• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعوت دین کے ضروری نکات، ڈاکٹر فرحت ہاشمی حفظہا اللہ

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
919
پوائنٹ
125
[FONT="Al_Mushaf"]بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ()​

وَمِنْ حَيْثُ خَرَ‌جْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ‌ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَ‌هُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٥٠﴾ كَمَا أَرْ‌سَلْنَا فِيكُمْ رَ‌سُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ﴿١٥١﴾
اور جہاں سے بھی تمہارا گزر ہو، اپنا رُخ مسجد حرام ہی کی طرف پھیرا کرو۔یعنی حضرمیں ہو یا سفر میں، ہر جگہ، جہاں بھی تم ہو، اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھو۔تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے۔

اتحاد کا نشان:
اصل میں قبلہ مسلمانوں کے اتحاد کا سمبل ہے۔مسلمانوں کو ایک رُخ پر اور ایک مرکزپر جمع کرنے کےلیے بھی ہے۔اگر چہ اس کی اور بھی کئی حکمتیں ہیں لیکن یہ ایک بڑ امقصد ہے۔اس لیے مسلمانوں کو وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں، جب وہ قبلےکی طرف رُخ کرتے ہیں تویہ اپنے عمل سے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ایک ہیں، ہم سب کی ڈائریکشن ایک ہے۔

قبلے کا تعین ضروری:
فرمایا کہ اس کی خلاف ورزی نہ کرنا۔ اسی لیے یہ بات ہم سب کو معلوم ہونی چاہیےکہ فرض نماز میں قبلے کا تعین ضروری ہے حتی الامکان۔ یعنی انسان کوئی بھی طریقہ اختیار کرےلیکن قبلے ہی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھے۔نوافل میں آپﷺ سواری پر بھی نفل پڑھتے تھے۔اورابتداً قبلہ کی طرف منہ کرتے اور پھر اس کے بعدسواری جس طرف کو بھی گھوم جاتی، آپ نفل نماز پڑھتے تھے۔لیکن فرض نماز کےلیے آپ سواری پر نماز نہیں پڑھتے تھے۔نمازوں کو جمع کرلیا کرتے لیکن قبلہ ہی کو فالو کرتے۔ یہ الگ بات ہے کہ جیسے جہاز کی سواری ہے اور اس میں کوئی موقع نہیں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کااوربعض اوقات قبلہ کی سمت متعین کرنے کا تو وہ تو پھر ایک اضطراری کیفیت ہے لیکن زمین پر سفر کرتے ہوئے خاص طور پر اس کا اہتمام ضروری ہے۔

لوگوں کا طرز عمل:
ہاں! جو ظالم ہیں، ان کی زبان کسی حال میں بند نہ ہوگی۔تو تم ان سے نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو۔
ہوتا یہ ہے کہ جب حق سامنے آتا ہے تو وہ لوگ جن کی فطرت سلیم ہوتی ہے ، وہ اسے قبول کرلیتے ہیں۔ بعض لوگ تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد، بعض کچھ شک میں پڑنے کے بعد پھر یقین کی طرف لوٹ آتے ہیں۔لیکن ہر معاشرے کے اندر ایک عنصر ضرور ہوتا ہے جو انتہائی ہٹ دھرم ہوتا ہے۔جیسے مکہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدا میں بہت لوگوں نے مخالفت کی لیکن آہستہ آہستہ اس میں کمی آتی گئی حتی کہ مکہ فتح ہوگیا، اکثریت مسلمان ہوگئی۔ گنتی کے چند لوگ ایسے تھے کہ جو اب بھی ہٹ دھرمی کا شکار تھے۔فرمایا کہ اس چھوٹے سے ایلیمنٹ کو اگنور کردو۔اور اس لیے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں۔ اور اس توقع پر کہ میری اس پیروی سے تم اسی طرح فلاح کا راستہ پاؤ گے جس طرح میں نے تمہارے درمیان خود تم سے ایک رسول بھیجا جوتمہیں میری آیات سناتا ہے، تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے،تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم جانتے نہ تھے۔

پیارے پیغمبرﷺ کا طریقہ ٔ دعوت ِدین:
یہاں حضور ﷺ کو ہدایت کا ذریعہ بتایا گیا۔آپﷺ نے لوگوں کو ہدایت کی طرف کس طرح بلایا۔کیا میتھوڈالوجی اختیار کی۔ کیا طریقہ استعمال کیا۔کیا چیز تھی جس کے ذریعے آپ نے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھایا؟
نمبر ایک: [يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا]تلاوت آیات۔ اللہ کا کلام پڑھ کر سنایا
نمبردو: [وَ يُزَكِّيْكُمْ] تزکیہ کیا۔تربیت کی۔
نمبر تین: [وَ يُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ]تم کوکتاب کی تعلیم دی۔
اور نمبر چار: [وَ الْحِكْمَةَ] اور حکمت کی۔

چار نکاتی ایجنڈا:
آج بھی اگر کوئی شخص، کوئی فرد، گروہ یا جماعت لوگوں کواللہ کی طرف بلانا چاہتی ہے اور اس کےلیے بھی یہی چار نکاتی ایجنڈا ہے۔انہی چار چیزوں پر کام کرنا چاہیے۔انسانوں کے اندر تبدیلی اور تربیت کےعمل کےلیے۔تلاوت آیات، تعلیم کتاب، تعلیم حکمت اور صرف علم اور تلاوت اور تجوید نہیں بلکہ تزکیہ۔ صرف ظاہر ہی کی ریجوئلز کی ادائیگی نہیں، بلکہ اندر کے انسان کی فلاح وبہبود، اندر کے انسان کی نشوونما۔ تزکیہ کا عمل دو چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
نمبر ایک: نفس کی خرابیوں کو، نفس کے اندر پائے جانے والے برے خیالات ومیلانات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا جیسے شرک ،بدعت، حسد، تکبر اور اس سے متعلقہ چیزیں۔
نمبر دو: نشو ونما کرنا یعنی خیرات اور بھلائیوں کی ، نیکیوں کے ایسے بیج ڈالنا کہ جس سے انسان اپنے آپ کو، اپنے اندر کو بھی اور اپنے باہر کو بھی خوب سنوار سکے۔
نبی ﷺ نے یہی کام کیا۔یہی وجہ ہے کہ پھر صحابہ کرام جیسی ایسی قوم دنیا میں وجودمیں آئی جس نے دنیا کے سامنے بہترین عملی مثالیں پیش کیں۔

نعمت پر شکر:
[فَاذْكُرُ‌ونِي أَذْكُرْ‌كُمْ وَاشْكُرُ‌وا لِي وَلَا تَكْفُرُ‌ونِ ﴿١٥٢﴾]پس تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ اور میرا شکر ادا کرو اور ناشکری نہ کرو۔یعنی جب نعمت ملے تو اس کا حق کیسے ادا کیا جاتا ہے؟اللہ کا ذکر کرکے اور اللہ کا شکر کرکے۔یعنی جب تم کو ہدایت کاراستہ ملے ۔ اللہ کا ذکر کرنا، اس کا ذکر اور شکر بجالانا۔

آڈیو لنک
[/FONT]
 
Top