غصے کی حالت میں ہو۔
سنن ابن ماجه , كِتَاب الْأَحْكَامِ , بَاب لَا يَحْكُمُ الْحَاكِمُ وَهُوَ غَضْبَانُ

جس سے ہمیں اس اہم نفسیاتی حقیقت کا سراغ ملتا ہے کہ اگر آدمی کے اوپر کچھ "خاص جذبات" طاری ہوں اور شدید طور پر کسی کیفیت کا وہ شکار ہو تو اس صورت میں اس کے حواس معمول کے مطابق کام نہیں کرتے اور اس کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے کہ وہ صحیح بات سوچ سکے اور مناسب فیصلے تک پہنچنے میں کامیاب ہو۔
موجودہ علم نفسیات اس کی حرف بہ حرف تصدیق کرتا ہے۔


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ...
(اے نبی) کہہ دو میں تو تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں یہ کہ تم کھڑے ہوں اللہ کے لیے دو دو اور ایک ایک کر کے ، پھر غور کرو۔
( سبا:34 - آيت:46 )

اس آیت مقدسہ سے ہمیں دیگر باتوں کے علاوہ اس اہم نفسیاتی حقیقت کا بھی پتا چلتا ہے کہ :
صحت مند سوچ اور نفع بخش غور و فکر کہ جس کے نتیجے میں آدمی حق و صواب تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ، وہ سوچ و فکر ہے جو تنہا اختیار کی گئی ہو یا زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے آدمی کے ساتھ ہو۔

اس کے برعکس سماج یا معاشرے یا جماعت یا کسی مخصوص بیٹھک کا جو ایک خاص رخ بن جاتا ہے اور اس میں جن افکار و نظریات کی حکمرانی ہوتی ہے تو اس کے زیر اثر ہو کر آدمی جب کسی موضوع پر سوچتا یا کسی مسئلہ پر غور کرتا ہے تو اکثر و بیشتر اسے راہ صواب مل نہیں پاتی اور وہ کوئی متوازن اور ہم آہنگ رائے بنانے اور کسی نتیجہ خیز فیصلہ تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔
اور یہ وہ حقیقت ہے جسے آج کا ترقی یافتہ علم نفسیات تسلیم کرتا ہے۔
 
Top