- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دعوت وتبلیغ کا کام ایک دینی فریضہ ہے ، اگرچہ اس کام کو کرنے والے لوگ تو بہت زیادہ ہیں لیکن عمومااس کام کے دوران حکمت اور فراست اور تدبر وغیرہ جیسے پہلووں کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ
یعنی آپ انہیں اپنے رب کی طرف دعوت دیں حکمت کے ساتھ۔
ہمارے مدرسہ کے ایک شیخ صاحب نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ انہیں منصورہ میں نماز باجماعت پڑھنے کا اتفاق ہواتو انہوں نے اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ساتھی سے اپنے پاوں ملانے چاہے لیکن اس نے پاوں سکیڑ لیے۔ انہوں نے پھر ملانے کی کوشش کی اور اس نے پھر سکیڑ لیے۔ انہوں نے جب تیسری بار کوشش کی تو اس نے اپنا پاوں ان کے پاوں پر زور سے دے مارا۔ انہوں نے جوابا اسے صرف جزاک اللہ خیراکہا۔ اگلے دن اتفاق نماز میں وہی شخص ان کے ساتھ اسی صف میں کھڑا تھا۔ اب اس شخص نے ان سے پاوں ملانے میں پہل کی اور انہوں نے سکیڑ لیےمباداکہ لاشعوری طور پر نہ ملا رہا ہو اور جب اسے احساس ہو تو دوبارہ کل والا طرز عمل نہ دہرا دے۔ اس شخص نے دوبار ان سے پاوں ملائے اور انہوں نے بھی اس سے پاوں ملا لیے گویاکہ وہ ان کے حسن سلوک کی وجہ سے اس سنت سے متاثر ہو گیا تھا۔اب اگر یہی شیخ صاحب اس کو لعن طعن کرتے کہ تو سنت کا تارک یا سنت کا مذاق اڑانے والا یا جوابا اس کے پاوں پر بھی اپنا پاوں دے مارتے تو شاید پھر وہ اس شخص میں تبدیلی والا نتیجہ بر آمد نہ ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت وتبلیغ اور سیرت سے بھی ہمیں ملتا ہے کہ آپ اپنے موقف میں پکے تھے لیکن لب ولہجہ، زبان، بات چیت اور ابلاغ کے وقت انتہائی شفیق، صابر، رحمدل اور حلیم الطبع ہوتے تھے۔پس دعوت و تبلیغ کا خلاصہ بھی یہی ہے اپنے موقف میں سخت رہو لیکن اس موقف کی تبلیغ اور نشر واشاعت میں ہمیشہ نرم رہو پھر آپ کی دعوت جس قدر پھیلے گی آپ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔
دعوت و تبلیغ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نبوی منہج کے مطابق ہو۔ پس جس طرح دعوت وتبلیغ کا نصاب نبوی ہونا چاہیے اس طرح اس کا منہج و طریقہ کار بھی نبوی ہونا چاہیے۔دعوت تو قرآن وسنت کی ہو لیکن اس کو پھیلانے والوں میں اگر نبوی اخلاق و اوصاف نہ ہو ں گے تو وہ دعوت کبھی معاشرے میں ایک لیول سے زیادہ اپنے جڑیں مضبوط نہیں کر سکے گی۔کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ کہا گیا ہے:
ولوکنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک
اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو صحابہ کی جماعت آپ کے گرد سے منتشر ہو چکی ہوتی۔
پس ہمیں لوگوں کے ساتھ ہمدردری ، خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہوئے اس دعوت کو عام کرنے کی ضرورت ہے جہاں داعی کے دل میں اپنے مخاطبین یا مدعوین کے لیے ہمدردی، خیر خواہی کی بجائے بغض اور نفرت کے جذبات پروان چڑھنے لگیں تو وہ دعوت ، دعوت نہیں رہتی بلکہ مجادلہ و مناظرہ بن جاتی ہے جو ایک الگ میدان ہے۔ اگرہم داعی ہیں اور دعوت کا کام کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اخلاق، رویوں، دوسروں کے بارے دلی جذبات اور طرزعمل پر خلوص دل سےغور کرنا ہو گا۔ واللہ اعلم بالصواب
دعوت وتبلیغ کا کام ایک دینی فریضہ ہے ، اگرچہ اس کام کو کرنے والے لوگ تو بہت زیادہ ہیں لیکن عمومااس کام کے دوران حکمت اور فراست اور تدبر وغیرہ جیسے پہلووں کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ
یعنی آپ انہیں اپنے رب کی طرف دعوت دیں حکمت کے ساتھ۔
ہمارے مدرسہ کے ایک شیخ صاحب نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ انہیں منصورہ میں نماز باجماعت پڑھنے کا اتفاق ہواتو انہوں نے اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ساتھی سے اپنے پاوں ملانے چاہے لیکن اس نے پاوں سکیڑ لیے۔ انہوں نے پھر ملانے کی کوشش کی اور اس نے پھر سکیڑ لیے۔ انہوں نے جب تیسری بار کوشش کی تو اس نے اپنا پاوں ان کے پاوں پر زور سے دے مارا۔ انہوں نے جوابا اسے صرف جزاک اللہ خیراکہا۔ اگلے دن اتفاق نماز میں وہی شخص ان کے ساتھ اسی صف میں کھڑا تھا۔ اب اس شخص نے ان سے پاوں ملانے میں پہل کی اور انہوں نے سکیڑ لیےمباداکہ لاشعوری طور پر نہ ملا رہا ہو اور جب اسے احساس ہو تو دوبارہ کل والا طرز عمل نہ دہرا دے۔ اس شخص نے دوبار ان سے پاوں ملائے اور انہوں نے بھی اس سے پاوں ملا لیے گویاکہ وہ ان کے حسن سلوک کی وجہ سے اس سنت سے متاثر ہو گیا تھا۔اب اگر یہی شیخ صاحب اس کو لعن طعن کرتے کہ تو سنت کا تارک یا سنت کا مذاق اڑانے والا یا جوابا اس کے پاوں پر بھی اپنا پاوں دے مارتے تو شاید پھر وہ اس شخص میں تبدیلی والا نتیجہ بر آمد نہ ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت وتبلیغ اور سیرت سے بھی ہمیں ملتا ہے کہ آپ اپنے موقف میں پکے تھے لیکن لب ولہجہ، زبان، بات چیت اور ابلاغ کے وقت انتہائی شفیق، صابر، رحمدل اور حلیم الطبع ہوتے تھے۔پس دعوت و تبلیغ کا خلاصہ بھی یہی ہے اپنے موقف میں سخت رہو لیکن اس موقف کی تبلیغ اور نشر واشاعت میں ہمیشہ نرم رہو پھر آپ کی دعوت جس قدر پھیلے گی آپ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔
دعوت و تبلیغ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نبوی منہج کے مطابق ہو۔ پس جس طرح دعوت وتبلیغ کا نصاب نبوی ہونا چاہیے اس طرح اس کا منہج و طریقہ کار بھی نبوی ہونا چاہیے۔دعوت تو قرآن وسنت کی ہو لیکن اس کو پھیلانے والوں میں اگر نبوی اخلاق و اوصاف نہ ہو ں گے تو وہ دعوت کبھی معاشرے میں ایک لیول سے زیادہ اپنے جڑیں مضبوط نہیں کر سکے گی۔کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ کہا گیا ہے:
ولوکنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک
اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو صحابہ کی جماعت آپ کے گرد سے منتشر ہو چکی ہوتی۔
پس ہمیں لوگوں کے ساتھ ہمدردری ، خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہوئے اس دعوت کو عام کرنے کی ضرورت ہے جہاں داعی کے دل میں اپنے مخاطبین یا مدعوین کے لیے ہمدردی، خیر خواہی کی بجائے بغض اور نفرت کے جذبات پروان چڑھنے لگیں تو وہ دعوت ، دعوت نہیں رہتی بلکہ مجادلہ و مناظرہ بن جاتی ہے جو ایک الگ میدان ہے۔ اگرہم داعی ہیں اور دعوت کا کام کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اخلاق، رویوں، دوسروں کے بارے دلی جذبات اور طرزعمل پر خلوص دل سےغور کرنا ہو گا۔ واللہ اعلم بالصواب