باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
ہادئ برحق نبئ مکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت نازل ہوتی ہے
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِين
(اے نبی!) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے
ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔
اس آیت کے اترتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشیوں کو بلایا اور انہیں ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
اے قریشیو! اپنی جانیں جہنم سے بچالو۔
اے کعب کے خاندان والو! اپنی جانیں آگ سے بچالو۔
اے ہاشم کی اولاد کے لوگو اپنے آپ کو اللہ کے عذابوں سے چھڑوالو۔
اے عبد المطلب کے لڑکو! اللہ کے عذابوں سے بچنے کی کوشش کرو۔
اے فاطمہ بنت محمد! اپنی جان کو دوزخ سے بچالے۔
اے صفیہ ،
اے فاطمہ ،
میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے طلب کرلو۔ قسم اللہ کی میں اللہ کے ہاں کی کسی چیز کا مالک نہیں۔
(بحوالہ : صحیحین)
کوئی اپنے امام کا تابع ہو ، کوئی اپنے مسلک کا گرویدہ ہو ، کوئی اپنے استاد کا تابعدار شاگرد ہو ، کوئی اپنے پیشوا اپنے پیر کا جانثار ہو ۔۔۔ لیکن ،
یاد رکھنا چاہیے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سے کسی کی نسبت روز حشر کوئی کام نہیں آئے گی!!
بھلا کیسے کام آ سکتی ہے؟
نبئ مکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو واشگاف اپنی دختر نیک اختر کے لیے فرما دیا تھا :
يا فاطمة بنت رسول الله! سليني بما شئت. لا أغني عنك من الله شيئا (اے فاطمہ بنت محمد ، تم میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لو مگر اللہ کے سامنے میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا)
نبی کی چہیتی اولاد ہونے کے شرف سے بھی بڑھ کر بھلا کوئی اعزاز ہو سکتا ہے؟
اہل بیت سے بڑھ کر بھی کوئی رشتہ اعزاز بن سکتا ہے؟ مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تو لکھتے ہیں ۔۔۔
روئے زمین پر اہل بیت سے زیادہ پاک اور صاف ستھرا گھرانا اور نہیں۔ حسب و نسب میں اور فخر و مباہات میں بلا شک یہ سب سے اعلیٰ ہیں۔
(بحوالہ : رسومات محرم الحرام اور سانحۂ کربلا)
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کے مطابق حسب نسب ، شرف و اعزاز کوئی کام نہیں آ سکتا تو پھر آخر وہ کون سی چیز ہے جو حصول جنت کا معیار قرار پائے گی؟
آئیے اسے مشہور خطبہ حجۃ الوداع میں ڈھونڈتے ہیں۔
ٹھاٹھیں مارتا انسانی سروں کا سمندر ہے۔ لوگوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہہ رہی ہیں۔ ہر طرف آہوں اور سسکیوں کا طوفان ہے۔
ایسے میں ایک جھنجھوڑ دینے والی ، دل و دماغ پر حاوی ہو جانے والی پرسکون آواز گونجتی ہے :
اے لوگو!
سنو تمہارا رب ایک رب ہے!
کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے۔
نہ کوئی کالا کسی گورے سے بہتر ہے اور نہ گورا کالے سے۔
فضیلت صرف اور صرف تقویٰ کے سبب ہے۔
اے میری قوم کے لوگو ! یہ کسی ایرے غیرے کا نہیں خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان عالیشان ہے۔ جس سے اس بات کی خوب وضاحت ہو جاتی ہے کہ ۔۔۔ اسلام کسی ذات پات، رنگ، نسل ، قومیت ، مسلک ، گروہ ، جماعت کو فضیلت کی بنیاد نہیں مانتا بلکہ صرف اور صرف تقویٰ اور پرہیز گاری کو ہی فضیلت کا معیار قرار دیتا ہے۔
خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے شروع ہی میں یہ واضح کر دیا ہے کہ اس کتاب سے وہی لوگ صحیح راہ دیکھ سکتے ، صحیح راہ پر لگ سکتے اور صحیح راہ پر چل سکتے ہیں ، جو تقویٰ رکھتے ہوں۔
هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ
یہ (قرآن) متقین کے لیے ھدایت ہے ۔
( سورة البقرة : 2 ، آيت : 2 )
تقویٰ تو بڑی اونچی اور بیش بہا صفت ہے ، اور ساری مطلوبہ صفات کی جامع بھی !
جو لوگ تقویٰ کی صفت رکھتے ہیں ، اُن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیوں کی ضمانت دی ہے۔
تقویٰ وہ چیز ہے ۔۔۔ جس سے رزق کے دروازے اِس طرح کھلتے ہیں کہ سان و گمان بھی نہیں ہوتا۔ تقویٰ کی وجہ سے دین اور دنیا کے سارے کام آسان ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ برائیاں جھاڑ دیتا ہے اور اجرِ عظیم سے نوازتا ہے ۔
کسی مسلک کے حامیان نہیں ، کسی امام کے متبعین نہیں ، کسی پیشوا کے مقلدین نہیں ، کسی گروہ کسی جماعت کے داعیان نہیں ۔۔۔۔ بلکہ "تقویٰ" جیسی صفت کے حامل متقین ۔۔۔ ہی وہ لوگ ہیں ، جن کو اُس جنت کی بشارت دی گئی ہے جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائیں ۔ انہی لوگوں سے اُس مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے جو اُس جنت کی طرف لے جانے والی ہے ۔
جنت تو اُن کی وراثت ہے ہی ، دنیا میں بھی آسمان و زمین سے برکتوں کے دہانے کھول دینے کا وعدہ اُن سے کیا گیا ہے جو ایمان اور تقویٰ کی صفت سے آراستہ ہوں۔
ولو أن أهل القرى آمنوا واتقوا لفتحنا عليهم بركات من السماء والأرض
اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم اُن پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔
( سورة الأعراف : 7 ، آيت : 96 )
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم تمام کے سینوں کو کھول دے اور علم و عمل کی توفیق سے نوازے ، آمین۔
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِين
(اے نبی!) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے
ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔
اس آیت کے اترتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشیوں کو بلایا اور انہیں ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
اے قریشیو! اپنی جانیں جہنم سے بچالو۔
اے کعب کے خاندان والو! اپنی جانیں آگ سے بچالو۔
اے ہاشم کی اولاد کے لوگو اپنے آپ کو اللہ کے عذابوں سے چھڑوالو۔
اے عبد المطلب کے لڑکو! اللہ کے عذابوں سے بچنے کی کوشش کرو۔
اے فاطمہ بنت محمد! اپنی جان کو دوزخ سے بچالے۔
اے صفیہ ،
اے فاطمہ ،
میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے طلب کرلو۔ قسم اللہ کی میں اللہ کے ہاں کی کسی چیز کا مالک نہیں۔
(بحوالہ : صحیحین)
کوئی اپنے امام کا تابع ہو ، کوئی اپنے مسلک کا گرویدہ ہو ، کوئی اپنے استاد کا تابعدار شاگرد ہو ، کوئی اپنے پیشوا اپنے پیر کا جانثار ہو ۔۔۔ لیکن ،
یاد رکھنا چاہیے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سے کسی کی نسبت روز حشر کوئی کام نہیں آئے گی!!
بھلا کیسے کام آ سکتی ہے؟
نبئ مکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو واشگاف اپنی دختر نیک اختر کے لیے فرما دیا تھا :
يا فاطمة بنت رسول الله! سليني بما شئت. لا أغني عنك من الله شيئا (اے فاطمہ بنت محمد ، تم میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لو مگر اللہ کے سامنے میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا)
نبی کی چہیتی اولاد ہونے کے شرف سے بھی بڑھ کر بھلا کوئی اعزاز ہو سکتا ہے؟
اہل بیت سے بڑھ کر بھی کوئی رشتہ اعزاز بن سکتا ہے؟ مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تو لکھتے ہیں ۔۔۔
روئے زمین پر اہل بیت سے زیادہ پاک اور صاف ستھرا گھرانا اور نہیں۔ حسب و نسب میں اور فخر و مباہات میں بلا شک یہ سب سے اعلیٰ ہیں۔
(بحوالہ : رسومات محرم الحرام اور سانحۂ کربلا)
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کے مطابق حسب نسب ، شرف و اعزاز کوئی کام نہیں آ سکتا تو پھر آخر وہ کون سی چیز ہے جو حصول جنت کا معیار قرار پائے گی؟
آئیے اسے مشہور خطبہ حجۃ الوداع میں ڈھونڈتے ہیں۔
ٹھاٹھیں مارتا انسانی سروں کا سمندر ہے۔ لوگوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہہ رہی ہیں۔ ہر طرف آہوں اور سسکیوں کا طوفان ہے۔
ایسے میں ایک جھنجھوڑ دینے والی ، دل و دماغ پر حاوی ہو جانے والی پرسکون آواز گونجتی ہے :
اے لوگو!
سنو تمہارا رب ایک رب ہے!
کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے۔
نہ کوئی کالا کسی گورے سے بہتر ہے اور نہ گورا کالے سے۔
فضیلت صرف اور صرف تقویٰ کے سبب ہے۔
اے میری قوم کے لوگو ! یہ کسی ایرے غیرے کا نہیں خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان عالیشان ہے۔ جس سے اس بات کی خوب وضاحت ہو جاتی ہے کہ ۔۔۔ اسلام کسی ذات پات، رنگ، نسل ، قومیت ، مسلک ، گروہ ، جماعت کو فضیلت کی بنیاد نہیں مانتا بلکہ صرف اور صرف تقویٰ اور پرہیز گاری کو ہی فضیلت کا معیار قرار دیتا ہے۔
خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے شروع ہی میں یہ واضح کر دیا ہے کہ اس کتاب سے وہی لوگ صحیح راہ دیکھ سکتے ، صحیح راہ پر لگ سکتے اور صحیح راہ پر چل سکتے ہیں ، جو تقویٰ رکھتے ہوں۔
هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ
یہ (قرآن) متقین کے لیے ھدایت ہے ۔
( سورة البقرة : 2 ، آيت : 2 )
تقویٰ تو بڑی اونچی اور بیش بہا صفت ہے ، اور ساری مطلوبہ صفات کی جامع بھی !
جو لوگ تقویٰ کی صفت رکھتے ہیں ، اُن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیوں کی ضمانت دی ہے۔
تقویٰ وہ چیز ہے ۔۔۔ جس سے رزق کے دروازے اِس طرح کھلتے ہیں کہ سان و گمان بھی نہیں ہوتا۔ تقویٰ کی وجہ سے دین اور دنیا کے سارے کام آسان ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ برائیاں جھاڑ دیتا ہے اور اجرِ عظیم سے نوازتا ہے ۔
کسی مسلک کے حامیان نہیں ، کسی امام کے متبعین نہیں ، کسی پیشوا کے مقلدین نہیں ، کسی گروہ کسی جماعت کے داعیان نہیں ۔۔۔۔ بلکہ "تقویٰ" جیسی صفت کے حامل متقین ۔۔۔ ہی وہ لوگ ہیں ، جن کو اُس جنت کی بشارت دی گئی ہے جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائیں ۔ انہی لوگوں سے اُس مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے جو اُس جنت کی طرف لے جانے والی ہے ۔
جنت تو اُن کی وراثت ہے ہی ، دنیا میں بھی آسمان و زمین سے برکتوں کے دہانے کھول دینے کا وعدہ اُن سے کیا گیا ہے جو ایمان اور تقویٰ کی صفت سے آراستہ ہوں۔
ولو أن أهل القرى آمنوا واتقوا لفتحنا عليهم بركات من السماء والأرض
اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم اُن پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔
( سورة الأعراف : 7 ، آيت : 96 )
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم تمام کے سینوں کو کھول دے اور علم و عمل کی توفیق سے نوازے ، آمین۔