• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعوت وتبلیغ میں حکمت وفراست کی اہمیت

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دعوت وتبلیغ کا کام ایک دینی فریضہ ہے ، اگرچہ اس کام کو کرنے والے لوگ تو بہت زیادہ ہیں لیکن عمومااس کام کے دوران حکمت اور فراست اور تدبر وغیرہ جیسے پہلووں کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ
یعنی آپ انہیں اپنے رب کی طرف دعوت دیں حکمت کے ساتھ۔

ہمارے مدرسہ کے ایک شیخ صاحب نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ انہیں منصورہ میں نماز باجماعت پڑھنے کا اتفاق ہواتو انہوں نے اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ساتھی سے اپنے پاوں ملانے چاہے لیکن اس نے پاوں سکیڑ لیے۔ انہوں نے پھر ملانے کی کوشش کی اور اس نے پھر سکیڑ لیے۔ انہوں نے جب تیسری بار کوشش کی تو اس نے اپنا پاوں ان کے پاوں پر زور سے دے مارا۔ انہوں نے جوابا اسے صرف جزاک اللہ خیراکہا۔ اگلے دن اتفاق نماز میں وہی شخص ان کے ساتھ اسی صف میں کھڑا تھا۔ اب اس شخص نے ان سے پاوں ملانے میں پہل کی اور انہوں نے سکیڑ لیےمباداکہ لاشعوری طور پر نہ ملا رہا ہو اور جب اسے احساس ہو تو دوبارہ کل والا طرز عمل نہ دہرا دے۔ اس شخص نے دوبار ان سے پاوں ملائے اور انہوں نے بھی اس سے پاوں ملا لیے گویاکہ وہ ان کے حسن سلوک کی وجہ سے اس سنت سے متاثر ہو گیا تھا۔اب اگر یہی شیخ صاحب اس کو لعن طعن کرتے کہ تو سنت کا تارک یا سنت کا مذاق اڑانے والا یا جوابا اس کے پاوں پر بھی اپنا پاوں دے مارتے تو شاید پھر وہ اس شخص میں تبدیلی والا نتیجہ بر آمد نہ ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت وتبلیغ اور سیرت سے بھی ہمیں ملتا ہے کہ آپ اپنے موقف میں پکے تھے لیکن لب ولہجہ، زبان، بات چیت اور ابلاغ کے وقت انتہائی شفیق، صابر، رحمدل اور حلیم الطبع ہوتے تھے۔پس دعوت و تبلیغ کا خلاصہ بھی یہی ہے اپنے موقف میں سخت رہو لیکن اس موقف کی تبلیغ اور نشر واشاعت میں ہمیشہ نرم رہو پھر آپ کی دعوت جس قدر پھیلے گی آپ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔

دعوت و تبلیغ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نبوی منہج کے مطابق ہو۔ پس جس طرح دعوت وتبلیغ کا نصاب نبوی ہونا چاہیے اس طرح اس کا منہج و طریقہ کار بھی نبوی ہونا چاہیے۔دعوت تو قرآن وسنت کی ہو لیکن اس کو پھیلانے والوں میں اگر نبوی اخلاق و اوصاف نہ ہو ں گے تو وہ دعوت کبھی معاشرے میں ایک لیول سے زیادہ اپنے جڑیں مضبوط نہیں کر سکے گی۔کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ کہا گیا ہے:

ولوکنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک
اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو صحابہ کی جماعت آپ کے گرد سے منتشر ہو چکی ہوتی۔

پس ہمیں لوگوں کے ساتھ ہمدردری ، خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہوئے اس دعوت کو عام کرنے کی ضرورت ہے جہاں داعی کے دل میں اپنے مخاطبین یا مدعوین کے لیے ہمدردی، خیر خواہی کی بجائے بغض اور نفرت کے جذبات پروان چڑھنے لگیں تو وہ دعوت ، دعوت نہیں رہتی بلکہ مجادلہ و مناظرہ بن جاتی ہے جو ایک الگ میدان ہے۔ اگرہم داعی ہیں اور دعوت کا کام کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اخلاق، رویوں، دوسروں کے بارے دلی جذبات اور طرزعمل پر خلوص دل سےغور کرنا ہو گا۔ واللہ اعلم بالصواب
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ ابولحسن بھائی جان۔ آپ نے بہت ہی اہم بات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ خصوصیت سے یہ جملہ کہ ’اپنے مؤقف میں سخت رہو لیکن اس مؤقف کی تبلیغ میں ہمیشہ نرم رہو‘ مجھے بہت پسند آیا۔ اور میں نے آپ کی اجازت کے بغیر اس کو لال رنگ سے ہائی لائٹ کر دیا ہے۔ امید ہے اس تصرف پر آپ برا نہیں منائیں گے۔ ہمارے وہ بھائی جو باقاعدہ عالم دین نہیں، لیکن گہرے مطالعے کی بنیاد پر ماشاءاللہ دین کی خوب سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور دعوت کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں، ان میں سے اکثریت تبلیغ کے معاملے میں کچھ شدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ اللہ کرے کہ وہ یہ پوسٹ پڑھیں اور نصاب نبوی کے ساتھ ساتھ دعوت کے منہج کو بھی نبوی بنانے کا عزم کریں۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
جزاکم اللہ خیرا
اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے.آمین
 
Top