اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
سوال ۔3
اسلام وعلیکم - وعلیکم اسلام
حسین بھا ئی میرا نا م بہادر خان جی ہے اور میں Export manegerہو ں
میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپس میں دو صحیح احادث ٹکراتی ہیں اگر ٹکراتی ہیں تو ایسا کیو ں ہے ؟
جواب ۔
بہت اچھا سوال کیا آپ نے میرے دوست یاد رکھیں کبھی بھی کو ئی صحیح احا دیث دوسر ی صحیح احا دیث کے خلاف نہیں ہو تی ہاں اتنا ضرو ہو تا ہے کہ ایک حد یث عمو می چیز کو بیا ن کر تی ہے جسے آپ جنرل مفہو م کہے سکتے ہیں اور دوسر ی حدیث خا ص ہے وہ کسی خاص حا لت کو بیان کر تی ہے بظاہر تو ان میں تعارض نظر آئے گا لیکن اگر آپ کھلے ذہن سے غو ر وفکر فر ما ئیں گے تو یہ تعارض انشا ء اللہ دور ہو جا ئے گا دراصل بات یہ ہے کہ جو عام حدیث ہے وہ عام مسا ئل کو بیان کر تی ہے اور جو خاص ہے وہ اس خا ص articular categary کو regulateکر تی ہےلہٰذ ا خاص حدیث خاص حا لات کے لئے اور عام حدیث عمومی حالات کے لئے ہو گی ۔ اگر آپ قر آ ن کریم کا مطا لعہ فر ما ئیں تو وہ بھی بظا ہر ایسی مثا لیں مو جود ہیں قرآن کریم ارشاد فر ما تا ہے کہ :
'' فو ربک لنسئلنھم اجمعین ''(الحجر۔آیت 92)
تر جمہ ۔سو آپ کے رب کی قسم ہم ان سب سے ضرور (ان اعمال کی ) باز پر س کرینگے
لہٰذا معلوم ہو ا کہ قیامت کے دن سوال ہو گا ۔دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ:
'' فیو م اِذ لا یسئل عن ذنبہ اِنس ولا جان ''(الرحمٰن۔آیت39)
تر جمہ ۔ اس دن کسی انسان سے یا جن سے اس کا گناہ نہ پو چھا جائے گا ۔
معلو م ہوا کہ قیامت میں باز پر س نا ہو گی۔
اب اگر آپ compaire تجزیہ فر مائیں تو ایک آیت مبا رکہ سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ قیا مت کے دن سوال نہ ہو گا لیکن دوسر ی آیت سے یہ بات معلو م ہو تی ہے کہ سوال ضرور ہو گا ۔
بتا ئیے کس آیت کو آپ صحیح کہیں گے یا کس کو ضعیف ۔ نعو ذ با اللہ دونو ں آیتیں بالکل صحیح ہیں اور آپس میں کو ئی conflicttتضاد نہیں ہے
کیو نکہ ایک آیت عا م حکم کو جا ری فر ما تی ہے اور دوسر ی اسی حکم کو خاص کر تی ہے ۔ لہٰذا حا صل کلام یہ ہے کہ بظا ہر آپ کو تعا رض محسوس ضر و ر ہو گا لیکن تعا رض نہیں ہو تا ۔