ابوالبیان رفعت
رکن
- شمولیت
- جون 25، 2014
- پیغامات
- 61
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 59
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(دعوت وارشاد کے میدان میں حکمت کی اہمیت )
ماخوذ از :شبکۃ صیدالفوائد
ترجمہ و تہذیب ـ:ابوالبیان رفعت ؔ سلفی،
١۔حکمت و بصیرت اللہ کا انعام عظیم ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے (یُؤتِیْ الْحِکْمَۃَ مَن یَشَاء ُ وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْْراً کَثِیْراً وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَاب)ِ وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے اور جس کو دانائی ملی بیشک اُس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں[سورۃ البقرۃ ٢٦٩)
مذکورہ آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حکمت ، اللہ کا احسان اور اس کی ایسی عظیم نعمت ہے جسے اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے ، اور یہ ایسی چیز ہے جسے مشق و تمرین اور تجربہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
٢۔حکمت کی تعریف وتوضیح۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ حکمت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں ''کسی کام کو اس کے منا سب طریقہ پر اور اس کے مناسب وقت میں انجام دینے کو حکمت کہتے ہیں۔[مدارج السالکین]
علامہ ابن سعدی رحمہ اللہ (ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ)کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں'' داعی کو چاہیئے کہ وہ مدعو کو اس کی حالت اس کے فہم اور اس کے قبول کرنے اور مان لینے کی صلاحیت کے مطابق دعوت پیش کرے ،اور حکمت کے امور میں یہ سب امور شامل ہیںہے کہ علم کے ساتھ دعوت دی جائے، اہم چیزوں سے بات کا آغاز کیا جائے،پہلے آسان باتیںرکھی جائیں ،پہلے ایسی باتیں رکھی جائیںجسے لوگ جلدی قبول کرنے والے ہوں،اورنرم گفتاری سے کلام کیا جائے۔لیکن اگر حکمت کے یہ مذکورہ طریقے کارگر ثابت نہ ہوں تو پھر ایسی گمبھیر صورت حال میںعمدہ نصیحت کے ذریعہ دعوت پیش کی جائے ،اور عمدہ نصیحت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بھلائیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے میںترغیب و ترہیب کا طریقہ استعمال کیا جائے ۔
پس یہ بات واضح ہو گئی کہ دعوت الیٰ اللہ میں حکمت ہی امر مطلوب ہے اورہر داعی کومن جانب اللہ دعوت پیش کرنے میں حکمت اپنانے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے(ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی احسن)''اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کوحکمت اوربہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اوران سے بہترین طریقہ سے گفتگو کیجیئے''[سورۃ النحل١٢٥]اسی طرح سورۃ یوسف میں اللہ کا فرمان ہے (قل ہذہ سبیلی ادعوالیٰ اللہ علیٰ بصیرۃ انا و من اتبعنی)''آپ کہہ دیجئے میری راہ یہی ہے میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلارہے ہیں ' پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں''[سورۃ یوسف ١٠٨]
٣۔دعوت میں حکمت کے حاصل شدہ نتائج۔
جب صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دعوتی میدان میں حکمت اور منہج رسول ؐ کے ساتھ آگے بڑھے تو لوگ دین اسلام میں فوج در فوج داخل ہو نے لگے یہاں تک کہ دین اسلام (تھوڑی سی مدت میں )دنیا کے چپہ چپہ میں پھیل گیا۔
٤۔حکمت کے چند ضروری عناصر ۔
(١) داعی خوش اخلاق اور نرم گفتار ہو۔جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے (فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّہِ لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظّاً غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمرْ)''اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیںاور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ،سو آپ ان سے درگذر کریںاور ان کے لئے استغفار کریںاور کام کا مشورہ ان سے کریں''[آل عمران: ١٥٩]
اسی طرح اللہ تعالیٰ موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے (اذْہَبَا إِلَی فِرْعَوْنَ إِنَّہُ طَغَی٭ فَقُولَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّناً لَّعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَی)''تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑی سرکشی کی ہے اسے نرمی سے سمجھاؤ شاید وہ سمجھ لے یا ٖڈر جائے ''[سورۃ طہ:٤٣۔٤٤)
(٢)سختی کے وقت سختی اور نرمی کے وقت نرمی اپنائی جائے۔
اور دعوت میں بسا اوقات سختی کی بھی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ حکمت کا مطلب ہوتا ہے کہ ہر شئے کو اس کی جگہ پر رکھا جائے ۔لہذا سختی کے وقت سختی اور نرمی کے وقت نرمی ہونی چاہیئے جیساکہ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام کی زبانی فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے (قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ ہَـؤُلاء إِلاَّ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ بَصَآئِرَ وَإِنِّیْ لَأَظُنُّکَ یَا فِرْعَونُ مَثْبُورا)'' موسیٰ نے کہا کہ تم یہ جانتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا ان کو کسی نے نازل نہیں کیا (اور وہ بھی تم لوگوں کے) سمجھانے کو اور اے فرعون! میںخیال کرتا ہوں کہ تم ہلاک ہو جاؤ گے''[سورۃ بنی اسرائیل:١٠٢]
اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ التوبۃ میں فرماتا ہے ( یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْْہِمْ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ) ''اے نبی !کافروں اورمنافوں سے جہاد جاری رکھواور ان پر سخت ہو جاؤان کی اصلی جگہ دوزخ ہے جو نہایت بد ترین جگہ ہے ''[سورۃ التوبۃ :٧٣]
(٣)داعی اپنے قول و فعل میں مدعو کے لئے نمونہ ہو۔
جیسا کہ ارشاد ربانی ہے( یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ٭ کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّہِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُون)َ ''اے ایمان والو!تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے''[سورۃ الصف :٢۔٣]
(٤)دوران دعوت مدعو کے احوال وظروف کی رعایت کی جائے۔
اس لئے کہ چھوٹے بڑے ، مرد عورت،عالم جاہل،حاکم محکوم،خوش مزاج ،بد مزاج سب کے سامنے ایک ہی اسلوب میں خطاب کرنا حکمت کے بالکل خلاف ہے، بلکہ ضروری ہے کہ خطیب سامعین و حاضرین کے ذہن و مزاج کے مطابق اپنا اسلوب خطاب بھی بدلتا رہے، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے (وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ فَیُضِلُّ اللّہُ مَن یَشَاء ُ وَیَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ)'' اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (احکامِ الٰہی) کھول کھول کر بتا دے پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے''[سورۃابراہیم :٤]
سب سے کامیاب داعی وہ ہے جو اپنے ہرسامع ومخاطب کے ذہن و فکرکے مطابق گفتگو کرتا ہو ،اور ہمیشہ اس بات کی پوری کوشش بھی کرے کہ دوران خطاب اس کا اسلوب خطاب تمام سامعین و حاضرین کے موافق رہے۔
(٥)بوقت ضرورت اچھے ڈھنگ سے جدال کیا جائے ۔
سماحۃالشیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ''حکمت میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ معانی کو مخاطب کی زبان میں ایسے موثراور آسان اسلوب میں بیان کیا جائے جسے مخاطب بخوبی سمجھ جائے ، نہ تواس کے دل میں اس معانی سے متعلق کوئی بھی شبہ باقی رہ جائے، نہ بیان کی کمزوری ،زبان کے فرق ،بعض دلائل کے باہم متعارض ہونے ،اور راجح قول بیان نہ کرنے کی وجہ سے حق پوشیدہ رہ جائے۔اور اگر کسی وقت مدعو کو متنبہ کرنے ، اس کا دل نرم کرنے اور اسے قبول حق پر آمادہ کرنے کے لئے ڈرانے و دھمکانے والی آیات اورترغیب و ترہیب کی احادیث کے ذریعہ وعظ و نصیحت کرنا ضروری ہو جائے تو ایسی صورت میں ترغیب و ترہیب والی نصیحت مدعو کے حسب حال ہونی چاہیئے، کیونکہ کبھی مدعو قبول حق کے لئے تیار ہوتا ہے جوتھوڑی سی تنبیہ کے ذریعہ ہی حق قبول کر لیتا ہے اور اس کے لئے حکمت ہی کافی ہوتی ہے۔اور بعض دفعہ مدعو کے قبول حق کی راہ میں کچھ دشواریاں اور رکا وٹیں بھی درپیش ہوتی ہیں تو ایسی صورت میں ترغیب و ترہیب والی آیات قر آنیہ کے ذریعہ نصیحت کرنے کے ساتھ ساتھ مدعو کے سامنے ان دشواریوں اور رکاوٹوں کا مناسب حل بھی پیش کرنا چاہیئے ۔[الدعوۃ لابن باز ؒ ص:٦٤]
اور حکمت کے مراتب میں اچھے ڈھنگ سے مجادلہ کرنا بھی شامل ہے، جس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اچھی مثالوں ، اورعقلی و نقلی دلائل ، کے ذریعہ حق کو بالکل کو واضح کر دیا جائے ،اور سچے براہین اور فریق مخالف کے باطل دلائل کے ردکے ذریعہ حق تک پہونچنے کی پوری کوشش کی جائے ،جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے( وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ)اور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو'' [سورۃ العنکبوت:٢٩]
مذکورہ آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ داعی کو خالص دعوتی مقاصد سے ہٹ کر محض بحث و مناقشہ میں اپنی مہارت کے اظہار،اور جدل و مناظرہ میں غلبہ حاصل کرنے کی راہ اپنانے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیئے،بہر صورت ہر داعی کا مقصد اصلی صرف اور صرف یہ ہونا چاہیئے کہ مدعو حق کو سمجھ کر اسے قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جائے ۔
(٦) داعی ہمیشہ اپنے مخالف کی برائی کا بدلہ بھلائی سے دینے کی کوشش کرے۔
سب اعلی دعوتی وصف جس سے ہر داعی کو متصف ہونا چاہیئے وہ یہ ہے کہ داعی ہمیشہ اپنے مخالف کی برائی کا بدلہ بھلائی سے دینے کی کوشش کرے ، اور یہ وصف صرف وہی جماعت حاصل کرسکتی ہے جسے اللہ کی جانب سے بہت بڑا نصیبہ عطا کیا گیا ہو، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے( وَلَا تَسْتَوِیْ الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ٭ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیْمٍ )'' اور بھلائی اور بُرائی برابر نہیں ہوسکتی تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویاوہ تمہارا گرم جوش دوست ہے۔ اور یہ بات انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں اور انہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے نصیب والے ہیں''[سورۃ فصلت ٣٤۔٣٥]
(٧)داعی ہمشہ حق بات کہے اور اس راہ میں آنے والی تمام مصیبتوں پر صبرکرے۔
داعی پر واجب ہے کہ وہ تمام حالتوں میں ہمیشہ حق بات ہی کہے اور اس راہ میں آنے والی تمام تکالیف پر باعمل مومنین کے صبر کی طرح صبر کرے نہ کہ ریاکاروں اور منافقوں کے صبر کی طرح ۔امام بخاری نے عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ سے اس بات پر بیعت کی کہ ہم خوشی اور ناخوشی دونوں حالتوں میں آپ ؐ کی بات سنیں گے اور آپ ؐ کی اطاعت کریں گے ۔اور اس شرط پر بھی بیعت کی کہ جو شخص بھی سرداری کے لائق ہوگا(مثلاً قریش میں سے ہو اور شرع پر قائم ہو)اس کی سرداری قبول کریں گے اس سے جھگڑا نہیں کریں گے، اور یہ کہ ہم حق کو لے کر کھڑے ہوں گے یا حق بات کہیں گے جہاں کہیں بھی رہیں ،اور اللہ کے راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ [صحیح بخاری :٧١٩٩۔٧٢٠٠]
واللہ اعلم
وصلی اللہ وسلم وبارک علی نبینامحمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین
(دعوت وارشاد کے میدان میں حکمت کی اہمیت )
ماخوذ از :شبکۃ صیدالفوائد
ترجمہ و تہذیب ـ:ابوالبیان رفعت ؔ سلفی،
١۔حکمت و بصیرت اللہ کا انعام عظیم ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے (یُؤتِیْ الْحِکْمَۃَ مَن یَشَاء ُ وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْْراً کَثِیْراً وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَاب)ِ وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے اور جس کو دانائی ملی بیشک اُس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں[سورۃ البقرۃ ٢٦٩)
مذکورہ آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حکمت ، اللہ کا احسان اور اس کی ایسی عظیم نعمت ہے جسے اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے ، اور یہ ایسی چیز ہے جسے مشق و تمرین اور تجربہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
٢۔حکمت کی تعریف وتوضیح۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ حکمت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں ''کسی کام کو اس کے منا سب طریقہ پر اور اس کے مناسب وقت میں انجام دینے کو حکمت کہتے ہیں۔[مدارج السالکین]
علامہ ابن سعدی رحمہ اللہ (ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ)کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں'' داعی کو چاہیئے کہ وہ مدعو کو اس کی حالت اس کے فہم اور اس کے قبول کرنے اور مان لینے کی صلاحیت کے مطابق دعوت پیش کرے ،اور حکمت کے امور میں یہ سب امور شامل ہیںہے کہ علم کے ساتھ دعوت دی جائے، اہم چیزوں سے بات کا آغاز کیا جائے،پہلے آسان باتیںرکھی جائیں ،پہلے ایسی باتیں رکھی جائیںجسے لوگ جلدی قبول کرنے والے ہوں،اورنرم گفتاری سے کلام کیا جائے۔لیکن اگر حکمت کے یہ مذکورہ طریقے کارگر ثابت نہ ہوں تو پھر ایسی گمبھیر صورت حال میںعمدہ نصیحت کے ذریعہ دعوت پیش کی جائے ،اور عمدہ نصیحت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بھلائیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے میںترغیب و ترہیب کا طریقہ استعمال کیا جائے ۔
پس یہ بات واضح ہو گئی کہ دعوت الیٰ اللہ میں حکمت ہی امر مطلوب ہے اورہر داعی کومن جانب اللہ دعوت پیش کرنے میں حکمت اپنانے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے(ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی احسن)''اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کوحکمت اوربہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اوران سے بہترین طریقہ سے گفتگو کیجیئے''[سورۃ النحل١٢٥]اسی طرح سورۃ یوسف میں اللہ کا فرمان ہے (قل ہذہ سبیلی ادعوالیٰ اللہ علیٰ بصیرۃ انا و من اتبعنی)''آپ کہہ دیجئے میری راہ یہی ہے میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلارہے ہیں ' پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں''[سورۃ یوسف ١٠٨]
٣۔دعوت میں حکمت کے حاصل شدہ نتائج۔
جب صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دعوتی میدان میں حکمت اور منہج رسول ؐ کے ساتھ آگے بڑھے تو لوگ دین اسلام میں فوج در فوج داخل ہو نے لگے یہاں تک کہ دین اسلام (تھوڑی سی مدت میں )دنیا کے چپہ چپہ میں پھیل گیا۔
٤۔حکمت کے چند ضروری عناصر ۔
(١) داعی خوش اخلاق اور نرم گفتار ہو۔جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے (فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّہِ لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظّاً غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمرْ)''اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیںاور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ،سو آپ ان سے درگذر کریںاور ان کے لئے استغفار کریںاور کام کا مشورہ ان سے کریں''[آل عمران: ١٥٩]
اسی طرح اللہ تعالیٰ موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے (اذْہَبَا إِلَی فِرْعَوْنَ إِنَّہُ طَغَی٭ فَقُولَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّناً لَّعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَی)''تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑی سرکشی کی ہے اسے نرمی سے سمجھاؤ شاید وہ سمجھ لے یا ٖڈر جائے ''[سورۃ طہ:٤٣۔٤٤)
(٢)سختی کے وقت سختی اور نرمی کے وقت نرمی اپنائی جائے۔
اور دعوت میں بسا اوقات سختی کی بھی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ حکمت کا مطلب ہوتا ہے کہ ہر شئے کو اس کی جگہ پر رکھا جائے ۔لہذا سختی کے وقت سختی اور نرمی کے وقت نرمی ہونی چاہیئے جیساکہ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام کی زبانی فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے (قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ ہَـؤُلاء إِلاَّ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ بَصَآئِرَ وَإِنِّیْ لَأَظُنُّکَ یَا فِرْعَونُ مَثْبُورا)'' موسیٰ نے کہا کہ تم یہ جانتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا ان کو کسی نے نازل نہیں کیا (اور وہ بھی تم لوگوں کے) سمجھانے کو اور اے فرعون! میںخیال کرتا ہوں کہ تم ہلاک ہو جاؤ گے''[سورۃ بنی اسرائیل:١٠٢]
اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ التوبۃ میں فرماتا ہے ( یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْْہِمْ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ) ''اے نبی !کافروں اورمنافوں سے جہاد جاری رکھواور ان پر سخت ہو جاؤان کی اصلی جگہ دوزخ ہے جو نہایت بد ترین جگہ ہے ''[سورۃ التوبۃ :٧٣]
(٣)داعی اپنے قول و فعل میں مدعو کے لئے نمونہ ہو۔
جیسا کہ ارشاد ربانی ہے( یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ٭ کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّہِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُون)َ ''اے ایمان والو!تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے''[سورۃ الصف :٢۔٣]
(٤)دوران دعوت مدعو کے احوال وظروف کی رعایت کی جائے۔
اس لئے کہ چھوٹے بڑے ، مرد عورت،عالم جاہل،حاکم محکوم،خوش مزاج ،بد مزاج سب کے سامنے ایک ہی اسلوب میں خطاب کرنا حکمت کے بالکل خلاف ہے، بلکہ ضروری ہے کہ خطیب سامعین و حاضرین کے ذہن و مزاج کے مطابق اپنا اسلوب خطاب بھی بدلتا رہے، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے (وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ فَیُضِلُّ اللّہُ مَن یَشَاء ُ وَیَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ)'' اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (احکامِ الٰہی) کھول کھول کر بتا دے پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے''[سورۃابراہیم :٤]
سب سے کامیاب داعی وہ ہے جو اپنے ہرسامع ومخاطب کے ذہن و فکرکے مطابق گفتگو کرتا ہو ،اور ہمیشہ اس بات کی پوری کوشش بھی کرے کہ دوران خطاب اس کا اسلوب خطاب تمام سامعین و حاضرین کے موافق رہے۔
(٥)بوقت ضرورت اچھے ڈھنگ سے جدال کیا جائے ۔
سماحۃالشیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ''حکمت میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ معانی کو مخاطب کی زبان میں ایسے موثراور آسان اسلوب میں بیان کیا جائے جسے مخاطب بخوبی سمجھ جائے ، نہ تواس کے دل میں اس معانی سے متعلق کوئی بھی شبہ باقی رہ جائے، نہ بیان کی کمزوری ،زبان کے فرق ،بعض دلائل کے باہم متعارض ہونے ،اور راجح قول بیان نہ کرنے کی وجہ سے حق پوشیدہ رہ جائے۔اور اگر کسی وقت مدعو کو متنبہ کرنے ، اس کا دل نرم کرنے اور اسے قبول حق پر آمادہ کرنے کے لئے ڈرانے و دھمکانے والی آیات اورترغیب و ترہیب کی احادیث کے ذریعہ وعظ و نصیحت کرنا ضروری ہو جائے تو ایسی صورت میں ترغیب و ترہیب والی نصیحت مدعو کے حسب حال ہونی چاہیئے، کیونکہ کبھی مدعو قبول حق کے لئے تیار ہوتا ہے جوتھوڑی سی تنبیہ کے ذریعہ ہی حق قبول کر لیتا ہے اور اس کے لئے حکمت ہی کافی ہوتی ہے۔اور بعض دفعہ مدعو کے قبول حق کی راہ میں کچھ دشواریاں اور رکا وٹیں بھی درپیش ہوتی ہیں تو ایسی صورت میں ترغیب و ترہیب والی آیات قر آنیہ کے ذریعہ نصیحت کرنے کے ساتھ ساتھ مدعو کے سامنے ان دشواریوں اور رکاوٹوں کا مناسب حل بھی پیش کرنا چاہیئے ۔[الدعوۃ لابن باز ؒ ص:٦٤]
اور حکمت کے مراتب میں اچھے ڈھنگ سے مجادلہ کرنا بھی شامل ہے، جس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اچھی مثالوں ، اورعقلی و نقلی دلائل ، کے ذریعہ حق کو بالکل کو واضح کر دیا جائے ،اور سچے براہین اور فریق مخالف کے باطل دلائل کے ردکے ذریعہ حق تک پہونچنے کی پوری کوشش کی جائے ،جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے( وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ)اور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو'' [سورۃ العنکبوت:٢٩]
مذکورہ آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ داعی کو خالص دعوتی مقاصد سے ہٹ کر محض بحث و مناقشہ میں اپنی مہارت کے اظہار،اور جدل و مناظرہ میں غلبہ حاصل کرنے کی راہ اپنانے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیئے،بہر صورت ہر داعی کا مقصد اصلی صرف اور صرف یہ ہونا چاہیئے کہ مدعو حق کو سمجھ کر اسے قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جائے ۔
(٦) داعی ہمیشہ اپنے مخالف کی برائی کا بدلہ بھلائی سے دینے کی کوشش کرے۔
سب اعلی دعوتی وصف جس سے ہر داعی کو متصف ہونا چاہیئے وہ یہ ہے کہ داعی ہمیشہ اپنے مخالف کی برائی کا بدلہ بھلائی سے دینے کی کوشش کرے ، اور یہ وصف صرف وہی جماعت حاصل کرسکتی ہے جسے اللہ کی جانب سے بہت بڑا نصیبہ عطا کیا گیا ہو، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے( وَلَا تَسْتَوِیْ الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ٭ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیْمٍ )'' اور بھلائی اور بُرائی برابر نہیں ہوسکتی تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویاوہ تمہارا گرم جوش دوست ہے۔ اور یہ بات انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں اور انہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے نصیب والے ہیں''[سورۃ فصلت ٣٤۔٣٥]
(٧)داعی ہمشہ حق بات کہے اور اس راہ میں آنے والی تمام مصیبتوں پر صبرکرے۔
داعی پر واجب ہے کہ وہ تمام حالتوں میں ہمیشہ حق بات ہی کہے اور اس راہ میں آنے والی تمام تکالیف پر باعمل مومنین کے صبر کی طرح صبر کرے نہ کہ ریاکاروں اور منافقوں کے صبر کی طرح ۔امام بخاری نے عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ سے اس بات پر بیعت کی کہ ہم خوشی اور ناخوشی دونوں حالتوں میں آپ ؐ کی بات سنیں گے اور آپ ؐ کی اطاعت کریں گے ۔اور اس شرط پر بھی بیعت کی کہ جو شخص بھی سرداری کے لائق ہوگا(مثلاً قریش میں سے ہو اور شرع پر قائم ہو)اس کی سرداری قبول کریں گے اس سے جھگڑا نہیں کریں گے، اور یہ کہ ہم حق کو لے کر کھڑے ہوں گے یا حق بات کہیں گے جہاں کہیں بھی رہیں ،اور اللہ کے راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ [صحیح بخاری :٧١٩٩۔٧٢٠٠]
واللہ اعلم
وصلی اللہ وسلم وبارک علی نبینامحمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین